پیکر اخلاص و وفا مولانا فضل معبود

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اقامتِ دین کی جس جدوجہد کا آغاز بیسویں صدی کے دوسرے ربع میں کیا تھا، مولانا فضل معبود اس کے ایک مثالی کارکن اور فکرِ مودودیؒ کی ایک چلتی پھرتی تصویر تھے۔ ساری عمر اسلام، پاکستان اور جماعت اسلامی کی خدمت کے بعد جنوری 2007ء میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مولانا فضل معبود صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے گائوں ’’طورو‘‘ میں پیدا ہوئے اور 1936ء میں مردان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، جس کے دو سال بعد 1938ء میں جب کہ ابھی جماعت اسلامی کا قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا، پہلی مرتبہ کہیں سے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا شمارہ لے کر پڑھا اور سید مودودیؒ کی دعوت اور فکر سے متاثر ہوئے، مگر چونکہ ترجمان کے مستقل قاری نہیں تھے اس لیے انہیں اگست 1941ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل کی اطلاع نہ مل سکی۔ بعد میں نومبر 1941ء میں خود جاکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات کی اور ان کی فکر سے اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی، جس پر مولانا نے مسرت کا اظہار کیا۔ 1945ء میں پٹھان کوٹ میں جماعت اسلامی کا کُل ہند اجتماع منعقد ہوا تو صوبہ سرحد یعنی موجودہ صوبہ خیبر پختون خوا سے اس اجتماع میں جو بارہ افراد شریک ہوئے اُن میں ایک مولانا فضل معبود بھی تھے۔ ان بارہ میں سے جن سات شرکاء کو جماعت اسلامی کی رکنیت دی گئی ان میں مولانا فضل معبود کا نام بھی شامل تھا، جس کے بعد زندگی کے آخری سانس تک جماعت اسلامی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ سرتاپا جماعت اسلامی تھے۔ اس طویل رفاقت کے دوران کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آنے پائی۔
راہِ حق کی جدوجہد میں پیش آمدہ مصائب و مشکلات کو انہوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ جماعت اسلامی میں شمولیت کے وقت وہ ریلوے میں ملازمت کررہے تھے، بعد میں جب جماعت نے فیصلہ کیا کہ ارکانِ جماعت انگریز کی ملازمت نہیں کریں گے تو مولانا نے کسی پس و پیش کے بغیر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور آپ نے فکرِ معاش کو نصب العین کی راہ میں آڑے نہیں آنے دیا۔ اقامتِ دین کی خاطر قید و بند کی آزمائش میں بھی سرخرو رہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب جماعت اسلامی نے مشرقی پنجاب سے آنے والے لٹے پٹے مہاجرین کی مدد کے لیے امدادی کیمپ لگائے تو مولانا فضل معبود نے مردان سے لاہور آکر ان کیمپوں میں خدمات انجام دیں اور شب و روز انتھک محنت سے محض رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنے مہاجر بھائیوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے کوشاں رہے، مگر محض ایک سال بعد جب قائداعظم ستمبر 1948ء میں وفات پا گئے تو ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں آئی اُن میں اختلافِ رائے برداشت کرنے اور سچ سننے کی سکت نہیں تھی۔ چنانچہ ملک و قوم کی خدمت کا بے لوث جذبہ رکھنے والے اس مخلص کارکن کو محض نفاذِ اسلام کے مطالبے پر 5 نومبر 1948ء کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں انہوں نے 14 ماہ تک جرمِ بے گناہی کی سزا نہایت عزم و حوصلے اور صبرو استقامت سے کاٹی۔ دوسری بار 1954ء میں ایک سال کے لیے پسِ دیوارِ زنداں رہے۔ جب کہ 1964ء میں جب اُس وقت کے آمر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے جماعت اسلامی کی پوری مرکزی مجلسِ شوریٰ کو جیل میں ڈال دیا تو مولانا فضل معبود بھی آٹھ ماہ تک قید کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے مگر کبھی پیشانی کو شکن آلود نہیں ہونے دیا، بلکہ ایک صابر و شاکر مومن کی طرح اس آزمائش کے وقت بھی اپنے خالق و مالک سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں رہے اور جیل میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے مشکوٰۃ شریف کا باقاعدہ سبق لیتے رہے۔
1963ء میں جب آمرِ وقت ایوب خان کے حکم پر لاہور میں جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع پر گولی چلائی گئی تو اس اجتماع میں بھی مولانا فضل معبود شریک تھے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان نے اس اجتماع میں جس مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا وہ اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے والی کسی بھی تحریک کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ فائرنگ کے واقعے کے بعد جب مولانا مودودیؒ نے کارکنان کے وفود بناکر انہیں گھر گھر دین کی دعوت پہنچانے کی ہدایت کی تو جس وفد کی نظامت مولانا فضل معبود کو سونپی گئی اس میں نہایت شریف النفس شخصیت کے مالک جماعت کے بزرگ رہنما سابق مرکزی نائب امیر چودھری محمد اسلم سلیمی ایڈووکیٹ بھی شامل تھے، ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل معبود ایسے مؤثر انداز میں دین کی دعوت دیتے کہ اکثر لوگ فوری طور پر جماعت کے ہمدرد کا فارم پُر کرنے پر تیار ہوجاتے۔
مولانا فضل معبود نہایت اعلیٰ علمی و ادبی ذوق کے مالک تھے، اور ان کی ایک اچھی خاصی وسیع ذاتی لائبریری تھی۔ مالی حیثیت اگرچہ بہت اچھی نہیں تھی مگر جو کچھ ملتا دین اور دینی کتب پر خرچ کردیتے۔ مرحوم کی یاد میں منعقدہ تعزیتی تقریب میں اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم نے یہ بتاکر سب کو حیران کردیا کہ مولانا کو علامہ اقبال سے بہت عقیدت تھی مگر ان کی کتب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ علامہ اقبال کی تمام کتب انہوں نے اپنے ہاتھ سے نقل کرکے اپنی لائبریری میں محفوظ کرلیں۔ بعد ازاں جب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو مولانا کی علامہ سے اس عقیدت کا علم ہوا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ یہ کتب ان کو ہدیہ کردی جائیں، اور مولانا نے اس میں بھی کسی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے تعزیتی تقریب میں یہ انکشاف بھی کیا کہ انہیں جماعت اسلامی سے شناسائی مولانا فضل معبود کی ہی معرفت ہوئی، مولانا قاضی صاحب کے بڑے بھائی کو ماہنامہ ترجمان القرآن کا تازہ شمارہ پہنچانے کے لیے بارہ کلومیٹر کا فاصلہ سائیکل پر طے کرکے آتے۔
مولانا فضل معبود کا شمار صوبہ سرحد یعنی کے پی کے میں جماعت اسلامی کی دعوت کو متعارف کرانے والے بالکل ابتدائی چند لوگوں میں ہوتا ہے، اور یہ ان کے اخلاص اور مقصد سے لگن کا نتیجہ ہے کہ آج جماعت کا نام خیبر پختون خوا کی فعال اور مؤثر ترین جماعت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ مولانا 1947ء میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور 1997ء تک پوری نصف صدی اس اہم ذمے داری کو بحسن و خوبی نبھاتے رہے۔ انہوں نے پہلے روز جس تحریک اور مقصد سے وابستگی اختیار کی، تمام عمر اس سے وابستہ رہے، اور جس روز ان کا انتقال ہوا اُس روز بھی انہوں نے صبح سویرے اس مقصد سے اپنی شعوری وفاداری کا اظہار یوں کیا کہ تہجد کی نماز ادا کی، ذکر اذکار کے بعد نمازِ فجر پڑھی اور پھر مطالعہ قرآن حکیم کے ذریعے اپنے خالق کی رہنمائی سے بہرہ ور ہوئے، دن چڑھا تو ہلکے بخار کی کیفیت کا اظہار کیا اور کسی لمبے چوڑے علاج معالجہ کے بغیر ہنستے مسکراتے نہایت خاموشی سے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

مولانا فضل معبود سے جماعت اسلامی اور اس کے کارکنان ہی محبت اور قلبی وابستگی نہیں رکھتے تھے، جو بھی اُن سے ملا، اُن کا گرویدہ ہوگیا۔ پشاور کے ایک کثیرالاشاعت روزنامہ کے کالم نویس پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان جو اب خود بھی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے ہیں، مولانا فضل معبود کی وفات کے فوری بعد ان کے کالم کا یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ مولانا فضل معبود کو علمی اور ادبی حلقوں میں کس قدر پذیرائی حاصل تھی:۔
۔’’مولانا فضل معبود علم و معلومات کا ایک بحرِ بیکراں تھے، زندگی کی آخری سانسوں تک کام اور مطالعے میں مصروف رہے۔ نشتر آباد کے ایک طبی مرکز محمدی اسپتال میں باقاعدہ کام کرتے تھے، میں بارہا ان سے ملنے وہاں جایا کرتا تھا، ان کا کمرہ وہاں بھی رسالوں اور کتابوں سے بھرا ہوتا تھا۔ ان کو دیکھ کر ان پر پیار ہی آتا تھا، آدمی چاہتا تھا کہ سامنے بیٹھا ان کی باتیں سنتا رہے، بڑی وضعدار و شاندار شخصیت پائی تھی۔ قامت مضبوط، جسم توانا، چہرے پر سفید براق ریش، آنکھوں میں ذہانت، لبوں پر مسکراہٹ، انگ انگ سے پھوٹتی محبت و حرارت، تاب و توانائی ایسی کہ گرویدہ بنا لے، بڑھ کر ملتے، کبھی شین شوکت مرحوم کی میونسپل لائبریری میں، کبھی شامِ ہمدرد کی تقاریب میں، کبھی شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی میں۔ وہ جب کہتے کہ آپ سے ملنے آیا ہوں تو میں واقعی حیران ہوتا۔ میں ایک طالب علم اور وہ علم و فضل سے آراستہ ایک شخصیت، مگر ان کے اندر مہر و محبت کا بیکراں سمندر ایسا کہ من موہ لیتے تھے۔ مولانا فضل معبود جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے، ان کی اپنی بے شمار تحریریں بھی مختلف رسائل میں موجود ہوں گی۔ مولانا صاحب نے جس طرح کی پاکیزہ درویشانہ زندگی گزاری وہ بڑے بڑے لوگوں کے لیے قابلِ رشک ہے، ایک سچے انسان کی طرح انہیں موت کا ڈر نہ تھا ، کیونکہ انہوں نے اپنے خدا کے پاس ہی جانا تھا، اس لیے جب ان کا وقتِ آخریں آیا تو بقائمیِ ہوش و حواس اٹھے، واسکٹ اتار کر ہینگر پر لٹکائی، پھر گھڑی، چشمہ اور جیب کی چیزیں نکال کر میز پر رکھیں، سر پر کمبل اوڑھا اور اللہ کے پاس چلے گئے۔ کیا ایمان تھا، کیا تیقن تھا۔‘‘۔