کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت اور مسلم ممالک میں اتفاق کی ضرورت
پاکستان کو ریاستی سطح پر کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ہماری سیاست اپنی جگہ، لیکن ریاست سے جڑے مفادات کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ عمومی طور پر حکومت اور ریاست کے درمیان جو فرق ہوتا ہے ہم اُسے نظرانداز کرکے ایک ایسا مؤقف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ریاست کے مفادات سے ٹکرائو پیدا کرتا ہے۔ داخلی اور خارجی مسائل کو بنیاد بناکر ہم ایک ایسے حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں جو ریاست، حکومت اور معاشرے کے باہمی تعلق کو مضبوط بنائے۔ بداعتمادی کی سیاست چاہے وہ کسی بھی فریق کے بارے میں ہو، ریاستی امور کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔
ریاست سے مراد تمام اداروں کا اپنے اپنے قانونی اور انتظامی دائرۂ کار میں کام کرنا، اورایک دوسرے کی مدد سے معاونت کا عمل پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس ہم ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت کے بجائے الزام تراشیوں کی مدد سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو یقینی طور پر اس کا نتیجہ اداروں کے درمیان ٹکرائو پیدا کرتا ہے، جو عملی طور پر ریاستی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔
پچھلے دنوں کوالالمپور کانفرنس کے تناظر میں پاکستان کی شرکت یا عدم شرکت کے حوالے سے ماحول میں خاصی تلخی نظر آئی۔ میڈیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ریاست اور حکومت نے اپنی کمزوری اور سعودی عرب کے دبائو پر اس کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ کرکے ریاستی مفاد کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ بھی وزیراعظم عمران خان کا تھا اور انہوں نے ہی اس فیصلے پر ملائشیا اور ترکی کو اعتماد میں لیا تھا تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ دنیا میں اسلامو فوبیا کے حوالے سے تھا۔ خیال یہ کیا گیا تھا کہ ہمیں مل کر دنیا میں اسلام مخالف پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہے، اور اس کے لیے ہمیں اپنا ایک علیحدہ میڈیا بھی چلانا ہوگا۔ یہ کانفرنس اسی نکتے کے گرد گھومتی تھی۔ اس میں پاکستان، ترکی اورملائشیا شامل تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت کیوں نہیں کی اوراس کے پیچھے کیا وجوہات تھیں؟ اس سلسلے میں چار پہلو ایسے ہیں جن پر مسائل سامنے آئے:
(1) پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر اس کانفرنس میں قطر اور ایران کو شامل کیا گیا۔
(2) یہ تاثر کانفرنس کی ابتدا ہی میں قائم کیا گیا کہ غالباً یہ کانفرنس او آئی سی کا متبادل کوئی فورم ہے جسے قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
(3) اس کانفرنس کے انعقاد یا اس کی تاریخ رکھنے سے قبل سعودی عرب کے تحفظات دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اورسعودی عرب میں یہ تاثر گیا کہ یہ کانفرنس ان کے مفادات کے خلاف ہے، اور اس کانفرنس کو بنیاد بناکر کوئی پسِ پردہ سازش تیار کی گئی ہے۔
(4) پاکستان نے اس کانفرنس میں قطر اور ایران کی شمولیت پر اعتماد میں نہ لینے پر کوئی بڑ ے سوالات نہیں اٹھائے۔ یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب اس کانفرنس میں پاکستان کی اپنی شمولیت کے بارے میں بھی تحفظات رکھتا تھا۔
اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی شکل میں سعودی عرب کے تحفظات کو دور کرسکیں، اور کوشش کریں کہ اعتماد کا جو بحران سامنے آیا ہے اسے ختم کیا جاسکے۔ لیکن جب یہ ممکن نہ ہوسکا تو پاکستان نے یقینی طور پر اپنے ریاستی مفادات کو سامنے رکھ کر اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ اس کانفرنس میں اگر ہم مہاتیر محمد کی تقریر کو دیکھیں تو انہوں نے بھی اس نکتے پر زور دیا کہ اس کانفرنس کو او آئی سی کے متبادل فورم کے طور پر دیکھنا درست نہیں۔ کیونکہ مہاتیرمحمد کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ سعودی عرب میں اس پر خاصے تحفظات ہیں۔ خود مہاتیر محمد نے سیاسی اور سفارتی سطح پر کانفرنس کے انعقاد سے قبل سعودی عرب کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی، مگر یہ کوشش تاخیر سے کی گئی جو نتیجہ خیز نہ ہوسکی۔
پاکستان میں اس کانفرنس میں عدم شرکت پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اور اس تنقید میں ریاستی اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لیکن ایسی صورتِ حال میں جب کانفرنس سے زیادہ ریاست کا مفاد اہم تھا تو ہمیں وہی کچھ کرنا پڑا جو کرنا چاہیے تھا۔ یقینی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کا یہ فیصلہ کوئی پاپولر فیصلہ نہیں تھا، اسے بہتر فیصلہ قرار دیا جاسکتاہے کیونکہ ہم اس وقت سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بگاڑ کر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ جبکہ تمام متعلقہ ملکوں کو اعتماد میں لے کر اس طرز کی کانفرنس دوبارہ بھی منعقد کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ کانفرنس کا مقصد کسی بڑی تقسیم کو پیدا کرنے کے بجائے اتفاق پر مبنی فیصلہ سازی ہونا چاہیے جو سب کے مفاد میں ہو۔
یقینی طور پر ترکی اور ملائشیا میں ہماری عدم شرکت کو نہ صرف محسوس کیاگیا بلکہ اسے اچھی نظر سے بھی نہیں دیکھا گیا۔ لیکن ان دونوں ملکوں کو بھی اندازہ ہے کہ ہماری سفارتی سطح پر کیا سیاسی اور انتظامی مجبوریاں ہیں، جس کا اعتراف مہاتیر محمد نے کیا بھی ہے۔ اس لیے ہمیں فوری طور پر اپنی ریاست اور حکومت کے خلاف محاذ بنانے کے بجائے کچھ سنجیدہ انداز میں بھی اپنی فکر کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ہم کیسے اعتدال پر مبنی سیاست اور پالیسیوں کو لے کر آگے بڑھ سکتے ہیں جو ہمارے مفادات کو تقویت دے سکیں۔
اب بھی ہماری ریاستی و حکومتی پالیسی یہی ہونی چاہیے کہ ہم اس وقت دنیا اور بالخصوص عرب دنیا کے معاملات میں براہِ راست کسی کے فریق بننے کے بجائے ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو سب کے درمیان موجود مسائل کو کم کرسکے۔کیونکہ عرب دنیا میں جو تقسیم نسل یا فرقوں کی بنیاد پر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ہمارے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کانفرنس میں ہماری جانب سے عدم شرکت کا جو فیصلہ کیا گیا اُسے بہترطور پر ہم اپنے حق میں ایک مضبوط بیانیے کے طور پر پیش نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں نہ صرف ہم نے مایوسی دیکھی بلکہ ماحول کو بھی جذباتی رنگ میں ڈھالا گیا۔ حالانکہ خارجہ پالیسی کے فیصلے جذبات کی بنیاد پر نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات فیصلے عملاً درست ہوتے ہیں مگر عوام میں وہ غیر مقبول سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم اس کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرتے تو یقینی طور پر اس سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں کچھ مسائل پیدا ہوتے۔ اس لیے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے باہمی مشورے سے جو فیصلہ کیا وہ یقینی طور پر قومی مفاد ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ ویسے اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل پاکستان سمیت ترکی اور ملائشیا کی سطح پر بھی کچھ خامیاں رہ گئی تھیں، اور اگر تینوں ملک تاریخ کے تعین سے قبل سعودی عرب کو اعتماد میں لے کر اُس کے تحفظات کو دور کرتے تو یہ صورتِ حال پیدا نہ ہوتی جو ہمیں تنقید کی صورت میں دیکھنے کو ملی ہے۔
اسی طرح افغانستان کے بحران کے حل میں بھی ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے جس انداز سے اپنے کارڈ کھیلے ہیں وہ ہماری اہمیت کو عملاً اجاگر کرتے ہیں۔ امریکہ، افغان حکومت، طالبان اور چین سمیت سب سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر افغان بحران کا حل ممکن نہیں ہوگا۔ اِس بار ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک مشکل صورتِ حال میں افغان بحران کے حل میں مثبت کردار ادا کیا ہے جس کی ہر سطح پر تعریف بھی کی جارہی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی، امن پسندی اور سب کے ساتھ بہتر تعلقات، اورکسی کی جنگ میں فریق نہ بننے کے فیصلے کو بھی پذیرائی ملی ہے۔ بھارت کی جارحانہ اور شدت پسندی پر مبنی پالیسی پر بھی ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے تحمل اوربردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہتر تعلقات کی بحالی اورامن، ترقی و خوشحالی کے مشن کو آگے لے جانے کے ایجنڈے کو تقویت دے کر خود بھارت کو عالمی سیاست میں دبائو کی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔