بیسویں صدی کو دراصل فکر و نظر میں بڑے پیمانے پر انقلابات برپا کرنے کی بھی صدی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک قابلِ ذکر انقلابی نظریے کمیونزم کو اسی صدی میں جرمن فلسفی کارل مارکس نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب Das Kapital اور کمیونسٹ منشور میں پیش کیا تھا، جس نے فکری دنیا کے ایک بڑے حصے پر اپنے نمایاں اثرات مرتب کرڈالے تھے، جس کی بنا پر آگے چل کر روس، چین اور مشرقی یورپ کے کئی ممالک میں خونیں انقلاب رونما ہوئے، بلامبالغہ اس کے شاخسانے میں کروڑوں بے گناہ مرد و خواتین اور بچے لقمہء اجل بنے، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کمیونزم کا نظام مذکورہ ممالک پر کچھ اس طرح سے حاوی اور رائج ہوگیا کہ ایک عرصے تک مقامی باشندوں کی زندگی دین کی روح سے عاری اس نظام کی بدولت مبتلائے آزار رہی۔ بیسویں صدی کے اختتام تک بالآخر کمیونزم ان ملکوں میں زوال پذیر ہوا، اور اس کے بجائے مارکیٹ اکانومی کا دور شروع ہوا۔ اٹھارہویں صدی میں نظام سرمایہ داری کا نظریہ پیدا ہوا جس کے علَم بردار اور مراکز مغربی ممالک ہیں۔ آج ان سب کا مربی و سرپرست امریکہ بہادر ہے۔ یہ نظام بھی بطور استحصالی نظام کے بیسویں صدی میں مختلف ممالک میں نافذ اور رائج رہا، اور اب اللہ اللہ کرکے اس کے زوال کے آثار بھی ہویدا اور ظاہر ہورہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ تمام غیر فطری نظاموں اور ازموں کے مقابلے میں فطری، حقیقی، ازلی اور دائمی نظامِ زندگی دینِ اسلام ہی ہے، جس کی فکر کی اساس بجائے کسی انسانی فکر کے، اللہ کی وحی کی بنیاد پر قائم اور استوار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے مصنف کسی تعارف کے محتاج ہرگز نہیں ہیں۔ اس کتاب میں سید مودودیؒ نے بڑی عمدگی کے ساتھ دینِ اسلام کی حقانیت کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ کتاب میں کُل 20 مقالہ جات ہیں جو قبل ازیں 1933ء تا 1937ء رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوئے اور بعدازاں کتابی صورت میں سامنے آئے۔ کتاب میں موجود مواد حالاتِ موجودہ پر آج بھی بعینہٖ منطبق اور صادق ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کتاب دورِ حاضر کے ان گنت فکری اور نظریاتی مسائل اور الجھنوں کا ایک کافی و شافی اور عمدہ حل ہے۔ نوجوان ادیب ذیشان عابد نے رواں دواں اور خوب صورت سندھی ترجمہ کیا ہے۔ سندھی ادب میں یہ تصنیف ایک بیش قیمت اضافہ ہے جسے سندھی اہلِ زبان پڑھ کر بے حد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کتاب سلیقے کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔ قیمت قدرے زیادہ لگتی ہے۔
کلام حافظ سندھی (بزبانِ سندھی)(حمدیہ، دعائیہ، نعتیہ کلام)۔
زیر تبصرہ کتاب ’’کلام حافظ سندھی‘‘ سندھ کے معروف عالمِ دین، قاری، قادرالکلام شاعر اور ایک بڑے مقرر اور استاذ الاساتذہ قاری نثار احمد منگی کے حمدیہ، دعائیہ اور نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ حافظ صاحب موصوف کی ساری انمول شاعری اُن کی اللہ تعالیٰ اور نبی پاکؐ سے قلبی محبت اور عقیدت کا منہ بولتا مظہر ہے۔ صاحبِ کتاب نہ صرف ایک عمدہ شاعر ہیں بلکہ عالمِ باعمل بھی ہیں۔ شکارپور کے مردم خیز علاقے سے تعلق رکھنے والے قاری صاحب موصوف کو اللہ نے بے پناہ اعلیٰ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ آپ حافظِ قرآن، فنِ قرأت کے ماہر، شعلہ بیان مقرر، باصلاحیت استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے شاعر اور جرأت مند سیاسی کارکن کی حیثیت سے بہت اچھی شہرت اور نیک نامی کے حامل فردِ فرید ہیں۔ حافظ سندھی کا شمار ایسے شعرائے کرام میں ہوتا ہے جو عمدہ کلام کہنے کے ساتھ ساتھ اسے مشاعرے میں بھی عمدگی اور سلیقے کے ساتھ پیش کرکے مشاعرہ لوٹنے کا فن جانتے ہیں، اس لیے انھیں ’’مشاعروں کا شاعر‘‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں شامل ان کی شاعری کو نوجوان ادیب برکت اللہ برقؔ نے بڑی محبت اور چاہت کے ساتھ ترتیب دے کر کمپوز بھی کیا ہے۔ پروفیسر اسرار احمد علوی (معروف ادیب اور دانشور) نے کتاب کا بے حد پُرمغز اور اعلیٰ پائے کا مقدمہ لکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حافظ سندھی کی شاعری ان کی فنِ شاعری میں مہارت اور پختگی پر صاد کرتی دکھائی دیتی ہے، اور کتاب میں شامل ان کا حمدیہ اور دعائیہ کلام پڑھ کر قاری کا ایمان ازسرنو تازہ ہوجاتا ہے۔
کتاب سفید کاغذ پر بڑے سلیقے کے ساتھ چھاپی گئی ہے۔ عمدہ شاعری پڑھنے کے دلدادہ افراد کے لیے یہ کتاب ایک گراں بہا تحفہ ہے۔ اس دورِ گرانی میں کتاب کی قیمت بھی خریدار کی جیب اور استطاعت کی مناسبت سے مناسب رکھی گئی ہے۔