آٹے کا بحران… وزیر اعظم ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنا دیں

تحریکِ انصاف کی موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ملک و قوم کو مسلسل بحرانوں کا سامنا ہے، لوگ ایک بحران سے سنبھل نہیں پاتے کہ کوئی نیا بحران ان کی گردن آدبوچتا ہے۔ عوام گزشتہ کئی برس سے مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں، اس عرصے کے دوران لوگوں کے وسائل اور ذرائع آمدن میں اضافے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دی، جب کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب عام آدمی کی قوتِ خرید میں زبردست کمی آچکی ہے جس نے سب کو پریشان کررکھا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے عوام کی پریشانیوں کے ازالے کی کوئی تدبیر سامنے نہیں آرہی۔ عام انتخابات سے قبل انہوں نے رائے دہندگان کو جو سنہری خواب دکھائے تھے اور جیسے جیسے سبز باغوں کی سیر کرائی تھی، اب ان کی بھیانک تعبیر لوگوں کو دکھائی دے رہی ہے، مگر حکمران عوام کی فلاح و بہبود اور مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی وضع کرنے کے بجائے محض طفل تسلیاںدینے میں مصروف ہیں، جس کی تازہ مثال آٹے کا حالیہ بحران ہے۔ آٹے کے اس شدید بحران کے باعث عام آدمی کو پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ یہ بحران کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں، بلکہ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لوگ آٹے کی عدم دستیابی کے سبب اس کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، مگر حکمران آٹے کی مقررہ قیمت پر فراہمی کے لیے مؤثر اقدامات کے بجائے مضحکہ خیز بیانات سے لوگوں کا پیٹ بھرنے میںکوشاں ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے اس بحران کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کے لیے الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے، ہر کوئی عوام کو یہ اطلاع دے رہا ہے کہ ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ گندم کے وافر ذخائر واقعی موجود ہیں تو آٹا لوگوں کو دستیاب کیوں نہیں؟ ہر گزرتے دن کے ساتھ نایاب کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
ملک میں آٹے کے بحران کی گونج ایوانِ بالا میں بھی سنائی دی ہے، اور ارکان نے اس مسئلے پر صدائے احتجاج بلند کی ہے، جن میں سب سے بلند آہنگ صدا جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق کی ہے۔ انہوں نے عوام کے اس اہم مسئلے کو مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، جس کا سبب یہ ہے کہ وہ خود بھی عوام میں سے ہیں اور عام آدمی کا درد سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ انہوں نے بجا طور پر حکمرانوں کے طرزِعمل کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ہفتہ کے روز اپنی پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں گندم کے بحران کا سبب یہ بتایا کہ نومبر اور دسمبر میں لوگوں کی خوراک بڑھ جاتی ہے، اس لیے آٹے کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ سینیٹ میں پیر کے روز اپنے خطاب کے دوران سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ وزراء وزارتوں کا سہارا لے کر عوام کی غربت کا مذاق اڑا رہے ہیں، نئے پاکستان کے دعوے داروں نے ملک کو بحرانوں کی آماج گاہ بنادیا ہے۔ ملک آٹے، چینی، بجلی، گیس کے ساتھ ساتھ قانون سازی کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ قوم ایک بحران سے نکلتی نہیں کہ دوسرے کا شکار ہوجاتی ہے۔ لوگ آٹے کے لیے گھنٹوں قطاروں میں لگے رہتے ہیں مگر انہیں آٹا نہیں مل رہا۔ ایک طرف لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں اور دوسری طرف وفاقی وزراء کوتاہی تسلیم کرنے کے بجائے عوام کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ نومبر، دسمبر میں زیادہ روٹیاں کھاتے ہیں جس کی وجہ سے آٹے کا بحران آیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی اور گندم پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے، مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اب ہمیں گندم بھی درآمد کرنا پڑرہی ہے۔ حکومت نے پہلے سستے داموں گندم باہر بھجوائی اور اب مہنگے داموں درآمد کررہی ہے۔ حکمرانوں کے سینے میں دل نہیں، پتھر ہے۔ اگر ان کے سینے میں دل ہوتا تو عوام کی ان پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ان کا دل ضرور پسیج جاتا۔ انہوں نے کہا کہ نومبر اور دسمبر ہر سال آتے ہیں مگر اس طرح کے حکمران پہلی بار دیکھے ہیں جو آٹے کے بحران کا ذمہ دار عوام کو ٹھیرا رہے ہیں۔ وزراء کی بدتدبیری اور نااہلی کی وجہ سے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اب آٹا بھی نایاب ہوگیا ہے۔ حکمران بتائیں کہ بائیس کروڑ عوام کے لیے کتنا بڑا لنگر خانہ بنائیں گے۔ اب تک بنائے گئے لنگر خانوں میں سو دو سو لوگ جمع ہوتے تھے، لیکن اگر حکمرانوں نے اس بحران پر قابو نہ پایا اور لوگوں کے دکھ درد کو سمجھنے کی کوشش نہ کی تو یہی بھوکے لوگ جھونپڑوں سے نکل کر ایوانوں کا گھیرائو کرلیں گے اور پھر حکمرانوں کو بھاگنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قوم لنگر خانے نہیں، کارخانے چاہتی ہے تاکہ انہیں عزت سے دو وقت کا کھانا مل سکے۔ یہ کون سی پالیسی ہے کہ لوگوں کو ذلیل و خوار کرکے بھیک کی طرح کھانا کھلایا جائے!
سینیٹر سراج الحق نے بجا توجہ دلائی ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا انحصار بڑی حد تک زراعت پر ہے۔ عالمی ادارۂ خوراک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بنیادی اشیائے خوراک میں خودکفیل ہے، عالمی درجہ بندی میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں پاکستان کا آٹھواں، گنے کی پیداوار میں پانچواں، اور دودھ کی پیداوار میں چوتھا نمبر ہے۔ مگر ان حقائق کے باوجود تصویر کا یہ پہلو نہایت تشویش ناک ہے کہ عالمی ادارۂ خوراک ہی کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے صرف 63 فیصد لوگوں کو خوراک کا تحفظ یعنی فوڈ سیکورٹی حاصل ہے، یا اشیائے خور و نوش کی فراہمی یقینی ہے۔ جب کہ ملک کے 16.7 فیصد لوگ خوراک کی فراہمی کے حوالے سے غیر محفوظ، اور اٹھارہ فیصد لوگ خوراک کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ گویا اشیائے خورو نوش کی بہ افراط پیداوار کے باوجود آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ان کی فراہمی کے سلسلے میں عدم تحفظ سے دوچار ہے جس کا سبب ملک کے اربابِ بست و کشاد کی بے تدبیری، نااہلی اور ناقص حکمت عملی کے سوا کچھ اور نہیں۔ جس کی ایک نمایاں مثال اُس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب کوئی فصل کھیتوں سے منڈی میں پہنچتی ہے تو مناسب قیمت پر اس کا خریدار موجود نہیں ہوتا، مگر جب یہی فصل عام آدمی خریدنے جاتا ہے تو اسے کسان کو ادا کی گئی قیمت سے کہیں زیادہ رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ آٹے کے بحران کا بنیادی سبب بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ پہلے ایک مخصوص طبقے کو نوازنے کے لیے گندم سستے داموں فراہم کرکے برآمد کرنے کی اجازت دی گئی، اور اب آٹے کے بحران کو جواز بناکر بیرونِ ملک سے مہنگے داموں گندم درآمد کرنے کی اجازت خود وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی طرف سے دے دی گئی ہے، حالانکہ حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ پاسکو کے پاس 41 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں۔ دوسری جانب ماہرین کی رائے یہ بھی ہے کہ جب تک درآمدی گندم پاکستان پہنچے گی، ملک میں بھی گندم کی فصل کٹائی کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اس صورت حال میں اس امر میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں کی بے تدبیری نااہلی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، یا پھر یہ سب کچھ جان بوجھ کر ایک مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے کی خاطر کیا جارہا ہے، اور آٹے، چینی اور دیگر اشیاء کی قلت اور نایابی اس طبقے کو نوازنے کے لیے مصنوعی طور پر پیدا کی جاتی ہے۔ کیا وزیراعظم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام کی پریشانی و بے چینی اور ملک بھر میں اضطراب اور بحران کے ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کا اہتمام کریں گے، جو اس قسم کی سوچ رکھنے والے دوسرے لوگوں کے لیے بھی باعثِ عبرت ہو؟
(حامد ریاض ڈوگر)