کیا مفاہمت کی سیاست کامیاب ہوسکے گی؟۔

حزبِ اختلاف کی مفاہمت کو حکومت سے زیادہ فوج کی حمایت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے

آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے تناظر میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ہونے والی مفاہمت کیا مستقبل کی سیاست میں بھی آگے بڑھ سکے گی؟ سیاسی محاذ آرائی اور بداعتمادی کے ماحول میں حکومت اور حزبِ اختلاف کا قومی مسائل پر ایک ہونا سیاسی عمل میں ایک بڑی پیش رفت سمجھا جارہا ہے۔ کیونکہ آرمی ایکٹ میں ہونے والی اس ترمیم سے پہلے دونوں فریق یعنی حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ حالانکہ سیاست اور جمہوریت کا عمل اسی صورت میں آگے بڑھتا ہے جب حکومت اورحزبِ اختلاف نہ صرف ایک دوسرے کے سیاسی وجود یا مینڈیٹ کو قبول کریں، بلکہ ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کریں۔ بالخصوص قومی اور حساس معاملات پر الجھائو اور ٹکرائو کی سیاست قومی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی اور حال میں بھی حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاست کا بنیادی نکتہ عدم قبولیت اور محاذ آرائی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی عمل، جمہوریت اور سیاست یہاں اپنی ساکھ کو قائم نہیں کرسکے، اور اس کا نقصان جمہوری سیاست کی کمزوری کی صورت میں موجود ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمہوریت اور سیاست کو خارجی سطح پر بہت سے ایسے چیلنجوں کا سامنا ہے جو جمہوری عمل کو کمزور کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خود اہلِ سیاست کے طرزِعمل یا ان کے داخلی سیاسی مسائل نے بھی جمہوری عمل کو کمزور کیا ہے۔
پاکستان میں موجودہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاقِ رائے کی سیاست کو دو نکتوں کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے:
(1) حکومت اور حزبِ اختلاف کے حالیہ سیاسی مفاہمتی رومانس کی وجہ طاقت کے مراکز سے عدم ٹکرائو کی پالیسی ہے۔ حزبِ اختلاف نے حکومت سے زیادہ فوج کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مستقبل کی سیاست میں مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں داخلی سیاست میں جن بڑے مسائل سے دوچار ہیں ان سے نجات کے لیے ان کے پاس اس ترمیم کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے سے یہ اشارے مل گئے تھے کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) ہر صورت میں اس ترمیم کی حمایت کریں گی۔ اس لیے حزبِ اختلاف کی مفاہمت کو حکومت سے زیادہ فوج کی حمایت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
(2) کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کو بھی اب اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ حکومتی گاڑی مفاہمت کی سیاست کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند ہفتوں سے وزیراعظم اور حکومتی وزراء کے لب و لہجے میں حزبِ اختلاف کے بارے میں وہ سختی نظر نہیں آرہی جو پہلے دیکھنے کو ملتی تھی۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں یہ وقتی مفاہمت، جو آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کی صورت میں نظر آئی ہے، کیسے آگے بڑھتی ہے۔ موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس کا انداز حکومتی سے زیادہ حزبِ اختلاف کا رہا ہے، اور لگتا ہے کہ حکومت خود حزبِ اختلاف کا کردار ادا کررہی ہے۔ اسی طرح محاذ آرائی کے اس ماحول میں حزبِ اختلاف کا جارحانہ انداز، سلیکٹڈ اور اسٹیبلشمنٹ کا منتخب وزیراعظم اور حکومت، مائنس ون فارمولا، حکومت گرائو مہم، نئے انتخابات کا مطالبہ اور اِن ہائوس تبدیلی جیسے نعروں کی گونج میں حکومت کا بھی رویہ ردعمل کی صورت میں فطری نظر آتا ہے۔ اسی طرح حکومت کی حزبِ اختلاف کو چور، ڈاکو اور الٹا لٹکانے والی باتوں کی موجودگی میں اتفاقِ رائے کی سیاست پیچھے چلی جاتی ہے۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کے باوجود حزبِ اختلاف بدستور اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ ہم نے حکومت کو کسی بھی شکل میں قبول نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے سیاسی مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ ہم نے موجودہ مفاہمت اس لیے کی ہے کہ ہم فوج اور آرمی چیف کے عہدے کو کسی بھی صورت میں متنازع نہیں بنانا چاہتے تھے، حکومت نے آرمی چیف کی توسیع یا تقرری کے معاملے میں جو بھونڈا انداز اپنایا، یہ بحران اصولی طور پر اسی کا پیدا کردہ ہے، حکومت کی غیر سنجیدگی اور نااہلی کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوا ہے اور ہم نے جمہوریت اور سیاست کی بالادستی کے لیے اداروں کو اس بڑے بحران سے نکالا ہے۔
یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں حکومت کو کوئی بڑا سیاسی ریلیف حزبِ اختلاف سے ملنا مشکل نظر آتا ہے، اور اگر حزبِ اختلاف مفاہمت کی سیاست اختیار کرتی ہے تو یہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوگا۔ یک طرفہ مفاہمت یا بغیر کچھ حاصل کیے سیاسی مفاہمت کا امکان عمومی طور پر کم ہوتا ہے۔
مستقبل کے تناظر میں مفاہمت کے حق میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ یہ عمل یک طرفہ نہیں ہے، اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور ان کی قیادتیں جس مشکل میں ہیں، اس سے یقینی طور پر ان کو کسی نہ کسی شکل میں سیاسی، انتظامی اور قانونی ریلیف ملے گا۔ جہاں تک احتساب اور نیب آرڈیننس کے حوالے سے ترمیم کا تعلق ہے اس پر ایک بڑی سیاست کا امکان ہے۔ کیونکہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں پہلے ہی نیب کے قوانین میں ترمیم پر متفق تھیں، کیونکہ اس بنیادی نکتے پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا اتفاق تھا کہ نیب اپنی حدود سے تجاوز کررہا ہے اور اسے لگام دینا ہوگی۔ حالیہ نیب آرڈیننس میں کاروباری اور تاجر طبقے اور بیوروکریسی کو جو چھوٹ دی گئی ہے وہ بھی حکومتی مفاہمتی سیاست کا نتیجہ ہے۔ البتہ حزبِ اختلاف کی کوشش ہوگی کہ نیب آرڈیننس میں حکومتی حمایت کی صورت میں سیاست دانوں کو بھی وہی ریلیف دیا جائے جو باقی طبقوں کو دیا گیا ہے۔ یہ سوچ خود حکومت کے حلقوں میں بھی پائی جاتی ہے، اور وہ بھی احتساب سے خود کو بچانے کے لیے حزبِ اختلاف کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں۔
حزبِ اختلاف کے حلقوں میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ ہمیں اپنی مفاہمتی سیاست میں حکومت کو سیاسی آکسیجن یا ریلیف دینے کے بجائے اس کی بھرپور مخالفت جاری رکھنی چاہیے۔ کیونکہ ان کو خدشہ ہے کہ مفاہمت کی یہ سیاست حکومت کو پورا موقع دے گی کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر طور پر پیش کرسکے۔ اسی طرح حکومت کے اندر بھی یہ سوچ موجود ہے کہ ان مشکل حالات میں حکومت کی کارکردگی کو بہتر طور پر پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، ایسی صورت میں لوگوں کو مطمئن کرنے اور اپنے حمایتیوں کو راضی رکھنے کے لیے ہر صورت حزبِ اختلاف سے ایک بڑی محاذ آرائی پیدا کرنا ہماری سیاسی ضرورت ہے۔ ان دونوں سیاسی سوچوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ محاذ آرائی کی سیاست کو زندہ رکھنا بھی اہلِ سیاست کی مجبوری ہے۔
سیاست دان چاہے حزبِ اقتدار سے ہوں یا حزبِ اختلاف سے، انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال عملی طور پر سیاسی اور معاشی استحکام کی سیاست کی متقاضی ہے۔ لیکن یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب اہلِ سیاست خود کو ایک ذمہ دار فریق کے طور پر پیش کریں، اور وہ کچھ کریں جو معاشرے کی تبدیلی میں مثبت کردار ادا کرسکے۔ کیونکہ جمہوری عمل کی کامیابی کی کلید اصلاحات کا عمل ہوتا ہے۔ اصلاحات کا یہ عمل سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے حکومت اور حزبِ اختلاف سمیت معاشرے کے دیگر طبقات مل کر کام کریں۔ اس وقت بھی ہمارا سیاسی نظام بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے، اور اس بڑی سرجری کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوگا۔
سیاست میں رومانس اچھی بات ہے، لیکن سیاست کے تلخ حقائق بھی ہوتے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ المیوں سے دوچار رہی ہے۔ سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ کی وجہ سے یہاں سیاسی نظام مستحکم نہیں ہوسکا۔ اسی طرح اہلِ سیاست نے معاشرے کی تشکیلِ نو کے بجائے اپنے ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کرکے سیاست اور ملک کو کمزور کیا۔ لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ہونے والی حالیہ مفاہمت ایک وقتی ابال ہے۔ کچھ عرصے بعد سیاست کا بازار گرم ہوگا اور اسی محاذ آرائی کی سیاست کو بنیاد بناکر دونوں فریق ایک دوسرے سے دست وگربیاں ہوں گے۔ یہی ہماری سیاست کی ابھی تک روایت بنی ہوئی ہے، اور اگر اس کو توڑ کر اہلِ سیاست محاذ آرائی کے مقابلے میں سیاسی استحکام پیدا کریں اور ایک دوسرے کے وجود کو قبول کرکے آگے بڑھیں تو اس سے سیاست، جمہوریت اور ملک ترقی کرسکتا ہے۔