محمد بن زکریا الرازی :پہلا عظیم مسلم طبیب
مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
تاریخ گُم گَشتہ۔چھٹا باب
۔’’اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔‘‘(سورہ شعراء، آیت 80)۔
بغداد، 865 عیسوی… قطب نما کے ہر رخ پر اذانیں گونج رہی تھیں، صبح تڑکے شہر بیدار ہورہا تھا، نکلتے دن تلے مساجد کے مینار اور گنبد چمک رہے تھے۔ گھوڑوں کی ٹاپیں دھول اڑاتی راستوں سے گزر رہی تھیں، اونٹ دھیمی چال میں پُلوں سے ہوکر شہر میں داخل ہورہے تھے۔ ہزاروں مرد وخواتین یہاں سے وہاں آجا رہے تھے۔ بڑے مکانات کی کھڑکیوں کے پیچھے ہنسی کی آوازیں آرہی تھیں، سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں، اور دلائل و مباحث چھڑے ہوئے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے 230 سال بعد، عظیم مسلم شہروں میں زندگی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ سیکڑوں ہزاروں انسان ریگستانوں اور چھوٹی چھوٹی بستیوں سے نکل کر جدید زندگی کے دھارے میں شامل ہورہے تھے۔ ان شہروں کی زندگی علم دوستی کے جذبے سے جِلا پارہی تھی۔ یہ عین تعلیماتِ نبوی کے مطابق تھی۔ صاف ستھری صحت مند معاشرہ سازی ان ترقی یافتہ بستیوں کا نمایاں وصف تھا۔ شہری زندگی کی یہ تنظیم و تہذیب مسلمانوں کے لیے کتنی اہم تھی؟ مفکرین، محققین، اور فن کاروں کے لیے یہ ذرائع روزگارکی ضامن تھی، اس کا مطلب کتب خانوں کا فروغ تھا، اس کا مطلب دانش کدوں اور علمی مراکز کی پذیرائی تھا، اس سے مراد عظیم دماغوں میں تعامل، مباحث اورمسابقت تھی، کائناتی جوابوں کی جستجو تھی۔ اس کا مطلب تہذیب اور شائستگی کا دور دورہ، ایسے پُرشکوہ محلات جو اعلیٰ تصورات اور اعلیٰ خیالات کی آماجگاہ تھے، ایسے علم دوست مراکز جہاں جدوجہد روٹی، کپڑے اور مکان کی سطح سے بہت بلند تھی۔ حکمرانوں کے لیے ان شہروں کا مطلب شاندار یادگاریں اور تاریخ ساز ’’سنگِ بنیاد‘‘تھے۔ مساجد اور محلات فنِ تعمیرکا شاہکار تھے، اعلیٰ ذوق اوراعلیٰ ارادوں کے عکاس تھے۔ تاجروں کے لیے ان شہروں کا مطلب ترقی کے سنہرے مواقع تھا، عورتوں کے لیے خاندان کی بہترین نشوونما تھی۔ یہ شہر بہترین زندگی کی پیشکش کررہے تھے۔ محصولات کا نہایت دیانت دارانہ استعمال صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ مکانوں تک صاف پانی کی فراہمی، شاہراہوں ، عمارتوں، بازاروں، مدرسوں، اور مساجد کی تعمیر پر محصولات کا بھرپور استعمال ہوتا تھا۔ یہ شہر صحتِ عامہ کی سہولیات بھی پہنچا رہے تھے۔کیونکہ جن بڑے بھرے پُرے شہروں میں لاکھوں نفوس کی رہائش اور متواتر آمدورفت ہو، وہاں صحتِ عامہ پر سمجھوتا وباؤں اور جراثیم زدہ امراض کے پھیلاؤ کا سبب ہوسکتا تھا، اس لیے کوئی سمجھوتا نہ کیا گیا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ فرد کی صحت ہی معاشرے کی صحت ہے خواہ وہ خلیفۂ وقت ہو یا پانی بیچنے والا۔
سن 865ء کا زمانہ ہے، منحنی سا باریش طبیب جو عباسی امراء کا سرکاری معالج ہے، دوپہر کے وقت ایک شاگرد کے پاس کھانے پر ٹھیر جاتا ہے، یہ جگہ دارالحکمت سے قریب ہی ہے۔ ایک فارسی لڑکا جس کا ذہن غیر معمولی ہے، جوشہر رے سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آیا تھا۔ کھانے کے بعد یہ دونوں ایک لاش میں سے حاصل شدہ زرد مائع گول شیشی میں منتقل کرنے لگے۔ ’’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جالینوس کا نظریہ خلطیت درست ہے؟‘‘ شاگرد نے استاد سے پوچھا، کوئی جواب نہ ملا۔ ایک وجہ تویہ تھی کہ جالینوس کے نظریات پر شاید ہی کسی نے سنجیدہ سوال اٹھانے کی کبھی پہلے یوں جرأت کی ہو۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ خود شاگرد کے اندر ہی جالینوس کی تحقیق پر سوال یوں سر اٹھا رہے تھے۔ ’’ہوسکتا ہے کہ ہم دونوں مشترکہ طور پر جالینوس کی کتاب پرکوئی کام شروع کریں‘‘استاد نے ذرا توقف کے بعد کہا۔ شاگرد کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ ’’مگر میں تمھیں خبردارکرتا ہوں: بہت سارے ماتھوں پر بل پڑجائیں گے کہ آخر کس طرح جالینوس پر سوال اٹھا دیے گئے۔‘‘ یہ استاد قدیم یہودی خاندان سہل سے تھا، یہ لوگ شہر مروکے رہنے والے تھے۔ اب یہ استاد اسلام قبول کرچکا تھا، نام اس کا علی ابن سہل الطبری تھا۔
یونانی مفکر اور طبیب جالینوس کے سارے کام پر الطبری کی گہری نظر تھی، اُس کی رائے اس معاملے میں سند کا درجہ رکھتی تھی۔ فارسی شاگرد کا نام زکریا الرازی تھا۔
یونانی جالینوس انھیں علم طب کی نئی راہیں سجھا رہا تھا۔ تیرہ سو سال بعد تک بازنطینیوں، مسلمانوں اور یورپیوں کے لیے جالینوس علمِ طب میں، بطلیموس علمِ اجرام فلکی میں، اور ارسطو منطق میں رہنما تھا۔ جالینوس نے انسانی جسم کا علم اور ممکنہ معلومات وضع کی تھیں، ان میں سے چند پیش بین ثابت ہوئیں، جبکہ اکثر غلط نکلیں۔ تاہم اُس نے نہ صرف علم طب میں ابتدائی نظری معلومات جمع کی تھیں بلکہ وہ انھیں براہِ راست جانچ بھی رہا تھا، زندہ خنزیروں کی چیرپھاڑ کرکے اعضاء کی خاصیتوں کا مشاہدہ کررہا تھا، کہ آیا وہ کس طرح اور کیا کام کرتے ہیں۔ اُس نے ایک زندہ خنزیر کی ریڑھ کی ہڈی توڑکرظاہر کیا کہ کس طرح جسم مفلوج (paralysis) ہوتا ہے۔ اسی طرح اُس نے گُردے کا کام واضح کیا۔ اُس نے دھڑکتے ہوئے دل کا مشاہدہ کیا، پھیپھڑوں میں خون کے اتار چڑھاؤ کودیکھا۔ جالینوس نے زندہ انسانوں کی سرجری بھی کی، یہاں تک کہ عارضی طور پر دل کی دھڑکن بھی ساکت کی تاکہ آنکھوں کا موتیا صاف کرسکے۔ وہ عدسہ چشم کے پیچھے سے، عین آنکھ میں سوئی داخل کرتا اور موتیا کھینچ لیتا۔ ایک ایسا عملِ جراحی جس میں ہاتھ یا سوئی کی ذرا سی لغزش مریض کی آنکھ ضائع کردے، یا اس سے بدتر کوئی صورت پیدا کردے۔
سلطنتِ روم کے زرخیز دور میں، رواقی فلسفی مارکس اؤریلیس کی بادشاہت کا زمانہ تھا، جالینوس باقاعدگی سے زندہ اعضاء کے تعامل پرتحقیق کررہا تھا۔ وہ چوتھی صدی قبل مسیح کے یونانی طبیب ہیپوکریٹس کی پیروی کررہا تھا۔
ابتدائی مسلمانوں کی طرح الطبری کے لیے جالینوس مذہبی طور پر قابلِ قبول تھا، کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ تمام اعضاء کی زندگی اور حرکت ایک ہی ذریعے سے وقوع پذیر ہورہی ہے۔ مسلم علماء کے لیے یہ بات عقیدۂ توحید کے مطابق تھی، کہ زندگی کے سارے سوتے خدائے واحد کی کُن فیکون سے پھوٹتے تھے۔
مگر اب نویں صدی میں، پہلی بار جالینوس کا واسطہ سنجیدہ مسابقت سے پڑنے والا تھا، کہ جب الطبری جیسے مسلم ماہرینِ طب بہتر طریقوں اور نئے زاویوں پرکام کررہے تھے۔ اُس وقت کے یورپیوں کی طرح مسلمان کسی توہم پرستی یا علم دشمنی میں جکڑے ہوئے نہیں تھے، رواقی عیسائیوں کی مانند یہ یقین بھی نہ رکھتے تھے کہ دنیا کی زندگی درد والم سے بھری ہے اور اسے سہنا ناگزیر ہے تاکہ روح پاک ہوسکے اور جنت مل سکے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ انسانی جسم گناہوں اور خرابیوں کی آماجگاہ ہے۔ اُن کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متواتر کئی بار طبی معاملات میں نہ صرف رہنمائی کی بلکہ جدید میڈیکل سائنس کے لیے کئی طبی حقائق مہیا کیے۔ سو جہاں سے یونانی جراح جالینوس نے علمِ طب چھوڑا، مسلمانوں نے وہاں سے اُسے آگے بڑھایا۔
’’جالینوس کا علم طب درحقیقت ہیپوکریٹس کا ہی علم طب ہے‘‘، طبری نے کہا، اور الرازی نے اثبات میں سرہلایا۔ ’’جسم چار بنیادی عناصر کا مرکب ہے: آگ، مٹی، پانی، اور ہوا۔ یہ جسم میں زرد صفرا، سیاہ صفرا، خون، اور بلغم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے‘‘۔ ’’اور اگر جسم میں ان کے علاوہ بھی کچھ کام کرتا ہے تو؟‘‘ طبری نے تجسس کا اظہار کیا۔ وہ شاگرد کے سوال کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ’’مثال کے طور پر یہ گول شیشی دیکھو، اس میں بہت سارے عناصر کا مرکب ہے کہ جنھیں ہم علیحدہ نہیں کرسکتے۔ یقیناً ہیپوکریٹس اپنی بہترین کوشش کررہا تھا، مگر یہ بات ایک ہزار سال پرانی ہے۔‘‘
دوپہر کے کھانے کے بعد، ان دونوں نے انسانی جسم کے اعضاء کا مطالعہ پھرشروع کیا، اسی لمحے طبری کو بھرپور طور پر یہ احساسِ مسرت ہوا کہ زکریا الرازی کئی دہائیوں تک علم طب میں اُس کا انتہائی مفید معاون ثابت ہونے والا ہے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا، استاد چند سال بعد انتقال کرگیا، جبکہ شاگرد اپنے گھر ’رے‘ لوٹ گیا۔ بعد ازاں وہ بغداد پہنچا جہاں دو عظیم تربیتی شفا خانے اُس کی سرپرستی میں ’’نئی تاریخِ طب‘‘ رقم کرنے والے تھے۔
جہاں علم طب کی تاریخ میں استاد الطبری کو حاشیوں میں جگہ ملی، زکریا الرازی پہلا عظیم مسلم طبیب کہلایا، جس کا کام لاطینی میں ترجمہ ہوا، اور جس نے یورپیوں کو جالینوس اور ہپوکریٹس سے ملوایا، اور مسلم علم طب سے بہرہ مند کیا۔ جہاں الطبری بھلادیا گیا وہاں الرازی یاد رکھا گیا۔ تاہم لاطینیوں نے اُسے Rhazes میں بدل ڈالا۔ ایک صدی بعد یورپیوں کی نظر میں تمام مسلم ماہرین طب میں Rhazes اورابن سینا عظیم ترین قرار پاچکے تھے۔
الرازی نے علم طب پر دوسو بڑے قلمی مسودے تحریر کیے، یہ دوا سازی کے ہر معلوم پہلو کا احاطہ کررہے تھے۔ ان میں فلسفہ، الکیمی، اور مابعدالطبیعات پر بھی عمدہ کام شامل تھا۔ وہ پہلا طبیب تھا جس نے عملی علاج کی سطح پر چیچک اور خسرہ کی علامتیں واضح کیں اور تشخیص کی، اور دونوں کا فرق نمایاں کیا۔ اپنی کتاب ’’الجدری والحصبہ‘‘ میں وہ لکھتا ہے:
’’چیچک کا پھوٹنا مسلسل بخار میں کمر درد کے بعد سامنے آتا ہے، ناک پر کھجلی اور بے خوابی اہم علامات ہیں۔ پھر مریض کے پورے جسم پر خارش شدت اختیار کرجاتی ہے۔ چہرے پر سوجن نمایاں ہوجاتی ہے، جوآتی جاتی رہتی ہے۔ دونوں گالوں اور آنکھوں کے گرد سرخی آجاتی ہے۔ طبیعت پر انتہائی بھاری پن آجاتا ہے۔ شدید بے چینی ہوتی ہے۔ گلے اور سینے میں درد شروع ہوجاتا ہے، سانس لینا اور کھانسنا دشوار ہوجاتا ہے (نوٹ: یہ فرق واضح رہنا چاہیے کہ بے چینی کی کیفیت خسرہ میں زیادہ نمایاں ہوتی ہے، جبکہ چیچک میںکمر کا درد زیادہ واضح ہوتا ہے)۔‘‘
رازی کی نظر میں، بیماری واضح طور پرجسمانی وجوہات کے سبب ہوتی ہے۔ یہ خدا کی طرف سے سزا نہیں ہوتی، جیسا کہ عیسائیوں میں توہم پرستی رائج تھی، اور اسی سبب کسی علاج اور حل کی طرف خیال تک نہ جاتا تھا۔ رازی نے توہم پرستی کی ہر قسم مسترد کردی، اور مرض کی کسی بھی ایسی وجہ کو ماننے سے انکار کردیا جس کی بنیاد مشاہداتی طبعی بنیاد پرنہ ہو۔ یہی وہ رجحان تھا جو اسے جالینوس پر کڑی تنقید کی جانب لے گیا۔ زکریا رازی نے یونانی طبیب جالینوس پر بھرپور اور مدلل تنقید لکھی، جسے دنیا نے ’’جالینوس پر شکوک‘‘ (Doubts about Galen)کے نام سے جانا۔ وہ لکھتا ہے: ’’میں نے اللہ جل شانہٗ سے دعا کی تھی کہ سچ تک میری ہدایت اور رہنمائی کر، تاکہ میں یہ کتاب تحریر کرسکوں۔ مجھے اس بات کا دلی دکھ ہے کہ اس عظیم آدمی پر نکتہ چینی کروں، جس کے سمندر جیسے علم سے میں نے بہت بار پیاس بجھائی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جالینوس میرے استاد اور میں اُن کا شاگرد ہوں۔ اگرچہ یہ تکریم اور تعریف مجھے جالینوس کے علمی نظریات پر تنقید سے باز نہیں رکھ سکی، اور ایسا ہی میں نے کیا، اُن کے بہت سے طبی نظریات اغلاط سے بھرپور ہیں۔ میں یہ شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ جالینوس نے مجھے اس اہم کام کے لیے چنا، اور اگر وہ زندہ ہوتے تو یقیناً مجھے مبارک باد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جالینوس کا مقصد بھی سچ کی تلاش تھا، روشنی کی جستجو تھا۔ میری شدید خواہش تھی کہ وہ حیات ہوتے اور دیکھتے کہ میں نے کیا شائع کیا ہے۔‘‘
رازی نے جالینوس کے نظریۂ خلطیت کو مسترد کردیا تھا۔ اُس نے امراض کے اسباب میں کیمیائی پہلوؤں پرتجرباتی تحقیق شرو ع کی، اور جالینوس کے ہوا، پانی، مٹی اور آگ کو ثانوی حیثیت دی۔ رازی نے مادے میں آتشگیریت، ملاحت، روغنی پن، اور سلفری صفات واضح کیں۔ اُس کے کاموں کے اہم نتائج میں الرجک ایستھما اور تپ کاہی کی اصل وجوہات کا سامنے آنا ہے۔ رازی نے یقین ظاہر کیا کہ فرد کی بیماری میں اُس کی خوراک اور رویہ بہت زیادہ ذمے دار ہوتے ہیں۔
محمد بن زکریا الرازی نے کیمیاوی دواسازی، طبی آلہ spatula، دواؤں کی گول شیشیاں، پارے کی آمیزش سے تیار مرہم ایجادکیا، اور سردرد، زکام، کھانسی، قبض، اور اعصابی تناؤکے طریقۂ علاج دریافت کیے۔ اُس نے معالجین پر سختی سے زوردیا کہ علم طب میں تحقیق اور تجربے کرتے رہیں اور بے بنیاد طریقوں سے دور رہیں ورنہ پیچھے رہ جائیں گے، کیونکہ علمِ طب تغیر پذیر ہے، یہاںکسی مقام پر مطمئن ہوکر بیٹھا نہیں جاسکتا۔ رازی نے پارے سے علاج کی آزمائشیں کیں، یہ پہلے بندروں پر اور پھر انسانوں پر کی گئیں۔ اپنے تجربات کے برسوں میں وہ کسی وقت آنکھیں جھلسا بیٹھا تھا، اور پھر اُس کی نظر انتہائی کمزور ہوتی چلی گئی۔ یوں اُسے علاج سے ہاتھ اٹھانے پڑے۔ سرطان اور کوڑھ جیسی مہلک بیماریوں کے علاج کی دریافتوں سے وہ محروم رہ گیا۔
اُس نے عام لوگوں کے لیے پہلا طبی ہدایت نامہ لکھا۔ وہ تدریس کے دور میں شاگردوں کے کئی گروہ اردگرد اکٹھے کرلیتا اور سوال شروع کرتا، اگر ایک گروہ جواب نہ دے پاتا تو اگلے گروہ کا رخ کرتا، اس طرح مسابقت کی دلچسپ فضا بنتی۔
اگرچہ رازی کو حکمرانوں کی حمایت حاصل رہی، مگر وہ غرباء سے بے پروا نہ رہا تھا۔ وہ مستحقین کا مفت علاج کیا کرتا تھا۔ کچھ کینہ پرور لوگوں نے الزام عائد کیا کہ رازی کے پاس عام دھات کو سونا بنانے کا کوئی نسخہ ہے، یہی سبب ہے جو غریبوں پر اتنا فیاض ہے۔ وہ جواب دیتا کہ کسی عام دھات کو سونے میں ڈھالنا ممکن نہیں ہے۔
زندگی کے آخری دور میں وہ ’’السیرت الفلسفہ‘‘ کے زیر عنوان لکھتا ہے:
’’میں اب تک طبی تحقیق، فلسفہ، دینیات، اور حکمت پر دو سو کتابیں، مضامین لکھ چکا ہوں۔ میں نے کبھی کسی بادشاہ کی سپاہ میں بطور سپاہی کام نہیں کیا، اور نہ ہی کوئی دفتری ملازمت اختیار کی، اور اگر کبھی کسی بادشاہ سے میری کوئی گفتگو ہوئی، موضوع کبھی علم طب سے دائیں بائیں نہیں گیا۔ جو مجھے جانتے ہیں، انھیں معلوم ہے میں نے کبھی بسیار خوری نہیں کی، اورکسی غلط کاری میں نہیں پڑا۔ علم تحقیق میں میری دلچسپی جیسا کہ لوگ جانتے ہیں، جوانی سے آج تک قائم ہے۔ علم طب کے لیے میری مستقل مزاجی اور محنت ہے جو اب تک اس موضوع پر بیس ہزار صفحات لکھ سکا ہوں۔ مزید یہ کہ میں نے اپنی زندگی کے پندرہ برس اس علم کو دیے ہیں، دن رات ایک کیے ہیں، کتاب ’’الحاوی فی الطب‘‘جیسی کتاب لکھنے میں یہ عرصہ صرف کیا ہے۔ اس دوران میری بینائی چلی گئی۔ میرے ہاتھوں میں رعشہ آگیا۔ آج میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیتوں سے معذور ہوں۔ مگر میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ دوسروں کی مدد سے پڑھنا لکھنا جاری رکھا۔ مجھے مخالفین کے سامنے اپنی شخصی کمزوریوں کا اعتراف ہے، میرا اصل مطمح نظر یہ ہے کہ وہ میری علمی کامیابیوں کوکس طرح سے دیکھتے ہیں۔ اگر وہ میری تحقیق کو غلط سمجھتے ہیں تو اپنے نظریات پیش کریں، اگر ان کے نظریات درست محسوس ہوئے تو میں سچے دل سے انھیں تسلیم کرلوں گا۔ تاہم اگر میں نے ان کے نظریات درست نہ پائے تو میں دلائل سے اپنا نکتہ نظر ان کے سامنے رکھوں گا۔ اگر ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے، تو میں اس بات پر خوشی محسوس کروں گا کہ میرے علمی کام کی قدر کی جائے۔‘‘
(جاری ہے)