ریاست مدینہ اور سود اکٹھے نہیں چل سکتے

قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ریاست مدینہ اور سود ساتھ ساتھ چلیں گے؟ سودی نظام کی تباہ کاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا چترالی نے ایوان کو متنبہ کیا کہ سود سے نوجوان اور خاندان تباہ ہورہے ہیں، اس لیے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔
مولانا چترالی کے اس مطالبے کے جواب میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ سودی نظام کا خاتمہ آہستہ آہستہ ہوگا۔ قائداعظم نے اسٹیٹ بینک کو سود کے خاتمے اور اسلامی بینکنگ کے آغاز کی ہدایت کی تھی مگر افسوس کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم اس پر عمل نہیں کرسکے۔ وزیر موصوف کا مزید کہنا تھا کہ شکر کریں کہ ملک کی 72 برس کی تاریخ میں پہلا وزیراعظم ہے جو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے، پہلے ریاست مدینہ کی جو باتیں مسجد و منبر پر ہوتی تھیں، وہ آج ایوان میں ہوتی ہیں۔ وزیر مملکت علی محمد خان کا یہ کہنا درست ہے کہ ریاست مدینہ کا جو تذکرہ پہلے زیادہ تر محراب و منبر سے ہوتا تھا، وہ آج صبح شام وزیراعظم عمران خان کے وردِ زبان رہتا ہے اور ان کی کم و بیش ہر تقریر دل پذیر کا جزوِ لازم قرار پا چکا ہے، مگر وزیر موصوف کو شاید یہ احساس نہیں کہ قولِ بے عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس قدر ناپسندیدہ ہے جس کی قرآن حکیم میں ان الفاظ میں مذمت اور ممانعت فرمائی گئی ہے کہ: ’’اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات شدید ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں‘‘۔ اس لیے وزیر مملکت علی محمد خان کو خود بھی سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینی چاہیے اور اپنے محترم وزیراعظم کو بھی متوجہ کرنا چاہیے کہ جب وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتے ہیں تو ان کی ذمہ داری کس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ محض زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس عملی اقدام پر بھی توجہ دیں، ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی شدید ناپسندیدگی کی وعید کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس پس منظر میں مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب کا سوال یقیناً سنجیدہ غور و فکر اور عملی اقدام کا متقاضی ہے کہ کیا ریاست مدینہ اور سود ساتھ ساتھ چلیں گے؟
جہاں تک ملکی معیشت پر سود کے منفی اثرات کا تعلق ہے، تو 2 جنوری کو اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری افسران سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے خود اعتراف کیا ہے کہ ملکی آمدن کا نصف سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ قبل ازیں وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بھی وزیر مملکت برائے اقتصادی امور حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر سید شبر زیدی کے ہمراہ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران قوم کو یہ بتا چکے ہیں کہ اگر سود کی ادائیگی کا بوجھ قومی خزانے سے ہٹادیا جائے تو کوئی خسارہ ملکی معیشت میں باقی نہیں رہتا۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو جب سود کی تباہ کاری کا ادراک ہے تو وہ اس سے جان کیوں نہیں چھڑا لیتے؟ جس کام کے کرنے پر قرآن حکیم میں صاف الفاظ میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے کھلا اعلانِ جنگ کیا گیا ہو… اس کے جاری رہتے ہوئے بھلا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معیشت کیوں کر پھل پھول سکتی ہے، اور ایسا پاکستان کیسے مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کی جانب پیش رفت کرسکتا ہے؟
قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے مولانا عبدالاکبر چترالی کے مطالبے کے جواب میں کہا ہے کہ سودی نظام کا خاتمہ آہستہ آہستہ ہوگا۔ اگرچہ وزیر مملکت نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ سودی نظام کے خاتمے کا نیک کام آہستہ آہستہ کیوں ہوگا، جب کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں قانون سازی پر تو پوری پارلیمنٹ راتوں رات متفق بھی ہوجاتی ہے اور پارلیمانی طریقِ کار اور قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ضمن میں قانون کی منظوری بھی کسی تاخیر کے بغیر عمل میں آجاتی ہے، اسی طرح نیب کے قانون میں ترمیم کا آرڈیننس تو آہستہ آہستہ کے بجائے فوری طور پر جاری کردیا جاتا ہے، حتیٰ کہ آئی ایم ایف سے جس سودی قرضے کے حصول سے بہتر وزیراعظم خودکشی کو قرار دیا کرتے تھے، اس خودکشی سے بدتر عمل میں بھی کوئی تاخیر، کوئی تدریج یا آہستہ آہستہ ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کرتے ہوئے ملک کا پورا معاشی نظام اُس کے کارندوں کے سپرد کردیا گیا، جس کا نتیجہ مہنگائی اور بے روزگاری کے سونامی کی صورت میں پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے… خود کردہ را علاجے نیست، اپنے ہاتھوں قوم کو سودی معاشی قرضوں میں جکڑنے کے بعد وزیراعظم نصف ملکی آمدن کے سود میں چلے جانے کا شکوہ کس سے کررہے ہیں؟ دوسری جانب وزیر مملکت کے بقول سودی نظام کا خاتمہ آہستہ آہستہ ہوگا، مگر گزشتہ ڈیڑھ برس میں آہستہ روی سے سہی، سود کے خاتمے کی جانب حکومت نے کوئی ایک قدم بھی بڑھایا ہو تو قوم کو بتادیا جائے۔ بات بڑی سیدھی سی ہے کہ ’’یا اسلام پہ چلنا سیکھو یا اسلام کا نام نہ لو‘‘۔ پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست بنانا ہے تو اس کے لیے اسلامی احکام کو نافذ بھی کرنا ہوگا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگیوں میں اپنانا بھی ہوگا… یہ نہیں ہوسکتا کہ سودی معیشت بھی چلتی رہے، شراب و کباب کا کاروبار بھی عروج پر ہو…فحاشی و عریانی کا بھی دور دورہ ہو… رشوت، بدعنوانی، چوریاں، ڈاکے، اور قتل و غارت اور جابروں کا ظلم بھی جاری رہے اور پاکستان مدینہ کی اسلامی اور فلاحی ریاست بھی بن جائے۔

ایں خیال است و محال است و جنوں!۔

(حامد ریاض ڈوگر)