بحیرہ روم پر ایک ہزار سال تک قابض رہنے والوں کو شکستِ فاش دینے والا عظیم سپہ سالار
ترجمہ و تالیف: حافظ اسد الرحمٰن
تلخیص و تدوین: محمود عالم صدیقی
بحیرہ روم پر صدیوں تک رومیوں کا قبضہ تھا
بحیرہ روم پر صدیوں سے بازنطینی سلطنت کا قبضہ تھا۔ اپنے اندرونی خلفشار کے سبب سلطنتِ روما کی ہیبت پہلے جیسے نہ تھی، لیکن اس کی بحری فوج اب بھی انتہائی مضبوط تھی جو سلطنت کے برقرار رہنے کا واحد سبب بن گئی، اور تجارتی لحاظ سے اقوام عالم پر رومیوں کو فوقیت حاصل تھی۔ صلیبی جنگوں کا پس منظر دہرانے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یورپ سے صلیب پرستوں کا بذریعہ سمندر مشرق میں قدم رکھنا اور نوّے سال تک ارضِ مقدس پر قابض رہنا اس امر کا متقاضی تھا کہ ان کی صدیوں کی سمندری طاقت پر کاری ضرب لگائی جائے۔ کیونکہ پورا بحیرہ عیسائیوں کی ہیبت سے کانپتا تھا۔ یہاں پر نہ تو صلیب پرستوں کی اجازت کے بغیر کوئی پرندہ پَر مار سکتا تھا اور نہ ہی کوئی جہاز گزر سکتا تھا۔ اگر کوئی آوارہ جہاز عیسائیوں کے ہاتھ آجاتا تو اُسے یا تو جلادیا جاتا، یا غرق کردیا جاتا۔ رہے مسافر، تو انہیں انتہائی بے دردی سے قتل کردیا جاتا۔
اسلامی بحریہ کا قیام
جب سے اسلامی بحریہ کا قیام عمل میں آیا، عیسائیوں کے لیے کئی مشکلات پیدا ہوگئیں۔ برّی میدان میں تو وہ مسلمانوں کو زیر نہ کرسکے، لیکن سمندر میں ان کا دفاعی نظام کافی بہتر تھا۔ اوائلِ اسلام میں اسلامی بیڑے کا قیام عمل میں نہ آیا تھا، لیکن جونہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلا بحری بیڑہ قائم کیا، رومی سلطنت کا مشرقی حصہ اس کے قبضے سے نکل گیا۔ اگرچہ حضرت امیر معاویہؓ نے سلطنتِ روما کے انتہائی اہم علاقے قبرص کو فتح کرکے رومیوں پر اپنی دہشت بٹھا دی تھی، لیکن اندرونی صورتِ حال کی وجہ سے آپ کماحقہٗ ان کا استحصال نہ کرسکے۔ لیکن آپؓ کی کارروائی کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے خبردار ہوگئے۔ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمان نہایت خوش اسلوبی سے بحری طاقت کو پروان چڑھاتے رہے۔ اب ایک ایسے بیڑے کی ضرورت آن پہنچی جو عظیم سلطنت کی ماتحتی میں مشرق و مغرب کے ساحلوں کو رومی تصرف سے نجات دلا سکے۔ بلاشبہ یہ عظیم طاقت ’’دولتِ عالیہ سلطنتِ عثمانیہ‘‘ تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب اہلِ یورپ مشرق میں اس طوفان کو دیکھ رہے تھے جس کی ہیبت اُن کے دلوں میں عرصۂ دراز سے نقش تھی۔ یعنی بہادر ترکوں کا ایک سلطنت قائم کرکے یورپ کی طرف پیش قدمی کرنا۔ اس موقع پر اس عظیم الشان بحری بیڑے کا قیام عمل میں آیا جو آنے والے دور میں بحیرۂ روم کو اپنی آغوش میں لینے والا تھا۔ وہ عیسائی جنہیں اپنی صدیوں کی جمع کی ہوئی بحری طاقت پر ناز تھا، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر درۂ دانیال کو دیکھ رہے تھے۔ شروع شروع میں عثمانی جہازوں کا مقصد تجارتی سامان کی منتقلی اور اہلِ یورپ سے تجارتی تعلقات کی استواری تھا، لیکن بعد ازاں مغرب کی جہاز لوٹنے والی معاندانہ کارروائیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگی جہازوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ چنانچہ وہ بحیرۂ روم جہاں ایک ہزار سال تک رومیوں کی حکمرانی مسلط تھی، اب عثمانی فرماں روائوں کی نگاہوں کا مرکز بننا شروع ہوگیا۔ جمہوریہ وینس اور اسپین کے طاقتور بحری بیڑوں نے عثمانی کارروائیوں کا جواب دینا شروع کیا اور سمندر کے پانی میں تلاطم برپا ہونے لگا۔
بحیرۂ روم میں مسلمانوں کی پیش قدمی
عثمانی سلطنت کے جہاز پہلے بحیرہ روم میں آگے بڑھنے سے گریزاں تھے جس کی سب سے بڑی وجہ موزوں قیادت کا نہ ہونا تھا۔ اسی وجہ سے کسی بڑی مہم یا جنگی کارروائی کو مؤخر کردیا جاتا، پھر کوئی ایسا امیر البحر بھی نہیں تھا جو سمندر کے نشیب و فراز سے بخوبی واقفیت رکھتا ہو۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ مشکل بھی حل کردی اور خیرالدین باربروسہ کی شکل میں ایک ایسی شخصیت منظرعام پر آئی جس نے سولہویں صدی کے اوائل میں سمندر میں تہلکہ مچادیا۔ خیرالدین ان تمام سمندری نشیب و فراز سے واقف تھے جو ایک امیرالبحر کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی کارروائیاں اور جنگی کارنامے اس قدرجان دار اور پائیدار تھے کہ کئی عشروں تک بحیرہ روم میں ان کا طوطی بولتا رہا اور عیسائی ان سے کانپتے رہے۔
باربروسہ کا تعارف
خیرالدین بابا عروج کا اصلی نام ’’خضر اوغلو‘‘ تھا۔ یہی بابا عروج اہلِ مغرب میں بگڑ کر باربروسہ (سرخ داڑھی والا) بن گیا۔
باربروسہ 1478ء میں یونانی جزیرے مڈنلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے حالاتِ زندگی زیادہ تفصیل سے نہیں ملتے۔ بعض مورخین کے مطابق انہوں نے ابتدائی زندگی ’’ینی چری‘‘ میں سلطنتِ عثمانیہ کی خدمت کرتے ہوئے گزاری، جبکہ بعض کے مطابق وہ شروع سے ہی سپاہی تھے۔ کچھ مورخین کہتے ہیں کہ ان کے والد بحری جہازوں کے ذریعے تجارت کرتے تھے اور بعد ازاں انہوں نے بھی تجارت کی۔ لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ باربروسہ ایک ایسے بحری قزاق بن گئے جس کا مقصد عیسائیوں کے جہازوں پر حملہ کرکے انہیں نقصان پہنچانا تھا۔ چونکہ ان کا مسکن یونان اور اس کے مضافات پر مشتمل تھا، اس لیے ان کا مقابلہ اکثر رہوڈس اور سینٹ جانز کے نائٹس کے ساتھ ہوتا تھا۔ سینٹ جانز کے نائٹس معاندانہ کارروائیوں میں مشہور تھے۔ انہی کارروائیوں میں باربروسہ کا بھائی ’’الیاس‘‘ مارا گیا اور باربروسہ زخمی ہوکر گرفتار ہوئے۔ انہیں رہوڈس کے جزیرے پر قید کیا گیا، جہاں سے وہ چند ماہ بعد فرار ہوکر اٹلی پہنچ گئے۔ اٹلی سے انہوں نے مصر کی طرف سفر کیا۔ مصر میں اُس وقت مملوک تاجداروں کی حکومت تھی۔ باربروسہ کسی طرح مملوک تاجدار سلطان قانصوہ غوری سے ملاقات میں کامیاب ہوگئے۔ اسی ملاقات میں سلطان نے انہیں ایک زبردست بحری جہاز فراہم کیا تاکہ وہ عیسائیوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرسکیں۔
۔1505ء تک وہ تین بحری جہاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگلے ہی سال باربروسہ نے جریا نامی جزیرے میں چھائونی بنائی۔ یہاں سے ان کی کارروائیوں کا رخ مغرب کی جانب ہوگیا جہاں اسپین اور فرانس کی عظیم الشان سلطنتیں موجود تھیں۔
سقوطِ غرناطہ
۔1492ء میں وہ دلگداز سانحہ رونما ہوا جسے ’’سقوطِ غرناطہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ یورپ جہاں آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی، ان سے چھن چکا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ اسپین میں انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا گیا اور ان پر عیسائیوں نے مظالم کی انتہا کردی۔ سقوط کے دس سال بعد مسلمانوں کے سامنے صرف تین راستے بچے تھے: ترکِ وطن، ترکِ اسلام یا موت۔ ان حالات میں شمالی افریقہ کا ساحل واحد سہارا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بیچ میں سمندر حائل تھا۔ لٹے پٹے اور بے گھر مسلمانوں کے لیے یہ سمندر عبور کرنا بہت مشکل تھا، صرف ترک ہی وہ قوم تھی جو ان مسلمانوں کو اندلس سے شمالی افریقہ منتقل کرسکتی تھی۔ چنانچہ اس مسئلے کے حل کے لیے خیرالدین باربروسہ نے اپنی خدمات پیش کردیں۔
سرزمینِ اندلس سے مسلمانوں کی شمالی افریقہ منتقلی
۔1504ء سے 1510ء تک مسلسل سات برس خیرالدین اندلس سے شمالی افریقہ تک مسلمانوں کو پہنچانے کا فرض سرانجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں ستّر ہزار مسلمان ان کی کوششوں سے ہجرت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جہاں لوگ ان کی کوششوں سے عیسائیوں سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوئے، وہیں ان کی شہرت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ لٹے پٹے مہاجرین میں سے اکثر آپ کا ساتھ دینے لگے۔ ان اقدامات کی بدولت باربروسہ کی جمعیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ مہاجرینِ اندلس کو خیرالدین کی بدولت دو فائدے حاصل ہوئے۔ اول یہ کہ انہیں خیرالدین کی شکل میں ایک امیرالبحر میسر آگیا، اور دوسرا یہ کہ عیسائیوں سے اپنے مظالم کا بدلہ لینے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم بھی مہیا ہوگیا۔
ان مسلمانوں کی بدولت خیرالدین نے الجزیرہ پر قبضہ کرلیا۔ یہی قبضہ بعد ازاں اُن کے سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ اتحاد کا سبب بھی بنا۔ خیرالدین کے مہاجرین کے ساتھ حسنِ سلوک کا چرچا جب باب عالی تک پہنچا تو سلطان سلیمان اعظم قانونی نے فوراً انہیں بلاوا بھیجا اور اپنے والد سے اجازت حاصل کرکے انہیں الجزیرہ کا حاکم بنادیا۔ چونکہ یہ علاقہ بحیرہ روم کے مغرب میں تھا، اس لیے آپ کو پورے مغربی بحیرہ روم کا گورنر بنادیا گیا۔ یہ قبضہ 1516ء میں مکمل ہوا۔ اب خیرالدین باربروسہ مسلم دنیا میں مقبول ہوگئے۔ عیسائیوں نے ان کے قتل کے لیے انعامات مقرر کردیے۔ دنیائے عیسائیت میں ہیجان برپا ہوگیا اور ان کی تمام تر توجہ بحری طاقت کی طرف مبذول ہوگئی۔
اسپین اور فرانس کے متحدہ بحری بیڑے کی شکست
۔1519ء میں اسپین اور فرانس کے متحدہ بیڑے نے الجزیرہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، لیکن خیرالدین نے انہیں نہ صرف شکست سے دوچار کیا بلکہ ان کے کئی جہازوں پر قبضہ کرلیا۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو سونا چاندی لے کر پاپائے روم کے پاس جارہے تھے۔ کچھ عرصے بعد اہلِ فرانس نے دوبارہ کوشش کی، لیکن سمندر میں خیرالدین اور ان کے جانبازوں نے انہیں بھی بدترین شکست سے دوچار کیا۔
اس کے بعد ’’مالٹا‘‘ کے نائٹس نے خیرالدین سے ٹکرلی، لیکن خیرالدین نے ایسی زبردست یلغار کی کہ کوئی جہاز بچ کر نہ جاسکا۔ ان کا قلع قمع کرنے کے بعد ہسپانوی چھاپہ مار دستوں کا خاتمہ ہوگیا۔ اس ذلت آمیز شکست سے اہلِ مالٹا پر لرزہ طاری ہوگیا۔ خیرالدین کا اچانک سمندر سے نمودار ہوکر یلغار کرنا اور پھر غائب ہوجانا اہلِ مالٹا کے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔ اس جنگ میں خیرالدین نے یورپ کے سب سے بڑے اور مشہور سردار مارٹے گونن کو قید کرلیا۔
کچھ عرصے بعد خیرالدین نے الجیریا پر اچانک دھاوا بول دیا اور اس اہم حصے پر قبضہ کرلیا۔ اہلِ اسپین بھلا کیونکر اس فتح کو برداشت کرسکتے تھے! چنانچہ شاہِ اسپین ’’چارلس پنجم‘‘ نے بحری بیڑے کو حملے کا حکم دے دیا۔ خیرالدین نے کمالِ ہنرمندی سے اس بیڑے کو شکست دی۔ کچھ عرصے تک کوئی کارروائی نہ ہوئی لیکن پھر اچانک یورپی امیرالبحر انڈریا ڈوریا نے حملہ کیا اور خیرالدین کے بحری بیڑے کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی، لیکن خیرالدین نے اسے شکست دے کر اسپین سے بھگادیا۔ اس فتح سے خوش ہوکر سلطان سلیمان اعظم نے انہیں قسطنطنیہ بلالیا جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
یہاں خیرالدین نے خود اپنی نگرانی میں بحری جہاز تیار کرائے اور چند ماہ آرام کے بعد کوچ کیا۔ عثمانی بیڑہ 18 جولائی 1522ء کو قسطنطنیہ (استنبول) سے روانہ ہوا۔ اس بیڑے میں 84 جہاز اور دس ہزار سپاہی شامل تھے۔ پہلے رہوڈس کی باری آئی اور خیرالدین نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔ چند ہی دنوں بعد اہلِ رہوڈس نے خیرالدین کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ یہاں سے خیرالدین نے خلیج مسینا کا راستہ اختیار کیا اور خطرناک مقامات سے گزرتے ہوئے ’’ریجیو‘‘ کے علاقے پر حملہ کردیا۔ اس کے بعد فوندی پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پھر اطالیہ کی باری آئی۔ آخرکار تنگ آکر اہلِ یورپ نے خیرالدین کے خلاف متحدہ محاذ بنالیا۔
27 ستمبر 1529ء کو ’’ویانا‘‘ شہر کا محاصرہ ہوا۔ خیرالدین کے لشکر نے سات لشکروں کو شکست دی، صلیبی اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور عیسائیوں کو انتہائی ذلت آمیز شکست ہوئی۔ ہزاروں کی تعداد میں عیسائی مارے گئے اور پورے یورپ میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خیرالدین نے تیونس جیسے اہم جزیرے کا محاصرہ کرلیا اور اس سے پہلے کہ اہلِ یورپ اپنے غم پر قابو پاتے، تیونس فتح ہوگیا۔ اہلِ یورپ کو یوں محسوس ہوا کہ سمندر میں طوفان آگیا ہے۔ کیونکہ یہ فتح اہلِ یورپ اور بالخصوص اہلِ اسپین کے لیے ناقابلِ برداشت تھی، چنانچہ چارلس پنجم شاہِ اسپین نے زبردست تیاریوں کا آغاز کردیا۔
غداری اور شکست
کچھ ہی عرصے بعد چڑھتے سورج کی کرنیں بحیرۂ روم کے مغرب میں 600 جہازوں اور 20 ہزار نائٹس کو دیکھ رہی تھیں۔ اس کے علاوہ لاتعداد کشتیاں تیونس کا رخ کررہی تھیں۔ تیونس کے خلاف عیسائی اپنی پوری قوت لاچکے تھے۔ خیرالدین نے یہ دیکھتے ہوئے شہر اپنے ماتحت ’’حسان‘‘ نامی سالار کے سپرد کردیا اور دشمن کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھ کر لڑنا پسند کیا۔ عیسائیوں نے یہ دیکھتے ہوئے اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک حصہ عیسائی امیرالبحر انڈریارڈوریا کی ماتحتی میں خیرالدین کے مقابل آیا، جبکہ دوسرا تیونس کی جانب بڑھنے لگا۔ یہاں ’’حسان‘‘ نامی سالار نے عیسائیوں کی قوت سے خائف ہوکر جزیرہ اہلِ اسپین کے حوالے کردیا۔ جب خیرالدین کو پتا چلا تو انہوں نے اپنے مدمقابل بیڑے کو شکست دے کر تیونس کی طرف کوچ کیا۔ خیرالدین نے صلیبی جھنڈے لٹکا لیے اور تمام لشکر نے عیسائی لباس پہن لیا، لیکن اہلِ تیونس خبردار ہوگئے۔ باوجود انتہائی کوشش کے خیرالدین تیونس پر قابض نہ ہوسکے جس کی وجہ ’’حسان‘‘ کی غداری تھی۔ اسی حالت میں انہوں نے ’’مینارکا‘‘ کا رخ کیا۔ اہلِ مینارکا ان کے لباس سے دھوکہ کھا گئے۔ خیرالدین نے ہلّہ بول کر عیسائیوں کو قید کرلیا، پھر اس علاقے کو مسکن بناکر تیونس سے لوٹے ہوئے جہازوں پر قبضہ کرلیا۔ یہاں سے بارسلونا پیش قدمی کی اور عیسائیوں کو بہت بڑے نقصان سے دوچار کیا۔
خیرالدین کو تیونس کی شکست کا شدید صدمہ تھا جو ان کی زندگی کی واحد شکست تھی۔ چنانچہ انتقام کی غرض سے انہوں نے ہسپانیہ کی جنوبی بندرگاہوں پر قبضہ کرلیا اور نئی دنیا (امریکہ) سے آنے والے جہازوں پر مسلط ہوگئے۔ اسی اثناء میں انہیں سلطان سلیمان کی طرف سے بلاوا آگیا اور انہوں نے قسطنطنیہ کی راہ لی۔
۔1537ء میں خیرالدین ایک ترک کمانڈر لطفی پاشا کے ہمراہ 140 جہاز لے کر قسطنطنیہ سے نکلے۔ ان کا رخ رومۃ الکبریٰ کے اہم علاقے اوترانتو کی جانب تھا، اور بحری جرنیل ’’طورغوت‘‘ نے خلیج مسینا سے گزرتے جنوب کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ پہلے خیرالدین نے اٹلی کی بندرگاہ اریونا کی طرف پیش قدمی کی۔ اس کے بعد ’’برندیسی‘‘ کو فتح کیا۔ برندیسی کی تسخیر کے بعد نیپلز کی باری آئی۔ یہاں جھنڈے گاڑ کر انہوں نے ’’کاسترو‘‘ جیسے اہم علاقے پر ہلہ بول دیا اور کاسترو جیسی اہم بندرگاہ پر قابض ہوکر اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔ ان اقدامات سے اہلِ یورپ نے ایک دفعہ پھر اپنا متحدہ بیڑہ قائم کرلیا۔
پاپائے روم اور فرڈی نینڈ کی مشترکہ بحری مہم اور شکست
چنانچہ 1538ء میں پاپائے روم اور شاہ ہنگری ’’فرڈی نینڈ‘‘ نے مل کر ترکوں کے خلاف بحری مہم تشکیل دی۔ ستمبر میں اتحادیوں کا زبردست بیڑہ جو جہازوں کی تعداد اور قوت کے لحاظ سے ترک بیڑے سے کئی گنا بڑا تھا، شاہ چارلس کے مشہور امیرالبحر انڈریا ڈوریا کی سرکردگی میں ’’لولیسا‘‘ کے مقام پر عثمانی بیڑے کے مدمقابل آیا۔ 28 ستمبر 1538ء کو باربروسہ اور پاپائے روم کے اتحادی بیڑے کے مابین ٹکر ہوئی۔ باربروسہ نے دلیرانہ جنگی حکمت عملی اپنائی۔ چنانچہ ’’آری وینرا‘‘ میں باوجود کم ساز و سامان کے خیرالدین نے اتحادیوں کو انتہائی ذلت آمیز شکست دی۔ عیسائی لشکر کا شیرازہ بکھر گیا۔ ان کی عسکری قوت پر کاری ضرب لگی۔ ’’آری وینرا‘‘ کی جنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کے بعد کسی متحدہ عیسائی بیڑے کو اسلامی بیڑے سے ٹکرانے کی جرأت نہ ہوسکی۔ عیسائیوں کا صدیوں سے قائم رعب و دبدبہ جاتا رہا اور مسلمانوں کی کامیابیوں کا میدان وسیع ہونا شروع ہوگیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو تجارت میں بہت فائدہ ہوا۔
خیرالدین کی طوفانی یلغار
اہلِ یورپ کو اب بھی ایک موہوم سی امید امیرالبحر انڈریا ڈوریا سے وابستہ تھی، چنانچہ اس نے اسپین سے کوچ کیا اور النیرک کے علاقے میں پڑائو ڈالا۔ یہیں اس کی جھڑپ خیرالدین کے ساتھ ہوئی۔ اس جھڑپ میں 90 فیصد عیسائی لشکر خیرالدین کے ساتھیوں کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ یہاں سے خیرالدین نے فالونیا کی طرف پیش قدمی کی۔ یہ علاقہ خلیج کارنتھ کا محافظ تھا، لیکن خیرالدین کی طوفانی یلغار نے اسے برباد کردیا۔ اسے مسکن بناکر خیرالدین نے نتانتے کے جزیرے پر قبضہ کرلیا۔ پھر اے جنیا کے جزیرے پر قابض ہوئے اور مزید 12 جزائر کو تسخیر کرلیا۔ ان جزائر کی فتح سے بے شمار مال غنیمت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ 16ہزار عیسائیوں کو قید بھی کرلیا۔ مزید چند مہینوں تک مفتوحہ جزائر کی تعداد 25 تک پہنچ گئی اور مالِ غنیمت میں اسی شرح سے اضافہ ہوتا گیا۔
جب ان فتوحات کی خبر یورپ میں پہنچی تو وہاں صفِ ماتم بچھ گئی، لیکن اب ہر کوئی خیرالدین کے سامنے آنے سے ڈرتا تھا۔ فرڈی نینڈ شاہ ہنگری نے سلطنتِ عثمانیہ سے چھیڑ چھاڑ کرنا چاہی تو خیرالدین نے بودا کا محاصرہ کرلیا اور اس علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پھر جرمنی تک فرڈی نینڈ کا بلامزاحمت تعاقب کیا۔ فرڈی نینڈ کی قوت مفلوج ہوکر رہ گئی۔ وہ جرمنی میں ہی تھے کہ انہیں شاہ اسپین چارلس کی معاندانہ سرگرمیوں کا علم ہوا۔ خیرالدین نے اسے تیاری کا موقع دیے بغیر ہی حملہ کردیا جس میں 8 ہزار عیسائی قتل ہوئے۔
سلطان سلیمان اعظم اور خیرالدین کا اشتراکِ عمل اور فتوحات
۔1543ء میں سلطان سلیمان اعظم نے خیرالدین کو قسطنطنیہ طلب کیا۔ اسی عرصے میں فرانس اور اسپین کے فرماں روائوں میں ناچاقی ہوئی۔ جب بات حد سے بڑھی تو شاہِ فرانس نے اسپین کے خلاف سلیمان اعظم سے اتحاد کرلیا۔ سلیمان کو فرانس کے بادشاہ کی حمایت میں کارروائی کرنا پڑی، چنانچہ اس نے خیرالدین کو 110 جہاز اور 30 ہزار سپاہی دے کر روانہ کیا۔ خیرالدین نے سسلی اور اٹلی کے مابین اہم علاقے پر قبضہ کرلیا۔ یہاں سے چکر کاٹ کر انہوں نے ’’فلیس‘‘ شہر میں ہسپانوی لشکر کو شکست دی۔ اسے فتح کرکے فرانس کے شہر طولون میں قیام کیا۔ کچھ ہی عرصے میں خیرالدین نے اپنی تمام قوت طولون میں جمع کرلی۔
یہ حکمت عملی نہایت کامیاب نکلی۔ اس علاقے کو مرکز بناکر خیرالدین باربروسہ نے ہسپانوی ساحلوں پر چھاپہ مار حملے شروع کردیے۔ ان حملوں میں انہوں نے البا اور چی لیو کے علاقوں پر فتح حاصل کی۔ انہی دنوں اسپین میں سمندری وبا پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کی طبیعت ناساز ہوگئی، لیکن انہوں نے چھاپہ مار مہم جاری رکھی۔ آخرکار جب بیماری حد سے زیادہ بڑھ گئی تو خیرالدین نے یہ مہم اپنے نائب امیرالبحر ’’طورغوت پاشا‘‘ کے حوالے کی اور خود قسطنطنیہ واپس آگئے۔
اس مردِ مجاہد کی فتوحات کے متعلق ڈاکٹر محمد عزیز لکھتے ہیں
’’سلیمان اعظم کے عہد میں خیرالدین کی بدولت بحیرہ روم پر ترکی بیڑے کا مکمل اقتدار تھا، جس کی وجہ سے سلطان نے وینس کے قبضے میں جو جزائر تھے، انہیں فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا‘‘۔
بحرہند میں عثمانی لشکر کا علَم بلند کرنا خیرالدین کی دیرینہ آرزو تھی، لیکن عمر نے وفا نہ کی اور وہ آفتاب جس کی روشنی میں عثمانی ترکوں نے بحیرہ روم میں عظیم الشان فتوحات دیکھی تھیں، ہمیشہ کے لیے ڈوب ہوگیا۔ یہ 4 جولائی 1546ء کا دن تھا۔ ان کا انتقال آبنائے باسفورس میں ہوا۔ آپ کو باسفورس کے کنارے دفن کیا گیا۔ آج بھی ان کی قبر ترک بحری عجائب گھر کے قریب موجود ہے اور بحریہ کے متعدد جہازوں کے نام ان کے نام پر رکھے گئے۔ (بحوالہ ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ)
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
آج بھی خیرالدین باربروسہ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں لوگ مافوق الفطرت سمجھتے ہیں۔ یورپ میں ان کی زندگی کو افسانوی قصوں کا رنگ دیا جاتا ہے۔ وہ بلا کے ذہین، ہوشیار اور انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ ان کے نائب جن میں پیالے پاشا، پیری رئیس، لطفی پاشا اور طورغوت پاشا شامل تھے، ان کی بہادری اور دلیری کے معترف تھے۔ حملے کے وقت وہ ایک شیر کی طرح دھاڑتے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے ان کو آپس میں لڑوا دیتے۔
تیس سال تک وہ یورپی اقوام کو مسلسل شکست دیتے رہے۔ سلطان سلیمان اعظم نے خوش ہوکر اپنی بحریہ ان کے سپرد کردی تھی۔ چنانچہ جو جہاز باربروسہ نے اپنی نگرانی میں تیار کرائے وہ انتہائی مضبوط، پائیدار اور کارآمد ثابت ہوئے۔ ان میں توپیں بھی نصب کی جاتی تھیں۔ پری وینرا کی جنگ میں اللہ کی نصرت اور انہی توپوں کی مدد سے فتح حاصل ہوئی۔ ان گراں قدر خدمات کے صلے میں انہیں ’’پاشا‘‘ کا خطاب ملا۔
خیرالدین کی وفات پر اہلِ یورپ نے بہت خوشیاں منائیں اور یورپ کا جنگی جنون پھر سے بیدار ہونے لگا۔ چنانچہ انہوں نے مہمات کا آغاز کیا، لیکن خیرالدین کے نائب طورغوث پاشا نے ان کی تمام امیدوں کو خاک میں ملادیا۔ تیونس کے غدار ’’حسان‘‘ کا خاتمہ ہوگیا اور عثمانیوں نے دوبارہ تیونس پر فوج کشی کرکے قبضہ کرلیا۔ یہ ایسا المیہ تھا جس کی خبر سن کر چارلس شاہ اسپین غم میں مرگیا۔ پھر اس کا بیٹا فلپ جانشین ہوا۔ طورغوت اور مصطفیٰ پاشا نے سینٹ ایلمور پر حملہ کیا لیکن اسی اثنا میں سلیمان اعظم کی 1566ء میں وفات ہوگئی۔
اُس وقت عثمانی سلطنت کا حال امریکی مورخ ویل دلورینٹ کے مطابق کچھ اس طرح تھا
’’عثمانی سلطنت سلیمان اعظم کی وفات کے وقت مصر، شمالی افریقہ، ایشیائے کوچک، فلسطین، شام، بلقان اور ہنگری یہ سب اس کے زیر سایہ تھے اور ترکی بحری بیڑہ بحیرہ روم پر مکمل حکمرانی کرتا تھا‘‘۔
الغرض خیرالدین کی وفات کے وقت سارا بحیرہ روم عثمانیوں کے قبضے میں تھا۔ اہلِ یورپ عثمانیوں کے نام سے ڈرتے تھے۔ کوئی جہاز ترکوں کی اجازت کے بغیر بحیرہ روم میں داخل نہ ہوسکتا تھا۔ سو سال تک اہلِ یورپ بحیرہ روم کو بھول گئے، لیکن بعد ازاں نااہل حکمرانوں کا دور شروع ہوا تو وہ تمام علاقے مسلمانوں کے تصرف سے نکل گئے جہاں کبھی ان کے آبا و اجداد نے شاندار روایات قائم کی تھیں۔ آخرکار ایک دن سلطنتِ عثمانیہ بھی دنیا کے نقشے مٹ گئی۔
خیرالدین باربروسہ جیسے نابغۂ روزگار لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔