پاکستان کے نوجوان اور تعلیم و تربیت کا بحران

ریاست، والدین اور اساتذہ کیا کررہے ہیں؟۔

پو ر ی انسانی تاریخ میں نوجوانوں کا کردار بنیادی رہا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی مرحلے میں ایمان لانے والوں کی عظیم اکثریت نوجوانوں اور غریبوں پر مشتمل تھی۔ نوجوانوں اور غریبوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ نوجوانوں اور غریبوں کی سماجی، معاشی، قبائلی یا طبقاتی اَنا یا تو ہوتی ہی نہیں، یا ہوتی ہے تو اتنی کمزور کہ وہ حقیقت اور انسان کے درمیان پردہ نہیں بنتی۔ یہی وجہ تھی کہ مکی زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا شعور نوجوانوں کو ہوا یا غریبوں کو۔ دنیا میں جتنے انقلابات آئے ہیں ان میں نوجوانوں کا کردار اساسی رہا ہے۔
ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ عمرانیات کا اس بات پر کم و بیش اتفاق ہے کہ انسان کی شخصیت کو جیسا بننا ہوتا ہے، 10 سال کی عمر تک بن جاتی ہے۔ یعنی انسان دس سال کی عمر میں جیسا ہوتا ہے عموماً 20 سال کی عمر میں بھی ویسا ہی ہوتا ہے، اور انسان جیسا 20 سال کی عمر میں ہوتا ہے 60 یا 80 سال کی عمر میں بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں فرق یہ ہے کہ بعض لوگوں کا بچپن 10 سال کی عمر میں ختم ہوجاتا ہے جب کہ بعض لوگوں کا بچپن 20 سال تک باقی رہتا ہے۔ خیر ’’پختگی‘‘ کا معاملہ عجیب ہے۔ بہت سے لوگ 40 اور 50 کیا، 60 سال میں بھی بچے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن بہرحال انسان کی زندگی میں جوانی کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔
ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرہ نوجوانوں کا معاشرہ ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی کا 64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ قوم کی 29 فیصد آبادی کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے۔ (دی نیوز۔ 3 مئی2018ء)
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان دنیا کے خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ پورا یورپ ’’بوڑھوں کا یورپ‘‘ بن چکا ہے۔ امریکہ اور جاپان بھی تیزی کے ساتھ ’’بوڑھوں کی ریاست‘‘ بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ، امریکہ اور جاپان کو افرادی قوت درآمد کرنی پڑرہی ہے۔ یہ ملک ایسا نہ کریں تو ان کی معیشتیں تباہ ہوجائیں۔ چنانچہ پاکستان کے جوان ہونے پر جتنا خوش ہوا جائے، کم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہم اپنے نوجوانوں سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا کام نہیں لے رہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کی 64 فیصد آبادی تعلیم و تربیت کے بدترین بحران میں مبتلا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلم معاشروں نے اپنے بہترین زمانوںمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کو مذہبی اقدار پر پالا۔ اخلاقی اقدار پر پالا۔ تہذیبی اقدار پر پالا۔ تاریخی اقدار پر پالا۔ علم کی اقدار پر پالا۔ محبت کی اقدار پر پالا۔ چنانچہ اسلامی معاشروں نے تاریخ ساز لوگ پیدا کیے۔ تہذیب ساز لوگ پیدا کیے۔ انسان ساز لوگ پیدا کیے۔ ہم نے بحیثیت ایک امت کے ’’روحانی کمالات‘‘ بھی دکھائے۔ ’’اخلاقی کمالات‘‘ بھی دکھائے۔ ’’علمی کمالات‘‘ بھی دکھائے۔ ہم نے علوم میں بھی دنیا کی قیادت کی۔ ہم نے فنون میں بھی دنیا کی رہنمائی کی۔ ہم فاتح عالم بھی کہلائے۔ لیکن اِس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ’’طاقت کی اقدار‘‘ پر اپنے بچوں اور نوجوانوں کو پال رہے ہیں۔ ہم ’’سرمائے کی اقدار‘‘ پر اپنی نئی نسل کی پرورش کررہے ہیں۔ ہم ’’ابلاغی اقدار‘‘ پر اپنی نئی نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ طاقت کی اقدار مغرب کی اقدار ہیں۔ سرمائے کی اقدار مغرب کی اقدار ہیں۔ ابلاغی اقدار مغرب کی اقدار ہیں۔ اس سلسلے میں مذہبی طبقات اور سیکولر اور لبرل طبقات میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارا معاشرہ دو نیم شخصیت کا حامل ہے۔ یہ ایک Split Personality Case ہے۔ ہمارا ’’ظاہر‘‘ اسلامی ہے۔ ہمارا باطن مغربی ہے۔ آپ غور فرمائیے معاشرے میں کوئی روحانیت، اخلاقی، کردار اور محبت کی زبان نہیں سمجھتا۔ آپ اخلاق و کردار اور محبت کی زبان میں کلام کریں تو پورا معاشرہ ’’بہرہ‘‘ بن جاتا ہے۔ البتہ طاقت کی زبان ہر کوئی سمجھتا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی، سیاسی جماعتیں اور اُن کی قیادتیں بھی، ذرائع ابلاغ بھی، عام آدمی بھی۔ امریکہ جب اسٹیبلشمنٹ سے کہتا ہے کہ جہاد کرو تو اسٹیبلشمنٹ ’’جہادی‘‘ بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ امریکہ جب کہتا ہے کہ جہاد بند کرو تو اسٹیبلشمنٹ جہاد سے ہاتھ اٹھا لیتی ہے۔ میاں نوازشریف، آصف زرداری اور عمران خان کتنے طاقتور ہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ کے آگے تینوں جھک جاتے ہیں۔ نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما بڑے طرم خان ہیں، مگر میاں نوازشریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کے آگے بھیگی بلّی بن جاتے ہیں، ان سے اصولی اختلاف تک نہیں کرتے۔ ذرائع ابلاغ خود کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھتے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور سرمایہ داروں کے آگے لیٹ جاتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا:۔

بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’بوٹ‘‘ اکبر الٰہ آبادی کے زمانے میں بھی ’’مقبولِ خواص و عوام‘‘ تھا، اور ہمارے زمانے میں بھی مقبول ہے، یہاں تک کہ فیصل واوڈا نے اسے ٹیلی وژن کے ایک ٹاک شو میں میز پر رکھ دیا۔ اس پر بہت سے لوگ ناراض ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرکے فیصل واوڈا نے اداروں، معاشرے اور سیاسی جماعتوں کی توہین کی ہے۔ لیکن فیصل واوڈا نے کچھ بھی نہیں کیا، انہوں نے صرف یہ کیا کہ جو چیز ہمارے لاشعور میں تھی اُسے ’’شعور‘‘ میں لے آئے۔ بوٹ جتنا طاقت ور پاکستان میں ہے اتنا طاقت ور ہندوستان میں ہوتا تو مندروں میں اس کی پوجا ہورہی ہوتی۔ ہم اپنی نئی نسل کو طاقت کی اسی زبان پر پال رہے ہیں۔
علی بابا چالیس چور کی کہانی میں جو حیثیت ’کھل جا سم سم‘ کی تھی، ہمارے معاشرے میں وہی حیثیت دولت کی ہے۔ دولت سے وہ دروازے بھی کھل جاتے ہیں جو طاقت سے نہیں کھلتے۔ ہمارے معاشرے میں دولت عزت ہے، وقار ہے، علم ہے، ذہانت ہے، قیادت ہے، عدالت ہے، صداقت ہے۔ ہماری خوشیاں دولت مرکز ہیں، ہمارے غم دولت مرکز ہیں۔ ہم جیتے ہیں تو دولت کے لیے، مرتے ہیں تو دولت کے لیے۔ طالبِ علم محنت سے پڑھتے ہیں تاکہ وہ دولت کمانے کے قابل ہوسکیں۔ نوجوان ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں دولت کے لیے، انجینئر بننا چاہتے ہیں دولت کے لیے، سی اے اور ایم بی اے کرنا چاہتے ہیں تو دولت کے لیے۔ ہمارے یہاں شادی بیاہ کا مرکزی حوالہ دولت ہے، سیاست کا تشخص دولت ہے۔ سپریم کورٹ نے ملک ریاض پر 460 ارب روپے کا جرمانہ کیا تو ڈان اور جسارت کے سوا کسی اخبار کو یہ خبر شائع کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ ملک ریاض ذرائع ابلاغ پر اربوں روپے صرف کرنے کے لیے بدنام ہیں۔ ہم اپنے نوجوانوں کو اسی دولت کی اقدار پر پال رہے ہیں۔
انسانی زندگی میں کرداری نمونوں کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ ان کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ علم زندگی پر حکمرانی کرتا ہے، مگر کرداری نمونے کی اہمیت علم سے بھی زیادہ ہے۔ قرآن کتنی عظیم الشان کتاب ہے، لیکن اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا نمونہ نہ ہوتا تو دنیا کہتی: قرآن بہت اچھی کتاب ہے، مگر اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ قرآن بن کر قرآن مجید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید کتاب بنادیا۔ ایک وقت تھا کہ ہمارا کرداری نمونہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیار کردہ صحابہ کرامؓ تھے، مفکرین اور علما تھے، فاتحین تھے، شاعر اور ادیب تھے، اساتذہ تھے، والدین تھے۔ لیکن اب ان میں سے کوئی کرداری نمونہ ہمارے نوجوانوں کی زندگی کا حصہ نہیں۔
بلاشبہ پوری امت کی طرح ہمارے نوجوانوں کی عظیم اکثریت کو بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ غیرمعمولی عقیدت ہے۔ عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے لیے آج بھی جان نثار کرسکتے ہیں۔ مگر ایک چیز عقیدت سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ یہ چیز ہے محبت۔ عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہے تو محبت کا تقاضا ’’اتباع‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے لیے جان تو دے سکتے ہیں مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی ’’اتباع‘‘ کے لیے تیار نہیں۔ یہ کام بڑے بڑے علما اور دانش ور نہیں کررہے تو نوجوان کیا کریں گے! جس طرح ہم نے قرآن کو صرف برکت اور تقدس کا مرکز بناکر رکھ چھوڑا ہے، اسی طرح ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ سے بھی صرف عقیدت کا اظہار کرکے رہ جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ عقیدت بھی بڑی چیز ہے، مگر زندگی عقیدت کے اظہار سے نہیںبدلتی۔ زندگی کرداری نمونے کی اتباع، اس کی پیروی سے بدلتی ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کو کوئی شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ کی اتباع کرتا نظر نہیں آرہا اس لیے نوجوانوں کو بڑی تعداد بھی صرف سیرتِ طیبہؐ اور سیرتِ صحابہؓ کے ’’ذکر‘‘ تک محدود ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے ہمارے دل میں ایک چور آکر بیٹھ گیا ہے۔ اس چور کا اعتراف کوئی نہیں کرتا مگر یہ چور ہمارے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ یہ چور ہمیں باور کراتا ہے کہ عصرِ حاضر میں سیرتِ طیبہؐ اور سیرتِ صحابہؓ کی اتباع ممکن نہیں۔ یہ ایک جھوٹا خیال ہے۔ ہم نے 20 ویں اور 21 ویں صدی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی جہادی روایت کو زندہ، مؤثر اور نتیجہ خیز ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی جہادی روایت پوری طرح زندہ ہوسکتی ہے تو ہم عقیدے، عبادات، اخلاق و کردار، تعلقات اور معاملات کے سلسلے میں سیرتِ طیبہؐ اور سیرتِ صحابہؓ کی اتباع کیوں نہیں کرسکتے؟
مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ بڑے علما اور صوفیہ نے کروڑوں مسلمانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں کو متاثر کیا، ان کی زندگیاں بدلیں، انہیں علم و عمل کا عاشق بنایا۔ امام غزالیؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام حنبلؒ، مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہؒ اور مولانا مودودیؒ نے کروڑوں مسلم نوجوانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔ مولانا رومؒ، حافظ، سعدی، میر، غالب، اقبال ہماری تہذیبی زندگی کو Define کرنے والی شخصیات رہی ہیں اور نوجوانوں کو inspire کرتی رہی ہیں۔ مگر اب علما ہوں یا دانش ور، شاعر ہوں یا ادیب، ان میں نوجوانوں کے لیے ’’کرداری نمونہ‘‘ بننے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مولانا روم نے فرمایا ہے:۔

علم و حکمت زاید از نانِ حلال
عشق و رقت آید از نانِ حلال

سوال یہ ہے کہ ہمارے درمیان ایسے کتنے علماء، دانش ور، اہلِ تصوف، شاعر اور ادیب ہیں جن پر رومی کے ان دو مصرعوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا اطلاق ہوسکتا ہے؟ بدقسمتی سے اب بعض علما، صوفی، دانش ور، شاعر و ادیب ’’مرعوب‘‘ تو کرتے ہیں، ’’متاثر‘‘ نہیں کرتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کی باتیں ذہنوں پر تو اثرانداز ہوتی ہیں، قلوب پر اثرانداز نہیں ہوتیں۔
مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب میں ’’استاد‘‘ ایک بہت ہی بڑا ’’کرداری نمونہ‘‘ رہا ہے۔ ماضیِ بعید ہی میں نہیں ماضیِ قریب میں بھی ہمارے یہاں ایسے استاد موجود تھے جو اپنے طلبہ کی روحانی، علمی، ذہنی اور جذباتی زندگی کا محور ہوتے تھے۔ اقبال کو جب ’سر‘ کا خطاب دیا گیا تو انہوں نے یہ شرط رکھی کہ پہلے ان کے استاد میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیا جائے۔ پوچھا گیا کہ آپ کے استاد کی کوئی تصنیف بھی ہے؟ اقبال نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی تصنیف میں خود ہوں۔ محمد حسن عسکری اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد ہیں، مگر وہ جب تک زندہ رہے اپنے اساتذہ دیب صاحب بالخصوص فراق گورکھ پوری کا ذکر کرتے رہے۔ انہی فراق گورکھ پوری کا، جو خود عسکری صاحب کے تبحر علمی سے متاثر تھے۔ انہوں نے ایک بار عسکری سے خود کہا کہ تم نے جرات پرجیسا مضمون لکھا ہے میری خواہش ہے کہ میرے مرنے سے پہلے مجھ پر ایک ویسا ہی مضمون لکھ دو۔ عسکری صاحب نے فراق پر ویسا ہی مضمون تو نہیں لکھا مگر انہوں نے فراق کی ایسی تعریف کی ہے کہ ایک ’’شاگرد‘‘ ہی اپنے ’’استاد‘‘ کی ویسی تعریف کرسکتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اردو شاعری میں میر کا ایک ہی Container ہے اور وہ ہے فراق۔ سلیم احمد عسکری صاحب کے شاگرد تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے جو کچھ سیکھا عسکری صاحب سے سیکھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میری شخصیت پر عسکری کا ایسا اثر ہے کہ میرے والد کا بھی ویسا اثر نہیں ہے۔ خود سلیم احمد نے ایک استاد کی حیثیت سے سراج منیر اور احمد جاوید کو متاثرکیا۔ سلیم احمد کے بغیر سراج منیر، سراج منیر اور احمد جاوید، احمد جاوید نہیں ہوسکتے تھے۔ مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ صورتِ حال پیدا ہوچکی تھی کہ ہم نے اسکول میں ’’استاد‘‘ کو ڈھونڈا، نہیں ملا۔ ہم نے کالج میں ’’استاد‘‘ کو تلاش کیا، نہیں ملا۔ ہم نے یونیورسٹی میں استاد کی تمنا کی، مگر یونیورسٹی میں بھی ’’استاد‘‘ موجود نہ تھا۔ بعض لوگ ہماری اس بات کو ’’تنقید‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ تنقید نہیں، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے ایک بہت بڑے کرداری نمونے کی ’’گمشدگی‘‘ کا ماتم ہے۔ بقول شاعر:۔

یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

ہم نے 1991ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا تھا۔ اُس وقت استاد ’’کمیاب‘‘ تھا، مگر 2020ء تک آتے آتے وہ ’’نایاب‘‘ ہوگیا ہے۔ بقول شاعر:۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسکولوں، کالجوں، جامعات اور مدرسوں میں اساتذہ موجود نہیں۔ موجود ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے اساتذہ سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر یہ ’’پیشہ ور استاد‘‘ ہیں۔ معاف کیجیے گا یہ بات بھی پوری طرح درست نہیں۔ ’’پیشہ ور اساتذہ‘‘ بھی بہت کم پائے جاتے ہیں۔ پیشہ ور استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے مضمون کا ’’ماہر‘‘ ہوتا ہے۔ استاد وہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر آپ اُس جیسا بننے کی تمنا کریں، اور ایک حد تک سہی، بن بھی جائیں۔
اسلامی تہذیب میں والدین کا مقام اور مرتبہ اتنا بلند اور اتنا مرکزی ہے کہ اس کا تصور بھی کہیں موجود نظر نہیں آتا۔ امام غزالیؒ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں والدین کی اہمیت کے حوالے سے چند احادیث اور دو روایات پیش کی ہیں۔ احادیثِ مبارکہ یہ ہیں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا نماز، روزے، حج، عمرے اور جہاد سے افضل ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جس نے ماں باپ کی رضا جوئی کے حوالے سے صبح و شام کی تو اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اگرچہ ماں باپ ظلم کریں (یہ جملہ آپؐ نے تین بار فرمایا)۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے محسوس ہوجاتی ہے، لیکن والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی کرنے والے اس خوشبو سے محروم رہتے ہیں۔
غزالی نے جو دو روایات پیش کی ہیں وہ یہ ہیں:۔
روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا کہ اے موسیٰؑ جو شخص والدین کی اطاعت کرتا ہے اور میری نافرمانی کرتا ہے میں اسے مطیع لکھتا ہوں۔ اور جو شخص والدین کی نافرمانی کرتا ہے اور میری اطاعت کرتا ہے میں اسے نافرمان لکھتا ہوں۔ یہ بھی روایت ہے کہ جب حضرت یعقوبؑ اپنے فرزند حضرت یوسفؑ کے پاس تشریف لائے تو حضرت یوسفؑ باپ کے احترام میں کھڑے نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ اے یوسف کیا تم اپنے باپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کو ناپسند کرتے ہو؟ اگر ایسا ہے تو اپنی عزت وجلال کی قسم میں تمہاری اولاد میں کوئی نبی پیدا نہیں کروں گا۔
(احیاء العلوم۔ از امام غزالی۔ جلد دوم، صفحہ 348۔349)
اسلامی معاشروں میں والدین جب تک اپنی اولاد کو مذہبی اقدار، اخلاقی اقدار، تہذیبی اقدار، تاریخی اقدار اور ملّی اقدار پر پالتے رہے، والدین کا مذکورہ بالا تصور بھی اسلامی معاشروں میں رائج رہا۔ مگر اب آج ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں اُس میں والدین کی اکثریت اپنی اولاد کو طاقت اور دولت کی اقدار پر پال رہی ہے۔ چنانچہ معاشرے سے والدین کی اہمیت کا شعور بھی فنا ہوگیا ہے، اور خود والدین بھی ’’معیاری کرداری نمونہ‘‘ نہیں رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی عظیم اکثریت کے لیے والدین ’’روحانی استعارے‘‘ کی حیثیت سے نہیں، صرف ’’معاشی سہارے‘‘ کی وجہ سے اہم ہیں۔ ہم ایسے درجنوں والدین کو خود جانتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کھلا دیا، اچھا پلا دیا، اچھا پہنا دیا اور ’’مہنگی تعلیم‘‘ دلا دی تو انہوں نے اپنا کردار ادا کردیا۔ ہم آئے دن اخبارات میں ایسے واقعات پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ اولاد نے ماں باپ یا اُن میں سے کسی ایک کی توہین کی یا انہیں مارا پیٹا۔ سیکولر گھرانوں ہی میں نہیں، دینی گھرانوں میں بھی اب والدین کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کہاں اٹھتی بیٹھتی ہے، ان کی ذہنی و جذباتی دلچسپیاں کیا ہیں، وہ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر کس طرح کے مواد سے ’’استفادہ‘‘ کررہے ہیں۔ ابتدا میں یہ مسئلہ صرف معاشی اعتبار سے بالائی طبقات ہی میں موجود تھا، مگر اب متوسط طبقات میں بھی یہ مسائل عام ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے مغربی معاشروں میں ٹیلی وژن کو Electronic Parent کہا جاتا تھا، مگر اب موبائل فون نے ٹیلی وژن کو میلوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں بچے اور نوجوان ایسے ہیں جن کے لیے اب موبائل فون ماں باپ بھی ہے، استاد بھی اور معاشرہ بھی۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں کن لوگوں کو ’’کرداری نمونوں ‘‘کی حیثیت حاصل ہے؟۔
اس سوال کا جواب راز نہیں۔ ہمارے معاشرے کا کرداری نمونہ طاقت ور لوگ ہیں۔ ہمارے معاشرے کا کرداری نمونہ دولت مند لوگ ہیں۔ ہمارے معاشرے کا کرداری نمونہ اداکار ہیں۔ ہمارے معاشرے کا کرداری نمونہ گلوکار ہیں۔ ہمارے معاشرے کا کرداری نمونہ ٹیلی وژن اینکرز ہیں۔ ہمارے معاشرے کا کرداری نمونہ ماڈل گرلز ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کی بڑی تعداد معاشی، مالی اور مادی اعتبار سے تو تاج محل کی باسی ہے مگر روحانی، اخلاقی اور علمی اعتبار سے ہم جھگیوں کے باسی ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جو طاقت، دولت اور شہرت کی اقدار پر زندہ ہو اُس میں اِس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے؟
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو قوم کے ’’جسمانی پولیو‘‘ کی تو بڑی فکر ہے۔ وہ ’’جسمانی پولیو‘‘ کے خاتمے کے لیے پندرہ سال سے ایک بھرپور مہم چلائے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے بچوں اور نوجوانوں کا ’’روحانی وجود‘‘ پولیو کا شکار ہے۔ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کا ’’اخلاقی وجود‘‘ پولیو کی گرفت میں ہے۔ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کا تہذیبی وجود ’’پولیو‘‘ زدہ ہے۔ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کا ’’تاریخی وجود‘‘ پولیو کے مرض میں مبتلا ہے۔ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کا ’’علمی وجود‘‘ پولیو کی زد میں ہے۔ ہمارے بچوں کا ’’تخلیقی وجود‘‘ پولیو سے متاثر ہوچکا ہے۔ مگر ہمارا روحانی، اخلاقی، تہذیبی، تاریخی، علمی اور تخلیقی پولیو تو کہیں رپورٹ بھی نہیں ہورہا… نہ کسی اخبار میں، نہ کسی ریڈیو پر، نہ کسی ٹی وی چینل سے۔ ہمارا روحانی، اخلاقی، تہذیبی، تاریخی، علمی اور تخلیقی پولیو کسی محفل، کسی مجلس میں زیر بحث نہیں۔ کسی صوبائی اور قومی اسمبلی میں اس پر بحث نہیں ہورہی ۔ اس سلسلے میں کسی صوبائی اور وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ کوئی آرمی چیف ’’قومی سلامتی‘‘ کے اس اہم ترین مسئلے پر متوجہ نہیں رہا۔ حد یہ ہے کہ علما، دانش ور، کالم نویس اور صحافی تک اس مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھ رہے۔ سمجھ رہے ہوتے تو علما کے خطبات میں اس کا ذکر ہوتا۔ مفتیانِ کرام اس سلسلے میںکوئی فتویٰ دے رہے ہوتے۔ دانش ور اس صورتِ حال پر مضامین تحریر کررہے ہوتے۔ ادیب اس مسئلے پر افسانے اور ناول تخلیق کررہے ہوتے۔ کالم نویس اس پر کالموں کے دریا بہا رہے ہوتے۔ حکمرانوں نے اس سلسلے میں کوئی پالیسی وضع کی ہوتی، کوئی پالیسی بیان جاری کیا ہوتا، ’’پولیو مہم‘‘ کی طرح کی کوئی ’’مہم‘‘ چلائی ہوتی۔ سیاسی جماعتوں نے اس سلسلے میں کوئی جلسہ کیا ہوتا، کوئی جلوس نکالا ہوتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے نوجوان تعلیم و تربیت کے ہولناک بحران میں مبتلا ہیں۔ ہمارا روحانی، اخلاقی، تہذیبی، تاریخی، علمی اور تخلیقی مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے اور پورا معاشرہ چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔ عیسائیوں کے موجودہ پوپ نے اپنا منصب سنبھالا تھا تو انہوں نے یورپ کے نوجوانوں کو روحانی اعتبار سے ’’گمشدہ نسلیں‘‘ قرار دیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ ابھی ہماری نسلیں روحانی اعتبار سے ’’گمشدہ نسلیں‘‘ نہیں ہیں، مگر ہماری نسلیں روحانی، اخلاقی، تہذیبی، تاریخی، علمی اور تخلیقی اعتبار سے ’’معذور نسلیں‘‘ بننے کے عمل سے ضرور گزر رہی ہیں۔
عقاید، نظریات اور تصورات تقریروں کے دریا بہانے اور بیانات کا جنگل اگانے کے لیے نہیں ہوتے۔ عقاید، نظریات اور تصورات بسر کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ عقاید، نظریات اور تصورات کو اگر بسر نہ کیا جائے تو وہ صرف ’’فلسفہ‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں، وہ ایک ’’تصوراتی بت‘‘ میں ڈھل جاتے ہیں۔ نٹشے نے جب مغرب میں یہ کہا کہ خدا مر گیا ہے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ خدا انسانوں کی زندگی میں کہیں موجود نظر نہیں آرہا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری زندگی سے اس بات کی شہادت ملنی چاہیے کہ ہم واقعتاً خدا پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانتے ہیں تو ہماری زندگی میں ایک دو فیصد ہی سہی، سیرتِ طیبہ کا رنگ موجود ہونا چاہیے۔ اگر ہم اللہ اور رسولؐ کی باتیں کرتے رہیں گے لیکن اپنی نئی نسلوں کو مذہب، تہذیب، تاریخ، اخلاق اور محبت کی اقدار کے بجائے طاقت، سرمائے اور شہرت کی اقدار پر پالیں گے تو ہمارے عقاید، ہمارے نظریات اور ہمارے تصورات صرف ایک قصہ اور صرف ایک کہانی بن کر رہ جائیں گے۔ زندگی میں قصوں کہانیوں کی بھی ایک اہمیت ہے، مگر اسلام قصہ یا کہانی نہیں ہے۔ اسلام ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس نے خود کو ایک کامل تہذیب میں ڈھال کر دکھایا۔ مگر ہم نے اپنی نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت کے جس بحران میں مبتلا کردیا ہے وہ بحران نئی نسل کو اس قابل ہی نہیں چھوڑے گا کہ وہ اپنے عقاید اور نظریات کو ایک زندہ تہذیبی تجربے میں ڈھال سکے۔