سلامتی کونسل کا اجلاس ’’کشمیر پر اٹوٹ انگ‘‘مؤقف کی شکست

چین کی درخواست پر منعقد ہونے والے خصوصی اجلاس میں سلامتی کونسل کے ارکان نے ایک بار پھر کشمیر کی صورتِ حال پر غور کیا ہے۔ اجلاس میں سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل 15 اراکین شامل تھے۔ اجلاس کے بعد چین کے مستقبل مندوب زہنگ جن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی اجلاس منعقد کیا تھا جس میں اقوام متحدہ سیکرٹریٹ کی طرف سے ارکان کو کشمیر کی صورتِ حال پر بریفنگ دی گئی۔ چینی مندوب کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ رہا ہے۔ کچھ عرصے سے دونوں ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی محسوس کی گئی ہے۔ چین کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چین کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ سمجھتا ہے اور پاکستان کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے کہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جانا چاہیے۔
یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ اِس اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کی کنٹرول لائن پر جاری کشیدگی کے حوالے سے یہاں تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی مرتب کردہ رپورٹ پر بھی بحث کی گئی یا نہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انٹونیو گوئٹرس کو خط لکھ کر کشمیر کی صورتِ حال پر بحث کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد چین کی خصوصی تحریک پر یہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ اجلاس کے بعد روس کے نمائندے نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تنازع ہے جسے اقوام متحدہ کے بجائے دوطرفہ بات چیت سے حل کیا جانا چاہیے۔
5 اگست2019ء کے بعد پاکستان اور چین کی خصوصی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کا بند کمرہ اجلاس منعقد ہوا تھا، اور یوں 1965ء کے بعد پہلی بار مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں کسی نہ کسی انداز سے زیربحث آیا تھا۔ چین کی ہی درخواست پر گزشتہ برس دسمبر میں ایسا ہی ایک اور اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان بڑھنے والی کشیدگی کا جائزہ لیتے ہوئے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین سے ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا تھا۔ حالیہ اجلاس میں یہ رپورٹ پیش ہوئی یا نہیں، اور اس پر کیا بحث ہوئی، اس کا تاحال اندازہ نہیں ہوسکا۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی وہاں موجود تھے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ماضی کی طرح تقسیم پوری طرح نظر آرہی ہے۔ چین پاکستان اور کشمیریوں کے مؤقف کا کھلا حامی ہے۔امریکہ نیمے دروں نیمے بروں والی غیر جانب دارانہ پوزیشن اپنائے ہوئے ہے۔روس ماضی میں بھارت کا کھلا حامی ہوتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ویٹو کرکے بھارت کو بچ نکلنے کا موقع فراہم کرتا تھا، مگر اب روس کی پوزیشن میں غیر معمولی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے اور وہ بھارت کا کھلم کھلا حامی نہیں بلکہ امریکہ کی طرح غیر جانب داری کی طرف مائل نظر آتا ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر کی فائل عالمی ادارے میں طاق میں رکھ کر مسئلے کو دو طرفہ بنیاد پر حل کرنے کا راستہ اپنایا گیا تھا، اس عمل میں ماضی کے سوویت یونین کا کردار نمایاں تھا۔ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان سوویت یونین کی سہولت کاری سے تاشقند میں دوطرفہ مذاکرات ہوئے تھے، اور یہاں معاہدۂ تاشقند پر دونوں ملکوں کے سربراہوں نے دستخط بھی کیے تھے۔ اس کی وجہ پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات میں بہتری کے آثار ہیں۔ روس کی جگہ فرانس نے بھارت کی کھلی سرپرستی اور حمایت کا بیڑہ اُٹھا لیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سلامتی کونسل کے ارکان جس مسئلے پر کوئی فعال کردار ادا نہ کرنا چاہیں تو مل جل کر کچھ لائنیں اختیار کرتے ہیں، اور اس طرح ادارے میں تقسیم کا تاثر قائم ہوجاتا ہے۔ فرانس کی طرف سے بھارت کی کھلی حمایت پر مودی نے فرانسیسی صدر کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سب سے بڑے فیصلہ ساز ادارے میں مسئلہ کشمیر کی گونج بار بار سنائی دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ معاہدات ناکام ہوچکے ہیں۔ شملہ معاہدہ، اعلانِ لاہور، اعلانِ اسلام آباد سمیت تمام معاہدات کے بے اثر ہونے کی وجہ سے پاکستان اور چین بار بار سلامتی کونسل سے رجوع کررہے ہیں۔ یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ سلامتی کونسل کا کوئی بھی رکن مسئلہ کشمیر کو بھارتی عینک سے نہیں دیکھ رہا۔ کوئی بھی رکن یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہر رکن یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ کشمیر ایک مسئلہ ہے اور اسے حل ہونا چاہیے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ عالمی ایوانوں میں حل ہونا چاہیے، جب کہ فرانس اور روس جیسے کچھ ملکوں کا خیال ہے کہ عالمی ایوان کے بجائے پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ بنیاد پر مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ گویا کہ کشمیر کے ’’مسئلہ‘‘ ہونے، اور اس کے حل کی ضرورت پر دنیا میں کسی بھی سطح پر کوئی اختلاف نہیں۔ یہ بھارت کے اٹوٹ انگ والے راگ کی ناکامی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے دفتر خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے بیجنگ میں میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سلامتی کونسل کو مسئلہ کشمیر پر مثبت جواب دے، مسئلہ کشمیر پر چین کی پوزیشن واضح ہے، یہ ایک تاریخی تنازع ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ ترجمان کے مطابق 15 جنوری کو سلامتی کونسل کے ارکان نے صورتِ حال پر کھل کر بحث کی اور دونوں ملکوں پر زور دیا کہ مسئلے کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت حل کیا جائے، مسئلہ کشمیر پر چین کا مؤقف کبھی تبدیل نہیں ہوگا، چین خطے میں قیامِ امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا، پاکستان اور بھارت میں صلح کرانا ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے، پاکستان کو بھارت سے مذاکرات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی راہیں کھل سکیں۔ چین کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ سمجھتا ہے اور پاکستان کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے کہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جانا چاہیے۔