نصف صدی تخت نشین رہنے والے 79 سالہ سلطانِ عمان قابوس بن سعید آل سعید 10 جنوری کو انتقال کرگئے۔ سلطان قابوس نے 1970ء میں اپنے والد سعید بن تیمور کو معزول کرکے تخت و تاج سنبھالا تھا۔ سلطان سعید بن تیمور بھی 38 سال برسراقتدار رہے۔ اومان کے ہجے کے بارے میں پاکستانی حکومت اور عمران خان تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جنھوں نے اپنے تعزیتی ٹویٹ میں عُمان کو اومان لکھا ہے۔ یہ درست کہ مملکت کا سرکاری ہجے عُمان ہے لیکن اردن کے دارالحکومت عمان سے مماثلت کی بنیاد پر خلیجی اخبارات میں اسے اومان بھی لکھا جاتا ہے کہ اس کا مقامی تلفظ ’اوہمان‘ ہے۔ احباب کی آسانی کے لیے عرض ہے کہ اردن کا دارالحکومت ’م‘ پر تشدید کے ساتھ عمّان جبکہ ’ع‘ پر پیش کے ساتھ ’عُمان‘ وہ سلطنت ہے جس کے سلطان قابوس بن سعید تھے۔
جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مشرق میں 310 مربع کلومیٹر پر مشتمل اس سلطنت کی آبادی 48 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ یہاں غیر ملکیوں کا تناسب 55 فیصد سے زیادہ ہے۔ عُمان سے 1970ء میں غلامی کا خاتمہ کردیا گیا، لیکن 26 ہزار لوگ اب بھی سرکاری طور پر غلام ہیں۔ تارکین وطن سے سلوک کے معاملے میں عُمان کو مشرق وسطیٰ میں قدرے بہتر ملک سمجھا جاتا ہے۔ عُمان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یمن کا پڑوسی ہے، جبکہ آبی سرحد (Maritime Borders)کے حوالے سے ایران بھی عُمان کا پڑوسی ہے۔ آبنائے ہرمز کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے عُمان کا جغرافیہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
اموی دور میں مسلم مبلغین عُمان آئے اور یہاں آباد ازد قبائل میں دعوت و تبلیغ کا کام شروع ہوا۔ ازد دراصل قوم سبا کا تسلسل ہے۔ اور یہ لوگ عقیدۂ توحید و آخرت سے مانوس تھے، چنانچہ مبلغین کو کسی قسم کی آزمائش و پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑا، اور جلد ہی آبادی کا بڑا حصہ مسلمان ہوگیا۔ اموی اقتدار کے خاتمے پر یہ علاقہ امامت عُمان بن گیا اور اموی گورنر جنت بن عبادہ پہلے امام (سربراہ) مقرر ہوئے۔ عباسیوں (وفاق) کی مداخلت بلکہ دخل در معقولات کے باعث امامت کا اختیار و اقتدار محدود ہوکر محض گورنر بلکہ کمشنر کا رہ گیا، اور کچھ عرصے بعد سلجوقیوں نے عُمان کو اپنی ریاست میں ضم کرلیا۔
1507ء میں پرتگالیوں نے عُمان پر قبضہ جما لیا، جبکہ مسقط اور خلیج اومان کے ساحلی علاقوں کو ترکوں نے خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنالیا۔ 1798ء میں ایک معاہدے کے تحت عُمان کا بڑا حصہ برطانیہ کے زیر نگیں آگیا، اور1932ء میں انگریزوں نے سعید بن تیمور کو سلطان مسقط مقرر کردیا۔ برطانوی ادارے عراق پیٹرولیم کمپنی کو عُمان میں تیل و گیس کی تلاش کا ٹھیکہ عطا ہوا۔ 1937ء میں ہالینڈ کی پیٹرولیم کمپنی شیل (Shell) نے عُمان میں تیل کی تلاش کا کام شروع کیا اور حکومت کی شراکت داری میں شرکۃ تنمیۃ نفط عمان والظافر قائم کی گئی۔
اسی دوران پاکستان نے 30 لاکھ ڈالر کے عرض عُمان سے گوادر خرید لیا۔ سودا تو 7 ستمبر 1958ء کو طے ہوا لیکن لیکن 3 مہینے بعد یعنی 8 دسمبر 1958ء کو گوادر بلوچستان کا حصہ بن گیا۔ 1967ء میں پیٹرولیم کمپنی کی تنظیم نو کرکے اس کا نام شرکۃ تنمیۃ نفط عمان یا PDO کردیا گیا۔ بلاشبہ تیل و گیس کی مؤثر تلاش سلطان سعید بن تیمور کا بڑا کارنامہ تھا۔ اسی کے ساتھ شاہ تیمور چاہتے تھے کہ وہ سارا علاقہ ان کی سلطنت کا حصہ بن جائے جو امامتِ عُمان کا حصہ تھا۔ اس شوقِ کشور کشائی میں ان کی سلطنت کمزور ہوگئی اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کی مدد سے اپنے والد کو ہٹاکر قابوس بن سعید سلطانِ عُمان بن گئے۔ انھوں نے اپنے معزول والد کو انتہائی عزت و احترام سے لندن بھیج دیا جہاں دوسال بعد وہ انتقال کرگئے۔ سعید بن تیمور انتہائی قدامت پسند تھے جنھیں عُمانی ثقافت سے پیار تھا۔ اسی بنا پر وہ ملک میں غیر مسلم غیر ملکیوں کے آنے کے مخالف تھے۔ وہ غیر ملکیوں کو عُمان میں تجارت کی اجازت دینے کے بھی روادار نہ تھے۔
سلطان قابوس نے تخت نشین ہونے کے بعد اقتدار کا جبر تو برقرار رکھا لیکن تجارت پر پابندیوں کو ختم کرکے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی۔ PDOکو مزید مستحکم کیا گیا اور شیل کے ساتھ فرانس کی ٹوٹل (TOTAL) نے 4 فیصداور پرتگال کی پرٹیکس (PARTEX) نےPDO کے 2 فیصد حصص خرید لیے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سلطان قابوس نے دستور میں ترمیم کرکے آزاد معیشت کو ملک کی قومی پالیسی قرار دے دیا، جس کے نتیجے میں تیل وگیس کے علاوہ بینکنگ، بیمہ اور سرمایہ کار کمپنیاں عُمان کی طرف مائل ہوئیں، لیکن اب بھی تیل سلطنت کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور 70 فیصد قومی آمدنی تیل کی فروخت سے ہوتی ہے۔ اپنے پڑوسیوں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مقابلے میں عُمانی تیل و گیس کے ذخائر قابلِ رشک نہیں۔ تیل کے دریافت شدہ ذخائر کا حجم ساڑھے پانچ ارب بیرل ہے، جبکہ زیر زمین ساڑھے آٹھ سو مربع ارب میٹر گیس کی دریافت کی گئی ہے۔ بھرپور کوششوں کے باوجود عُمان میں تیل کی یومیہ پیداوار ساڑھے نو لاکھ بیرل سے آگے نہ بڑھ سکی۔گیس کی سالانہ پیداوار کا تخمینہ 24 ارب مکعب میٹر ہے جس کا بڑا حصہ LNG بناکر فروخت کیا جاتا ہے۔
سلطان قابوس آزاد معیشت اور سماجی و ثقافتی آزادی کے علَم بردار تو تھے لیکن دوسرے عرب شیوخ، امرا اور ملوک کی طرح وہ بھی ایک مطلق العنان حکمران تھے۔ انھوں نے 2011ء میں اٹھنے والی آزادی کی تحریک المعروف ’عرب اسپرنگ‘ کو پوری قوت سے کچل دیا، حالانکہ مظاہرین حکومت کی تبدیلی کے بجائے بہتر روزگار، بدعنوانی و غربت کے خاتمے کا ’بے ضرر‘ مطالبہ کررہے تھے۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے سلطان قابوس نے عمان کو علاقائی و عالمی تنازعات سے الگ تھلگ رکھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ سیاسی تنازعات میں غیر جانب داری عُمانی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ انھوں نے یمن کے خلاف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی عسکری مہم اور قطر کو تنہا کرنے کی کوششوں سے بھی خود کو الگ رکھا۔
سلطان قابوس اسرائیل سے تصادم کے خلاف تھے اور گزشتہ برس اکتوبر میں ان کی دعوت پر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے عُمان کا دورہ بھی کیا۔ دورے کے موقع پر روایتی مشترکہ پریس کانفرنس نہیں ہوئی لیکن اس کے چند دن بعد بحرین میں علاقائی سلامتی کانفرنس کے موقع پر عُمان کے نائب وزیرخارجہ یوسف علوی بن عبداللہ نے کہا کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا ایک ملک ہے اور ہم اسرائیل اور فلسطینیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم یہاں بھی غیر جانب داری برقرار رکھتے ہوئے علوی صاحب نے بہت دوٹوک لہجے میں کہا کہ عُمان ثالث کے کردار میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے جسے ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، اب ہمارے لیے بھی اسرائیل سے اسی سلوک کا وقت آگیا جس کا وہ مستحق ہے۔ علوی صاحب نے اسرائیلی وزیراعظم کے دورۂ عُمان کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے چند روز قبل فلسطینی صدر محمود عباس بھی عُمان آئے تھے۔ تاہم انھوں نے بات چیت کی تفصیل بتانے سے انکار کردیا۔ انھوں نے شاعرانہ انداز میں کہا کہ ’’نہ تو راستہ آسان ہے اور نہ ہر طرف پھول کھلے ہوئے ہیں، لیکن بے نتیجہ تنازعے کو ختم کرکے نئی سمت قدم بڑھانا ہی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔‘‘
سلطان قابوس اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کے معاملے میں یکسو اور نپے تلے انداز میں اہداف کے حصول کی جانب گامزن تھے۔ اسرائیل سے تعلقات ان کی ترجیح تھی۔ زبان پر انھیں غضب کا قابو تھا، اور ان کی گفتگو میں لاف زنی، دعووں اور سنسنی کا شائبہ تک نہ تھا۔ یہی انداز ان کی کابینہ اور دوسرے عمالِ حکومت کا بھی تھا۔ عُمانی نائب وزیر خارجہ نے بحرین میں اسرائیلی وزیراعظم کے دورے اور سلطان قابوس کی نیتن یاہو سے گفتگو کا جس محتاط اور مختصر ترین انداز میں ذکر کیا اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلطان قابوس نہ صرف خود کم گو اور بات کو تول کر بولنے کے قائل تھے بلکہ انھوں نے اپنی ٹیم کی تربیت بھی اسی انداز میں کی تھی۔
سلطان قابوس ایک عرصے سے علیل تھے اور اس موضوع پر بھی معلومات کے افشا میں حد درجہ احتیاط کا مظاہرہ کیا گیا۔ گزشتہ برس وہ علاج کے لیے بیلجیم گئے تو یہ افواہ عام ہوئی کہ وہ بڑی آنت کے سرطان میں مبتلا ہیں، لیکن سرکاری ترجمان نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ ان کے انتقال پر بھی عُمانی وزارتِ اطلاعات نے موت کی وجہ نہیں بتائی۔
سلطان قابوس بے اولاد تھے لہٰذا ان کا کوئی ولی عہد نہ تھاُ تاہم انھوں نے وصیت میں اپنے چچا زاد بھائیوں نائب وزیراعظم سید اسد بن طارق السعید اور وزیر ثقافت ہیثم بن طارق السعید کو تخت نشینی کے لیے نامزد کیا تھا۔ یہ دونوں حضرات آپس میں سوتیلے بھائی ہیں۔ شاہی خاندان کی مجلس شوریٰ نے ہیثم بن طارق السعید کو نیا سلطان منتخب کرلیا۔ تاج پوشی کے بعد نئے سلطان نے وزارتِ عظمیٰ، وزارتِ خزانہ، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع کے قلمدان اپنے پاس رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ سلطان ہیثم عُمانی مسلح افواج کے سربراہ بھی ہوں گے۔
65 سالہ ہیثم بن طارق آکسفورڈ کے فارغ التحصیل، سیاسی اعتبار سے لبرل،کھیلوں کے شوقین اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مشہور ہیں۔ فٹبال سے دیوانگی کی حد تک دلچسپی کی بنا پر سابق سلطان نے انھیں عُمان فٹبال ایسوسی ایشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ تخت نشینی کے بعد اپنے خطاب میں انھوں نے سلطان قابوس کی غیر جانب دار اور پُرامن بقائے باہمی پر مبنی ’’سب سے پہلے عُمان‘‘ پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے معذور لوگوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی عزتِ نفس کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معذور لوگ ہمدردی نہیں بلکہ برابری کے مستحق ہیں۔ عمارتوں کی تعمیر، سہولتوں کی فراہمی اور انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے معذور لوگوں کو معاشی دوڑ دھوپ میں شریک ہونے کا یکساں موقع مل سکے۔
نئے سلطان علاقائی معاملات خاص طور سے اسرائیل کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کریں گے اس کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، لیکن وہ خارجہ امور پر سابق سلطان کے معتمد مشیر تھے اور خیال ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات سمیت تمام معاملات پر ان کے اور سابق سلطان کے خیالات میں مکمل ہم آہنگی تھی۔ تاہم ایک نجی نشست میں انھوں نے سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر کی اس بات سے اتفاق کیا کہ اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کی چابی خودمختار فلسطین ہے جس کے بغیر عرب ممالک کے لیے اسرائیل سے مخلصانہ سفارتی تعلقات ممکن نہیں۔
…………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔