نیب آرڈیننس… ایک غیر مقبول فیصلہ

مسئلہ کشمیر پر خاموشی کیوں؟۔

طویل عرصے سے مشاہدہ یہی ہے کہ سیاسی استحکام پاکستان کی سیاسی تقدیر کا حصہ معلوم نہیں ہوتا، ایک بحران حل ہوتا ہے تو دوسرا کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کی بنیادی اور اصل وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے کبھی بھی قومی مفاد اور ملک کے نظریاتی تقاضوں کے مطابق فیصلے نہیں کیے، بلکہ بیشتر انتظامی فیصلے اور قانون انفرادی فائدے کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس عمل کو قومی مفاد کا نام دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت ہمیشہ قول و فعل کے تضاد کا شکار رہی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں عقل، فہم، فراست اور معاملہ فہمی کی لکیر ہی نہیں ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت اگر دو عملی نہ دکھائے تو اسے کوئی قوت ذلیل نہیں کرسکتی، جس طرح ان دنوں ووٹ دینے کے بعد سیاسی جماعتیں ذلیل ہورہی ہیں۔ اپوزیشن نے 8 منٹ میں بل کے حق میں ووٹ دے کر پارلیمان کی تیز ترین قانون سازی کاریکارڈ قائم کیا ہے۔ ووٹ دیتے وقت حکومت سے مسودہ بھی طلب نہیں کیا۔ پارلیمانی محاذ پر اس کامیابی میں تحریک انصاف کی قیادت کا کوئی کردار نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے ترامیم پیش کیں، تاہم انہیں کہا گیا کہ ان کی تجاویز کو قبول کرکے حکومت نیا ”پنڈورہ باکس“ نہیں کھول سکتی، جس پر احسن اقبال قومی اسمبلی میں ترمیمی بلوں کی منظوری کے عمل سے لاتعلق ہوگئے اور پورا دن نیب ہیڈ کوارٹرز میں ہی گزار دیا۔ شاہدخاقان عباسی بھی نوازشریف کے ’’بیانیہ“ پر ’’یو ٹرن“ پر ناراض ہیں، وہ ووٹ کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود پارلیمنٹ ہائوس نہیں آئے تھے بلکہ پارلیمنٹ آنے کے بجائے اڈیالہ جیل جانے کو ترجیح دی۔ مسلم لیگ(ن) میں فیصلے کے خلاف ایک بڑی مزاحمت سامنے آرہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد نوازشریف صاحبِ فراش ہیں اور شہبازشریف بھی لندن میں ’’ڈیرے“ ڈالے بیٹھے ہیں، ان کی فوری طور پر وطن واپسی کا بھی کوئی امکان نہیں۔ یہ مزاحمت خود کو متبادل لیڈر بنانے کی کوشش ہے۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) میں وزارتِ عظمیٰ کے چار پانچ امیدواروں کے درمیان کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے۔ مزاحمتی گروپ کا مؤقف ہے کہ نوازشریف نے سروسز ایکٹس میں ترمیمی بلوں کی مشروط طور پر حمایت کی ہدایت کی تھی کہ ایک دفعہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار وزیراعظم کو دیا جائے اور اس میں’’sun set“ کی شق شامل کی جائے، لیکن مسلم لیگ (ن) نے ترمیمی بل میں ’’کامہ اور فل اسٹاپ“ تک تبدیل نہیں کرائے اور غیر مشروط حمایت کردی۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں غیر مشروط حمایت پر پارٹی کے بعض ارکان کی طرف سے کی جانے والی تنقید پر بہت رنجیدہ ہیں۔ خواجہ آصف پر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی ایڈوائزری گروپ میں بھی تنقید ہوئی جس پر وہ واٹس ایپ گروپ سے ’’لیفٹ‘‘ ہوگئے ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید خواجہ آصف کے مؤقف کی تائید کررہے ہیں۔ شہبازشریف نے بیان دے کر پارٹی میں پیدا ہونے والے تنائو کو کم کرنے کی کوشش کی ہے اور باور کرایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں غیر مشروط حمایت کرکے پیپلز پارٹی کی بارگیننگ پاور ختم کردی۔ لیکن پارٹی میں پیدا ہونے والی مزاحمت تعاقب کرتی رہے گی۔ وطن عزیز ایک جمہوری ملک ہے اور آئین کے تابع پارلیمانی نظامِ حکومت کے تحت یہاں نظم و نسق چلایا جاتا ہے۔ ہر انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنا منشور پیش کرتی ہیں اور اسی کے لیے ووٹ مانگتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار حاصل کرلینے کے بعد ان جماعتوں نے کبھی عام آدمی کے مفاد میں قانون سازی نہیں کی۔ یہاں قانون سازی کا بڑا حصہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی ہدایت پر پارلیمنٹ میں لایا جاتا رہا ہے، بے شمار قانون محض اس لیے بنائے گئے کہ حکومت کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے قانون کی چھتری درکار تھی۔ اب حکومت نے ایک اور بڑا یوٹرن لیا ہے اور نیب جیسے قانون میں ترمیم اور تبدیلی لائی جارہی ہے۔ دیگر 5 آرڈیننسوں کے ساتھ بلز قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ انہیں اتفاق رائے ہوجانے کے بعد قائمہ کمیٹی میں بھیجا جائے گا جہاں حکومت اور اپوزیشن ان پر بحث کریں گی۔ قانون بن جانے کے بعد بیوروکریسی اور کاروباری طبقے کی طرح حکومتوں میں رہنے والے وزرا، اور دیگر عہدیدار بھی نیب کی گرفت سے آزاد ہوجائیں گے۔ نیب قانون میں ترمیم اور تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ ہائوس کے اسپیکر چیمبر میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مذاکرات ہوئے ہیں جس میں نیب قانون میں متفقہ ترمیم کے قانونی مسودے کی نوک پلک سنواری گئی اور بدلے میں اپوزیشن نے بھی حکومت کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیا، اُسے پارٹی فنڈز کیس میں ریلیف دلایا جائے گا اور اپوزیشن اس پر کوئی بات کرے گی اور نہ اسے ایشو بنایا جائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ اپوزیشن کو حالیہ انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت میں بہت ٹف ٹائم ملا، مگر عمران خان جیسا غیر سیاسی اور سطحی سوچ کا حامل وزیراعظم اپوزیشن کے لیے کسی سیاسی نعمت سے کم نہیں ہے، جنہیں حکومتی امور پر عبور حاصل ہے اور نہ سیاسی دائو پیچ سے واقف ہیں۔ حکومت ڈیڑھ سال کہتی رہی ہے کہ ماضی میں قومی خزانہ لوٹا گیا، مگرجن پر الزام ہے انہی کے ساتھ مل کر بلکہ ان کے ہاتھوں سے ہی نیب قانون تبدیل کررہی ہے۔ یہ قانون ابھی بنا نہیں ہے، اس سے ریلیف کے لیے جیلوں میں بند قیدیوں نے رہائی کے لیے عدالتوں سے رجوع بھی کرلیا ہے۔ کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے سیاست دانوں، بیوروکریٹس نے احتساب عدالت میں ریلیف کی درخواستیں دائر کردی ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے شریک ملزم عبدالغنی مجید اور ان کی اہلیہ مناہل مجید کے علاوہ تحریک انصاف کے لیاقت علی جتوئی نے ریفرنس ختم کرنے کی درخواست دے دی ہے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی اس کیس میں نامزد ہیں۔ لیاقت جتوئی اور شوکت عزیز کو متبادل توانائی بورڈ میں غیر قانونی تقرریوں کے ریفرنس کا سامنا ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کیس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زردای، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ، صوبائی وزیر سہیل انور سیال، حسن علی میمن اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سمیت دیگر 172 ملزم نامزد ہیں۔
نئے نیب آرڈیننس پر نیب بھی ناراض ہے اور اس کی قانونی ٹیم ایسے کیسز میں ملزموں کی اپیلوں کے جواب کی تیاری کررہی ہے۔ نیب کے سینئر حکام کے مطابق اومنی گروپ کے ڈائریکٹر عبدالغنی مجید اور ان کے بیٹے انور مجید نے کیس میں ریلیف طلب کیا ہے اور یہ سب بری ہوجائیں گے۔ اسی طرح نندی پور کیس میں شمائلہ محمود اور مسعود چشتی نے بھی اپیل دائر کی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان اس کیس میں پہلے ہی بری ہوچکے ہیں۔ سابق وزیراعظم راجا پرویزاشرف اس کیس میں ملزم ہیں جن پر قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے اور فردِ جرم عائد ہوچکی ہے۔ اسی طرح سینئر بیوروکریٹ شوکت فیاض ترین اور پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی فاؤنڈیشن کے اعلیٰ عہدیدار بخش پھلپوٹو، ریاض احمد اور عابد سعید، سابق ڈائریکٹر جنرل نیب پنجاب خورشید انور بھنڈر جنہیں کرپشن کے الزام میں برطرف کیا گیا تھا، نے بھی رہائی کی اپیل دائر کردی ہے۔
نیب آرڈیننس ایک غیر مقبول فیصلہ ہے، خبر یہ ہے کہ عمران خان سے جو کام لیا جانا تھا، وہ لیا جاچکا ہے، اب صرف یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ نوازشریف کی طرح عمران خان کو بھی مستقبل کے لیے سنبھال کر رکھنا ہے یا نہیں، اگر یہ فیصلہ ہوا کہ انہیں سنبھال کر رکھنا ہے تو یہ حکومت غیر مقبول فیصلوں کے ذریعے اقتدار سے وقت سے پہلے بے دخل کردی جائے گی، اور اگر انہیں مستقبل کے لیے سنبھال کر نہیں رکھنا تو انہیں پانچ سال کا وقت دیا جائے گا، مسلسل غیر مقبول فیصلے ان کے ہاتھوں سے کرائے جاتے رہیں گے اور دبائو بھی ان پر رکھا جائے گا۔ لیکن یہ بھی پکی اطلاع ہے کہ عمران خان کو اگر دیوار سے لگایا گیا تو وہ اچانک اسمبلیاں ہی توڑ دیں گے۔ جے یو آئی یہ بھی سمجھتی ہے کہ اپوزیشن متحد رہی تو زیادہ فائدہ رہے گا۔ اس وقت تین محاذ اس حکومت کے سامنے ہیں۔ پہلا محاذ معیشت ہے۔ حکومت معیشت میں بہتری کے لیے اب تک اپنی ٹیم ہی سیٹ نہیں کرسکی، پہلے اسد عمر کو بوجھ سمجھتے ہوئے اس کشتی سے اتارا، اور اب ایف بی آر میں تبدیلی کا امکان بڑھ رہا ہے کیونکہ حکومت کی اقتصادی ٹیم کے اعلیٰ پالیسی سازوں میں اختلافات بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی لیے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی رخصت پر چلے گئے ہیں، ایف بی آر کی اہم رکن ان لینڈ ریونیو پالیسی سیما شکیل بھی رخصت پر ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر نے بظاہر تو صحت اور ذاتی مصروفیات کی بنا پر رخصت لی ہے، تاہم انہیں وزیراعظم عمران خان کے دو تین طاقت ور مشیروں اور سیاسی معاونین کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ ایک آدھ بار اجلاس میں تلخ و تند جملوں کا تبادلہ بھی ہوچکا ہے جس کے بعد چیئرمین ایف بی آر نے رخصت پر جانے کو ترجیح دی۔ کہا جارہا ہے ایف بی آر حکام چیئرمین شبر زیدی سے عدم تعاون کرتے ہوئے محصولات میں کمی کو پورا کرنے سے گریزاں ہیں اور ان سے تعاون نہیں کررہے ہیں۔ اختلاف یہاں سے شروع ہوا جب ایف بی آر حکام نے ادارے کو ریونیو اتھارٹی میں تبدیل کرنے کے فیصلے کی مزاحمت کی۔ اسی وجہ سے محاصل اکٹھے کرنے کا ہدف بھی پورا نہیں ہورہا۔ مشیر خزانہ مسلسل ان سے پوچھ گچھ کررہے ہیں کہ مراعات دینے کے باوجود محاصل پورے کیوں نہیں ہورہے؟ حکومت کا دعویٰ ہے کہ روپیہ کنٹرول ہو گیا ہے اور معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ صنعتی شعبے کی نسبت زرعی شعبے کے مسائل زیادہ ہیں۔ رواں سال ملک میں خوردنی تیل کی پیداوار بڑھی ہے لیکن بڑے پیمانے پر انحصار کے لیے فی ایکڑ پیداوار 25 من فی ایکڑ ہونا ضروری ہے۔ ساڑھے 3 ارب ڈالر خوردنی تیل امپورٹ خاتمے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی بنانا ضروری ہے۔ ملکی پیداوار بڑھے گی تو خوردنی تیل امپورٹ کم ہوگی۔ صنعتوں کے لیے گیس، بجلی کنکشن جیسے مسائل ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے یوٹیلٹی اسٹور پیکیج کے تحت پہنچنے والا سامان عام مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور تاجروں نے سستا مال اپنے گودام میں اسٹور کرلیا ہے۔ گھی، چینی، آٹا، چائے کی پتی رمضان المبارک کے لیے ذخیرہ کی جارہی ہے۔ ایک جانب اس قدر بدانتظامی ہے اور دوسری جانب حکومت غیر ملکی بلڈرز کے ساتھ مل کر کراچی میں دبئی طرز کا شہر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ ملکی بلڈرز نے تیرہ لاکھ روپے میں پانچ مرلے کا گھر تعمیر کرکے دینے کا پلان حکومت کو دیا، حکومت نے غیر ملکی ماہرینِ تعمیرات بلائے، انہوں نے پانچ مرلہ گھر کے لیے یہ تخمینہ 25 لاکھ فی گھر تک پہنچا دیا، اور اب حکومت غیر ملکی ماہرین سے گھروں کی تعمیر کا معاہدہ کرنے جارہی ہے۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ ایک الگ کہانی ہے، حکومت نے صرف ایک سال میں ملکی قرضوں میں 7 ہزار 6سو ارب کا اضافہ کردیا ہے۔ حکومت قرضوں کی واپسی پر غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ دستاویزی حقائق یہ ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے چار سال میں نو سو ارب قرض لیا، تحریک انصاف نے ایک سال میں ہی سات ہزار چھ سو ارب کا قرض لیا ہے۔ 71 سال میں پاکستان کے قرضے 24 ہزار 2 سو ارب روپے تھے، حکومت اب تک ان قرضوں میں ایک سال میں ہی 31 فیصد اضافہ کرچکی ہے۔ وہ کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ بھی شروع نہیں کرسکی، موٹر ویز سمیت پرانے منصوبوں پر ہی اپنی تختیاں لگا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ڈیڑھ کروڑ لوگ خطِ غربت سے باہر نکلے تھے لیکن اِس حکومت نے جی ڈی پی گروتھ 5.8 فیصد سے 3.3 فیصد تک پہنچا دی ہے جو آئندہ سال 2.7 فیصد رہے گی۔ پچاس لاکھ لوگ دوبارہ خطِ غربت میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ 15 لاکھ 25ہزار لوگوں کو بے روزگار کردیا گای ہے۔ سندھ حکومت وفاق سے درست گلہ کرتی ہے کیونکہ مسلم لیگ(ن) نے صوبوں کو وفاق کی جانب سے گیارہ سو ارب سے بڑھا کر اس حجم کو 25 سو ارب روپے کردیا تھا۔
حکومت کے لیے دوسرا بڑا محاذ امور خارجہ کا ہے اور اس میں کشمیر ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ لیکن اب حکومت کی خاموشی بتارہی ہے کہ بہت بڑا یوٹرن لے لیا گیا ہے۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کے ساتھ رواں ہفتے ایک خصوصی نشست ہوئی۔ اس نشست کا جوہری عرق یہ ہے کہ ڈیڑھ سال کا وقت گزر جانے کے باوجود حکومت نے ابھی تک یہ طے ہی نہیں کیا کہ کشمیر کمیٹی کو کس سمت میں کام کرنا ہے۔ سید فخر امام کا مؤقف ہے کہ ہمیں صرف سلامتی کونسل ہی راستہ دے سکتی ہے۔ حکومت اس محاذ پر کیا کررہی ہے، یہ انہیں بھی معلوم نہیں۔
ہماری حکومت نے ایک لمحے کے لیے بھی پارلیمنٹ میں خارجہ پالیسی پر بحث نہیں کرائی۔ حکومتی بیانیے سے مسئلہ کشمیر غائب ہوچکا ہے۔ ان دنوں کشمیر پر اہم ترین سرکل میں جو گفتگو آج کل ہورہی ہے ہماری حکومت میں جرأت اور مجال نہیں کہ اس گفتگو سے ہٹ کر اپنا مؤقف بیان کرسکے۔ اس گفتگو کے بارے میں آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار انور خان، موجودہ صدر سردار مسعود خان اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ بخوبی آگاہ ہے، مگر ان میں سے کوئی یہ بات نہیں بتائے گا کہ کشمیر کے محاذ پر خاموشی کیوں ہے۔