امریکہ کو ویت نام کے بعد دوسری شکست
امریکہ کو ویت نام کے بعد دوسری تاریخی شکست ایران میں اسلامی انقلاب کی صورت میں دیکھنا پڑی۔ امریکہ 1979ء کی ابتدا میں انقلاب کا صحیح اندازہ نہیں کرسکا اور اس غلط فہمی کا شکار رہا کہ مولویوں کا انقلاب کچھ عرصے بعد دم توڑ دے گا، اس لیے اُس نے اس تبدیلی کو اہمیت نہیں دی۔ اسی طرح پاکستان کا بایاں بازوبھی اس خوش فہمی کا شکار تھا کہ یہ انقلاب دراصل بائیں بازو نے برپا کیا ہے اور مولویوںکو پہلے مرحلے کے لیے استعمال کیا ہے، بعد میں یہ ایک پکے ہوئے پھل کی طرح بائیں بازو کی گود میں آگرے گا۔ لیکن 1980ء کے ابتدائی برسوں میں امریکہ کو اندازہ ہوگیا کہ یہ انقلاب مشرق وسطیٰ میں امریکہ نواز حکمرانوں کے لیے خطرے کا نشان ہے، اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی غیر جمہوری حکومتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ انقلاب دراصل ایک عوامی ابھار اور جمہوری قوت کی بدولت برپا ہوا تھا اور ایک ٹھیٹھ اسلامی حکومت کی طرف گامزن ہوا تو امریکہ کو اندازہ ہوگیا۔ 1980ء میں امریکہ نے عراق کو استعمال کیا، جس نے اچانک ایران پر حملہ کردیا۔ ایران کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عراق ایسی حرکت کرے گا، حالانکہ عراق میں عبدالکریم قاسم سے لے کر صدام حسین تک روس نواز حکومتیں برسراقتدار تھیں، اور اُس وقت تک سوویت یونین افغانستان میں داخل نہیں ہوا تھا، لیکن صدام حسین جو روس نواز تھا امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہوا، اور اس کی پشت پر تیل پیدا کرنے والے ممالک کا سرمایہ اور امریکہ اور اُس کے حواریوں کا اسلحہ تھا۔ ایران کا انقلاب عرب ممالک، خاص طور پر تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی لگا، اور امریکہ نے انہیں خوف زدہ کیا جس کی وجہ سے وہ صدام کی پشت پناہی پر آمادہ ہوگئے۔ امریکہ نے ان ممالک کے سرمائے سے روسی اسلحہ استعمال کیا، اس لیے کہ صدام حسین کی فوج کی تمام تر تربیت روس کے ذریعے ہوئی تھی، اور اُس کا تمام کا تمام اسلحہ روسی ساختہ تھا۔ کویت نے اس جنگ میں عراق کو 22 کروڑ ڈالر دیے، جس سے اُس نے روس سے اسلحہ خریدا۔ پالیسی امریکہ کی، سرمایہ عربوں کا اور اسلحہ روس اور اس کے حامی ممالک کا تھا۔ یوں اس جنگ کا آغاز ہوا۔ سینئر بش کے زمانے سے سے یہ کشمکش جاری تھی مگر ایران کے انقلاب کو شکست نہ دی جاسکی۔ اس کے بعد امریکہ نے ایک نئے ڈرامے کا آغاز کیا، اس نے امیر کویت کو اکسایا کہ وہ صدام سے دی ہوئی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرے۔ اس نے عراق سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو صدام مشتعل ہوا اور کویت پر حملہ کردیا۔ امیر کویت بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ گزین ہوگئے۔ اس کے بعد امریکہ نے اپنے منصوبے کے تحت عراق پر حملہ کیا، اُسے شکست دی اور کویت کو آزاد کرایا، اور امیر کویت واپس آگئے۔ اس کے بعد امریکہ نے دوسرا حملہ کیا اور صدام کو گرفتار کرکے تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ ایران اس دوران مستقبل کا سفر طے کررہا تھا۔ امریکہ نے ایران پر حملے کا یہ صلہ دیا کہ عراق پر حملہ کیا اور اس کا فوجی بھرم کھول دیا۔ دوسرے حملے کا جواز یہ تھا کہ عراق ایٹمی قوت بن رہا ہے۔ اس طرح امریکہ نے عراق کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور امریکی فوج عراق میں براجمان ہوگئی۔ اس دوران داعش کو ابھارا گیا اور وہ جدھر گئی، کامیاب ٹھیری۔ اسے سخت شیعہ مخالف بتایا گیا۔ ابتدا میں ایران خاموش رہا۔ بعد میں اس کو اندازہ ہوگیا کہ داعش کی پشت پر امریکہ موجود ہے جو اسے استعمال کررہا ہے۔ اس نے عراقی فوج پر حملہ کیا اور اسے شکست دی۔ اس عمل کے نتیجے میں عراقی حکومت مزاحمت نہ کرسکی، اور وہ دم توڑ رہی تھی۔ اس مرحلے پر ایران نے منصوبہ بنایا اور کردوں کی قوت کو منظم کیا۔ عراق اور ایران دونوں اس مسئلے پر متفق تھے۔ ایک کشمکش عراق میں چل رہی تھی کہ دوسری طرف شام میں بعض مذہبی پارٹیاں بشارالاسد کے خلاف منظم ہوگئیں۔ امریکہ اس کھیل کی پشت پر تھا، اس نے مذہبی گروہوں کو مسلح کیا، ٹریننگ دی۔ اس کے نتیجے میں بشارالاسد کی حکومت ڈگمگانا شروع ہوگئی۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب ایران نے اپنی منصوبہ بندی کے تحت اس کشمکش میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک طرف حزب اللہ کو سپورٹ کیا تو دوسری طرف جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی مسلح قوت کو شام میں داخل کردیا اور اس جنگ کا حصہ بن گئے۔ اس مرحلے تک آتے آتے داعش بھی شام میں داخل ہوگئی۔ اب اس کے دو محاذ تھے عراق اور شام۔ اس کے اصل اہداف کیا تھے یہ مستقبل میں کھل جائیں گے۔ داعش مضبوط ہونا شروع ہوگئی تو امریکہ اور برطانیہ نے خطرہ محسوس کیا کہ اگر داعش نے شام پر قبضہ کرلیا تو اسرائیل کو زیادہ خطرہ ہوگا۔ اب داعش پر امریکہ کا اعتماد متزلزل ہوگیا، اس نے بھی داعش پر حملے شروع کردیے۔ ایک طرف قاسم سلیمانی، بشارالاسد حملے کررہے تھے، تو دوسری طرف امریکہ بھی حملہ آور ہوگیا۔ اب امریکہ کو احساس ہوا کہ داعش کے مقابلے میں اسد اس کے لیے زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ داعش نے دم توڑ دیا تو امریکہ نے مذہبی پارٹیوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ امریکہ بشارالاسد کو ہٹانے میں ناکام ہوگیا، جبکہ سعودی عرب بشارالاسد کو ہٹانے کے لیے امریکہ اور مذہبی پارٹیوں کی پشت پر سرمایہ کار کی حیثیت سے موجود تھا، پھر وہ بھی خاموش ہوگیا۔ یوں یہ کھیل اپنے انجام کی طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی عراق میں اپنی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ یہ ایران کی خواہش تھی کہ عراق سے امریکی فوج کو رخصت کیا جائے، اور اس کی منصوبہ بندی جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھ میں دی گئی۔ اب جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق کے قائم مقام وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جنرل سلیمانی سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح کے لیے منصوبہ بندی کررہے تھے اور وہ عراق میں تھے۔جنرل قاسم سلیمانی امریکی مفادات کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے تھے، اس لیے امریکہ نے انہیں نشانہ بنایا اور اپنے راستے سے ہٹا دیا۔
امریکہ 1980ء سے ایران کے انقلاب کے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ اس نے ایران کے ہر صدارتی انتخاب میں مداخلت کی لیکن ناکام رہا۔ اس نے شاہ ایران کے خاندان کے پسماندگان کو استعمال کیا، وہ بھی کچھ نہ کرسکے۔ ہر انتخاب اور اس کے بعد مظاہرے ہوتے ہیں تو امریکہ ان کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔ 2019ء میں بھی مظاہرے ہوئے جن کی امریکہ نے کھل کر حمایت کی لیکن ناکام رہا۔ ایران ایک لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ جب بھی امریکہ ایران میں ہونے والے مظاہروں کی حمایت کرتا ہے ایران کی انقلابی حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر بنادیتا ہے۔ اس نے ایٹمی معاہدے سے اچانک دست برداری کا یک طرفہ فیصلہ کیا ہے۔ یہ بدترین بداخلاقی اور غیر جمہوری اور غیر انسانی رویہ ہے۔ اس کا صرف ایک مقصد ہے کہ ایران میں معاشی بحران پیدا کیا جائے تاکہ عوام موجودہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن ایران نے اس منصوبے کو ناکام بنادیا ہے۔ اس مرحلے پر امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا، اور دہشت گردی کے حملے میں انہوں نے جان کی بازی ہار دی اور شہادت کے مقام فائز ہوگئے۔ ان کے خون نے ایران کو دوبارہ طاقتور قوت کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کیا اور ایران کی انقلابی حکومت اس مرحلے پر انتہائی مضبوط ہوگئی ہے، اور لاکھوں انسانوں کی بھرپور حمایت ایران کی انقلابی حکومت کو تازہ دم کردے گی۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ بدلہ ضرور لے گا، اس کے لیے وہ وقت اور مقام خود طے کرے گا۔ ایران کو بدلہ لینے کا حق ہے۔ ایران کی انقلابی حکومت عالم اسلام کے لیے ایک سورج کی مانند ہے۔ ایران واحد اسلامی ملک ہے جو امریکہ اور اس کے حواری اسرائیل کے خلاف ایک طاقتور اور توانا آواز ہے اور اسے قائم رہنا چاہیے۔