اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اہتمام اسلامیہ کالج پشاور میں کانفرنس کا انعقاد
گزشتہ صدی نے تاریخ کے صفحات پر جنگِ عظیم اوّل ودوم، جنگِ کوریا، ویت نام کی جنگ، عرب اسرائیل جنگوں، افغان جنگ اور خلیجی جنگ کے نتیجے میں بربادی اور شکست و ریخت کے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں، لیکن جہاں تک فکری اور تعمیری میدان کا تعلق ہے تو اس صدی کا دامن چند مثبت کارناموں سے بھی بھرا نظر آتا ہے۔ اس صدی میں امتِ مسلمہ اگر ایک طرف ظلم و جبر کا نشانہ بنی تو دوسری طرف اسے اغیار کے شکنجے سے آزادی بھی ملی، اور تیسری جانب اس کے اندر دینی بیداری اور اسلامی شعور پیدا کرنے کی کئی تحریکوں نے بھی جنم لیا۔ ان تحریکوں میں دو تحریکیں ایک عالم عرب کی اخوان المسلمون، اور دوسری برصغیر پاک وہند سے اٹھنے والی تحریک جماعت اسلامی کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی۔ اتفاق سے ان دونوں تحریکوں کو روحانی اور فکری غذا فراہم کرنے والی شخصیت کا نام سید ابوالاعلیٰ مودودی ہے۔
مولانا مودودی حقیقت میں عصرِ حاضر کی سب سے بڑی انسانی تحریک کے بانی اور قائد تھے۔ وہ ایک آفاقی مفکر تھے اور اصلاح و انقلاب کی جو دعوت انھوں نے دی وہ پوری انسانیت کے لیے تھی۔ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کو تحریکِ اسلامی اور امت کے لیے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا، اور اس کسوٹی پر حال اور ماضی کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا، اور پوری دنیا کے اندر بالخصوص مغربی تہذیب سے متاثر تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو اسلام کی طرف متوجہ کیا، اور جدید عصری اداروں سے پڑھے ہوئے نوجوانوں کے اندر اسلام کو بحیثیت نظامِ حیات ماننے کی جرأت اور اس کی دعوت کے پھیلائو کے لیے اپنی صلاحیتیں کھپانے کا جذبہ پیدا کیا۔
مولانا مودودیؒ 25 ستمبر 1903ء کو حیدرآباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، اور 1914ء میں میٹرک کا امتحان گیارہ سال کی عمر میں پاس کیا۔ صحافت کا پیشہ اختیار کیا اور پندرہ سال کی عمر میں اخبار ’مدینہ‘ میں شمولیت اختیار کی۔ بعدازاں آپ نے جمعیت علمائے ہند کے ترجمان اخبار ’مسلم‘ کی ادارت سنبھال لی۔ مسلم اخبار بند ہونے پر آپ نے جمعیت علمائے ہند کے نئے اخبار الجمعیۃ دہلی کی ادارت سنبھالی۔ پھر آپ الجمعیۃ کی ادارت سے مستعفی ہوگئے۔ 1932ء میں مولانا نے رسالہ ’ترجمان القرآن‘ حیدرآباد دکن سے جاری کیا۔ آپ نے 1937ء میں علامہ اقبال سے ملاقات کی اور علامہ اقبال کی دعوت پر ہی آپ حیدرآباد سے پنجاب (دارالاسلام پٹھان کوٹ) منتقل ہوئے۔ اُسی زمانے میں تقریباً 1940ء میں اسلامی حکومت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے مسلم لیگ نے علماء کی کمیٹی بنائی، آپ بھی اس کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے۔ 1941ء میں آپ نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔
پچاس کا آخری اور ساٹھ کا ابتدائی نصف عشرہ سید مودودیؒ کے لیے آزمائشوں کا طوفان لے کر آیا۔ آپ نے ان دس برسوں میں چومکھی لڑائی لڑی ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب ایک جانب نام نہاد روایتی علمائے کرام آپ پر شدید تنقید کررہے تھے، جب کہ دوسری جانب وقت کے آمر حکمران
آئے روز ہتھکڑیاں لگاکرآپ کو قیدوبند میں ڈال رہے تھے۔ یہ بھی مولانا محترم کا اعجاز ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں جماعت اسلامی کی قیادت 1972ء میں نئے امیر میاں طفیل محمد مرحوم کے سپرد کی، جس کی مثال کسی اور سیاسی، مذہبی جماعت میں نہیں ملتی، اور یہ روایت ان کے بعد کے امراء میں بھی اب تک چلی آرہی ہے۔ سید مودودیؒ کے لٹریچر کا ترجمہ دنیا کی پچاس سے زائد زبانوں میں کیا جا چکا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے تقریباً 150کتابیں لکھی ہیں جن میں 70 کے قریب وہ کتب ہیں جو آپ نے خود تحریر کی ہیں۔ باقی وہ کتب ہیں جو آپ کی تقاریر اورگفتگوئوں سے مرتب کی گئی ہیں۔ تفہیم القرآن کی اشاعت اور جماعت اسلامی کا قیام مولانا مودودیؒ کے دو ایسے کارنامے ہیں جس کی نظیر کوئی اور شخصیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ دونوں کام آپ کو رہتی دنیا تک زندہ رکھیں گے۔
مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور فکری جدوجہد کے حوالے سے اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام اسلامیہ کالج پشاور کے خیبر یونین ہال میں ’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… مفکر، مجدد، مصلح‘‘ کے عنوان سے مورخہ 18۔19جنوری2020ء کو پہلی دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کے پہلے روز کے افتتاحی سیشن میں خیبر پختون خوا اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان، ناظم اسلامی جمعیت طلبہ خیبر پختون خوا شکیل احمد، اور ناظم یونیورسٹی کیمپس پشاور اوّل شیر خان نے افتتاحی کلمات ادا کیے۔ عنایت اللہ خان نے کہا کہ مولانا مودودیؒ ایک بین الاقوامی شخصیت ہیں جن کی فکر سے دنیا بھر کے مسلمان استفادہ کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مولانا مودودیؒ کا نظریہ ہر دور اور ہر امتحان میں پاس ہوا ہے۔ مولانا مودودیؒ بتدریج تبدیلی پر یقین رکھتے تھے اور وہ اس نظام کو جڑ سے مکمل طور پر اکھاڑنے پر یقین رکھتے تھے۔
بعدازاں کانفرنس کے پہلے سیشن کے موقع پر شیخ زید اسلامک سینٹر جامعہ پشاورکے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر دوست محمد خان نے ’’مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ: فکر کے مشترکہ افکار‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ مولانا مودودی نے استعمار کے دور میں نوجوانوں کو حق کا راستہ دکھایا اور انھیں دینِ حق کی طرف متوجہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا مودودی نے قیامِ پاکستان سے پہلے دیوبندی علماء کے کانگریس کی طرف جھکائوکی وجہ سے رسالہ الجمعیۃ کی ادارت چھوڑی۔ انھوں نے کہا کہ اقبال نے 1930ء کے خطبۂ الٰہ آباد میں جو فکر پیش کی، مولانا نے اپنی تحریروں میں اس کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر دوست محمد نے کہا کہ سوامی شردھانندکے قتل کے بعد کانگریس نے اس بات کا زور شور سے پروپیگنڈہ کیا کہ اسلام جارحیت کا مذہب ہے، اور اس دور میں مولانا مودودی نے ’الجہاد فی الاسلام‘ لکھ کر اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں پر واضح کیا۔ انھوں نے کہا کہ مودودی صاحب نے دو قومی نظریہ جس طرح واضح کیا اُس طرح کوئی نہ کرسکا۔
پروگرام کے دوسرے سیشن میں ’’مولانا مودودی کا نظریۂ تعلیم‘‘ کے عنوان سے پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا۔ ڈسکشن میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم خان، دارارقم کے ڈائریکٹر اور سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان وقاص انجم جعفری شریک ہوئے، جبکہ سابق ناظم اعلیٰ صہیب الدین کاکاخیل نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ پینل ڈسکشن میں یہ بات سامنے آئی کہ اسلام کا تصور دینی و دنیاوی معاملات کی تفریق نہیں کرتا، اور یہی بات مولانا نے اپنے افکار میں بھی پیش کی ہے۔ کسی بھی ملک کی تہذیبی اور مادّی ترقی کے لیے نظام تعلیم کو مخاطب کرنا ضروری ہے، کیونکہ تمام انقلابات کی پشت پر تعلیمی انقلاب تھا۔ وطنِ عزیز کے بہتّر سال میں یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی کہ ہم اس نظام تعلیم سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پینل ڈسکشن کے شرکاء نے یہ بات واضح کی کہ مولانا مودودی نے انگریز کے دور میں یہ بات مسلمانوں پر عیاں کردی تھی کہ روایتی مذہبی تعلیم اور انگریزی تعلیم دونوں ہماری ضروریات پوری نہیں کرسکتیں، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تہذیبی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی پالیسیاں تشکیل دے، لیکن بدقسمتی سے ہماری ریاست تعلیم کو اُس کی نمایاں اہمیت دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ حکومت سرکاری تعلیمی اداروں کو این جی اوز اور دیگر اداروں کے سپرد کرکے تعلیم کے شعبے سے جان چھڑا رہی ہے۔ دوران ڈسکشن یہ بات بھی سامنے آئی کہ مولانا مودودی خواتین کی تعلیم کے زبردست حامی تھے، کیونکہ قرآن کا تقاضا ہے کہ انسانوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جائے، مگر مولانا نے مخلوط نظامِ تعلیم کی مخالفت کی اور خواتین کے الگ تعلیمی ادارے قائم کرنے پر زور دیا۔ ڈسکشن کے شرکاء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے تاکہ انسان ابتدائی زندگی کے تصورات اور معاملات کو جلدازجلد سمجھ سکیں۔ مولانا نے اس نظامِ تعلیم کا تصور دیا جس کی بنیاد پر اسلامی تشخص، انسان کا کردار اور اخلاق پروان چڑھتا ہو۔
پروگرام کے تیسرے اور آخری سیشن میں ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ پشاور پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام نے ’’مولانا مودودی اور تحریکِ آزادیِ ہند‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔
کانفرنس کے دوسرے روز کے پہلے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ سید مودودی کی تحریروں سے اسلامی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ مولانا مودودی نے قرآن کریم کی خدمت کی اور ’تفہیم القرآن‘ کے نام سے قرآن پاک کی شہرۂ آفاق تفسیر اور 120 سے زائد کتابیں لکھیں، جن کا دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ سید مودودی زیرزمین تحریکوں، خفیہ تنظیموں اور پُرتشدد تبدیلی کے خلاف تھے، اور جمہوری، آئینی، قانونی اور برسرِ زمین پُرامن انداز سے جدوجہد کے داعی تھے۔ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ ان کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کو مولانا مودودی کی یاد میں شاندار کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ مولانا مودودی نے مغربی تہذیب پر شدید تنقید کی ہے اور اس کو جدید جاہلیت کہا ہے۔ مولانا کی فکر دورِ جدید کی فکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مولانا مودودی کی فکر کے ساتھ چلنے اور اسلام کو نظریے کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانیت روحانی اضطراب سے دوچار ہے، انسانیت کو اس اضطراب سے نکالنے کے لیے اسلام کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے، اور اس ضمن میں فکرِ مودودی سے بڑھ کر اور کوئی نسخہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔
ملک کے ممتاز دانشور اور روزنامہ جسارت کے کالم نگار اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے خصوصی نامہ نگار شاہ نواز فاروقی نے کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سید مودودی نے اسلام کو نظام حیات کی حیثیت سے پیش کیا۔ انھوں نے فکری محاذ کے ساتھ ساتھ عملی حیثیت سے بھی کام کیا جس کی واضح مثال جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام ہے۔ مولانا مودودی نے استعمار کے دور میں وسائل اور طاقت کی عدم موجودگی میں اسلام کے نظریۂ حیات کو ایک متبادل بیانیہ کے طور پرپیش کیا جس کو مخالفت کے باوجود خاصی پذیرائی ملی۔ انھوں نے کہا کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے، مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔ طاقت سے صرف جغرافیہ فتح کیا جاسکتا ہے نہ کہ دلوں کو۔ شاہ نواز فاروقی نے تقویٰ اور علمی فضیلت کو تحریکِ اسلامی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو ان خصوصیات سے عاری ہے اُس کا تحریک اسلامی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لبرل اور سیکولر طبقے اسلامی نظریاتی تشخص کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈے کرتے ہیں لیکن جماعت اسلامی نے اپنی دعوت اور ہمہ گیر تربیتی نظام سے ان سازشوں کو ناکام بنادیا ہے۔ شاہ نواز فاروقی نے کہا کہ جمعیت کے نوجوان ہمارے مستقبل کی امید ہیں، یہ وہ پود ہے جو مولانا مودودی کی حقیقی فکر کو آگے لے کر بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا مودودی گزشتہ صدی کی ایک ایسی نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے گمراہی اور زوال سے دوچار امتِ مسلمہ کو مولانا مودودی کے لٹریچر اور ان کی فکر کے ذریعے جہاں ایک واضح مقصدِ زندگی سے روشناس کرایا وہیں جماعت اسلامی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مولانا مودودی کی فکر سے متاثرہ تنظیموں اور تحریکوں کے ذریعے پاکستان کے جمود زدہ معاشرے میں ایک زبردست ارتعاش اور حرکت بھی پیدا کی۔ مولانا مودودی نے مغرب کو جدید جاہلیت کا عنوان دے کر اگر ایک طرف مغربی جمہوریت کی خامیوں کو اجاگر کیا، دوسری طرف کمیونزم اور سوشلزم پر تنقید کے نشتر چلا کر ان نظاموں کو بھی باطل اور ناکام ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
کانفرنس کے دوسرے سیشن سے ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان محمد عامر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مودودی حقیقت میں عصرِ حاضر کی سب سے بڑی انسانی تحریک کے سربراہ تھے۔ وہ ایک آفاقی مفکر تھے، اور اصلاح و انقلاب کی جو دعوت انھوں نے دی وہ پوری انسانیت کے لیے تھی۔ ان کی قائم کردہ تنظیم کا مقصد انسان سازی کا ایک عظیم معرکہ سر کرنا تھا۔ انھوں نے کہاکہ سید مودودی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کو تحریکِ اسلامی اور امت کے لیے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا، اور اس کسوٹی پر حال اور ماضی کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا، اور پوری دنیا کے اندر بالخصوص مغربی تہذیب سے متاثر تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو اسلام کی طرف متوجہ کیا، اور جدید عصری اداروں سے پڑھے ہوئے نوجوانوں کے اندر اسلام کو بحیثیت نظامِ حیات ماننے کی جرأت اور اس کی دعوت اور ارشاد کے لیے اپنی صلاحیتیں کھپانے کا جذبہ پیدا کیا۔ ناظم اعلیٰ محمد عامر نے کہا کہ اس دو روزہ کانفرنس کا بنیادی مقصد اس بات کا تعین کرنا ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلامی فکر کے میدان میں کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا احاطہ بھی کیا جانا چاہیے کہ اکیسویں صدی میں پوری دنیا اور امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے عہد برا ہونے کے لیے سید مودودی کے روشن کردہ چراغ کیا روشنی فراہم کرسکتے ہیں۔ اسلامی تحریکات اور ان کے قائدین کو بالخصوص جو مسائل درپیش ہیں سید مودودی کی فکر اور اصلاحِ عمل کی روشنی میں انھیں کس طرح آگے کم کیا جاسکتا ہے۔
تیسر ے سیشن میں دارالعلوم تفہیم القرآن مردان کے ڈائریکٹر اور سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹرعطاء الرحمٰن نے ’’مولانا مودودی اور تفسیر القرآن: تفہیم القرآن کی علمی خصوصیات‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ پروگرام کے آخری سیشن میں ’’مولانا مودودی اور تہذیبِ جدید‘‘ کے موضوع پر پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر دوست محمد اور ڈاکٹر شمس الحق حنیف نے تبادلہ خیال کیا، جبکہ سابق ناظم صوبہ شاہ زمان درانی نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ پروگرام کے اختتام پر ناظم صوبہ شکیل احمد، اور ناظم یونیورسٹی کیمپس پشاور اوّل شیر خان نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور مہمانانِ گرامی کو یادگاری شیلڈ پیش کیں۔