پنجاب کا ہر سیاست دان جو اِس حکومت سے منسلک ہے، اپنے حلقوں میں جانے سے کتراتا ہے۔ مہنگائی کی بلا نے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ملک کی اکثریت معاشی جان کنی کا شکار ہے۔ اگرچہ لنگر خانوں جیسی ڈرامے بازیاں ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور ظفر مرزا کی سستی ذاتی تشہیر کا باعث تو بنتی ہیں مگر بھوک اور ناامیدی جو ملک کے طول و عرض میں وبا کی طرح پھیل چکی ہے، کسی طور ختم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ سستی روٹیوں پر تنقید کرنے والے آٹا مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ نان بائیوں کی دکانوں پر روزانہ لڑائیاں ہوتی ہیں۔ قبر کا سکون دلوانے والے نے کفن کی قیمت اور موت کے سرٹیفکیٹ کے حصول کی لاگت میں 200 فیصد اضافہ کردیا ہے۔ دنیا سے پیسے مانگ مانگ کر تھکنے کے بعد اب غیر معمولی شرح سود پر ’ہاٹ منی‘ کا وقتی بندوبست کرکے واجبی معاشی استحکام کا وقتی بھرم بنایا جارہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ پیسہ جتنی جلدی آرہا ہے اتنی جلدی جا بھی سکتا ہے، اور اس کے بعد جو معاشی بحران پیدا ہوگا اُس کے نقصانات کا تصور کرکے ہی جھرجھری آتی ہے۔ ان حالات میں سیاست دان تکلیف سے بلبلا کر اگر شکایت نہیں کریں گے تو کیا قصیدہ لکھیں گے؟
(طلعت حسین۔ انڈی پینڈنٹ نیوز۔20 جنوری،2020ء)
دنیا مقامِ عبرت اور امتحان گاہ
جسم پر دنیاوی ہوس اور لذتوں کا بوجھ ڈال دیا جائے تو روح کمزور ہوتی اور بوجھ تلے دب جاتی ہے۔ جب روح کمزور ہو، اور گناہوں کے بوجھ تلے دب جائے تو ضمیر کی آواز بھی کمزور ہوتے ہوتے تقریباً دب جاتی ہے۔ ضمیر کیا ہے؟ ضمیر اللہ پاک کی جانب سے عطا کردہ رہنمائی ہے۔ اگر زبان، ذہن اور نفسانی خواہشات وغیرہ کو قید اور پابند کرلیا جائے تو یہ رہنمائی فراوانی سے قدم بہ قدم ملتی ہے، ورنہ رہنمائی کا یہ سلسلہ بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ اگر انسان ضمیر سے اور صرف ضمیر سے رہنمائی لینا شروع کرے اور اپنے باطن کو پوری طرح صاف و پاک کرلے تو وہ روحانی سفر کا مسافر بن جاتا ہے۔ ایسے میں روح بلندیوں تک پرواز کرنے لگتی ہے۔ چونکہ روح امرِ ربی ہے اِس لیے اُس کا رشتہ اور تعلق مالکِ حقیقی سے قربت کی منزل حاصل کرلیتا ہے۔ اس قربت کے طفیل اس پر فطرت، قدرت، کائنات اور حکمتِ الٰہی کے راز افشا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے اشارے یا رہنمائی ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ روح کا رشتہ اپنے مرکز کے ساتھ جس قدر مضبوط اور قریبی ہو اُسی قدر نگاہ وسیع ہوجاتی ہے۔ جس شے پہ نظر پڑتی ہے وہ اپنی حقیقت یا اصل بے نقاب کردیتی ہے، جو سوال ذہن کی سطح پر ابھرتا ہے، اس کا فوراً جواب مل جاتا ہے، جس شے کا تصور کیا جائے وہ شے حاضر ہوجاتی ہے۔ ہر انسان اپنے باطن کو پاک و صاف کرکے اور خود کو احکام الٰہی کا پابند کرکے اپنے مالکِ حقیقی سے رشتہ جوڑ سکتا ہے۔ دراصل یہی رشتہ ایمان کہلاتا ہے۔ ایمان مضبوط ہو تو انسان زمین پر اللہ پاک کا خلیفہ بن جاتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ خلیفہ کے منہ سے کوئی بات بلا سوچے سمجھے نکل جائے تو پھر اللہ پاک اپنے بندے کا بھرم قائم رکھنے یا اُسے عزت و وقار عطا کرنے کے لیے اُس کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو من و عن پورا کردیتا ہے۔ دنیا والے دیکھتے اور حیران رہ جاتے ہیں۔ اللہ پاک اپنے بندوں کی عزت اور وقار کا محافظ ہے اور وہ اپنے بندوں کو کبھی بے وقار نہیں ہونے دیتا۔
دراصل ہماری نگاہ محدود اور ہمارا ذہن سمجھنے سے قاصر ہے۔ روحانی نگاہ جانتی ہے کہ اللہ پاک کا جزا و سزا کا نظام ہمہ وقت جاری و ساری ہے۔ اعمال کے انعامات یا سزائیں جو اگلے جہان میں ملیں گی، کا علم علمِ غیب کے زمرے میں آتا ہے اور صرف میرا رب ہی جانتا ہے۔ ہم دنیادار تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جزا اور سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے۔ چشمِ بینا دیکھتی ہے کہ اللہ پاک کی نظر نہ آنے والی (غیر مرئی) عدالتیں ہمہ وقت کام کررہی ہیں اور فیصلے صادر کررہی ہیں۔ انسان ہمہ وقت آزمائش کی راہ پر چل رہا ہے۔ اگر وہ آزمائش پہ پورا اُترتا اور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے نیک اعمال کرتا ہے، اپنے آپ کو گناہوں اور دنیاوی لذتوں کی آلودگی سے بچا کر رکھتا ہے تو غیر مرئی (Invisible) ربی عدالتیں اُسے انعامات اور جزا سے نواز رہی ہیں۔ اگر وہ گناہوں کی دلدل میں پھنسا رہتا ہے تو اُس کی رسّی دراز کی جاتی ہے، اسے توبہ کا بار بار موقع دیا جاتا ہے کیونکہ رب اپنی مخلوق سے ناامید نہیں ہوتا، اور توبہ کا شدت سے منتظر رہتا ہے۔ ایک سچی اور حقیقی توبہ سارے گناہوں کے داغ دھو دیتی ہے۔ چنانچہ انسان جب گناہِ کبیرہ کرتا ہے اور پھر کرتا ہی چلا جاتا ہے تو ایک روز رسّی کو کھینچ لیا جاتا ہے، توبہ کی امید ختم ہوجاتی ہے اور اللہ پاک کی غیر مرئی عدالتیں اُسے سزا سنا دیتی ہیں۔ یہ سزا وہ انسان ہماری آنکھوں کے سامنے اِسی دنیا میں بھگتتا ہے۔ اسے ہم اپنی زبان میں مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔ اپنے اردگرد نگاہ ڈالیے، آپ کو بے شمار لوگ اسی دنیا میں سزا بھگتتے نظر آئیں گے۔ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے یتیموں، لاوارثوں اور بیوائوں کا مال کھانے والے شخص کو کئی برس تک بستر پر تڑپتے اور درد سے ہر لمحہ مرتے دیکھا۔ جسم پھوڑوں سے بھرا ہوا تھا اور سارے دنیاوی علاج ناکارہ ہوچکے تھے۔ معصوموں کے قاتل، دوسروں کے حقوق پہ ڈاکا ڈالنے والے، قومی دولت لوٹنے والے، مخلوق پہ ظلم و ستم ڈھانے والے، تکبر اور غرور کے مرض میں مبتلا حضرات کو عدالتِ ربی سے ملی سزا جھیلتے دیکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہم غور کریں۔ شرابیوں اور زانیوں کو میں نے خود اپنے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھا ہے۔ یہ دنیا مقامِ عبرت اور امتحان گاہ ہے اُن کے لیے جو تدبر کرتے ہیں۔ سرخرو وہی ہوتے ہیں جو عبرت پکڑتے اور توبہ استغفار کرتے ہیں۔
(ڈاکٹر صفدر محمود۔جنگ۔21جنوری2020ء)
کچھ گڑبڑ ہے…؟۔
اب پی ٹی آئی کو باہر سے اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہی، یہ کردار بھی پی ٹی آئی کے وزرا اور ارکان نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ فواد چودھری کے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں ایک تیر سے دو شکار ہدف معلوم ہوتے ہیں۔ پہلا عثمان بزدار اور دوسرا، جو زیادہ خطرناک لگتا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو یہ کہنا کہ امورِ مملکت آئین اور قانون کے مطابق نہیں چلائے جارہے، انتہائی خطرناک اور باریک سیاسی واردات ہے۔
ماضیِ بعید میں جھانکیں تو صدر غلام اسحاق خان کی نوازشریف سے اَن بن شروع ہوئی تو حکومت کے چل چلائو کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ تب نوازشریف کابینہ کے رکن وزیرمملکت حامد ناصر چٹھہ نے ایک روز استعفیٰ دے دیا اور صدر غلام اسحاق خان کو ایک خط بھی لکھ دیا۔ جب صدر غلام اسحاق خان نے نواز حکومت برطرف کی تو حامد ناصر چٹھہ کے اس خط کو صدر نے نوازشریف کے خلاف ایک ریفرنس کے طور پر استعمال کیا تھا۔ پھر جب سپریم کورٹ میں صدر غلام اسحاق خان کے اقدام کو چیلنج کیاگیا تواٹارنی جنرل نے صدر کے اقدام کے حق میں اسی نوعیت کے خطوط، مختلف انٹرویوز، تجزیے اور اخبارات کی خبریں سپریم کورٹ میں پیش کی تھیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو بھی جب سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اس میں جو دلائل دیے گئے تھے، ان میں ملکی معیشت کی بدتر صورت حال کو خاص طور پر نوازشریف حکومت کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کیا گیا تھا، اور شائع شدہ بہت سی خبریں،کالم، تجزیے عدالت میں پیش کیے گئے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آج جو کچھ وقوع پذیر ہورہا ہے، اسے تحریری طور پر ریکارڈ پر لایا جارہا ہے، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
(صابر شاکر۔ دنیا،21جنوری2020ء)