قرآن مجید کی اخلاقی تعلیمات

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:۔
’’ایک آدمی کے جھوٹا ہونے کا یہ ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے (بلاتحقیق) اسے کہتا پھرے‘‘۔ (مسلم)۔

ڈاکٹر اشہد جمال ندوی، علی گڑھ
اخلاق خلق کی جمع ہے، لیکن اردو میں یہ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ خلق اس اندرونی قوت کا نام ہے جس سے انسان کو اچھے کام انجام دینا آسان ہوجاتا ہے، یہ ملکہ اللہ تعالیٰ نے پیدائشی طور پر انسان کے اندر رکھ دیا ہے، اور ارادے اور تربیت کے ذریعے اسے پروان چڑھایا جاتا ہے، جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے:
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا*فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا* قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا-وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا(الشمس :7۔10)۔
ترجمہ:اور شاہد ہے نفس، اور جیسا کچھ اس کو سنوارا، پس اس کو سمجھ دی اس کی بدی کی اور نیکی کی، کامیاب ہوا جس نے اس کو پاک کیا، اور نامراد ہوا جس نے اس کو آلودہ کیا۔
اسی طرح وقت کے صحیح استعمال پر انسان کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار ہے، انسان اپنے ارادے میں آزاد و خودمختار ہے کہ جو قوتیں اسے بخشی گئی ہیں انہیں کام میں لائے اور خدا کے حضور جواب دہی کے لیے ہر وقت تیار رہے، یہی وجہ ہے کہ انسان جب کسی برے کام کا ارادہ کرتا ہے تو یہ اندرونی آواز اسے بچانے کی کوشش کرتی ہے، اور بسا اوقات ایک بدعمل اور بدسلیقہ انسان بھی اپنی برائیوں پر قابو پاکر نیک کردار اور ہنرمند بن جاتا ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو قرآن مجید علم الاخلاق کی ایک حکیمانہ کتاب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس میں انسانی زندگی کی تہذیب و شائستگی کے ہر پہلو پر بحث کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قوم یا فرد کی زندگی کے لیے کس قسم کے آداب و اخلاق کی ضرورت ہے۔ اس نے وہ تمام ذرائع بھی تلقین کیے ہیں جن سے افراد کا کردار درست ہو اور وہ اس قابل ہوسکیں کہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں۔ قرآن مجید کے سب سے پہلے مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مطلوبہ اخلاق کے اعلیٰ ترین نمونہ تھے۔(القلم:4) آپؐ نے فرمایا: میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
اسلام کے دیگر ارکان کی طرح اخلاق بھی اسلامی نظامِ زندگی کا ایک شعبہ ہے۔ قرآن نے عقائد و عبادات کے بعد سب سے زیادہ درستیِ اخلاق پر زور دیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ بندہ عقائد و عبادات میں جس طرح اپنے رب کی مرضی کا پابند ہوتا ہے اسی طرح زندگی کے طور طریق، شب و روز کے معمولات اور حقوق کی ادائیگی میں بھی اس کی مرضی کا پابند ہو۔
قرآن نے مختلف طریقوں اور اسالیب میں اخلاقی تعلیمات پیش کی ہیں، کبھی برائیوں کے اسباب کی نشاندہی کرکے اس کے تدارک کی صورتیں بتائی ہیں، تو کبھی اخلاقِ حسنہ کو عمدہ تشبیہات کے ذریعے پیش کرکے مخاطب کو لبھایا ہے، اچھے اخلاق کے اچھے نتائج اور برے اخلاق کے برے نتائج کو بھی کھول کھول کر بیان کیا ہے، نیز فضائلِ اخلاق کو الوہیت اور ملکوتیت اور نبوت کے محاسن میں، اور رذائل کو شیطان اور ابلیس کے خصائص میں داخل کرکے بیان کیا ہے۔ اس سے فضائل کو اختیار کرنے اور رذائل سے بچنے کا شوق پیدا ہوتا ہے، مثلاً غفوو درگزر کی تعلیم دیتے وقت فرمایا:
إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا (النسا:149)۔
ترجمہ: (مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ تمہیں بدگوئی کا حق ہے) لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جائو، یا کم از کم برائی سے درگزر کرو تو اللہ (کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ) بھی بڑا معاف کرنے والا ہے (حالانکہ سزا دینے پر) پوری قدرت رکھتا ہے۔
قدرت کے باوجود عفو اللہ تعالیٰ کا خاص وصف ہے، بندوں سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی ایسا ہی کرو۔
قرآن کی رو سے بداخلاقی کا سب سے بڑا سبب بروں کی صحبت ہے، اسی وجہ سے ایسے لوگوں سے بچنے اور نیک و صالح لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے:
وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبہ:119)۔
ترجمہ: نیک و صالح لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔
برے افراد کی طرح برا ماحول بھی بداخلاقی کا موجب ہوتا ہے، اسی وجہ سے فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (التحریم:6)۔
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
وَٱتَّقُواْ فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً(الانفال: 25)۔
ترجمہ: اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔
جہالت اور لاعلمی بھی بسا اوقات بداخلاقی پر آمادہ کرتی ہیں، بہت سے مسائل اور معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ان میں بھلے برے کی تمیز نہیں کرپاتا۔ اس کے لیے قرآن نے مکمل ضابطہ اخلاق پیش کیا اور اصولی طور پر بتایا کہ اخلاقِ حسنہ اسماء حسنی کا پرتو اور صفاتِ الٰہی کا سایہ ہیں، چنانچہ قرآن نے اللہ کے رنگ میں رنگ جانے کی ترغیب دی:
صِبْغَةَ اللّٰهِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً(البقرۃ: 138)۔
ترجمہ: اللہ کا رنگ اختیار کرو، اور اس کے رنگ سے اچھا کس کا رنگ ہوگا۔
اور حدیث میں نہایت وضاحت کے ساتھ کہا گیا: تخلقوا بأخلاق اللہ، یعنی اپنے اندر وہ اخلاق پیدا کرو جو الٰہی اخلاق ہیں۔ فرمایا گیا: نیز اس جہالت کو دور کرنے کے لیے حسنِ خلق اور سوء خلق سے جتنے اخلاق و اوصاف پیدا ہوتے ہیں اس کو قرآن نے مومنوں، منافقوں اور کافروں کے اخلاق و اوصاف میں صاف صاف بیان کردیا ہے۔
قرآن مجید کی اخلاقی تعلیمات دوسرے نظام ہائے زندگی سے بہت مختلف ہیں، قرآن کی تعلیمات انسان کی فطری ضروریات کے مطابق اور ہر پہلو سے انصاف پر مبنی ہیں۔ قرآنی اخلاقیات کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس نے انسانی قوتوں کے استیصال کی تعلیم نہیں دی ہے، اور کہا ہے کہ کوئی قوت فی نفسہٖ بری نہیں ہے، بلکہ وہ موقع و محل کے خلاف استعمال کی وجہ سے بری کہلاتی ہے۔ اس نے غصے کو ضبط کرنے کی تعریف کی (آل عمران: 134) غصے کو مٹا دینے والے کی نہیں۔ دراصل دنیا میں نشاط کار، ولولہ و انبساط اور رونق و ترقی انسانی قوتوں کو کچل ڈالنے میں نہیں بلکہ ان کے صحیح استعمال میں ہے۔
قرآنی اخلاق کا دوسرے نظام ہائے اخلاق سے موازنہ کیا جائے تو قرآنی اخلاقیات کی درج ذیل خصوصیات نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں:
توازن:دنیا کے کسی اخلاقی نظام میں اخلاقی حدود کی تعیین اور ان کے مقام و مصرف کی تجویز میں وہ توازن اور تناسب نہیں پایا جاتا جو توازن و تناسب قرآن کے اخلاقی نظام میں ہے۔ مثلاً عفوو درگزر بلاشبہ اچھا اخلاق ہے، قرآن نے اس کی ترغیب و تلقین کی ہے، مگر بعض مواقع پر قرآن نے عفوودرگزر کے بجائے تعزیر و سزا کو زیادہ مستحسن قرار دیا ہے تاکہ مفادِ عامہ کا تحفظ ہوسکے۔
اخلاق کا بنیادی سرچشمہ: اچھے اور برے اخلاق کی تعیین انسانی حس پر نہیں چھوڑی گئی ہے کیونکہ یہ ہر انسان میں کم و زیادہ ہوتی ہے، اور اخلاقی حس کی یہی کمی و بیشی اخلاق میں اختلاف کا سبب بنتی ہے۔ بلکہ اس کا مآخذ اللہ اور رسولؐ کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات بالکل دو اور دو چار کی طرح عیاں ہے کہ اچھا اخلاق صرف وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے اچھا قرار دیا ہو۔ اسی طرح برا اخلاق صرف وہ چیز ہوتی ہے جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے برا فرمایا ہو۔ اگر کسی کی اخلاقی حس اس کے خلاف رائے دیتی ہے تو اس کی یہ رائے معتبر نہیں ہے۔
نظام زندگی کی تشکیل و تعمیر: قرآن کا اخلاقی نظام انسان کی صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کو اجتماعی زندگی تک وسیع کرکے اخلاقیات پر اپنے پورے نظام ِزندگی کی تشکیل و تعمیر کرتا ہے اور زندگی کے کسی شعبے کو بھی اخلاقی نظام کی گرفت سے آزاد نہیں کرتا۔ انسان کا ہر عمل اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ہر عمل کو اچھا یا برا نام ملتا ہے اور اسی اعتبار سے اس کا انجام بتایا گیا ہے۔
مقصدِ اخلاق: قرآن جو اخلاقی نظام پیش کرتا ہے، اس کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ مقصد و غایت میں بالکل مختلف ہے، اس نے رضائے الٰہی کو اپنا مقصد قرار دیا ہے، اس سے اخلاقیات کو معیار کی بلندی نصیب ہوتی ہے اور اخلاقی ارتقا کے امکانات لامحدود ہوجاتے ہیں، یہ مقصد اتنا عظیم ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ اس کے دائرے میں آجاتا ہے۔ اس کے برخلاف زندگی کے دوسرے نظام ہائے اخلاق صرف سماجی بہبود کو مقصدِ اخلاق قرار دیتے ہیں۔ یہ اتنی کمزور بنیاد ہے کہ جہاں سماج کی بہبود متاثر نہ ہوتی ہو، وہاں ایک لمحے کے لیے بھی انسان ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں رہتا۔
(سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، 22 اگست 2018ء)