ابوسعدی
سراج الدین علی خان (1689ء۔ 1756ء) متخلص بہ آرزو معروف بہ خانِ آرزو، شیخ حسام الدین کے صاحبزادے، ہندوستان کے مشہور شعرا اور ناقدینِ فن میں سے تھے۔ میر تقی میر کا قول ہے کہ ’’ان کے زمانے میں ان سے بڑھ کر کوئی محقق اور شاعرِ شیریں زبان نہ تھا‘‘۔ میر حسن ان کو امیر خسرو دہلوی کے بعد ہندوستان کا سب سے بڑا شاعر خیال کرتے تھے۔ مولانا محمدحسین آزاد ان کی نسبت لکھتے ہیں کہ ’’ان کو زبانِ اردو کے ساتھ وہی مناسبت ہے، جو ارسطو کو فلسفہ کے ساتھ ہے‘‘۔ مختلف علوم و فنون میں انھیں کامل بصیرت تھی۔ شیخ علی حزیں ایران سے ہندوستان آئے تو ان دونوں باکمالوں کا سامنا ہوگیا۔ شیخ کی متکبرانہ باتیں ان کو بری معلوم ہوئیں، جس سے متاثر ہوکر انھوں نے شیخ کے کلام پر اعتراض وارد کرنا شروع کیے، جو ایک رسالہ ”تنبیہ الغافلین“ کی صورت میں شائع ہوئے۔ اردو اور فارسی کی متعدد کتب و رسائل ان کی یادگار ہیں۔ ”غبارِ خاطر“ کے ایک حاشیے میں مالک رام ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں سے ہیں۔ شاعری میں میر عبدالصمد سخن اور غلام علی احسنی گوالیاری سے مشورہ رہا۔ بعہدِ فرخ سیر دلی آئے اور حملہ نادری کے نتائج سے پریشان ہوکر اکتوبر 1754ء میں شجاع الدولہ کے زمانے میں فیض آباد پہنچے، جہاں سالار جنگ کی سفارش پر تین سو مشاہرہ مقرر ہوگیا۔ لکھنؤ میں 26 جنوری 1756ء کو انتقال ہوا۔ پہلے امانتاً فیض آباد، پھر وصیت کے مطابق لاش دلی آئی اور یہاں پر دفن ہوئے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
مجدد اصف ثانی
٭صفات عین ذات ہیں بلکہ ان کا رشتہ وہی ہے جو نقش و نقاش، کلام و متکلم، اور نغمہ و معنی کا ہے۔
٭علم ایک حقیقت ہے اور جہل عدم علم۔
٭دنیادار اور دولت مند ہی بڑی بلا میں گرفتار ہیں کہ دنیا کی عارضی مسرت کو دیکھتے ہیں اور دائمی مسرت ان سے پوشیدہ ہے۔
٭نفس پر شریعت اور نیکی کی پابندی سے زیادہ کوئی چیز دشوار نہیں۔
٭دنیا میں آرام کا خواہاں بے وقوف اور عقل سے دور ہے۔
٭متکبروں کے ساتھ تکبر کرنا صدقہ ہے۔
٭ بچوں پر پیار آنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نشان ہے۔
٭اُس غرض کو مٹا دینا جو کفار کے ساتھ وابستہ ہو، کمالِ دین ہے۔
باورچی اور طبیب
ایک طبیب کا یہ دستور تھا کہ جب کسی مریض کو دیکھنے جاتا تو سب سے پہلے گھر کے باورچی کو بلاکر گلے لگاتا۔ کسی نے اس کا فلسفہ پوچھا تو کہا کہ میرا تمام کاروبار انہی باورچیوں کی وجہ سے چل رہا ہے، اگر یہ لوگ مرغن اور ناقابلِ ہضم غذائیں گھر والوں کو نہ کھلاتے تو کوئی بیمار نہ ہوتا۔
(ماہنامہ چشمِ بیدار۔ لاہور، دسمبر2019ء)