بلوچستان میں برف باری اور بارشیں

صوبائی حکومت کے پاس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی استعداد اور وسائل نہیں ہیں

۔11 جنوری سے بلوچستان کے وسیع علاقے میں برف باری اور بارشیںشروع ہوئیں۔ کوئٹہ، قلات، زیارت، ہرنائی، قلعہ عبداللہ، پشین، قلعہ سیف اللہ، مستونگ، ژوب اور دوسرے علاقوں میں 12 جنوری یعنی ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات برف باری کا سلسلہ شروع ہوا، جو اگلے روز رات گئے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ اسی طرح مکران ڈویژن کے اندر بارشیں ہوئیں جس سے ندی نالوں میں طغیانی آئی اور ڈیم بھر گئے۔ بارشوں سے نقصانات بھی ہوئے۔ مذکورہ اضلاع میں اس روز برف باری ہوئی، ایک وسیع خطے نے سفید چادر اوڑھ لی۔ کئی روز تک پہاڑوں اور زمین پر سفیدی چھائی ہوئی تھی۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق کوئٹہ میں ایک فٹ، زیارت، ہرنائی اور کان مہترزئی وغیرہ میں دو سے تین فٹ برف پڑی۔ برف باری کا فائدہ یہ ہے کہ اسے زمین جذب کرلیتی ہے، یعنی ضائع نہیں ہوتی۔ البتہ پکی سڑکوں پر پڑی برف، پگھلنے کے ساتھ پکی نالیوں میں ہی ضائع ہوجاتی ہے۔ بلوچستان پچھلی ایک دہائی تک خشک سالی کا شکار رہا، یقیناً اب ان بارشوں اور برف باری کا فائدہ ہوگا۔ اگر ہماری کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور دوسرے اضلاع کی میونسپل کمیٹیاں استعداد کی حامل ہوتیں اور وسائل اور افرادی قوت رکھیں تو گلی محلوں سے برف اٹھاکر کھلے میدانوں اور پارکوں میں پھینک کر اسے ضائع ہونے سے بچا سکتی تھیں۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اور دوسری بات یہ کہ ان کو سرے سے اس حوالے سے شعور ہی نہیں ہے۔ کوئٹہ کے اندر غالباً ایک ہفتے تک شاہراہوں کے کنارے برف پڑی رہی جو لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتوں اور صحن سے اٹھاکر باہر پھینک دی تھی۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن مستعد ہوتی تو یہ برف ضائع نہ ہوتی۔ بلوچستان کے اندر برف باری نے نظام زندگی کو متاثر کیا۔ بیس سے زائد اموات ہوئیں۔ لکپاس اور کولپور کے مقامات پر کوئٹہ ،کراچی اور کوئٹہ، سندھ شاہراہیں ایک روز بند رہیں۔ زیارت، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ اور قلعہ عبداللہ میں قومی شاہراہیں تین سے چار روز سفر کے قابل نہ تھیں۔ کان مہترزئی کے مقام پر کوئٹہ کو خیبر پختون خوا اور پنجاب سے ملانے والی شاہراہ برف سے ڈھکی رہی جو قطعی استعمال کے قابل نہ تھی۔ کان مہترزئی کے علاقے میں پبلک ٹرانسپورٹ اور دوسری عام گاڑیاں پھنس گئیں۔ سیکڑوں خواتین، بچے، بزرگ اور مریض کئی گھنٹوں تک برفانی طوفان میں پھنسے رہے۔ سطح سمندر سے سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس مقام پر حالات یہ تھے کہ نہ پیچھے آنے کا اور نہ آگے جانے کا راستہ تھا۔ ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کے ہیٹر بند ہونے سے لوگوں کو موت نظر آنے لگی۔
بلوچستان حکومت کی ’پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ اور مختلف اضلاع کی انتظامیہ نے شاہراہ کھولنے اور عوام کو محفوظ طور پر نکالنے کے کام کا آغاز کردیا۔ بعض جگہوں پر جہاں برف زیادہ پڑی تھی جیسے کان مہترزئی اور کوژب ٹاپ، زیارت اور ہرنائی کے مقامات پر انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے جدید مشینری اور وسائل نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم اے راشن اور کمبل تقسیم کرنے کی حد تک وجود رکھتی ہے۔ اضلاع میں یہ کام ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس ادارے کو بامعنی طور پر تمام اضلاع میں فعال کیا جائے اور اس کی استعدادِ کار میں اضافہ ہو۔ ملازمین کی تربیت مطلوبہ معیار کے مطابق ہو اور انہیں بدعنوانی کے ناسور سے محفوظ بنایا جائے۔ اِس بار بھی ریلیف کا عمل قابلِ تعریف نہیں رہا ہے۔ صوبائی حکومت سمیت تمام اداروں اور فورسز نے اپنی تگ و دو کی۔ ان اضلاع میں جہاں شدید برف باری ہوئی ہے، شاہراہوں سے برف صاف کرنے کے لیے جدید مشینری کی فراہمی ہونی چاہیے۔ فوٹو سیشن کے بجائے صرف اور صرف فرائض پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو بند شاہراہوں پر سفر کی اجازت نہ دی جائے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ سیکڑوں لوگ بیچ شاہراہوں میں ہنگامی صورتِ حال میں پھنس گئے۔ شدید سردی اور برف باری میں انہیں سخت مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اچھا ہوا کہ مسلم باغ اور کان مہترزئی میں وہاں کے عوام نے ان مسافروں کو اپنے گھروں میں پناہ دی اور ان کی ہر ممکن امداد کرتے رہے۔ یہاں عوام بھی غیر محتاط طرزِ عمل اپنا لیتے ہیں۔ آگاہ ہونے کے باوبود برف باری میں سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ تاہم متعلقہ ضلعوں کی انتظامیہ کو چاہیے کہ انہیں نہ چھوڑیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس پریشر کی کمی نے بھی عوام کو مسلسل عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کوئٹہ اور دیگر سرد علاقوں میں عوام شدید سردی میں بجلی اور گیس کی فراہمی کے لیے احتجاج کرتے رہے۔
کوئٹہ میں درجہ حرارت منفی گیارہ سینٹی گریڈ تک گر گیا۔ اتنی سخت سردی میں پانی کی پائپ لائنیں، سڑکوں اور نالوں میں بہنے والا اور چھت سے ٹپکنے والا پانی بھی جم گیا۔ اس کے باوجود صوبائی دارالحکومت کے بیشتر علاقوں میں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر رہا۔ بچے، خواتین، بزرگ اور مریض سردی سے ٹھٹھرتے رہے۔ کئی بچوں کی سردی کی وجہ سے بیمار ہونے کے بعد اموات بھی ہوئیں، مگر گیس کمپنی کے حکام اس ہنگامی صورت حال کے باوجود بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہے۔ کوئٹہ میں دسمبر کے آخر سے فروری کے وسط تک سخت سردی پڑتی ہے، کم از کم ان دو ڈھائی مہینوں کے لیے سوئی سدرن گیس کمپنی کو سسٹم میں اضافی گیس شامل کرنی چاہیے۔
صوبائی حکومت کی رپورٹ کے مطابق برف باری اور بارشوں نے 9 اضلاع کو متاثر کیا اور چھتیں گرنے سمیت مختلف حادثات میں20 افراد جاں بحق اور23 زخمی ہوئے۔ 176 گھر گرے، جبکہ393گھروں کو نقصان پہنچا۔ آٹھ ہزار ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی اور آٹھ سو مویشی ہلاک ہوئے۔
دس اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کرکے ریسکیو اور ریلیف آپریشن کیے گئے۔ ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد لی گئی۔
سرکاری اعداد و شمار اپنی جگہ، مگر ہلاکتیں مزید بھی ہوئی ہیں۔
ژوب کے پاک افغان سرحد سے ملحقہ قمرالدین کاریز میں علاقہ مکینوں نے امداد نہ ملنے کا شکوہ کیا ہے۔ زیارت، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ اور ژوب کے دور دراز علاقوں کی رابطہ سڑکیں ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی بند ہیں۔ منفی پندرہ سینٹی گریڈ کی سردی میں لوگ گھروں میں محصور ہیں۔ ان کے پاس ایندھن اور خوراکی اشیاء کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے مریض کو اسپتال پہنچانا اورطبعی موت مرنے والوں کی تدفین کا عمل مشکل ہوگیا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بلوچستان میں برف باری اور بارشوں سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کو معاونت کی فراہمی میں متعلقہ وفاقی محکموں کی عدم دلچسپی اور غیر ذمہ دارانہ رویّے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی سیکرٹری توانائی، چیئرمین این ڈی ایم اے، ایم ڈی ایس سوئی سدرن گیس کمپنی کو بلوچستان پہنچنا چاہیے تھا، تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان وفاقی محکموں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ وزیراعلیٰ نے ان محکموں کے رویّے کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو شکایتی خط لکھنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق این ایچ اے نے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا نہیں کی، اور بند قومی شاہراہوں کو صوبائی محکموں کی کوششوں سے کھولا گیا۔ قدرتی آفات سے کوئی ایک محکمہ یا ادارہ مؤثر طور پر نہیں نمٹ سکتا، اس کے لیے ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔
وزیراعلیٰ کی شکایت کے بعد این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے صوبے کا دو روزہ دورہ کیا اور برف باری میں مرنے والوں کے لیے پانچ لاکھ اور زخمیوں کے لیے بھی پچاس ہزار روپے فی کس مالی امداد کا اعلان کیا۔