ڈاکٹر عبدالمتین تحریک اسلامی کے مثالی رکن

جماعت اسلامی کے مخلص رکن اور امریکہ میں حلقۂ اسلامی کے معروف ممبر اور سابق سیکرٹری جنرل اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA) ڈاکٹر عبدالمتین 2 اگست 2019ء کی شب امریکہ کے شہر بالٹی مور میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالمتین سے کئی سال پر محیط دوستانہ مراسم رہے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں ہم سے جونیئر تھے، مگر اتنے بے تکلف کہ یوں محسوس ہوتا جیسے بچپن سے لنگوٹیے یار ہیں۔ قد درمیانہ بلکہ قدرے چھوٹا، ڈیل ڈول مضبوط اور جسم موٹا۔ جو بھی بات کرتے اُس کے لیے دلائل اُن کے پاس موجود ہوتے۔ بہت ہنس مکھ، مگر کبھی کبھار غصے میں آجاتے، لیکن اُن کا غصہ کسی معقول وجہ سے ہوا کرتا تھا۔ بنگالی لہجے میں اردو اور انگریزی میں گفتگو اُن کی زبان سے بہت لطف دیتی تھی۔
ڈاکٹر عبدالمتین کا تعلق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے تھا۔ مرحوم کی ذہانت وقابلیت بے مثال تھی۔ وہ ضلع پبنہ کے مردم خیز خطے میں ایک نیک صفت اور صاحبِ علم شخصیت جناب عبدالسبحان کے گھر سراج گنج کے علاقے میں 4 فروری 1951ء کو پیدا ہوئے۔ آج کل سراج گنج پبنہ سے الگ ضلع بن چکا ہے۔ ان کے والد مولانا مودودیؒ کی فکر سے متاثر اور مقامی جماعت کے کارکن تھے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق عبدالسبحان صاحب کو 1970ء میں شہید کردیا گیا تھا۔ وہ محب وطن اور پاکستان کے بہت بڑے حامی تھے۔ ضلع پبنہ سے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کو بہت اہم رہنما میسر آئے۔ عبدالمتین صاحب کے والد کے ہم نام جماعتی رہنما مولانا عبدالسبحان جو متحدہ پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے رکن رہے اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھی وہاں کی پارلیمان میں رکن منتخب ہوئے، اسی ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا آج کل نوّے سال سے اوپر کی عمر میں جیل میں مقید ہیں۔ ان کو بھی جعلی عدالت نے سزائے موت سنادی ہے۔
نظامی شہید سے نسبت
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر، بنگلہ دیش میں ممبر پارلیمان اور مرکزی وزیر، اپنے دورِ طالب علمی میں متحدہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ (چھاتروشنگھو) پاکستان کے آخری ناظم اعلیٰ جناب مطیع الرحمٰن نظامی شہید کا بھی اسی ضلع سے تعلق تھا۔ عبدالمتین صاحب اس حوالے سے مطیع الرحمٰن نظامی شہید سے اپنی نسبت پر فخر کیا کرتے تھے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر، مارک فیلڈ (برطانیہ) کے ڈائریکٹر جنرل اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ہم زلف، جانشین اور دستِ راست جناب ڈاکٹر مناظراحسن صاحب کا خاندان بھی پبنہ میں مقیم تھا۔ وہ اردو اسپیکنگ ہیں، مگر ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے تھے۔ ڈاکٹر مناظر صاحب 1970ء سے قبل برطانیہ چلے گئے تھے۔ وہیں سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انتہائی خوش اخلاق، ہنس مکھ اور ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔ اسلامک فاؤنڈیشن میں موصوف کی خدمات قابل تحسین ہیں۔
زندگی بھر فرسٹ کلاس فرسٹ
ڈاکٹر عبدالمتین نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی، اور پھر پبنہ کے بجائے راج شاہی، جو اُن کے گھر سے نسبتاً قریب تھا، کے اداروں میں اپنا سلسلۂ تعلیم جاری رکھا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک انھوں نے جتنے بھی اور جس ادارے سے بھی امتحان دیے، ان میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن پر کامیابی حاصل کی۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی میں 1969ء میں بی ایس میں داخلہ لیا، جہاں اپنی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) کے رکن تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد عبدالمتین صاحب کو والد صاحب کی شہادت کے علاوہ بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوئے۔ اللہ کے ساتھ تعلق اور توکل مثالی تھی۔ ان کے سبھی قریبی دوستوں نے ان کی رحلت کے بعد اس کا اظہار کیا۔
ریکارڈ ہولڈر
1974ء میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر بنگلہ دیش سے نقلِ مکانی کرنا پڑی۔ مرحوم نے بڑے مشکل مرحلوں کے ساتھ پاکستان کی طرف ہجرت کی اور کراچی میں مقیم ہوگئے۔ کراچی یونی ورسٹی سے دسمبر 1974ء میں مرحوم بی ایس زولوجی میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن پر کامیاب ہوئے۔ پھر اسی یونی ورسٹی سے دسمبر 1976ء میں ایم ایس سی کی ڈگری حیاتیاتِ حشرات (Entomoloogy) میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ انھوں نے یونی ورسٹی میں اپنے شعبے کے علاوہ بھی تمام شعبوں (Faculties) میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے اور ایک ناقابلِ شکست ریکارڈ قائم کیا۔
اعلیٰ درجے کے وظائف
عبدالمتین صاحب ذہین بھی تھے اور انتہائی محنتی بھی۔ ان کی تعلیمی پوزیشن کی وجہ سے انھیں قائداعظم اسکالر شپ سے نوازا گیا اور وہ کینیڈا میں میک گل (Mc Gill) یونی ورسٹی میں داخل ہوئے۔ یہاں سے مارچ 1983ء میں ایگری کلچر (حیاتیات) میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اکتوبر 1988ء میں اسکالرشپ پر ہی انھیں لندن یونی ورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ یہاں سے ستمبر 1990ء میں D.I.C کی ڈگری حاصل کی۔ یہ بھی حیاتیات سے متعلق اسی مضمون میں ان کی پی ایچ ڈی تھی۔ اپنی یہ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد انھوں نے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ اور کینیڈا میں قیام کے دوران اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کے رکن اور پھر 1982ء میں سیکرٹری جنرل بھی رہے۔
وطنِ عزیز سے محبت
اس زمانے میں ICNA امریکہ اور کینیڈا میں ایک ہی تنظیم کے طور پر کام کررہی تھی۔ بعد میں تنظیمی لحاظ سے دونوں ممالک میں الگ الگ نظم قائم ہوا۔ عبدالمتین صاحب کا سسرالی خاندان نیویارک امریکہ میں مقیم تھا۔ وہ خود کینیڈا میں مقیم ہوئے جہاں ان کے دو جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ اس عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان بلا رکاوٹ سفر کرتے رہتے تھے۔ ان کے دوست احباب ان کی پاکستان واپسی کے حق میں نہیں تھے، مگر ڈاکٹر عبدالمتین صاحب نے بڑے عزم کے ساتھ سب دوستوں کو کہا کہ میں اپنی خدمات اپنے وطنِ عزیز کے لیے پیش کروں گا۔ چنانچہ 1983ء میں وہ واپس آگئے۔ اسلام آباد کو اپنی رہائش کے لیے منتخب کیا، سرکاری ملازمت بھی مل گئی۔ ایگری کلچر ڈپارٹمنٹ میں اچھی پوسٹ پر ان کی تقرری ہوگئی۔ انھیں کئی اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کا شرف حاصل تھا۔ بعد میں وہ گریڈ 20کے افسر کے طور نیشنل ایگری کلچر ریسرچ کارپوریشن کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ مرحوم کو ان کے احباب اس زمانے میں ڈاکٹر احمد متین کے نام سے پکارتے تھے۔
ہر میدان میں کامیابی
عبدالمتین صاحب کئی زبانوں کے ماہر تھے۔ بیک وقت اپنی مادری زبان بنگالی، پاکستان کی قومی زبان اردو، پنجابی اور ہندی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ مرحوم کو ان کی زندگی میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، بیلجیم، ملائشیا اور پاکستان سے کئی اعلیٰ ایوارڈ ملے۔ یہ سب ان کی بے مثال تحقیق کے نتیجے میں دیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کئی یونی ورسٹیوں میں بطور ریسرچ ڈائریکٹر طلبہ وطالبات کے پی ایچ ڈی مقالہ جات میں گائیڈ کے فرائض سرانجام دیے۔ کئی ممالک میں عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی اور معروف تحقیقی سائنسی جرنلز میں ان کے بیسیوں مقالہ جات چھپے۔ اتنی زیادہ کامیابیاں درحقیقت ان کی غیرمعمولی شخصیت و قابلیت کا مظہر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مختلف کانفرنسوں کے سلسلے میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، آسٹریا، ہالینڈ، جاپان، مصر، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، اردن، ترکی، بنگلہ دیش، ملائشیا، ویت نام اور تھائی لینڈ کے کئی سفر کیے۔ ان کی مطبوعات کی تعداد 35 ہے، جبکہ غیر مطبوعہ مسودات بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
تحریک میں سرگرمی
پاکستان آتے ہی ڈاکٹر صاحب نے جماعت اسلامی کے پروگراموں میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کردیا۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق اُن کی رکنیت 26 اگست 1993ء کو منظور ہوئی۔ جب بے نظیر دوبارہ برسراقتدار آئیں تو پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ڈاکٹر عبدالمتین صاحب کو بنگالی اور جماعت اسلامی کی فکر کے حامل ہونے کی وجہ سے تنگ کرنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی مہارت اور قابلیت کی بنیاد پر بہت معروف زرعی سائنٹسٹ شمار ہوتے تھے۔ نامساعد حالات کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے بغیر حیل و حجت کے کام جاری رکھا اور اعلیٰ گریڈ میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ ملازمت سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی کے رکن کی حیثیت سے انھوں نے اسلام آباد کی مقامی جماعت میں بہت اخلاص اور محنت سے کام کیا۔ ان کی قابلیت اور جماعتی پروگراموں میں گہری دل چسپی کی وجہ سے انھیں خالد رحمٰن صاحب کی امارت میں بطور قیم کام کرنے کا بھی موقع ملا۔
بڑا دل، کھلے دروازے
پاکستان میں غالباً وہ ہیلپنگ ہینڈ امریکہ کے کنٹری ڈائریکٹر بھی رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اسلام آباد میں اپنی ایک فلاحی تنظیم ہیلپ ان نیڈ (Help in Need) بھی قائم کی، جس نے بہت سے مفلس افراد، طلبہ اور خاندانوں کی معاشی امداد کا اہتمام کیا۔ ان کے گھر کے دروازے سبھی دوستوں، بالخصوص مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ کئی نوجوانوں کی شادیوں کا اہتمام ڈاکٹر صاحب نے خود کیا۔ جماعت کے سینئر رکن اور ہمارے دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن جناب راؤ محمد اختر صاحب (والدِ زبیرصفدر، سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان) کے بقول برادر ابوالحسین اور برادر مطیع الرحمٰن کی بارات ان کے گھر سے روانہ ہوئی۔ مرحوم نے اس کا اہتمام بالکل یوں کیا جیسے کوئی شخص اپنے بھائی یا بیٹے کے لیے کرتا ہے۔
بچوں سے محبت
ماں باپ کو اپنے بچوں سے جو محبت ہوتی ہے، اسے ہر صاحبِ اولاد محسوس کرسکتا ہے۔ یہ ہر انسان کی فطرت میں اللہ نے ودیعت کی ہے۔ اسی محبت کے زیراثر سرکاری ملازمت سے فراغت کے کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب نے پھر امریکہ جانے کا فیصلہ کرلیا، کیونکہ ان کے بعض بچے اُس وقت تک امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے بڑے دو بیٹے تو پیدائشی طور پر کینیڈا کے شہری ہیں جو اس وقت وہیں مقیم ہیں۔ امریکہ میں عبدالمتین صاحب نے واشنگٹن کے قریب بالٹی مور میں رہائش اختیار کی۔ عبدالمتین صاحب کی شادی مشہور جماعتی شخصیت جناب امیرالدین حسینی کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ دونوں میاں بیوی تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ دونوں نے اپنے بچوں کی اسلامی تربیت پوری فرض شناسی کے ساتھ کی۔ اللہ نے ان کو تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ ان کے دونوں بڑے بیٹے عبدالرافع متین اور عبدالواسع متین جڑواں ہیں، جبکہ تیسرے بیٹے کا نام عبدالنافع متین ہے۔
اچھے رشتے، خوش قسمتی
خوش قسمتی سے مرحوم کے بچوں کے رشتے اللہ نے بہت ہی اچھے گھرانوں میں کرا دیے۔ ان کے بیٹے عبدالرافع متین کی شادی جماعت اسلامی کے نائب قیم اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر برادرم خالد رحمٰن صاحب کی بیٹی سے ہوئی۔ عبدالرافع کی تین بیٹیاں ہیں۔ دوسرے بیٹے عبدالواسع متین کی شادی مشہور کشمیری رہنما افلاک احمد صاحب کی بیٹی سے ہوئی۔ عبدالواسع کے پانچ بچے ہیں۔ اللہ کی قدرت سے ان میں سے بھی دو جڑواں ہیں۔ افلاک صاحب بہت عرصہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے رہے، آج کل اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ اسی طرح دیگر بچوں کی شادیاں بھی اچھے گھرانوں میں ہوگئیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے عبدالنافع متین کا نکاح ڈاکٹر صاحب کی وفات سے پہلے ہوگیا تھا۔ میاں بیوی اپنے بچوں کی اطاعت و وفا شعاری کی وجہ سے بہت خوش تھے۔
مہلک بیماری
ڈاکٹر عبدالمتین صاحب بڑے صاحبِ ہمت انسان تھے۔ زندگی میں بڑے امتحانوں سے گزرے، مگر کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے بھی مشکلات کا سامنا رہا، مگر پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک ہر امتحان میں پوزیشن ہولڈر رہے۔ آخری وقت میں زبان میں کینسر کی بیماری لاحق ہوگئی۔ اس کا علاج سال بھر ہوتا رہا اور بظاہر ڈاکٹر صاحب صحت مند ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ بیماری پھر عود کرآئی ہے۔ اب کینسر اتنا پھیل چکا تھا کہ لاعلاج قرار دے دیے گئے۔ پھیپھڑے بھی اس سے متاثر ہوگئے۔ اس کی وجہ سے وہ بات بھی نہیں کرسکتے تھے۔ لکھ کر بچوں سے گفت وشنید کرتے۔ سماعت ٹھیک تھی اور یادداشت اور ہوش وحواس بھی آخر تک ٹھیک رہے۔
الوداع
انسان اس دنیا میں مسافر ہے۔ آخر اس مسافر کی منزل بھی آپہنچی اور 2 اگست 2019ء کو تقریباً 69سال کی عمر میں وہ الوداع کہہ گئے۔ ان کے چاہنے والے پاکستان، بنگلہ دیش اور امریکہ، کینیڈا ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان کی وفات کی اطلاع قدرے تاخیر سے ملی۔ منصورہ مسجد میں ان کے لیے اجتماعی دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی تمام حسنات کو قبول کرتے ہوئے انسانی لغزشوں سے درگزر فرما کر اپنے مقرّب بندوں میں شامل کرلے۔ ہم مرحوم کے پسماندگان کے غم میں شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبرِجمیل اور اجرِ جزیل سے نوازے۔ آمین!