بلوچستان پارٹی اور نیشنل پارٹی کے درمیان بیانات کی جنگ

۔7 جنوری (2020ء)کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد آرمی سروسز ایکٹ ترمیمی بل2020ء ایوانِ بالا (سینیٹ) سے بھی 8 جنوری2020ء کو کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، ق لیگ وغیرہ نے بھی بل کی حمایت کی۔ مخالفت میں جماعت اسلامی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، پشتون تحفظ موومنٹ نے ووٹ ڈالا۔ نیشنل پارٹی کے اقلیتی سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے بل کے حق میں ووٹ دیا، جس کے فوراً بعد نیشنل پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ڈاکٹر اشوک کمار کی پارٹی کی بنیادی رکنیت ختم کردی۔ نیشنل پارٹی نے ڈاکٹر اشوک کمار کی سینیٹ کی رکنیت ختم کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجنے کا بھی اعلان کیا۔ نیشنل پارٹی کا یہ اقدام درست سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں مفاد و مصالح سے ہٹ کر فیصلے و اقدامات کریں گی، اپنے اراکینِ پارلیمنٹ کو پارٹی پالیسیوں پر عمل درآمد کا پابند کریں گی تو اس سے سیاسی وفاداری کا کلچر عام ہوگا، فکری و نظریاتی سیاست پروان چڑھے گی۔ یکم اگست2019 ء کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی ایسے ہی ارکانِ پارلیمنٹ کی وجہ سے ہوئی، جنہوں نے پارٹی فیصلوں اور حکم کو ہوا میں اڑا کر طاقتور لوگوں کی ہدایت پر عمل کیا۔ تب مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف کے بعض اراکینِ سینیٹ نے عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف ووٹ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ درپردہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رکن نے بھی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔ یقیناً ان جماعتوں سے پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے والے اپنے ارکانِ سینیٹ مخفی نہ تھے۔ چناں چہ ان کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی تو اس سے سیاسی و جماعتی روایات مستحکم ہوتیں اور آئندہ ایوانوں کے اندر کسی کو ضمیر فروشی کی ہمت نہ ہوتی۔ افسوس کہ ان سب جماعتوں نے اکثریت رکھنے کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک میں ناکامی کی شرمندگی تو برداشت کی، مگر اپنے اراکینِ سینیٹ کے خلاف کارروائی کی جرأت نہ کرسکیں۔ بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں نیشنل پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی خالد لانگو نے پارٹی کے خلاف بغاوت کی۔ تب نیشنل پارٹی نے پس و پیش سے کام لیا۔ ان کی رکنیت ختم کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع نہ کیا، البتہ ان کی پارٹی رکنیت ختم کردی تھی۔ حالانکہ خالد لانگو کی اسمبلی رکنیت فوری ختم کرنی چاہیے تھی، جیسے پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے اپنے باغی رکن اسمبلی منظور کاکڑ کے ساتھ کیا۔ منظور کاکڑ نااہل کرا دیے گئے، جو بعد ازاں بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے، اور انہیں پشتون خوا میپ کے سینیٹر سردار اعظم موسیٰ کی وفات کے باعث خالی ہونے والی نشست پر سینیٹ کا رکن بناکر نوازا گیا۔
آرمی سروسز ایکٹ کی منظوری کے معاملے نے گویا کمزور سیاست خاص کر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قلعی مزید کھول دی ہے۔ بلوچستان کے اندر بلوچستان نیشنل پارٹی مخمصے کا شکار ہے۔ بی این پی نے صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں بھی حکومتی اتحاد کا ساتھ دیا، عمران خان کی حکومت قائم کرنے میں معاون بنی، اور اب آرمی سروسز ایکٹ میں بھی حمایت کرنے والی جماعتوں کی صف میں کھڑی ہوگئی۔ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان بیانات کی مڈبھیڑ ہوئی۔ دونوں جماعتیں صوبے میں سیاسی حریف ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلی میں اس وقت بلوچستان نیشنل پارٹی عددی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے، جبکہ نیشنل پارٹی بلوچستان اسمبلی اور قومی اسمبلی میں صفر ہے۔ 9 جنوری کو بی این پی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ کا بیان چھپا کہ ’’سردار اختر جان مینگل اور پارٹی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے مقصد سے بخوبی آگاہ ہیں، ان کا مقصد صرف اور صرف سیاست میں زندہ رہنا اور اپنا قد اونچا کرنا ہے، عوام کی جانب سے مسترد ہونے والے منفی پروپیگنڈہ کرکے عوامی حمایت حاصل نہیں کرسکتے۔ بی این پی اور نیشنل پارٹی میں واضح فرق یہ ہے کہ بی این پی نے عوامی مفادات اور نیشنل پارٹی نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ ہم نے سیاست کو عبادت کا درجہ دیا، بلوچوں اور بلوچستانی عوام کے اجتماعی مفادات کی خاطر چھے نکاتی معاہدہ کیا، بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے حل کو ترجیح دی۔ بلوچ لاپتا افراد کی بازیابی سرفہرست ہے۔ جبکہ نیشنل پارٹی نے اقتدار کی خاطر بھوربن معاہدہ کیا، جو خالصتاً وزارتِ اعلیٰ کی خاطر تھا۔ اس معاہدے میں بلوچوں اور بلوچستانی عوام کے مفاد کا کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ تنقید کرنے والے کیا یہ بھول گئے ہیں کہ ملٹری کورٹس کا جب قیام عمل میں آرہا تھا تو انہوں نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اقتدار کی خاطر اتنے بے بس تھے کہ جب چین گئے تو بلوچستان کی نمائندگی نہیں کی بلکہ بطور گواہ موجود رہے اور شہبازشریف کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے تھے، تاکہ کوئی گستاخی سرزد نہ ہو اور وہ اقتدار سے محروم نہ ہوجائیں۔ کیا انہوں نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں صوبائی اور وفاقی سطح پر یہ جرأت کی کہ ملک کے ایوانوں میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں؟ ہاں یہ ضرور کیا کہ اربوں روپے ٹینکی اور بیکریوں سے برآمد ہوئے جو بلوچستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ ہزاروں پوسٹیں خالی تھیں مگر ان باصلاحیت انسانوں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار دیں۔ کھربوں روپے پانچ سال میں لیپس ہوئے لیکن گوادر اور کوئٹہ میں لوگ پانی کے بوند بوند کو ترستے رہے۔ مردم شماری اور خانہ شماری کے دوران ان کا مؤقف یہ تھا کہ افغان مہاجرین کا نام لینے سے کترا رہے تھے۔ ان کے بیانات، پالیسیاں اور حکومت تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ افغان مہاجرین کو افغان مہاجرین کہنے کے بجائے تارکینِ وطن کہتے رہے، کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ ان کا اہم اتحادی ان سے ناراض نہ ہوجائے، ان کی حکومت نہ چلی جائے۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جو لاپتا افراد آج زندانوں میں ہیں ان کی مخبری اور رپورٹوں کی بدولت ہیں۔ پرویزمشرف دور سے لے کر 2018ء تک بالواسطہ یا بلاواسطہ مختلف حکومتوں میں برسراقتدار رہنے والے آج کس منہ سے بلوچوں اور بلوچستان کی نمائندگی کرنے کے دعوے کرتے ہیں! کیا انہوں نے کبھی بلوچستان کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے سوچا؟ پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل کو الیکشن میں شکست دینے کی خاطر انہوں نے ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ اتحاد بھی کیا، لیکن انہیں بلوچستان کے عوام نے جس طرح مسترد کردیا، اس سے اب یہ ذہنی کوفت اور پریشانی کے عالم میں سرگرداں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سیاست میں زندہ رہا جائے۔ انہوں نے بلوچ دشمن اقدامات اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کیے، بلوچ علاقوں کے ہزاروں اساتذہ کی پوسٹیں جو خالی تھیں انہیں اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے منسوخ کرایا۔ ان کے دور میں اتحادی وزراء یہ کہتے رہے کہ سریاب میں بلوچوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے، مگر یہ چپ ہوکر سنتے رہے۔ گوادر کے عوام کو پانی میسر نہیں تھا مگر ان کے دور میں اورنج لائن اور سی پیک کے تمام فنڈز بلوچستان میں نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں لگے۔ یہ اقتدار کی خاطر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے گواہ بنے ہاتھ باندھے کھڑے رہے۔ ہمارے چار ووٹوں سے 470 سے زائد بلوچ لاپتا افراد بازیاب ہوئے۔ مائوں، بہنوں کے کسی حد تک آنسو پونچھے تو یہ ہماری جیت ہے۔ ہم وزارتوں کی بھیک نہیں مانگ رہے ان لوگوں کی طرح۔ پارٹی قائد آج بھی لاپتا افراد کی بازیابی، 70سال سے بلوچوں کے خلاف جاری استحصال کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ آج مرکزی حکومت یہ کہتی ہے کہ ایک بار پھر بلوچ لاپتا افراد کی بازیابی کے عمل کو تیز کیا جائے گا، اور گوادر کے عوام کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ ہم اقتدار کی نہیں بلکہ عوامی سیاست کرتے ہیں۔ ہمارا ہر اقدام بلوچستانیوں کے اجتماعی مسائل کے حل کی خاطر ہے، ہم ہمیشہ عوام کے حقوق کی خاطر جدوجہد کرتے رہیں گے۔‘‘
اس کے بعد 10جنوری2020ء کو نیشنل پارٹی کا جواب آیا۔ پارٹی بیان میں کہا گیا:
’’بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت حواس باختہ ہوچکی ہے، اپنی سیاسی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے الٹا الزامات لگانے پر اتر آئی ہے۔ ہم نے بی این پی مینگل کی پالیسیوں اور قیادت پر کوئی تنقید نہیں کی ہے، ہم ہر سیاسی پارٹی و قیادت کا احترام کرتے ہیں۔ اس بات پر بی این پی مینگل کی قیادت کو شرمندہ نہیں ہونا چاہیے کہ انھوں نے آرمی ترمیمی ایکٹ کو سپورٹ کیا ہے۔ ہمارے ایک سینیٹر نے بھی بی این پی مینگل کی قیادت کی طرح یہ عمل کیا جس کو فوراً قیادت نے پارٹی سے نکال دیا۔ یہ ہماری پالیسی ہے اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کو سپورٹ کرنا بی این پی مینگل کی پالیسی ہے۔ ہمیں دکھ اس بات کا ہے کہ جمہوریت دشمن اقدام کے بعد بی این پی مینگل کی قیادت نے ہمارے خلاف بلاوجہ بیان دیا۔ افسوس تو ہمیں اس بات کا ہے کہ اگر یہ عمل قابلِ ستائش ہوتا تو اختر جان مینگل یہ اعزاز بھی خود لیتے، آغا اور نوتیزئی کو نہیں چھوڑتے۔ سیاسی کارکنوں کی بے توقیری کا صرف افسوس کرسکتے ہیں، جبکہ مینگل گروپ کے سیاسی کارکن اپنے اس کردار پر فخر کررہے ہیں تو ہماری طرف سے آغا اور نوتیزئی کو مبارک ہو۔ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بی این پی اب سردار عطااللہ خان مینگل کی پارٹی نہیں رہی، اب اس کے سرپرستِ اعلیٰ جہانگیر ترین بن چکے ہیں۔ اب اس پارٹی سے خیر کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ اب ہماری گزارش ہے کہ قصے سنانا بند کریں، اور اپنے اور پارٹی کے سیاسی کردار پر غور کریں۔ ہم صرف اس بات کا افسوس کرسکتے ہیں کہ سردار عطا اللہ خان مینگل کی ایک سیاسی جدوجہد رہی ہے اور بلوچستان کا بچہ بچہ ان کا احترام و عزت کرتا ہے اور انہیں اپنا رہنما تسلیم کرتا ہے، لیکن ان کی پارٹی کے حالیہ اقدامات نے پوری قوم کو شرمندہ کردیا۔ اگر بی این پی کی قیادت کو اس کا احساس نہیں تو ہم اس پر صرف افسوس کرسکتے ہیں۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل کی طرف سے آرمی سروسز ایکٹ کے حوالے سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے کہ آیا حمایت کس جواز کے تحت کی گئی، یا مخالفت نہ کرنے کی دلیل کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے متحدہ حزبِ اختلاف میں دراڑ ڈالی اور عدم اعتماد پیدا کردیا ہے۔ بل پاس ہونے کے بعد سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ ’’پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جعلی مینڈیٹ والی حکومت نے مل کر جمہوریت کو پارلیمنٹ کے اندر دفن کردیا۔ صرف تین افراد آرمی چیف، نیول چیف اور ایئرفورس کے سربراہ کے لیے قانون لایا گیا، تاکہ ان کی مدت ملازمت کو توسیع دی جائے۔ ہم آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع سے تنگ تھے، اب اس میں نیوی، ایئر فورس اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بھی آگئے۔ سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ اور جمہوریت کا مذاق بنایا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت چھوٹی جماعتیں چاہے مذہبی ہوں یا قوم پرست، جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی ڈکٹیٹر شپ کے ساتھ کھڑی ہیں۔‘‘(9جنوری2020ء)
پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کہتے ہیں کہ آرمی ایکٹ کی منظوری سے ملک کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ نوازشریف اور مریم نواز جمہوریت کے صفِ اوّل کے رہنما ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ یہ راستہ کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ اگر انہوں نے یہ راستہ چھوڑ دیا تو شیخ رشید کی بات صحیح ہوگی کہ سیاست دان گیٹ چار کی پیداوار ہیں۔ (9جنوری 2020ء)۔