ہم کیا کررہے ہیں؟

ہمارا عہد تعمیر و تخریب کا مظہر ہے۔ نئے ادارے، نئے مکانات، نئے ماڈل، نئے آستانے ابھر رہے ہیں اور پرانے اور مانوس ادارے ختم ہورہے ہیں۔ پرانے ملبے ہٹائے جارہے ہیں اور نئے شاہکار بنائے جارہے ہیں۔ یہ دَور، قدیم تہذیبی اداروں کے خاتمے کا دور ہے۔ کل انسان عقیدتوں کا مظہر تھا لیکن آج انسان ہر عقیدت اور ہر عقیدے سے آزاد ہے۔ آج کا عقیدہ، بے عقیدہ ہے۔ آج صرف ایک انسان کی پرستش کی جاتی ہے، یعنی اپنا آپ… ہم اپنی اَنا کے پجاری ہیں۔ ہم اپنی انہی خواہشات کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ ہم اپنے سوا کسی کو اہم نہیں سمجھتے۔ آج کے ماحول میں خودپسندی ہی پسندیدہ عمل ہے۔ انسان آئینہ دیکھتا رہتا ہے۔ وہ نہ آئینے میں اترتا ہے، نہ اس سے باہر نکلتا ہے۔ ہر شے میں ملاوٹ ہے۔ کھانے میں، پینے میں، سوچنے میں، عبادت میں، مذہب میں، مدرسے میں، خانقاہوں میں، سیاست میں، صحافت میں، دوا میں، دعا میں، وفا میں غرضیکہ ہر اَدا میں ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے۔ جو ہے، وہ نہیں ہے۔ ہم وہ نہیں، جو نظر آتے ہیں۔ ہمارا وجود، اصل وجود سے مختلف ہے۔ ہمارے افکار خالص نہیں، ہماری سوچ صحت مند نہیں، ہمارے چارہ گر… چارہ گر کا لفظ بے معنی ہے۔ ہمارے قائد آج بھی صرف قائداعظم ہی ہیں۔ اگر قائداعظم زندہ ہوجائیں تو قائدین کی کثیر تعداد مر جائے۔ ہمارے ہاں کوئی شے بھی تو ایسی نہیں، جو بھروسے کے قابل ہو… ہم محسن فراموش قوم ہیں۔ آج اقبالؒ زندہ ہوجائے تو قوم کے حالات دیکھ کر صدمے سے پھر مر جائے۔ یہ قوم عجب قوم ہے۔ اسے اپنے حال سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ ماضی کے بزرگوں کی یادیں مناتی ہے اور مستقبل کے لیے کوئی کام نہیں کرتی۔ یہ بے حسی کا شکار ہے۔ پائوں تلے سے زمین نکلا چاہتی ہے، سر پر آسمان گرا چاہتا ہے اور یہ بی بی رانی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ اسے جمہوریت کا انتظار ہے کہ ہر بلا کو جمہوریت سے ٹالا جائے گا۔ مدتیں گزر گئیں اور ابھی تک یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ اس ملک کا نظام حکومت کیا ہوگا!! نظام تعلیم کیا ہوگا… نظام معیشت کیا ہوگا، نظام عقیدہ کیا ہوگا۔ اسلام ہوگا تو کون سا ہوگا، فقہ کون سی ہوگی… زبان کیا ہوگی، قومی لباس کون لوگ کب پہنا کریں گے۔ صحافت کس نہج پر استوار ہوگی اور سیاست کا دائرہ کیا ہوگا۔ اس ملک میں مقبول ترین بیانات وہ ہیں جن میں ’’گا‘‘، ’’گے‘‘، ’’گی‘‘ ہو۔ ہر چیز ہوگی، سب کچھ ہوگا… سب انتظامات کرلیے جائیں گے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سب کی بگڑی بن جائے گی… سب بادل چھٹ جائیں گے۔ سب کچھ یہیں رہے گا… افسوس! ہم نہ ہوں گے۔
چارہ گروں کے لیے نوید ہے کہ مریض زیادہ دیر ان پر بوجھ نہیں ڈالے گا۔ چاروں صوبے، چاروں عناصر کی طرح ابھی ظہورِ ترتیب میں ہیں۔ منتشر ہونے کا اندیشہ، خاکم بدہن بعید از قیاس بھی نہیں۔ ابھی جمہوریت نے گل کھلانے ہیں، ابھی اور بھی شگوفے پھوٹیں گے۔ ہم سب کرنیں ہیں، جو اپنے سورج کو مسلسل چاٹ رہی ہیں۔ یہ سورج ابھی اللہ کے فضل سے قائم ہے، لیکن ہمارا عمل بداعمالی کے سوا کیا ہے! ہم نے غور کرنا چھوڑ دیا… ہم مستقل انتظار میں ہیں۔ کوئی آئے گا، جگائے گا، ہم سے کام لے گا… ہم عظیم قوم بن جائیں گے… لیکن ابھی نہیں شاید…!
ابھی اسلام کو نافذ ہونا ہے۔ مسلمانوں پر اسلام نافذ ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے۔ یا تو مسلمان وہ نہیں رہے، یا اسلام وہ نہیں جو دلوں پر پہلے دن سے نافذ ہوجاتا تھا۔ یااللہ! ہم کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے۔ میرے مولا!… ہمیں جگا… لیکن نہیں… خدا جگائے گا تو جھٹکے سے آنکھ کھلے گی۔ جس کو احساس نہ جگائے اسے کون جگا سکتا ہے! میرے مولا! ہماری بے حسی کو بے حیائی نہ بننے دے۔ میرے آقا! ہم نااہل ضرور ہیں، لیکن تیرے حبیبؐ کے نام لیوا ہیں۔ ہم پر رحم فرما… ہمیں ہمارے فرائض سے آشنا کر۔ ہمیں ایک قوم بنا۔ ہم پر نازل فرما… اپنے کرم، اپنی رحمتیں!
ہم احسان فراموش قوم ہیں۔ اپنے اسلاف کی محنتوں کو برباد کرنے والی قوم… ہم بحث کرنے والی قوم ہیں۔ ہمارے پاس بڑے اخبار ہیں اور وہ خبر کسی اخبار میں نہیں ہوتی، جس خبر کی ضرورت ہے… جو خبر اہم ترین ہے۔
ہم نے اپنے آپ کو دشمن کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا۔ اُس کے سامنے ہم سب ہم عقیدہ ہیں۔ دشمن یہ نہیں دیکھتا کہ شیعہ کون ہے، سنی کون۔ ہم بھول گئے اس عہد کو جو ہم نے اپنے آپ سے کیا تھا، قائداعظم سے کیا تھا، اقبال سے کیا تھا۔ مسلمانانِ ہند سے کیا تھا، مسلمانانِ عالم سے کیا تھا، خدا سے کیا تھا۔ ہم سب کچھ بھول گئے۔ ہم یادداشت کھو بیٹھے ہیں۔ ہماری تاریخ بدل گئی، جغرافیہ بدل گیا، ہماری شناخت بدل گئی، تشخص مسخ ہوگیا۔ ہم، ہم نہ رہے اور پھر طرفہ عذاب کہ ہم پر اثر بھی نہ ہوا۔
ہمارے مشائخ، خدا بھلا کرے اِن بزرگوں کا، اب ویسے نہیں، جیسے اِن کے آبا تھے۔ آستانے وہی ہیں مگر بات وہ نہیں۔ طریقت اپنے طریقے بدل گئی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سب جھوٹے ہیں۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ سب سچے نہیں، کیوں نہیں؟ جھوٹے کی نشاندہی کون کرے گا؟ جب قربِ سلطان مسلک بن جائے تو راہِ سلوک مسدود ہوجاتی ہے۔ جب اہلِ باطن، اہلِ ثروت کا تزکیہ نہ کریں تو اُن کا تقرب حرام ہے۔ جب فقرا اسلامی ملک میں بھی اِخفا سے کام لیں تو مصلحت اندیشی ہے، اور مصلحت اندیش، درویش نہیں ہوسکتا۔
(” قطرہ قطرہ قلزم“۔واصف علی واصف)

بیادِ مجلس اقبال

صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی

علامہ اپنے کلام کی حکمتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میرے اشعار میری فکر کی روشنیوں سے مالامال ہوکر بجلی کی طرح انسانی دل و دماغ کو روشنیاں مہیا کررہے ہیں تاکہ میری ملت کے افراد غلامی کی تاریکیوں میں بھٹکتے نہ پھریں، ٹھوکریں نہ کھاتے رہیں، بلکہ میری سوچ کی روشنیاں قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتی رہیں۔