فاضل جامعہ علوم اسلامیہ (بنوری ٹائون) مولانا سید محمد زین العابدین نے نہایت محبت و محنت سے جامعہ سے وابستہ معروف علمائے کرام کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا تذکرہ کرکے جہاں جامعہ کی تاریخ مرتب کی ہے، وہیں ایک بنیاد فراہم کی ہے جو اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے مزید پیش رفت کا سبب بنے گی۔ آپ کی یہ کاوش دینی طلبہ کے لیے بھی ایک مشعلِ راہ ہے۔
کلماتِ تبریک میں مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رقم طراز ہیں:
’’حضرت شیخ بنوریؒ نے یہ ادارہ جب قائم فرمایا تھا تو اس کے قیام کے مقاصد میں یہ بھی واضح فرمایا تھا کہ مختلف جدید و قدیم موضوعات پر علمی و تحقیقی تصنیفات و تالیفات کا سلسلہ قائم کیا جائے گا۔ چناں چہ اس مقصد کے لیے دو شعبے قائم فرمائے۔ ’’دارالتصنیف‘‘ اور ’’دارالتحقیق‘‘ میں حضرت بنوریؒ کے ساتھ جن اہلِ علم کا علمی و قلمی تعاون نمایاں رہا، اُن میں حضرت مولانا محمد عبدالرشید نعمانی، حضرت مولانا مفتی ولی حسن خان ٹونکی، حضرت مولانا محمد اسحاق صدیقی سندیلوی، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید، حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید اور حضرت مولانا محمد امین اورکزئی شہید شامل تھے۔ ان حضرات کے نقشِ قدم پر اب تک تحقیق و تصنیف کا کام مختلف عناوین سے چل رہا ہے‘‘۔
کتاب میں شامل مقدمے میں محترم رفیق احمد بالاکوٹی لکھتے ہیں:
’’اکابرِ دیوبند میں سے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ بلاشبہ اپنی ذات میں ایک جماعت کا درجہ رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کئی نامی گرامی، باکمال شاگردوں کی جماعت سے نوازا، آپ کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ بھی تھے۔ آپ علمی جامعیت کے علاوہ روحانی جامعیت کا مرکز و مظہر بھی تھے۔ اگر آپ کا بیعت کا تعلق حضرت تھانویؒ سے تھا تو ارشاد و اصلاح اور بدرجۂ اتم قلبی وارفتگی حضرت شیخ مدنیؒ سے بھی تھی۔ اسی علمی و روحانی جامعیت کا شاید ظاہری ثمر ہے کہ اکابر میں سے جتنا وافر حصہ قبولیت و مقبولیت کا اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات، آپ کے کام اور آپ کے ادارے کو نصیب فرمایا، وہ شاید ہی کسی اور کے حصے میں آیا ہو۔ جب آپ نے 1954ء میں مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملحق جامع مسجد بنوری ٹائون کراچی قائم فرمایا تو اُس کے مقاصد یوں واضح فرمائے:
٭ایسے علما و فضلا اور اسلام کے داعی تیار کرنا جو کمالِ علم کے ساتھ تقویٰ، للّٰہیت اور اخلاص کے زیور سے آراستہ ہوں، جن کا مقصدِ اساسی دینِ اسلام کی حفاظت، نشر و اشاعت اور امتِ مسلمہ کی صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی ہو۔
٭دوسری جامعات، مدارس اور علمی اداروں کے ساتھ روابط پیدا کرنا اور علمی، تدریسی اور تجرباتی میدان میں ان سے تعاون کرنا۔
٭ نئی نسل کو مذہب سے قریب کرنا اور دینی اقدار اور اسلامی آداب و ثقافت سے روشناس کرانا۔
٭عربی کی اہم اور مفید کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کرانا، اسی طرح اُردو کی اہم اور مفید کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرکے ان کی طباعت کا اہتمام کرنا۔
زیر نظر مجموعہ جسے برادرم مولانا سید محمد زین العابدین نے مرتب فرمایا، جس میں علمائے جامعہ کی تصنیفی (تالیفی) خدمات کا تعارف پیش فرمایا ہے، اس مجموعہ کی ترتیب و اختصاص یہ ہے کہ اس مجموعہ کا مکمل نام ’’علمائے جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹائون اور اُن کی تصنیفی و تالیفی خدمات، اہلِ علم و قلم کی تحریروں اور مبصرین کے تبصروں کے آئینے میں‘‘ ہے۔ یہ توضیعی نام اپنی طوالت کے باوجود اس مجموعہ کے تعارف پر مشتمل ہے۔ اس مجموعہ میں مرتب نے ہر صاحبِ تصنیف کا مختصر تعارف اور ان کی میسر تصنیفات کی فہرست ذکر کی ہے اور جس کتاب یا تصنیف کے بارے میں اہلِ علم کے تاثرات دریافت ہوسکے وہ درج فرمائے گئے ہیں۔ اقتباسات کو حوالہ جاتی آداب کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور اس کے ابتدائیے اور اختتامیے کے اندر ربط، روانی اور تناسب کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس مجموعہ میں ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ بعض ایسے اکابر کی تحریری کاوشوں کا تعارف بھی پیش فرمایا گیا ہے جو کُلی طور پر یا دیر تک جامعہ سے وابستہ نہیں رہے تھے۔ ان کی اس کاوش کی بدولت کئی اکابر کی تصنیفات کا تعارف میسر آیا اور کئی خدمات گوشۂ خمول کی نذر ہونے سے بچ گئیں۔‘‘
’’گزارشِ احوالِ واقعی‘‘ میں مرتب احوالِ دل یوں بیان کرتے ہیں:
’’کتابوں کی تصنیف سے دشوار کام آدمیوں کی تصنیف ہوتی ہے، مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے علمی و دینی مأثر کا ایک اہم گوشہ یہ ہے کہ انہوں نے رجالِ کار تیار کیے، نوجوان فضلا کی علمی تربیت فرمائی اور ان کو میدانِ عمل میں اُتارا۔ آپ نے قرآن و حدیث کے موضوعات پر جدید طرز کے لٹریچر کی تیاری کے لیے ’’ادارۂ دعوت و تحقیقِ اسلامی‘‘ قائم کیا جس میں ملک کے ممتاز اہلِ قلم اور اصحابِ علم و نظر سے خدمت لی۔ مولانا مفتی محمد شفیعؒ صاحب اور مولانا مفتی محمود صاحبؒ کی رفاقت میں جدید پیش آمدہ فقہی مسائل پر غور و خوض اور اُن کا فقہی حل تلاش کرنے کے لیے ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ کی بنیاد ڈالی جس نے انشورنس اور بینک وغیرہ کے مسائل پر قابلِ قدر کام کیا۔‘‘
الغرض، جامعہ اسلامیہ بنوری ٹائون کے علماء و فضلا کی خدمات اس قدر ہمہ جہت ہیں کہ ان کو زیر قلم لانے کے لیے اہلِ قلم کی ایک پوری جماعت کی خدمات درکار ہیں۔
کتاب آفسٹ پیپر پر دو رنگی طباعت سے مزین ہے۔ حروف چینی عمدہ ہے۔ 789 صفحات پر مشتمل خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ مجلّد کتاب پر قیمت درج نہیں۔ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک عمدہ تحفہ ہے۔