عالمی بینک سے قرض لینے کے لیے سرکاری سطح پر گندم کی کم خریداری آئندہ چھے ماہ میں غذائی بحران کا خطرہ
تحریک انصاف کی حکومت پر گرفت کیوں نہیں ہے؟ کیا گندم درآمدی اشیا میں شامل ہے؟ گندم کی قیمت اچانک کیوں بڑھ گئی ہے؟ آج یہ سوال ہر چوپال اور ہر سیاسی، سماجی محفل میں پوچھا جارہا ہے۔ اس سوال کا جواب ملنے تک ملک میں آٹے کے بعد چینی کا بحران بھی کھڑا ہوچکا ہے۔ گیس اور بجلی کے نرخ بڑھانے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ گویا ایک سے بڑھ کر ایک بحران سامنے ہے جو کسی صورت ٹلنے والا نہیں ہے۔
آٹے کے بحران پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت نے تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔ بحران پیدا ہوجانے کے بعد گندم ہنگامی بنیادوں پر منگوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے 29 روپے فی کلو کے حساب سے جو گندم برآمد کی، وہ ملک میں 70 روپے کلو کے حساب سے ملے گی۔ یوں عوام کو ایک بار پھر نچوڑا جائے گا۔ اگلے ماہ گندم آجائے گی۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو یہ گندم باہر کیوں بیچی گئی؟ وفاق کا مؤقف ہے کہ اس کے پاس 40 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے، تو پھر درآمد کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ وفاقی حکومت کا باہر سے گندم منگوانے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر یہ فیصلہ درست ہے تو کیا وفاقی حکومت نے جو کہا وہ غلط تھا؟ وفاقی حکومت بتائے کہ اس کا کون سا فیصلہ صحیح تھا اور کون سا غلط؟ اگر تین لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوانی تھی تو 40 ہزار ٹن گندم افغانستان کیوں بھیجی؟ گندم سستے داموں باہر بھیج کر کس کا نقصان ہوا اور کسے فائدہ پہنچایا گیا؟ گندم کا یہ بحران نہیں، عمرانی سلطنت کی نااہلی کی داستانِ امیر حمزہ ہے۔ 2018ء کے آخر میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے گندم برآمد کرنے کی اجازت حاصل کی گئی اور گندم بیرونِ ملک فروخت کرکے پیسے کمائے گئے۔ گزشتہ برس حکومتِ پاکستان سے یہ فیصلہ کروایا گیا کہ اضافی گندم خیرسگالی کے طور پر افغانستان کو بطور تحفہ دے دی جائے۔ جب گندم خریدنے کا موقع آیا تو پاسکو اور صوبائی محکموں سے گٹھ جوڑ کرکے گندم کی خریداری کا ہدف مقرر نہیں ہونے دیا گیا۔ جب کسان مجبور ہوا تو ان مافیاز نے سستے داموں گندم خرید کر اسٹاک کرلی اور گندم کی فراہمی روک دی۔ اور اب جب مصنوعی بحران کے نتیجے میں آٹے کی قیمت 40 روپے فی کلو سے 70روپے فی کلو ہوچکی ہے تو نہ صرف سستا اناج مہنگے داموں فروخت کرکے پیسے کھرے کیے جا رہے ہیں، بلکہ ایک بار پھر اقتصادی رابطہ کمیٹی سے ٹیکس فری گندم درآمد کرنے کی اجازت لے لی گئی ہے۔ حکومت کا ہر عہدیدار یہ بات تسلیم کررہا ہے کہ آٹے کے معاملے میں حکومت سے کوتاہیاں ہوئی ہیں، لیکن نیب اور حکومتی تفتیشی ادارے خاموش ہیں۔ حکومت کے علم میں تھا کہ گندم کی قلت کا بحران پیدا ہونے والا ہے مگر وہ چور چور کے نعرے کے لحاف سے اپنا منہ باہر نکالنے کو تیار ہی نہیں۔ اس بحران کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے حکومت کی مشینری حرکت میں آنے کے بجائے بالکل جامد ہے۔
حکومت اب بجلی اور گیس کے نرخ ایک بار پھر بڑھا رہی ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن نے یکم فروری سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے لیے سمری اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیج دی ہے جس میں گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 5 فیصد اضافے اور گھریلو صارفین کے لیے گیس میٹر کرائے میں ماہانہ 60 روپے اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اسی طرح نیا گیس میٹر کرایہ 80 روپے ماہانہ مقررکرنے کی تجویز ہے۔ بجلی کارخانوں کے لیے گیس کی قیمت 12 فیصد اور برآمدی صنعتوں کے لیے گیس کی قیمت 6.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس طرح کھاد کے کارخانوں کے لیے گیس کی قیمت ایل این جی کی قیمت کے برابر کردی جائے گی۔ حکومت یہی تک نہیں رکی، وہ چند ماہ میں سی این جی کے لیے گیس قیمت میں 15 فیصد اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ آٹے کے بحران کے باعث نان بائی روٹی کی قیمت 10 سے بڑھاکر 15 روپے کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، لیکن قیمت نہ بڑھنے سے خاموشی سے روٹی کا وزن کم کرچکے ہیں۔ بات یہیں نہیں رک جائے گی بلکہ خطرہ ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا ۔ یہ بحران تب تک چلے گا جب تک نئی فصل تیار نہیں ہوتی، اور نئے پاکستان کی تعمیر پر سرمایہ کاری کرنے والے اپنی رقوم بھاری سود کے ساتھ وصول نہیں کرلیتے۔ یہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ ہر سال تقریباً 1.5ملین ٹن گندم وفاقی ادارہ پاسکوخریدتا ہے، جبکہ 3سے 4ملین ٹن گندم پنجاب کا محکمہ خوراک خریدتا ہے تاکہ مصنوعی ذخیرہ اندوزی یا اسمگلنگ کے ذریعے ملک میں غذائی بحران کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے۔ گزشتہ برس پنجاب حکومت نے 40لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا جسے 90 فیصد حاصل کرلیا گیا تھا۔ اس سال تبدیلی سرکار نے گندم خریداری پالیسی کا اعلان کیا تو خریداری کا ہدف مقرر نہیں کیا گیا۔ محکمہ خوراک کے ترجمان بتاتے ہیں کہ اس سال 33 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی گئی ہے، جبکہ دیگر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گندم خریداری اس سے کہیں کم ہے، لیکن اصل خبر یہ ہے کہ عالمی بینک سے قرض لینے کے لیے یہ حکمت عملی بنائی گئی ہے کہ 2021ء تک سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا سلسلہ ترک کردیا جائے گا۔ گندم کی سرکاری سطح پر کم خریداری کے پیش نظر ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ آئندہ چھے ماہ کے دوران نہ صرف غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ آٹے کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید پر شاعرانہ انداز میں تنقید کی ہے۔ سینیٹ اجلاس سے خطاب میں سینیٹر سراج الحق نے شیخ رشید پر تنقید کے لیے شاعر ساحر لدھیانوی کے شہرۂ آفاق شعر ’ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق، میں ترمیم کی
ایک وزیر نے وزارت کا سہارا لے کر
عوام کی غربت کا اڑایا ہے مذاق
انہوں نے سینیٹ میں کہا کہ ایک وزیر کہتے ہیں نومبر دسمبر میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں۔ کیا نومبر، دسمبر پہلی بار آیا ہے؟ یہ دونوں ماہ تو ہرسال آتے ہیں، پہلے تو کبھی آٹے کا بحران نہیں ہوا۔ دیر بالا میں آٹے کی قطار میں کھڑا ایک بوڑھا شخص آٹا تو گھر نہ لے جاسکا لیکن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا۔ لنگر خانے مسائل کا حل نہیں، چاہتے ہیں کہ حکومت کارخانے لگائے۔
سینیٹ میں آٹے کے بحران پر راجا ظفرالحق نے تحریک التوا پیش کی۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف سینیٹر راجا ظفرالحق نے کہا کہ ہر شخص آٹے کے بحران سے متاثر ہورہا ہے۔ سینیٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ خدا جانے کن وجوہات پر ایک صاحب کو گندم ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی، اب اسی شخص کو دوبارہ گندم امپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جاننا چاہتے ہیں کہ ایک شخص اور طبقے کو منافع دینے کے لیے ایسا کیوں کیا گیا؟ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ اب کھانا لنگر میں، رہائش پناہ گاہ میں، سکون قبر میں ملے گا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ وزیراعظم آٹے کے بحران کے دوران کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ آٹا اب ساشے پیک میں بھی ملے گا۔ سینیٹر پرویز رشید نے وزیراعظم عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آٹے اور چینی کے بحران سے اُس نے منافع کمایا جس کے جہاز میں آپ سفر کرتے ہیں، جو ان کے گھر کا کچن چلاتا ہے۔ پرویز رشید نے اپنے خطاب میں استفسار کیا کہ آٹے کا بحران واحد نہیں، چینی کی قیمت کیوں بڑھی؟ انہوں نے کہا کہ آٹا، چینی کی قیمت بڑھ گئی، ملک میں گیس میسر نہیں، جبکہ بجلی کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے، ڈالر کا ریٹ بھی راتوں رات بڑھ گیا، یہ سب کس کی جیب میں گیا؟
دیکھنا ہے کہ سینیٹ میں اس معاملے پر بحث کا حکومت کتنا اثر لیتی ہے۔ ملک میں کئی بار اس نوعیت کے بحران آئے، مگر آخری بار یہ کیفیت جنرل پرویزمشرف کے دور میں سامنے آئی جب پہلے گندم اور پھر چینی کا بحران پیدا ہوا۔ گندم کے بعد چینی کا بحران بھی انگڑائی لے رہا ہے، چینی جو گزشتہ برس کے آغاز میں 54روپے کلو تھی، اس کے نرخ 85 روپے کلو تک لے جاکر پہلے ہی شوگر مافیا اپنے پیسے پورے کرچکا ہے مگر موقع غنیمت جان کر ایک بار پھر کمائی کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کرشنگ سیزن جاری ہونے کے باوجود 100کلو چینی کی بوری 500روپے مہنگی کردی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ایک بوری کی قیمت 6860 سے بڑھاکر 7340 روپے کردی گئی۔ فی کلو چینی ہول سیل میں 75 روپے جبکہ پرچون میں 80 روپے کلو تک فروخت ہونے لگی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 50روپے فی کلو سے بھی کم ہے اور اس نرخ پر عالمی منڈیوں سے خریدی گئی چینی پاکستانی مارکیٹ میں 100کلو بوری 5800 روپے کی پڑے گی۔ چینی کی قیمت میں اچانک اضافے پر انتظامیہ خاموش اور ذخیرہ اندوز متحرک ہیں اور انہوں نے چینی کو اسٹاک کرنے کے لیے اربوں روپے لگا دیئے ہیں۔ پنجاب میں10 ملین میٹرک ٹن کرشنگ ہوچکی ہے اور 10 لاکھ 51 ہزار ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں۔ مصنوعی گھن چکر کو نہ روکا گیا تو قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں گندم اور چینی کا بحران آیا تو اس وقت بھی وہی لوگ حکومت میں تھے جو آج کابینہ میں ہیں! آج لوگ آٹے کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور آٹا 70روپے فی کلو تک تجاوز کر گیا ہے۔ وزارتِ نیشنل فوڈ سیکورٹی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ یہ حالات گندم کی اسمگلنگ کے باعث پیدا ہوئے ہیں، صرف چمن بارڈر سے ماہانہ چالیس ہزار ٹن گندم اسمگل ہونے کا مطلب نہ صرف فوڈ سیکورٹی بلکہ قومی معیشت کو بھی اربوں روپے کا نقصان پہنچانا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے جنہیں بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہں رہا جہاں ابہام پیدا کیا جارہا ہے اور روزانہ آٹے کی قیمتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔