امریکہ کی ڈھائی صدی پر مشتمل تاریخ میں امریکی صدرکے مواخذے کا یہ تیسرا واقعہ ہے
صدر ٹرمپ کا مواخذہ آخری اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ امریکہ ایک مثالی وفاق ہے جہاں کرنسی اور خارجہ امورکے سوا دوسرے تمام معاملات میں ریاستوں کو مکمل خودمختاری حاصل ہے۔ حتیٰ کہ ہر ریاست کی اپنی فوج ہے جو ضرورت پڑنے پر مرکزی کمان کے تحت کام کرتے ہوئے بھی ریاستی انفرادیت برقرار رکھتی ہے۔ 1776ء میں جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا USA کے نام سے وفاق کی تشکیل عمل میں آئی تو عمرانی معاہدے کے تحت تمام کی تمام 13 ریاستوں کو وفاق کی سطح پر کامل برابری عطا کی گئی۔ اس کے بعد مدغم ہونے والی نئی ریاستوں کو بھی برابری اور مکمل خودمختاری کے ایسے ہی حقوق فراہم کیے گئے۔ اِس وقت USA سے وابستہ ریاستوں کی تعداد 50 ہے۔
امریکی صدر وفاق کا نمائندہ ہے جس کے انتخاب اور اسے معزول کرنے کے معاملے میں ریاستوں کے اختیارات کا خیال رکھا گیا ہے۔ آئین کی صریح خلاف ورزی کی شکایت پر پہلے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کی مجالسِ قائمہ ذیلی کھلی سماعت کرکے معاملے کی تحقیق کرتی ہیں جسے یہاں قانونی اصطلاح میں Impeachment Inquiry کہا جاتا ہے۔ اگر ابتدائی انکوائری کے نتیجے میں کمیٹیاں کثرتِ رائے سے اس نتیجے پر پہنچیں کہ الزامات درست ہیں تو ایوان میں سے منظوری کے بعد اسپیکر کی جانب سے مواخذہ منیجروں کا تقرر کیا جاتا ہے۔ یہ منیجر مواخذے کا متن یا Articles of Impeachment تیار کرتے ہیں۔ اسے آپ فردِ جرم بھی کہہ سکتے ہیں، یعنی اس میں ثبوت کے ساتھ وہ سارے الزامات درج ہوتے ہیں جن کی بنا پر صدر کو قابلِ مواخذہ قرار دیا گیا ہو۔ قابلِ مواخذہ جرائم میں دروغِ حلفی، رشوت ستانی، مقننہ یا عدلیہ کی راہ میں رکاوٹ، دشمن سے سازباز، غداری وغیرہ شامل ہیں۔ غلط فیصلے، پالیسیوں کی ناکامی، معیشت کی خرابی، جنگ میں شکست یا بھاری نقصان وغیرہ قابلِ مواخذہ کمزوریاں نہیں اِلاّ کہ ان معاملات میں صدر کی نیت کا فتور ثابت ہوجائے۔
مواخذے کے متن کی تدوین کے بعد اس کے ہر نکتے پر ایوانِ نمائندگان میں رائے شماری ہوتی ہے، اور سادہ اکثریت سے منظوری کے بعد فردِ جرم توثیق کے لیے اسپیکر کو پیش کردی جاتی ہے۔ اسپیکر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ متن کو مسترد کردے۔ ایسی صورت میں مسودہ ایوان کو واپس کردیا جاتا ہے، اور اگر ایوان دوتہائی اکثریت سے اسے دوبارہ منظور کرلے تو اسپیکر کا ویٹو غیر مؤثر ہوجائے گا۔ تاہم اسپیکر کی جانب سے متن کو مسترد کرنے کا عام طور سے کوئی امکان نہیں کہ یہاں اسپیکر کی حیثیت قائدِ ایوان کی ہے اور مواخذے کی تجویز سے لے کر فردِ جرم کی ترتیب وتدوین اسپیکر کی زیرنگرانی ہوتی ہے۔
فردِ جرم کی ترتیب ایوانِ نمائندگان کی ذمہ داری ہے، جہاں تمام ریاستوں کی نمائندگی اُن کی آبادی کے مطابق ہے، جبکہ ان الزامات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ سینیٹ میں ہوگا جہاں تمام اکائیوں کی نمائندگی برابر ہے اور ہر ریاست سے دو دو سینیٹر منتخب کیے جاتے ہیں۔ مقدمے کے دوران سینیٹ کو عدالت یا جیوری (Jury) کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ امریکہ کی ڈھائی صدی پر مشتمل تاریخ میں امریکی صدرکے مواخذے کا یہ تیسرا واقعہ ہے، اس سے پہلے:
٭ 1868ء میں صدر اینڈریو جانسن کا مواخذہ کیا گیا جو صدر ابراہام لنکن کے قتل کے بعد صدر بنے تھے۔ سینیٹ میں یہ قرارداد دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ صدر جانسن اپنی صدارت بچانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن وہ چند ماہ بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کا ٹکٹ حاصل نہ کرسکے۔
٭مواخذے کی دوسری کارروائی 1998ء میں صدر بل کلنٹن کے خلاف ہوئی جن پر وہائٹ ہائوس کی ایک جواں سال کارکن سے نازیبا حرکات کا الزام لگا۔ ان کی فردِ جرم دروغِ حلفی، انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور اختیارات کے ناجائز استعمال سمیت چار الزامات پر مشتمل تھی۔ ان میں دو الزامات ایوانِ نمائندگان نے مسترد کردیے اور جس دو نکاتی فردِ جرم پر سینیٹ میں مقدمہ چلا ان میں سے ایک میں ان کے خلاف 43 اوردوسرے میں 50 ووٹ آئے چنانچہ موصوف بری کردیے گئے۔
٭1973ء میں صدر رچرڈ نکسن پر مخالفین کی گفتگو ٹیپ کرنے کے الزام المعروف واٹر گیٹ اسکینڈل میں مواخذے کی تحریک اٹھی، لیکن وہ کسی باقاعدہ کارروائی سے پہلے خود ہی مستعفی ہوگئے۔
صدر ٹرمپ پر عائد الزامات اور مواخذے کا پس منظر آپ فرائیڈے اسپیشل کی 4 اکتوبر 2018ء کی اشاعت میں دیکھ سکتے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر سے درخواست کی کہ انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی ٹکٹ کے خواہش مند سابق نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف کرپشن کا دستاویزی ثبوت فراہم کیا جائے۔ نائب صدر کے صاحب زادے ہنٹر بائیڈن کو یوکرین کی ایک نجی گیس کمپنی بورسما ہولڈنگز (Burisma Holdings) نے تجربے اور صلاحیت نہ ہونے کے باوجود 50 ہزار ڈالر مہینہ تنخواہ پر ملازم رکھا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ کرپشن کے الزام میں مذکورہ کمپنی کے خلاف یوکرینی حکومت نے تحقیقات بھی کی تھیں جو روک دی گئیں۔ اگر صدر ٹرمپ ہنٹر بائیڈن کی کرپشن کی تحقیقات کروانا ہی چاہتے تھے تو انھیں اس کام کے لیے امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں سے مدد لینی چاہیے تھی جو ان کے تحت ہیں۔ ایک غیر ملکی حکومت سے اپنے سیاسی حریف کے خلاف مدد طلب کرنا اُن کے مخالفین کے خیال میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے ساتھ امریکی انتخابات میں دوسرے ملکوں کو مداخلت کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
معاملہ یہیں تک نہیں رہا بلکہ صدر ٹرمپ نے اپنے یوکرینی ہم منصب کو دھمکی دی کہ اگر ہنٹر بائیڈن کی کرپشن کی تحقیقات نہ کی گئیں تو وہ یوکرین کی فوجی امداد روک دیں گے۔ امریکی کانگریس نے یوکرین کے لیے 40 کروڑ ڈالر کی منظوری دی تھی، صدر ٹرمپ نے بعد میں امداد جاری کردی لیکن امریکی آئین کے تحت سرکاری خزانے کا انتظام و انصرام کانگریس کے پاس ہے اور کانگریس سے منظوری کے بعد امدادی رقم کو روکنے یا اس میں کٹوتی کی دھمکی دے کر صدر ٹرمپ نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ تحقیقات سے یہ بھی پتا چلا کہ صدر کے قانونی مشیر اور نیویارک کے سابق رئیسِ شہر روڈی جولیانی یوکرین گئے اور انھوں نے دبائو ڈال کر ہنٹر بائیڈن کے خلاف مواد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ سماعت کے دوران امریکی فوج کے ایک سابق جرنیل، سفارتی حکام اور حکومت کے بعض اعلیٰ حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ روڈی جولیانی ان پر یوکرینی حکومت سے بائیڈن کے خلاف مواد حاصل کرنے کے لیے مسلسل اصرار کرتے رہے، اور جناب جولیانی کے ایک مددگار نے کل انکشاف کیا کہ یوکرین میں امریکہ کی سفیر میری یوواناوچ (Marie Yovanovitch) پر دبائو ڈالنے کے ساتھ ہراساں کرنے کے لیے ان کی جاسوسی بھی کی گئی۔
اس پس منظر میں کانگریس نے جو فردِ جرم مرتب کی ہے اس میں صدر ٹرمپ پر پہلا الزام یہ ہے کہ انہوں نے 2020ء کے صدارتی انتخابات میں اپنے متوقع حریف جو بائیڈن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی پر فون کرکے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ ان کے صاحب زادے ہنٹر بائیڈن کے خلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرائیں۔ صدر پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے تعاون نہ کرنے پر یوکرین کے لیے امریکی امداد روکنے کی دھمکی دی تھی۔ قانونی اصطلاح میں اس مجرمانہ مول تول کو Quid Pro Quoکہا جاتا ہے۔
امریکی صدر پر دوسرا الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ فردِ جرم کے مسودے پر امریکی ایوانِ نمائندگان میں گزشتہ ہفتے ووٹنگ ہوئی تو فردِ جرم کا پہلا آرٹیکل 197 کے مقابلے میں 230، اور دوسرا آرٹیکل 198 کے مقابلے میں 229 ووٹوں سے منظور ہوگیا اور اسپیکر نینسی پلوسی نے اس کی توثیق کردی۔ اس موقع پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے نینسی پلوسی کا مؤقف تھا کہ صدر ٹرمپ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا اور یہ اُن کے مواخذے کے لیے کافی ہے۔
تقریب کے بعد Impeachment Managers نے ایک باوقار جلوس کی شکل میں اصل مسودہ سینیٹ کے قائدِ ایوان کے پاس جمع کرادیا، یا یوں کہیے کہ صدر ٹرمپ پر مواخذے کا مقدمہ قائم ہوگیا۔
ضابطے کے مطابق 16 جنوری کو مقدمے کا آغازہوا، اور سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے انصاف کے سربراہ نے چیف جسٹس جان رابرٹس سے حلف لے کر سینیٹ کی صدارت چیف جسٹس کے حوالے کردی۔ انجیل مقدس پر حلف میں چیف جسٹس نے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کیا کہ وہ مقدمے کی سماعت کے دوران غیر جانب دار رہیں گے اور کسی قسم کی وابستگی و لالچ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئین کے مطابق مبنی بر انصاف فیصلہ کریں گے۔ حلف کے اختتام پر So help me Godکہہ کر اللہ کی استعانت بھی طلب کی گئی۔ سینیٹ کی مسندِ صدارت سنبھالنے پر جسٹس رابرٹس نے ایسا ہی حلف سینیٹروں سے بھی لیا اور اجتماعی عہدکے بعد فرداً فرداً حلف رجسٹر پر دستخط کرکے ان سینیٹروں نے اپنے وعدے کو محفوظ کردیا۔
ستم ظریفی کہ انجیل مقدس پر حلف کے دوران ان سینیٹروں نے غیر مبہم وعدہ کیا ہے کہ وہ جماعتی وابستگی اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ثبوت و شواہد کی روشنی میں منصفانہ فیصلہ کریں گے، لیکن سینیٹ کے قائدِ ایوان کھل کر کہہ چکے ہیں کہ کارروائی کے دوران وہ ایوانِ صدر سے رابطے میں رہیں گے۔ سینیٹ کی مختلف کمیٹیوں کے سربراہان صدر ٹرمپ کے ہمراہ ’’مواخذہ دھوکا و فریب یا Hoax ہے‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ساری دنیا کے سیاست دان ایک ہی جیسے ہیں جنھیں اپنے عہد کا کوئی پاس نہیں۔
حلف برداری کے بعد چیف جسٹس نے مقدمے کی کارروائی 21 جنوری تک کے لیے معطل کردی۔ اس روز Impeachment Managers یا وکلائے استغاثہ صدر کے خلاف فردِ جرم پیش کریں گے۔ تمام اہم ثبوت ان کے متن میں موجود ہیں لیکن اگر کچھ نئے شواہد سامنے آئے تو جیوری کی اجازت سے انھیں بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ استغاثہ گواہ طلب کرنے کی تجویز بھی دے سکتا ہے۔ جیوری کی کارروائی کی صدارت تو چیف جسٹس کریں گے لیکن گواہ پیش کرنے، نئے شواہد کی پیشکش وغیرہ کی منظوری جیوری کی مرضی سے ہوگی اور 100 کے ایوان میں ہر تحریک کی منظوری کے لیے 51 ووٹ درکار ہیں۔ سماعت مکمل ہونے پر جیوری (سینیٹ) مواخذے کی منظوری یا اسے مسترد کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ صدر کی معزولی کے لیے دوتہائی یا 67 ووٹ درکار ہیں۔ سینیٹ کی 100 میں سے 53 نشستیں صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے پاس ہیں، لہٰذا دوتہائی تو کیا سادہ اکثریت سے بھی مواخذے کے حق میں فیصلہ ممکن نظر نہیں آتا۔
ادھر کچھ دنوں سے نئے شواہد سامنے آرہے ہیں جس کی بنیاد پر چند ری پبلکن سینیٹروں کا کہنا ہے کہ وہ دلائل و شواہد کا تجزیہ کرکے اپنی رائے دیں گے۔17 جنوری کو امریکہ کے آزادوخودمختار احتسابی ادارے Government Accountability Office یا GAOنے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یوکرین کے لیے منظور امداد کو روک کر صدر ٹرمپ قانون شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ صدر ٹرمپ کے سابق مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے سینیٹ میں گواہی دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ بولٹن صاحب کی زنبیل میں مزید سنسنی خیز انکشافات موجود ہیں۔ دوسری طرف اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ اپنی اکثریت کے بل پر ری پبلکن پارٹی کارروائی کو معطل کرکے فوری فیصلے یا رائے شماری پر اصرار کرے۔ جیوری اصولوں کے مطابق سادہ اکثریت یا 51 ووٹوں سے سماعت کے اختتام کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو یقین ہے کہ اکثریتی جماعت کے کم از کم 4 سینیٹر بامقصد سماعت پر زور دیں گے، جس کا مطلب ہوا کہ ٹرمپ کے حامیوں کے لیے سرسری سماعت پر اصرار اتنا آسان نہیں۔
اپنے دفاع کے لیے صدر ٹرمپ نے ایک بھاری بھرکم 8 رکنی قانونی ٹیم کا تقرر کیا ہے۔ ان کے ایک وکیل کین اسٹار نے 1998ء میں امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن سے مواخذے کی کارروائی کے دوران تفتیش کی تھی۔ مزے کی بات کہ صدر ٹرمپ نے ماضی میں جناب اسٹار کے بارے میں توہین آمیز ٹویٹ کیے ہیں۔ ان کے دوسرے بڑے وکیل ایلن درشووتز (Alan Morton Dershowitz) مسلمانوں کے بارے میں بہت ہی متعصبانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ موصوف پہلے ڈیموکریٹک پارٹی میں تھے اور انھوں نے گزشتہ انتخابات میں ہلیری کلنٹن کی حمایت کی تھی، لیکن دو سال بعد جب یہ امکان پیدا ہوا کہ شاید مسلمان رہنما کیتھ ایلیسن پارٹی کے سربراہ بن جائیں تو انھوں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی۔
صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی اس وقت ہورہی ہے جب 2020ء کی انتخابی مہم عروج پر ہے اور اس سلسلے کا پہلا معرکہ 3 فروری کو ہونا ہے جب ریاست آیوا میں ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی جلسہ یا Caucus ہوگا جس میں صدارتی امیدوار کے لیے رائے شماری ہوگی۔ ایک ہفتے بعد ریاست نیوہمپشائر میں پارٹی کا پرائمری انتخاب منعقد کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے 21 جنوری سے روزانہ کی بنیاد پر مقدمے کی سماعت کا اعلان کیا ہے اور اتوار کے سوا ہر روز سماعت ہوگی۔ تمام سینیٹروں کے لیے اجلاس میں شرکت لازمی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے تین امیدوار یعنی برنی سینڈرز، محترمہ ایلزبتھ وارن اور محترمہ ایمی کلوبچر سینیٹر ہیں جن کے لیے سماعت میں لازمی شرکت کی بنا پر انتخابی مہم چلانا ممکن نہ ہوگا اور جناب جو بائیڈن کو میدان کھلا مل جائے گا۔ اس ضمن میں ایک شاندار مثال پیش خدمت ہے:
تیونس کے حالیہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اخوان کے حمایت یافتہ قیس سعید اور نبیل قروئی کے درمیان براہِ راست مقابلہ تھا۔ جناب قروئی کرپشن کے الزام میں نظربند تھے۔ قیس سعید نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی مہم چلانے سے انکار کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں فریق کو مہم چلانے کا مساوی موقع ملنا چاہیے اور اُن کا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ توایک ایک فرد تک جاکر ووٹ مانگیں اور نظربندی کی بنا پر اُن کا مخالف اس سہولت سے محروم ہو۔
………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔