نسل نو، بے مقصد تعلیم اور اخلاقی بحران

انتخاب: عامر اشرف
دنیا میں نوجوانوں کی تعداد 1.8بلین ہے۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے، جن کی آبادی کا 60 فیصد سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور اس طبقے کا بڑا حصہ بے مقصد زندگی گزار رہا ہے۔ نوجوان جو معاشرے کا سب سے فعال، متحرک اور چاق و چوبند طبقہ سمجھا جاتا ہے وہ اگر کسی فکر، مقصد اور ہدف سے بے نیاز ہو تو اس سماج اور قوم کی مستقبل کی صورت گری کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو نوجوانوںکی تعداد کے اعتبار سے خوش قسمت ملک تصور کیا جانا چاہیے، لیکن اس کی یہ خصوصیت بدقسمتی میں تبدیل ہوگئی ہے، کیونکہ اس کا تعلیم یافتہ نوجوان بھی بے مقصدیت کا شکار ہے، جس کی بنیادی وجہ ہمارا تصورِ تعلیم ہے جو اس کو مشین کا آدمی بنارہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اخلاقی بگاڑ آج ہمارے نسلِ نو میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ امانت، دیانت، شرافت، مروت، عزت و احترام، رواداری، برداشت، شرم وحیا، اور حفظِ مراتب، سچائی، فرض شناسی، عدل، ایفائے عہد جیسی اعلیٰ اقدار ان میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ جھوٹ، فریب اور بدعنوانی کا رونا پورا معاشرہ رو رہا ہے۔ افراد اور اقوام کی زندگی میں اگر تعلیم کو بنیادی اور کلیدی مقام حاصل ہے تو کیا اس تعلیم کے حصول کا ہماری نوجوان نسل کے نزدیک کوئی مقصد بھی ہے کہ جس کے تحت وہ اپنی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر کرسکیں۔ اپنے تعلیمی فلسفے کے ذریعے اپنے کسی نصب العین، مقاصد ِ حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرسکیں!
ہماری نئی نسل تو تعلیم کا عمومی طور پر ایک ہی مقصد جانتی ہے، اور وہ ہے ملازمت کا حصول۔ جس کے بعد خوابوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے یعنی بڑا گھر، بڑی گاڑی، جدید اسمارٹ موبائل فون، نت نئے ہیئر اسٹائل، پھٹی جینز… یہ ہے آج کا وہ نوجوان جس کو اقبال نے دنیا کو برتنے کا ایک بامعنی مقصد بتاتے ہوئے کہا تھا کہ

جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے

کیونکہ اقبال کے یہاں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کرکے اس کی تسخیر ِ حیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے۔ اس وقت اسمارٹ فون نے نوجوانوں کی آن لائن مصروفیت میں اضافہ کردیا ہے اور وہ گھر، خاندان، دوست احباب سے آف لائن ہوگئے ہیں، اور اس طرح حقیقی دنیا سے دور چلے گئے ہیں۔ اب ایسے کئی واقعات رپورٹ ہورہے ہیں کہ نوجوان آن لائن گیم کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہورہے ہیں، ان میں سے کئی جان بھی دے چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے اور ہمارے نوجوان کے خیال اور عمل کا محور و مرکز اقبال کی فکر سے دور اور اسمارٹ فون کی خیالی دنیا کے قریب کیوں ہے؟ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا ہے یا کوئی اور بات ہے؟ شاہنواز فاروقی کہتے ہیں کہ ’’بچپن زندگی کا اجمال ہے اور جوانی و بڑھاپا بچپن کی تفصیل‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے بچپن میں بن جاتا ہے، باقی زندگی میں صرف اس کی وضاحت سامنے آتی ہے۔ اور آج کی نسل بدقسمتی سے اچھی تعلیم کا مطلب اور مقصد صرف اچھی ملازمت کی ’’لوری‘‘ سن کر ہی جوان ہوئی ہے۔ اور پھر بچپن سے نوجوانی تک ایک ہی فکر لاحق رہتی ہے کہ کون سی ڈگری سے کتنی اچھی نوکری ملے گی۔ یعنی تعلیم اور تعلّم کا تعلق مقصد، شخصیت، کردار، اقدار اور سوچ کی تعمیر کے بجائے صرف معاش رہ گیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تعلیم کا کوئی مقصد ہے؟ اور اس مقصد میں ملازمت شامل نہیں ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ معاشی مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ اہم مقصد ہے۔ تعلیم سے یقیناً پیشہ ورانہ استعداد، ذہانت و اہلیت میں اضافہ ہوتا ہے، ملازمت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے اور کاروبار کرنے میں معاونت ہوتی ہے۔ اور ویسے بھی انسانی زندگی کے سفر میں باعزت رزق کمانا نہایت اہم اور کٹھن کام ہے۔ مگر مغرب کے فلسفۂ تعلیم نے زندگی کی بنیادی معنویت ہی تبدیل کردی ہے۔ کیونکہ یہ معنویت مذہب کے سوا کہیں سے نہیں آسکتی، اور مغرب نے اسے دیس نکالا دے دیا ہے۔ تعلیم ایسی ہو جو آدمی کو انسان بنائے۔ بامقصد تعلیم ذہنوں کو روشن کرتی ہے جس سے معاشرہ منور ہوتا ہے۔ آدمی کی شناخت ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیشنل کی تو ہو لیکن وہ ایک اچھا انسان نہ ہو تو چہ معنی است؟ ہاں تعلیم کے ذریعے اگر ڈاکٹر کو ڈاکٹر بنانے کے ساتھ انسان بھی بنایا جائے اور انجینئرکو انجینئرنگ کے ساتھ انسان بننا بھی سکھایا جائے تواس سے تعلیم کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، ورنہ معاشرے کو ایک ڈاکٹر تو مل جائے گا لیکن مسیحا نہیں مل پائے گا، ایک انجینئر تو مل جائے گا لیکن اس کی عمارت ڈھے جائے گی اور معاشرہ یا قوم بھی اس کے ملبے کا حصہ ہوں گے۔ تعلیم صرف ملازمت کے لیے ہوگی تو ملازمت کے حصول میں ناکامی کی صورت میں مایوسی بڑھے گی جو نوجوانوںکو ذہنی بیماریوں کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن اگر ان کے سامنے زندگی کے بڑے اور وسیع مقاصد موجود ہوں گے تو وہ اسے اپنی طاقت بنالیں گے۔ جن معاشروں میں انسان کی سوچ صرف معاش کے گرد گھومتی ہو، اور اُس معاشرے کے زیادہ تر نوجوان اس وبا کا شکار ہوں، اُس معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اور قوموں کو تباہی و بربادی سے مشینیں نہیں بچاتیں بلکہ بلند اقدار، حوصلہ اور جذبہ ان کی مدد کرتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں جب کہ برطانیہ شکست کے قریب تھا تو چرچل نے مشورے کے لیے کابینہ کا اجلاس بلایا جس میں اس ممکنہ شکست کے اسباب اور اس سے بچاؤ پر بحث کی گئی۔ وہاں چرچل نے تمام باتوں سے قطع نظر ایک سوال کیا۔ اس نے کہا: مجھے صرف یہ بتاؤ کہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کررہی ہیں؟ اگر کررہی ہیں تو پھر برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ پھر چرچل کا کہا ٹھیک ثابت ہوا، اور جرمنی اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور مشینوں کے باوجود ڈھیر ہوکر رہ گیا کیونکہ جرمنی کی عدالتوں میں ظلم کا دور دورہ تھا۔ مغربی تعلیم کی روح بلند فکر اور بلند مقاصد سے خالی ہے، کیونکہ اس فکر نے معاشی حیوان اور اقتصادی روبوٹس کے علاوہ کیا دیا ہے! اقبال نے اس پس منظر میں کیا خوب کہا ہے: ۔

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کفِ جو
عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکرِ معاش
فیض فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش

آج کرپشن، بددیانتی، بزدلی، کم ہمتی، ڈر، خوف کی شکار قوم کو پُرجوش، قومی درد سے سرشار اور بلند مقاصد سے ہم آہنگ نوجوانوںکی ضرورت ہے جنہیں جدید تعلیم بھی حاصل کرنی ہے، دنیا بھی بہتر کرنی ہے، لیکن دنیا میں غرق نہیں ہونا ہے۔ ہمارے نوجوان کو روشن دان اس نیت سے کھولنا چاہیے کہ اس میں سے اذان کی آواز آئے۔ ٹھنڈی اور شفاف ہوا تو خودبخود آجائے گی۔ اسی طرح تعلیم اعلیٰ مقاصد کے لیے حاصل ہوگی تو دونوں مقاصد حاصل ہوجائیں گے۔ ہماری نسلِ نو قوم وملت کا بیش بہا اثاثہ ہے۔ اس کی صحیح سمت کی طرف رہنمائی کی جائے تو ملک کی موجودہ دگرگوں صورت حال بدل سکتی ہے اور پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں جاسکتا ہے، اور یہ کام والدین، اساتذہ اور ریاست کو مل کر کرنا ہوگا، ورنہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کھو دیں گے۔
(بشکریہ جنگ)

فلم ’’زندگی تماشا‘‘ کفر و اسلام کی عالمی جنگ میں ملتِ کفر کا سیاسی بیانیہ…!۔

مولانا عبید الرحمٰن شاہجہاں پوری
(1) لبرل عقیدہ اظہارِ آزادی کی سیاسی تجسیم: ’’زندگی تماشا‘‘ محض فلم نہیں بلکہ کفر و اسلام کے عالمی معرکے میں عالمِ کفر کا پورا سیاسی و تہذیبی بیانیہ ہے، جس کو ہماری معاشرت پر عالمی طاغوتی مغربی سرمایہ دارانہ اقلیت (Capital minority) مسلط کررہی ہے۔ مغربی طاغوتی تہذیب ’’آزادیِ اظہار‘‘ کے عقیدے پر غیر مقدس معاشرے کو تشکیل دیتی ہے اور تہذیبِ اسلامی حفظِ مراتب و عبدیت کے عقیدے پر مہذب معاشرت قائم کرتی ہے۔ یہ زہر آلود فلم آزادیِ اظہار کا لبرل عقیدہ لوگوں کے اذہان میں نہ صرف راسخ کرتی ہے بلکہ اس آزادیِ اظہار کو عملاً برت کر فلمی تناظر میں پیش کرتی ہے، اور یوں تہذیبِ اسلامی کے تین مراکز ماں، مسجد، مدرسہ کو ہدفِ تشکیک و تنقید بناکر ان میں مذہب بیزاری کی مخصوص نفرت و حقارت کو پروان چڑھاتی ہے۔
(2) شعائرِ اسلامی کی توہین: ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے جو عالمی جنگ برپا ہے، اس میں بلاگرز کے فتنے کے بعد ناموسِ دین پر یہ نیا حملہ اور جدید فتنہ ہے جو اس گزشتہ فتنے سے زیادہ عمیق و خطرناک ہے، کہ ایک طرف تو تحفظِ ناموسِ رسالت کے عنوان کو ’’ملّا کی سیاست‘‘ قرار دے کر اس محاذ ہی کو بے معنی کرنے کی کوشش ہے، دوسری طرف گستاخی و توہینِ رسالت کے سیاسی بیانیے یعنی آزادیِ اظہارِ رائے کو ایک نظریے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور تیسری طرف عملاً پاکستانی معاشرت جو آج بھی دنیا میں راسخ العقیدہ ہونے کے حوالے سے بے مثال ہے، وہاں عملاً توہینِ دین، استخفافِ علماء، تحقیر مساجد و مدارس، یہاں تک کہ جنسی میلاپ تک کی حیاء سوز گفتگو کو اس فلم کی صورت میں دکھا کر ’’عملاً برتا جاتا ہے، اور یوں پیغام دیا جاتا ہے کہ آج بھی مغربی فکر ناموسِ دین پر مسلم سماج میں اترکر حملہ کرنے پر قادر ہے!
(3) رشتوں کی تقدیس سے بغاوت: پاکستانی معاشرہ اس عہدِ زوال میں بھی فرقِ مراتب اور رشتوں کے تقدس کا قائل ہے، اور یہ فرقِ مراتب اور رشتوں کا تقدس اہلِ مذہب کی مرہونِ منت ہے۔ یہ مغرب زدہ فلم ایک طرف تو رشتوں کے تقدس کو دقیانوسی قرار دیتی ہے، دوسری طرف اس تقدیس کے معلمین (علماء، صوفیہ، نعت خواں حضرات، وغیرہ) اور ان کے تہذیبی مراکز (مساجد و مدارس) کی بابت بغضِ معاویہ کو جنم دیتی ہے۔
(4) شناخت کا بحران: پاکستان آج بھی مشرقی دینی روایات کا امین ہے۔ یہ فلم ایک مسلمان کو اپنے تہذیبی پس منظر پر احساسِ کمتری میں مبتلا کرتی ہے اور اسے مخصوص نوعیت کی فکری ندامت سے دوچار کرتی ہے، جس کے نتیجے میں نئی نسل ’’شناخت کے بحران‘‘ (Identity Crisis) کا شکار ہوتی ہے، اور یوں لادینیت کے لیے راہ ہموار ہوتی چلی جاتی ہے۔
پس اس فلم کے ذریعے مغربی لبرل طبقۂ فکر یہ اعلان کررہا ہے کہ اب ہم اپنے آزادیِ اظہار کے مغربی لادین عقیدے کو تم پر مسلط کریں گے، تمہارے وطن میں تمہارے لوگوں کے درمیان تمہارے شعائر کی توہین کریں گے، تمہاری اقدار کا خون کریں گے، تمہارے دینی و تہذیبی نفوسِ قدسیہ کی توہین کریں گے، یہاں تک کہ لبیک یارسول اللہ کے پاکیزہ نعرے تک کا استخفاف کریں گے، اور تمہاری مجال نہیں کہ تم کچھ کرسکو۔ اس لیے کفر و اسلام کی اس عالمی جنگ میں یہ فلم محض ملتِ کفر کا سیاسی بیانیہ ہی نہیں بلکہ اس سیاسی عقیدے و بیانیے کی سیاسی تنفیذ و اظہار کا عملی اقدام ہے، جس کی مزاحمت ہر صاحبِ ایمان پر فرضِ عین ہے۔