سیاست کو رسوا کریں اور نہ آئینی اداروں کو بے توقیر

سیاست میں ’’فوجی ڈسپلن‘‘ نہیں چلا کرتا۔ سیاست تو ’’مکالمے‘‘ کے ذریعے افہام و تفہیم سے آگے بڑھتی ہے

پاکستان کو فی زمانہ جس طرح کے خارجی خطرات لاحق ہیں، اور بدلتے عالمی منظرنامے اور تیزی سے بدلتی خطے کی صورتِ حال کی بنا پر جو دیگر مسائل اور معاشی بحران درپیش ہے، ان چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے ہم سب کو اپنے اپنے طرزِعمل کا جائزہ خودفریبی سے نکل کر خود احتسابی سے لینے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر حالات کے جبر کا ’’بے رحم کوڑا‘‘ ہر ایک پر برسے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو قومی اور اپنے ذاتی مفاد میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے ایک ٹاک شو میں بوٹ لانے کا سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔ اگر نہیں لیا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان جناب عمران خان کو اٹھانا پڑے گا۔ سیاست کو رسوا کرنا اور اداروں کو بے توقیر کرنا ختم کریں۔ سیاست کو دشنام طرازی اور بلیم گیم کے مکروہ فعل سے پاک کرنا سب کے مفاد میں ہے۔
آئین کے تحت قائم قومی ریاستی اداروں کو غیر متنازع رکھنا سب کی آئینی ذمہ داری ہے۔ خود اداروں پر لازم ہے کہ وہ کسی غیر ذمہ دار، غیر ادارہ جاتی ایکٹر کو یہ اجازت نہ دیں کہ وہ ٹی وی ٹاک شو میں ’’فوجی بوٹ‘‘ کی طاقت کا ذکر کرکے ہدفِ تنقید بنانے کا موقع فراہم کرے۔
ہم میں سے ہر ایک کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو خارجی دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جہاں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ جدید دفاعی ساز و سامان اور آلاتِ حرب سے لیس ایسی طاقت ور فوج ناگزیر ہے جس کی پشت پر پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہو، وہیں اس پر بھی لازم ہے کہ کوئی اسے اپنی وقتی، ذاتی اور گروہی مصلحتوں اور ضرورتوں کے تحت متنازع نہ بنائے۔ پاکستان کسی انقلاب یا لشکر کشی کے ذریعے وجود میں نہیںآیا تھا، بلکہ اللہ نے یہ ملک ہمیں قائداعظمؒ کی قیادت میں سیاسی عمل اور سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے عطا کیا ہے، جس کے لیے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے طویل اور صبر آزما سیاسی جدوجہد کی تھی ۔ اس کی بقا، سلامتی اور ترقی کے لیے بھی آئین کی بالادستی تسلیم کرنے والی سیاسی جماعتوں کا وجود ضروری، اور سیاسی عمل کا تسلسل ناگزیر ہے۔ البتہ ہماری سیاسی جماعتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اندر جمہوری روایات کو پنپنے دیں۔ جماعتوں میں داخلی طور پر جمہوریت کے فقدان نے ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر غیر جمہوری اندازِ فکر کی حامل قوتوں کا عمل دخل خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے، جس کی وجہ سے سیاست رسوا اور سیاسی قائدین کی راست بازی پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔
ہمیں تینوں کا حال اللہ کی علیم و خبیر ذات پر چھوڑ دینا چاہیے، جس کے سوا دلوں میں چھپے بھیدوں کا حال کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ اس لیے یہ بحث اب ختم ہونی چاہیے کہ حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے اپنے پارلیمنٹ کے ارکان کو سروس ایکٹ ترمیمی بل کی غیر مشروط حمایت کرنے کی ہدایت بقول فیصل واوڈا کے ’’فوجی بوٹ‘‘ کے دبائو میں کی تھی، یا مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے بقول اس کا مقصد فوج کے ادارے کو غیر متنازع رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ تاہم یہ سوالات اپنی جگہ بالکل درست ہیں کہ اس میں اتنی عجلت کیوں کی گئی؟ اگر معروف مسلمہ جمہوری روایات کے مطابق پہلے ان جماعتوں کی ورکنگ کمیٹیوں میں اس پر مکمل بحث کے بعد اس کی منظوری لی جاتی اور بعدازاں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس طرح کی عجلت کے بجائے عام قانون سازی کے بل کے مروجہ طریقہ کار اور پارلیمانی روایات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا اور پارلیمنٹ کے ارکان کو اس پر صحت مندانہ بحث کا موقع فراہم کردیا جاتا تو یہ قانون سازی زیادہ بہتر انداز میں ہوتی اور اس پر اس وقت طرح طرح کی چہ میگوئیاں بھی نہ ہورہی ہوتیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پارلیمنٹ کو آرمی ایکٹ میں چیف کی تقرری کے حوالے سے موجود سقم کو دور کرنے کے لیے چھے ماہ کے اندر قانون سازی تو کرنی تھی۔ آئین کے تحت سروسز چیف کی تقرری وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔
اس سے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ کیسے ختم ہوگیا ہے! ویسے عرض یہ ہے کہ اس بیانیے کو میاں نوازشریف نے اپنایا تھا۔ یہ بیانیہ ’’آئینِ پاکستان‘‘ کا ہے، جس پر عمل درآمد کرنے کا ریاست کا ہر فرد اور ہر ادارہ پابند ہے۔ ملک دولخت اس بیانیے سے انحراف کی وجہ سے ہوا ہے، اور آج جن مشکلات سے دوچار ہے اس کا ایک بڑا سبب بھی اس سے انحراف ہے۔ رہی بات توسیع کی، تو پیپلزپارٹی تو اپنے دور میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کو توسیع دے چکی تھی، البتہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے خود کسی آرمی چیف کو توسیع دی تھی اور نہ ہی جب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے توسیع دی تھی تو اس کی تائید کی تھی۔ البتہ اگست 2019ء میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو وزیراعظم عمران خان نے توسیع دی تھی تو میاں نوازشریف سمیت پوری حزبِ اختلاف نے اسے ایشو بنانے سے احتراز کیا تھا۔ اگر یہ معاملہ عدالت میں نہ جاتا تو آج اس پر کوئی بات بھی نہ کررہا ہوتا۔ خیر، جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا، اب آگے چلنا ہے۔ عافیت اور سلامتی اسی میں ہے کہ آئندہ سب کے لیے پوائنٹ آف ریفرنس ’’آئینِ پاکستان‘‘ ہو۔ امورِ مملکت اسی کے طے کردہ بیرومیٹر کے دائرۂ کار کے اندر رہ کر انجام دیے جائیں گے تو ملک قائداعظم کے وژن کے مطابق آگے بڑھے گا۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا آئین کے تحت قائم ریاستی ادارے… سب کا دائرۂ کار آئین نے طے کردیا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بطور حکمران بھی اور بطور پارٹی سربراہ بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائداعظم کے کردار کو اپنا رول ماڈل بنانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے سیاسی کلچر کو اپنانا بھی ضروری ہے، جس میں پارٹی کے اندر بھی اختلافِ رائے کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہوگا، اور پارٹی مخالف سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر بھی تحمل، رواداری کے ساتھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ قائداعظم نے بطور سیاسی جماعت کے سربراہ اسی کلچر کو اپنایا تھا۔ قائداعظم کی زندگی کا بطور گورنر جنرل پاکستان اور بطور صدر آل انڈیا مسلم لیگ جائزہ لیں تو آپ کو ہر جگہ قانون، ضابطوں کی پابندی اور جمہوری اندازِ فکر نظر آئے گا۔ سابق وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی (مرحوم) نے اپنی تصنیف”Creation of Pakistan” (جس کا اردو ترجمہ ’’ظہورِ پاکستان‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے) میں لکھا ہے کہ جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ِملت خان لیاقت علی خان کی خواہش پر قائداعظم سے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرنے کی درخواست کی گئی تو قائداعظم کی ہدایت پر اس کی باقاعدہ کابینہ سے منظوری لی گئی۔ کابینہ نے اس کی منظوری دیتے وقت یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی تھی کہ یہ اجازت قائداعظم کے لیے ہے جو بابائے قوم ہیں۔ تاکہ اس اجازت کو کسی دوسرے سربراہِ مملکت کے لیے مثال نہ بنایا جاسکے۔ قائداعظم کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کے ہونے والے تمام اجلاسوں کی روداد پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہاں ایشوز پر کس طرح کھلی بحث ہوا کرتی تھی۔ ورکنگ کمیٹی کے سالانہ اجلاس کے لیے تو ایجنڈا پارٹی کے سیکرٹری جنرل نواب زادہ لیاقت علی خان اجلاس سے ہفتوں پہلے جاری کر دیا کرتے تھے، تاہم اگر کسی موقع پر ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہنگامی طور پر بلانا پڑتاتب بھی ہنگامی طور پر ارکان کو فون یا ٹیلی گرام کے ذریعے ایجنڈے کے بارے میں مطلع کیا جاتا تھا۔ اور تمام ارکان زیر بحث ایجنڈے پر کھل کر بات کیا کرتے تھے۔ ورکنگ کمیٹی کے ارکان تیاری کے ساتھ آتے تھے۔ قائداعظم اور تحریکِ پاکستان پر کام کرنے والے معروف مستند محقق سابق ڈائریکٹر قائداعظم اکیڈمی خواجہ رضی حیدر نے تصدیق کی ہے کہ قائداعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاسوں میں ایجنڈے اور پارٹی پالیسی پر کھلا بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور قائداعظم بطور صدر اور نواب زادہ خان لیاقت علی خان بطور سیکرٹری جنرل جب برطانوی حکومت کے کسی بھی نمائندے یا دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کرتے تو اُن سے ہونے والی گفتگو پر ورکنگ کمیٹی کو اعتماد میں لیتے تھے ۔ قائداعظم نے دسمبر1947ء میں اپنی سرکاری رہائش گاہ گورنر جنرل ہائوس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ سربراہِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ یا دفتر میں کسی سیاسی جماعت کا اجلاس نہیں ہوسکتا، مسلم لیگ اس مقصد کے لیے کرایہ پر کوئی ہال لے، میں خود وہاں آجائوں گا۔ جس کے بعد خالق دینا ہال میں وہ اجلاس ہوا تھا جس میں قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہو کر جماعتی سیاست کو خیر باد کہا تھا۔
پارٹی اجلاس میں ارکان اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے وقت سخت تنقید بھی کرتے تھے، مگر قائداعظم نے کبھی کسی کی تنقید کا برا منانے کے بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ تنقید کرنے والوں میں سرفہرست مولانا حسرت موہانی مرحوم و مغفور ہوا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ قائد اعظم کے کئی دوسرے بہت قریبی دوست بھی سخت تنقید کرتے تھے۔ خواجہ رضی حیدر نے بتایا کہ ایک جلسہ عام میں مولانا حسرت موہانی نے قائداعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے فیصلے کو ہدفِ تنقید بنایا تو اسٹیج پر موجود بعض مسلم لیگی رہنمائوں نے مولانا حسرت سے کہا کہ یہ اس کا موقع و محل نہیں ہے، تو قائداعظم اپنی نشست سے اٹھے اور مائیک پر آ کر کہا کہ مولانا حسرت موہانی کو کوئی منع نہ کرے، مولانا کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی قیادت کا بر سرِعام محاسبہ کریں۔
نواب اسماعیل خان ایک اجلاس میں قائداعظم کی کسی بات پر ناراض ہو کر اجلاس سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ مجھے نہ تو پارٹی سے کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی پارٹی کے مقاصد سے، اور نہ پارٹی چھوڑ رہا ہوں۔ اُن کے جانے کے بعد قائد اعظم کو توجہ دلائی گئی کہ نواب صاحب کا اس مرحلے پر اس طرح چلے جانا پارٹی کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا، جس پر قائداعظم نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل خان لیاقت علی خان کو کہا کہ نواب زادہ صاحب آپ ان کو منا کر لائیں۔ تو انہوں نے بلا تکلف جواب دیا: اگر وہ پارٹی سے ناراض ہو کر جاتے تو بحیثیت سیکرٹری جنرل میری ذمہ داری تھی کہ میں ان کو منا کر لائوں، مگر وہ تو جناب سے ناراض ہو کر گئے ہیں، یہ کام تو آپ کو کرنا ہوگا، البتہ ہم سب آپ کے ہمرکاب ہوں گے۔ یہ سنتے ہی قائداعظم ایک لمحہ ضائع کیے بغیر چلنے کو تیار ہوگئے اور ان کو منانے میرٹھ گئے۔ نواب اسماعیل خان کو دروازے پر ہی کہہ دیا تھا کہ نواب صاحب آپ ایک منٹ میں مان جائیں، یا ایک دن میں، ایک ہفتے میں یا ایک ماہ میں، میں آپ کے بغیر نہیں جائوں گا۔ جس پر نواب زادہ لیاقت علی خان نے نواب اسماعیل خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نواب صاحب آپ کی شکایت کا ازالہ ہو گیا ہے۔ جس کے بعد دروازے پر ہی دونوں بغل گیر ہوگئے۔
سیاست میں ’’فوجی ڈسپلن‘‘ نہیں چلا کرتا۔ سیاست تو ’’مکالمے‘‘ کے ذریعے افہام و تفہیم سے آگے بڑھتی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سروس ترمیمی بل پر پارٹی کے اندر بحث کے بعد اتفاقِ رائے کرتے تو میڈیا سوالات نہ اٹھا رہا ہوتا۔ میڈیا کا تو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے کام ہی سوال اٹھانا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ پارٹی کے وہ ارکان اب کیوں شرمندہ ہیں جنہوں نے لندن میں تو جناب نوازشریف کی موجودگی میں قرآن پاک پر حلف اٹھاتے وقت کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا اور نہ ہی اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا، اور نہ ہی اُس وقت اس فیصلے پر کسی شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔ اب محترمہ مریم نواز صاحبہ کے بارے میں یہ بات کہنا بے معنی ہے کہ اُن کو اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ یہ ذمہ داری تو اُن کے والد میاں نوازشریف کی تھی، کسی اور کی نہیں۔ ا گر انہوں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی تو دوسرے کیوں اس کی وضاحتیں پیش کرتے پھر رہے ہیں! سیاست کوئی مشغلہ نہیں ہے بلکہ ایک سنجیدہ اور کُل وقتی کام ہے، جس میں ہولی ڈیز کا کوئی تصور نہیں ہے کہ جب ضرورت ہو متحرک اور فعال ہوجائیں، اور جب چاہیں خاموش۔
لندن میں ہونے والے اجلاس کی میڈیا میں جو تفصیل سامنے آئی ہے اس نے میاں شہبازشریف کے بارے میں اس تاثر کو ضرور ختم کردیا ہے کہ اُن کا مؤقف اور اُن کے قائد اور بھائی کا مؤقف الگ الگ ہوتا ہے۔ حکمتِ عملی کی بات اور ہے، وہ ہمیشہ الگ الگ نظر آتی ہے، اور شاید آئندہ بھی نظر آئے۔