پارلیانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کا خصوصی انٹرویو
پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام ایک مدبر اور تعلیم یافتہ سیاسی رہنما اور تجربہ کار پارلیمنٹیرین ہیں، متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں، سابق اسپیکر اور وفاقی کابینہ میں بھی شامل رہے ہیں۔ اِس بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو انہیں پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔ ان کے ساتھ رواں ہفتے پارلیمنٹ ہائوس میں ایک خصوصی نشست ہوئی، اس نشست کا اہتمام کشمیر کمیٹی کے سیکریٹری جناب نسیم خالد نے کیا تھا۔ اس نشست میں ہونے والی گفتگو فرائیڈے اسپیشل کے قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
…………
فرائیڈے اسپیشل: آپ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سے بھی مکمل آگاہ ہیں، یہ فرمائیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کے پاس کیا آپشن ہیں اور کیا راستہ ہے؟ ابھی حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں امریکہ سمیت متعدد ممالک کے سفیروں نے کچھ علاقوں کا دورہ بھی کیا ہے۔ ہمیں اپنا مقدمہ پیش کرنے اور جیتنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
سید فخر امام: کشمیر برصغیر کا تصفیہ طلب مسئلہ ہے اور اس بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت ہی نے معاملہ پیش کرکے عالمی برادری کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کو اُن کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار رائے شماری کے ذریعے دیا جائے گا۔ گزشتہ سال جب 5 اگست کو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ہی تبدیل کردی تو 16 اگست کو پاکستان کی درخواست پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ ہماری درخواست پر یہ اجلاس ہونا ایک کامیابی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں ہم اپنے کیس کو دوبارہ سلامتی کونسل میں اٹھانا چاہیں تو ہمارے لیے اسکوپ کیا ہے۔ گزشتہ سال 16 اگست کے اجلاس کے لیے چین نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا تھا، اسی وجہ سے یہ اجلاس ممکن ہوسکا۔ یہ اجلاس ایک طویل وقفے کے بعد ہوا تھا جس میں ہم نے اپنا کیس پیش کیا۔ ہمارے پاس راستہ یہی ہے کہ ہم سلامتی کونسل کے ذریعے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ، اور کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان نے اپنے مندوب منیر اکرم کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور سیکریٹری جنرل انتونیو سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تباہ کن جنگ روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدام کریں۔ اقوامِ متحدہ میں ہمارے مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ بھارت کے جارحانہ ارادے بے نقاب ہوچکے ہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن پاکستان پر حملہ کیا گیا تو ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے منشور کی پاس داری پر بحث کی گئی۔ منیر اکرم نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ پاکستان سلامتی کونسل اور سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خاتمے اور کشمیریوں کو اُن کا حقِ خودارادیت استعمال کرنے دینے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالیں۔ جہاں تک سفیروں کے دورے کا تعلق ہے بھارت کی حکومت نے انہیں آزادی سے گھومنے کا موقع نہیں دیا، یورپی یونین کے سفیروں نے تو دورے میں شامل سے ہی انکار کردیا ہے۔ یورپی یونین ایک بڑا فورم ہے، اس کے رکن ممالک کا انکار معمولی بات نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا عالمی برادری اور اس خطے کے ممالک ہمارے مؤقف کی حمایت میں سامنے آسکتے ہیں، اس کے امکانات کیا ہیں؟
سید فخر امام: دیکھیں اس وقت ہمیں کچھ سازگار حالات ملے ہیں، جنہیں ہم قدرت کی طرف سے ایک انعام بھی کہہ سکتے ہیں کہ خود بھارت میں اور خاص طور پر متنازع شہریت قانون کے بعد، وہاں سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں جن میں سب سے اہم آواز شنکر مینن کی ہے، جو سابق سفارت کار، بھارت کے خارجہ سیکریٹری اور اس کی سلامتی کونسل کے ایڈوائزر رہے ہیں، اس کے علاوہ بھارت کے سابق وزیر خزانہ چدم برم نے بھی بیان دیا ہے کہ بھارت کی سرکار زیادتی کر ہی ہے اسے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا، کیونکہ ان کے خیال میں بھارت کی عالمی سطح پر سیکولر حیثیت متاثر ہورہی ہے، اب وہ اس قانون کی وجہ سے ہندو توا کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہی بات وہاں کی سول سوسائٹی کو پسند نہیں آئی۔ وہ چاہتی ہے کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہی رہے جہاں تمام قومیں آباد ہیں۔ لیکن بھارت کی حکمران جماعت پر منحصر ہے کہ وہ سول سوسائٹی کے اس دبائو کو کیا اہمیت دیتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا بھارت سے کشمیر پر اب بھی مذاکرات کا امکان ہے؟
سید فخر امام: وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد کوشش کی، اور پیش کش بھی کی، لیکن مثبت جواب نہیں ملا۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت کی جانب سے مسلسل جنگ کی دھمکیاں مل رہی ہیں، آزاد کشمیر پر حملے اور قبضے کی بات بھی کی گئی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ بھارت یہ حرکت کرسکتا ہے؟
سید فخر امام: جنگ مسئلے کا حل نہیں، لیکن اس صورتِ حال کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم پھر کہتا ہوں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے، اگر یہ ہم پر مسلط کردی گئی تو ہمیں پھر اپنا دفاع بھی کرنا ہے۔ یہ کس طرح کرنا ہے، یہ فیصلہ تو صورت حال دیکھ کر ہی ہوگا، لیکن ہم اپنا دفاع بھی کریں گے اور آزاد کشمیر کا دفاع بھی ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کے جواب میں پاکستان کی طرف سے فوجی طاقت کا استعمال اس کا جائز اور قانونی حق ہے۔ حالات مخالف ہوں یا موافق، کشمیریوں کے لیے جدوجہد آزادی کو مطلوبہ نتائج کے حصول تک جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ صرف سلامتی کونسل ہی ہمیں راستہ دے سکتی ہے۔ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازع ہے جس کے دو نہیں بلکہ تین فریق ہیں، اور جموں و کشمیر کے عوام اس تنازعے کے اہم اور بنیادی فریق ہیں جن کی مرضی اور منشا کے بغیر تنازعے کا کوئی قابلِ عمل حل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث تنازع کشمیر کو بات چیت اور سیاسی و سفارتی ذرائع سے حل کرنے کے امکانات روز بروز معدوم ہوتے جارہے ہیں، ان حالات میں اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں جسے فوری مداخلت کرکے اس تنازعے کو پُرامن ذرائع سے حل کرنے کے لیے متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ بھارت نے پانچ اگست کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں بڑے پیمانے پر نسل کُشی کا جو منصوبہ بنایا تھا اس پر پوری طرح عمل درآمد اس لیے نہ ہوسکا کیونکہ پاکستان اور آزاد جموں وکشمیر کی حکومت نے دنیا کو بھارت کے مذموم اور ناپاک ارادوں سے بروقت آگاہ کردیا تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ بھی بھارت کی حکومت کے خلاف لکھ رہے ہیں، اس سے ہم کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
سید فخر امام: نریندر مودی حکومت کے اقدامات نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اور اب دنیا مقبوضہ جموں و کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات سے پہلے سے زیادہ آگاہ اور باخبر ہے۔ تیسرے فریق کی ثالثی کی پیشکش ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کشمیریوں اور پاکستان کے بارے میں ناپاک عزائم رکھتا ہے، لیکن دنیا اب بھارتی چالوں اور اس کے گھنائونے عزائم سے پوری طرح واقف ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو اب اپنی خاموشی توڑ کر خطے کو تباہ کن جنگ سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقِ خودارادیت کے مطالبی اور وہاں انسانی حقوق کی پامالیوں پر یکساں طور پر آواز بلند کرنی چاہیے ۔
فرائیڈے اسپیشل: مقبوضہ کشمیر میں اگست کے بعد سے اب تک مسلسل کرفیو ہے، ہمیں جو کچھ کرنا چاہیے تھا کیا ہم کررہے ہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ایک پیج پر نہیں ہے، صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان، اور وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر معلوم نہیں ہورہی ہیں، ہم اس صورتِ حال میں اپنا مقدمہ کیسے جیت سکتے ہیں؟
سید فخر امام: مجھے اس کا علم نہیں ہے، میرے سامنے ہر سیاسی جماعت نے ایک جیسی ہی بات کی ہے اور یکساں مؤقف اپنایا ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ ایک پیج پر نہیں، اس سےاتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ سب اس صورتِ حال کو سنگین خیال کررہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اگست کے بعد سے اب تک مسلسل کرفیو ہے، شہریوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں، بھارتی حکومت شہریت قانون کے ذریعے ڈیموگرافی تبدیل کرتی چلی جارہی ہے اور ایک سیکولر بھارت کے بجائے ہندوتوا کے لیے کام کررہی ہے، جس کا نشانہ صرف مسلمان ہیں، جس کی وجہ سے بھارت ان کے لیے اب ایک غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا آپ کے سامنے کوئی تجویز یا غور و فکر کے لیے کوئی بات آئی کہ آزاد کشمیر کے جو حصے پنجاب اور کے پی کے کے ساتھ ملتے ہیں انہیں ان صوبوں میں شامل کردیا جائے؟
سید فخر امام: نہیں، کبھی نہیں۔ ایسی کوئی بات میرے سامنے نہیں آئی۔ دیکھیں کشمیر پر ہمارا مؤقف کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ تصفیہ طلب مسئلہ ہے جسے کشمیریوں کی رائے سے ہی حل ہونا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسے تسلیم کررکھا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اسے صوبوں میں شامل کرلیں!
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کی پارلیمنٹ میں ابھی تک خارجہ امور پر بحث ہی نہیں ہوسکی؟
سید فخر امام: پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بدترین مظالم کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی ہے ۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے سابق سفیر شیو شنکر مینن جو پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر اورچین میں سفیر رہے ہیں، بعد میں بھارت کے سیکریٹری خارجہ بھی بنے اور سیکورٹی ایڈوائزر بھی رہے، ان کے علاوہ سابق وزیر خزانہ چدم برم نے بھی تسلیم کیا ہے۔ ان دونوں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ مودی کے ان اقدامات کے باعث بھارت دنیا میںتنہا ہورہا ہے۔ بھارت بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کو مقبوضہ کشمیرکا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ بین الاقوامی میڈیا پہلی بار بھارت کے چہرے کو بے نقاب کررہا ہے۔ آسام میں 19 لاکھ کی مسلم آبادی کو شہریت سے محروم کردیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اقدامات مقبوضہ کشمیر کے عوام کی زندگی اور ریاست کی معیشت کے لیے تباہ کن ہیں۔ دنیا کے ذرائع ابلاغ مکمل شواہد کے ساتھ بھارت کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر کی تباہی و بربادی کی داستان بیان کر رہے ہیں۔ ’’جینو سائیڈ انٹرنیشنل‘‘ نے بھی اپنی رپورٹ میں واضح طورپر کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کُشی دس مراحل میں سے اس وقت آٹھویں مرحلے میں ہے اور اگلے دو مراحل میں کشمیریوں کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی یہ وہ تصویر ہے جو ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے سامنے آرہی ہے۔