مائیکل ہیملٹن مورگن۔ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
غالباً 1017ء کا سال تھا، مسلم فاتحین ہمالیہ کے دشوار گزار رستوں پر ہندوستان کے قدیم اور مالدار شہروں سے آندھی طوفان کی مانند گزر رہے تھے۔ ان کے درمیان ابوریحان البیرونی بھی تھا، جس کی نظریں مالِ غنیمت کے بجائے علوم کے نئے خزانے ڈھونڈ رہی تھیں۔ ابھی وہ ایک قسم کا قیدی تھا۔ کسی بھی وقت بہتر صورت حال میں وہ شاید آزادی پالیتا، مگر ابھی اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہ تھی۔ کئی نادر لمحات اور مواقع اُسے میسر آرہے تھے۔ نئی دنیاؤں کے کئی نئے تجربے اور مشاہدے اُس کی بصارت اور بصیرت کے لیے انمول زادِ راہ بنتے جارہے تھے۔ وہ آسماں کو چھوتے پہاڑوں کی شان وشوکت میں کھو گیا تھا، چناروں کی جنت نظیر وادیِ کشمیر میں ہوش گُم کربیٹھا تھا، برف پوش پہاڑوں پر چھائے گہرے بادلوں کے نشے میں مست چلا جارہا تھا۔ ہری بھری وادیوں، جنگلوں، باغات اور لہلہاتی فصلوں کے سلسلے اُسے جہانِ تازہ کی خبردے رہے تھے۔ وہ دنیا کی قدیم ترین ہندو تہذیب کے درمیان پہنچ گیا تھا۔
ابوریحان البیرونی مشرق سے مغرب تک پھیلے پہاڑی سلسلوں کو خوشگوار حیرت سے دیکھتا رہا تھا۔ وہ پگھلتے گلیشیرز کے چاندی جیسے پانی میں، نکلتے دریاؤں کی روانی میں دور تک نکل گیا تھا۔ انتہائی تجسس سے ہر جانب پھیلے زرخیز میدانوں پر قائم قدیم تمدن کی عجیب بود و باش دیکھ رہا تھا، یادداشت میں محفوظ کررہا تھا، اور رقم کررہا تھا۔
کیا ہی حکیمانہ تخلیق و تنظیم تھی اس سرزمین کی، جسے خدائے ذوالجلال نے ہر نعمت سے بہرہ مند کیا تھا! طبیعاتی توازن ہر سو چھایا ہوا تھا، شمال میں پہاڑوں کا سلسلہ سر اٹھا رہا تھا، جنوب میں گرم میدانوں پر زندگی ہی زندگی تھی، اور اس اتار چڑھاؤ نے ہندوستانی ذہن پرکیا ہی خوب رنگ چڑھائے تھے!
البیرونی فارس کے شہر خیوہ میں پیدا ہوا تھا، جسے ایک دن ازبکستان کہلایا جانا تھا۔ دیگر بہت سارے لوگوں کی طرح، وہ بھی دریافتوں اور نئے تحقیقی تجربوں سے گزرنا چاہتا تھا، سو ہندوستان کے سفر پرنکل پڑا، جو بصیرت افروز ثابت ہوا۔
سمندر سے بہت دور پہاڑ کی چوٹی پر اُسے سمندری سیپیاں ملیں، ٹوٹی ہوئی اورخستہ حال، مگر یہ واضح تھا کہ یہاں تک ان کا سفر انسانی ہاتھوں میں طے نہیں ہوا تھا۔ پھر آخر یہ سیپیاں سمندر سے اتنی دور پہاڑ کی چوٹی تک کیسے پہنچی تھیں؟ تب اُس نے اس قدیم مگر پیچیدہ خطے کے مطالعے و مشاہدے کا فیصلہ کیا، یہاں کی متنوع ثقافتوں، زبانوں، نسلوں، اور ان گنت ادوار میں بنتی بگڑتی تہذیبی صورتوں کا گہرائی سے جائزہ لیا۔ شاید روئے زمین پر اتنا تنوع، اتنی بوقلمونی کہیں موجود نہ تھی۔
اگرچہ پچھتر سال کی زندگی میں البیرونی نے اتنے آقاؤں کی خدمات انجام دی تھیں اور اتنے درباروں میں حاضری دی تھی کہ یادداشت مشکل میں پڑگئی تھی۔ خاص طور پر غزنی کے سلطان محمود کی مہم جوئی نے اُسے بہت متاثر کیا تھا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ محمود غزنوی کی سختیوں نے البیرونی پر مصیبتیں ڈھائیں۔ وہ اسے درباری اتالیق اور شاہی مشیرکے طور پرساتھ لے کر نکلا تھا، مگر ستارہ شناسی کے چکر میں پڑگیا تھا۔ سلطان بضد تھا کہ البیرونی اُسے ستارہ شناسی سکھائے، مگر البیرونی ستارہ شناسی پر یقین نہیں رکھتا تھا، وہ اسے توہم پرستی تصور کرتا تھا۔ الکندی اور ابن الہیثم کی طرح، البیرونی تحقیقی اور تجرباتی علم پر ایمان رکھتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ کلیہ کوئی سا بھی ہو، تجربے اور تحقیق پر استوار ہونا چاہیے۔
جیسا کہ بہت سارے مسلم محققین اور دانشور تاریخ میں گُم کردیے گئے، ابو ریحان البیرونی بھی ایک نامعلوم عبقری تھا۔ وہ ایک ماہر ریاضی داں اور ماہرِ فلکیات تھا، وہ الکندی کے پائے کا محقق تھا۔ وہ ایک ماہرِ طب اور اعلیٰ دواساز تھا، وہ عظیم ماہرِ طب ابن سینا سے باقاعدہ مراسلت میں رہا، ان کے درمیان علم الادویہ پرخط کتابت رہی۔
ان سب خوبیوں کے ساتھ، ابوریحان البیرونی اپنے عہد کا بہترین مؤرخ اور ثقافتوں پرگہری نگاہ رکھنے والا تھا۔ اُس نے ہندو فلسفہ گہرائیوں میں اتر کر سمجھا، اور بدلے میں ہندو علماء کو دینِ اسلام کا درک عطا کیا، اُن تک یونانی فلسفہ پہنچایا۔ وہ ایک رہنما، ماہرِ جغرافیہ اور ماہرِ ارضیات تھا۔ البیرونی کے وقتوں میں شہرغزنی جسے ایک دن تباہ حال افغانستان کا حصہ کہلایا جانا تھا، قوت وشوکت کا ایک مرکز تھا۔ طاقت کے بڑے بڑے مراکز اُن دنوں غزنی کے رحم وکرم پر تھے۔ یہاں کی فوجیں ایک دن وہاں تک گئیں، جہاں آج کے پاکستان اور بھارت قائم ہیں۔
البیرونی نے دریائے گنگا کا خلیج بنگال تک مشاہداتی سفر کیا، اور دریافت کیا کہ پتھروں، سنگ ریزوں کی جو بھی صورتیں بنتی ہیں ، وہ پانی کے بہاؤکی وجہ سے ہیں۔ بڑی گولائی کے پتھر اور موٹی تلچھٹ سے بتدریج یہ چھوٹی گولائی کے پتھروں اور باریک ریت تک جاتا ہے۔ یوں بہاؤ کے آغاز میں چٹانیں اور پتھریلی زمین پائی جاتی ہے جبکہ جیسے جیسے دریا آگے بڑھتا جاتا ہے، رفتار میں کمی اور زمین میں نمی و زرخیزی آتی جاتی ہے۔ البیرونی نے پہاڑوں پر ملنے والی سیپیوں کی بنیاد پر یہ اعلان کیا کہ کبھی وادی گنگا بھی سمندر تلے رہی تھی۔ اُس نے قیمتی پتھروں اور دھاتوں پر بھی عمدہ تحقیق کی۔ اُس نے ایسے سو پتھروں اور دھاتوں کا کیٹالاگ تیار کیا، ان کا تجزیہ کیا۔ معدنیاتی کثافت پر اُس کی پیمائش سات صدیوں تک درست معیار قرار دی گئی۔ اُس نے واضح کیا کہ کس طرح کنویں اور قدرتی چشمہ زمین سے پھوٹ پڑتا ہے، یہ کلیہ hydrostatic communication of vesselsکہلاتا ہے۔ البیرونی نے مفروضہ پیش کیا کہ زمین اپنے مدار میں گردش کرتی ہے۔ اُس نے سیکڑوں شہروں کے عرضِ بلد اور طولِ بلد کی پیمائش کی۔ اُس کی ذہانت ابن الہیثم سے مماثل تھی، جو خود بھی روشنی اور نظرکی خاصیتوں میں گہری دلچسپی لیتا رہا تھا، حالانکہ یہ اُس سے کبھی نہ ملا تھا۔ البیرونی نے روشنی کی عدم موجودگی میں پیدا ہونے والے اندھیروں پر تحقیق کی، جنھیں بعد میں ’’سائے‘‘کا نام دیا۔ جس طرح ابن الہیثم روشنی کی جستجو میں رہا، البیرونی نے اندھیرے کی کھوج لگائی۔ یہاں تک کہ اُس نے سائے کے زاویوں کی پیمائش پر نماز کے اوقات متعین کیے۔ اپنے اہم کام ’’سائے‘‘ میں البیرونی نے سہ رخی خلا کے نکتہ آغازکوجاننے کا طریقہ متعارف کروایا۔
خوش قسمتی سے کہ جب وہ زندگی کے آخری سال بسرکررہا تھا، جب کہ اُس کی نظر اور صحت بھی کمزور پڑچکی تھی، وہ سخی اور مہربان سرپرست کی خدمت پر مامور تھا، یہاں اُسے تحفظ اور سہولتیں میسر تھیں۔ ازمنہ وسطیٰ کے بہت سے ہم عصروں کی مانند، البیرونی کو لاطینی میں ڈھالا نہیں گیا، اور نہ ہی اُسے کوئی لاطینی نام ہی دیا گیا۔ اُس کا نام بیسویں صدی تک یورپیوں کے لیے نامعلوم ہی رہا۔ یہاں تک کہ مؤرخ جارج سارٹن نے اُسے ’’اہلِ علم کا استاد‘‘ لکھا۔
اناطولیہ کے جنوب مشرق میں، جنوب سے چھوٹی پہاڑیوں میں گھرا ہوا، مشرق میں کوہ ارارات کا پُرشکوہ منظر، یہ علاقہ سیاسی ہلچل کی سرخ لکیر تھا۔ کئی سلطنتوں، امراء اور خلفاء نے اس خطے کو اپنا بنانا چاہا، مگر یہ طویل عرصے تک کسی کا نہ ہوسکا۔ بازنطینی، ترک، فارسی، اور عرب آئے اور گئے۔ بازنطینیوں اور عباسیوں، شامیوں اور فارسیوں نے اسے حاصل کرنے کی اپنی سی سعی کی۔ یہاں ’’کردستان‘‘ کی خیالی ریاست بھی باسیوں کے دلوں میں بسی ہوئی تھی۔ دیار بکر اس کا غیر سرکاری دارالحکومت تھا، ایک آسیب زدہ سا علاقہ، پتھروں اور چٹانوںکی سنگلاخ سرزمین، چشموں سے سیراب چند باغات، سلجوق حکمرانوں کی تعمیر کردہ چند مساجد کے پُرشکوہ مینار، اور کاروان سرائے، جہاں شاہراہ ریشم سے آنے جانے والے قرار پاتے تھے۔ کیا اس دیاربکر میں بھی کسی عبقری کی موجودگی کا کوئی امکان ہوسکتا تھا؟ مگر ایک دن ایسا آہی گیا، جب سلجوقیوں کا زوال ہوا، اقتدار کے لیے کئی دعوے داروں میں کشاکش شروع ہوئی، ایک عرصے تک دیاربکر اِدھر اُدھر ڈولتا رہا، اور پھر ملک شاہ سلجوقی کی فوج کے سالار نے، جسے صلیبی فوج نے یروشلم سے بے دخل کردیا تھا، دیاربکر کو اپنا مستقر بنالیا۔ اس کا نام آرتک تھا، اس مختصر دولت الرتقیہ کی حکومت میں ایک ترک خاندان خدمت گار ہوا، یہ کاریگروں اورنقشہ سازوں کا خاندان تھا۔ یہ لوگ وقت کی پیمائش اور کمیاب پانی کے مؤثر استعمال کے لیے نئے طریقوں پر کام کررہے تھے۔ یہ ریاضی داں یا محققین نہیں تھے بلکہ تعمیری سامان اور دھات کی مختلف چیزیں بنایا کرتے تھے۔ بارہویں صدی میں ایک لڑکا اس خاندان میں پیدا ہوا، وہ اس خاندان کا گوہر نایاب تھا۔ بچپن اور لڑکپن میں یہ اپنے بڑوں سے کام سیکھتا رہا، اوزاروں کی سمجھ بوجھ اور پیمائش کے طریقوں سے واقف ہوا۔ اُس کا نام اسمٰعیل ابن الجزری تھا، مگر تاریخ میں یہ نام گُم ہوگیا۔ اُسے دنیا نے لیو نارڈوڈاونچی کے نام سے جانا۔ چھوٹی موٹی اشیاء اور اُن کے ہر ہر جُز پر اُس نے انتہائی غیر معمولی نگاہ ڈالی، اور عجیب مشینی آلات میں انھیں ڈھال دیا۔ وہ انسانی ذہانت کی آزادانہ تخلیق کی لطافتوں سے حظ اٹھا رہا تھا۔ وہ انسانی ذہانت کی پائیداری پر بے حد یقین رکھتا تھا، جو انسان کے گزر جانے کے بعد بھی اثر انگیز اور دوررس رہتی ہے۔ وہ دھات کی نالیوں اورپائپوں، لکڑی کی استعمال شدہ چیزوں، چمڑے کے ٹکڑوں کی ایک ایسی یقینی صورت کررہا تھا، جو اپنی جگہ ایک مکمل علم تھا۔ بچپن اور جوانی کے درمیان کسی موقع پر الجزری کے دماغ میں روشنی کا ایک شرارہ سا لپکا، میکانیکی ذہانت کی بے مثل تحریک پیدا ہوئی۔ جب اس شرارے نے پورا الاؤ روشن کیا، تو کلیے، فارمولے اور نقوشِ اول وجود میں آئے۔ اصل اشیاء اصل کاموں کے لیے بننے لگیں، جنھیں کسی انسانی ذہن کی بھی ضرورت نہ رہی تھی کہ مسلسل ہدایات دیتا رہے، بس ان مشینوںکی مرمت اور آن آف ہی کاکام آدمی کے ذمے رہ گیا تھا۔
مسلم محققین ، حکماء، اور موجدین کا سب سے بڑا نقص یہ رہا کہ ہراکتشاف، انکشاف، اور دریافت لکھ رکھنے میں کوتاہی برتتے رہے۔ تحقیقی تفصیلات، ایجادات اور آلات کی پیمائشوں کا کوئی مناسب ریکارڈ منضبط نہ کرسکے ۔ جبکہ دیگر موجدین اور محققین کا وجود ہی اُن کی ایجادات سے قائم ہے۔ جو لوگ بعد میں آئے اُن کے لیے کوئی ڈایا گرام، کوئی بلیوپرنٹ موجود نہ تھا۔ مگر الجزری مختلف تھا، اُس کی نگاہ تیز اور وجدان طاقتور تھا، وہ اپنی ایجادات کے معاملے میں حساس تھا۔ اُس نے سارا ریکارڈ محفوظ کیا۔ مگر وہ اپنے پیچھے ایک ہی کتاب چھوڑ جانے میں کامیاب ہوسکا، جس کا نام The Book of Knowledge of Ingenious Mechanical Devices تھا، یہ1206ء کے آس پاس شائع ہوئی۔ یہ بلیو پرنٹس اور ڈایا گرامز کا شاہکار تھی۔ یہ بیسویں صدی میں صرف انگریزی میں ترجمہ ہوئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ دیاربکر سے بس اُس کے علم کا کچھ ہی حصہ صلیبیوں یا مسلمانوں کے ذریعے یورپ پہنچ سکا تھا۔ یہ کوئی فلسفی یا ریاضی کی طرح کا ادبی کام نہیں تھا، بلکہ نقشہ جات اور مشینی خاکوں پر مبنی تھا، یہ مستقبل کی ترقی یافتہ دنیا کی زندگی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہونے والا تھا۔ ابتدا میں یہ نقشے اور خاکے معجزاتی اور ماورائی محسوس کیے گئے۔
الجزری نے کرینک شافٹ ایجاد کیا، جس نے جدید زندگی کی کئی مشینوں کو حرکت کے قابل بنایا۔ اُس نے پانی کے بہاؤ کے لیے عمدہ پمپ بنایا، جس نے کولہو کے بیلوں کے بغیر ہی کاپرکے پائپوں میں پانی کی گردش ممکن بنائی۔ اس پمپ کا ڈیزائن کئی صدیوں تک انجینئرز اور محققین کو متاثر کرتا رہا۔ اُس کا یہ بہت بڑا پمپ، جس میں پسٹن پیڈلز اور کیم شافٹ کوعمدگی سے ڈیزائن کیا گیا تھا، دریا کے پانی کا بہاؤ آبادیوں اور کھیتوں تک ممکن بناتا تھا۔ استارہ یاب اور ٹیلی اسکوپ کے پہلو بہ پہلو یہ ٹیکنالوجی اہمیت کے لحاظ سے ہم پلہ تھی۔ الجزری کی ایجاد کردہ چار بائی چھ فیٹ کی ”elephant clock” حیرت انگیز تھی، اس کے ٹریگرز اور گیئرزکشش ثقل پر حرکت کرتے تھے، بہتے پانی اور چہچہاتی چڑیا کی آوازگزرتے گھنٹوں کی خبر دیتی تھی۔ اُس نے پانی کی سفری گھڑیاں بنائیں، ساخت ایسی کہ لگے کوئی کاتب میز پر بیٹھا لکھ رہا ہے، جس کا قلم ہرگھنٹہ گزرنے پر حرکت میں آجائے۔ اس نوعیت کی ٹیکنالوجی نے بہت جلد یورپ میں شہرت اور رواج پایا۔ تاہم مؤرخین میں یہ بحث رہی کہ آیا یہ ترقی متوازی خطوط پرہوئی یا محض اتفاق تھا، یا الجزری کا کام ہی یورپی ترقی کا اصل ماخذ تھا؟ جواب واضح نہیں ہے۔ اب جب کہ بہت سے لوگوں کے لیے مشین زندگی کا جزوِلاینفک بن چکی تھی، واضح جواب کی اہمیت گُم ہوگئی تھی۔ جوکبھی منفرد اور بے مثال مہارت اور فن سمجھا جاتا تھا، اب ہر ایک کا پیشہ بن چکا تھا۔ مگر الجزری کی روح ہرکرینک شافٹ اورگیئرمیں موجود رہی۔
تاتاریوں کا بہاؤ جب مغرب کی مسلم ریاستوں کی طرف ہوا، وحشت ودہشت کے بدترین مظاہر اور مناظر وجود میں آرہے تھے۔ آگ بھڑکاتے تیروں کی بارش نے ہرجانب راکھ کے ڈھیر لگادیے تھے۔ نئے جنگی آلات اور تکنیک مغلوب آبادیوں کو حیران پریشان کررہی تھی۔ یہ انسانی تاریخ کے پہلے راکٹ تھے۔ ان کے موجد سے کوئی واقف نہ تھا، گو کہ اس کا تعلق قدیم چین سے تھا، اور تہواروں پر دیوی دیوتاؤں کو آتش بازی سے خوش کرنے کے لیے بنائے جاتے تھے۔ یوں چینی راکٹ کی نوعیت مذہبی اور تفریحی تھی۔ یہاں تک کہ کسی کو خیال گزرا کہ کیوں ناں آتش گیر مادے والے تیروں سے دشمن کو شکست دی جائے؟ چینیوں نے تاتاری لشکروں کے خلاف ان آتش گیر تیروں پر خاصا انحصار کیا، مگر پھر مغلوب کرلیے گئے۔ منگولوں نے اس مؤثر ہتھیارکو اپنے اسلحہ خانے میں شامل کیا، اور اس کی ہلاکت خیزی میں بلا کا اضافہ کیا۔
ایک منگول تیر تیل اور بارود کی آمیزش سے تیار کیا جاتا، اور سختی سے باندھا جاتا، تاکہ آتش زدگی کا مؤثر انجن ثابت ہو۔ جتنا بڑا یہ راکٹ تیار کیا جاتا، اُتنا تباہ کن یہ ثابت ہوتا تھا۔ اس کا دھماکا دس بارہ میل تک سنا جاتا تھا۔ ہدف کے آس پاس کئی گز تک ہر شے تباہ ہوجاتی تھی۔ سن 1241ء میں، بڈاپسٹ کے نواح میں منگولوں کے راکٹوں نے دہشت زدہ ہنگریوں پر قیامت برپا کردی تھی۔ سن 1258ء میں، جنوب بعید میں، بغداد کے باسی خوفزدہ نظروں سے منگولوں کے یہ راکٹ شہر پرگرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
مسلم ماہرین کیمیا بارود سے ناواقف نہ تھے۔ وہ صدیوں سے بارود کے استعمال پر مختلف طریقوں سے تحقیق کررہے تھے۔ تیرہویں صدی کے شامی محقق حسن الرماح نے منگولوں کے طریقوں کا بغورمطالعہ کیا۔ چارکول، سلفر، اور شورہ کی آمیزش سے راکٹ کا آتش گیر مواد تیارکیا، اُس نے جیٹ پاور وارہیڈ کا ڈیزائن بنایا، جوبحری جنگوں میں جہازوں کو ہدف بناتا تھا۔ بعد میں ماہرین نے اس وارہیڈ کو پہلا تارپیڈو قرار دیا۔ اس کا ڈایاگرام اور فارمولا تیزی سے یورپ پہنچا اور مقبول ہوا۔ ایک اور طریقے سے بارود کے کارتوس اور گولے بنائے گئے۔ یہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کی جانب سے استعمال کیے گئے۔ سقوط بغداد سے صرف آٹھ سال قبل، سن 1250ء میں جب ساتویں صلیبی جنگ لڑی جارہی تھی، المنصورہ کے محاذ پر مسلمان یورپی فوج کے خلاف راکٹ استعمال کررہے تھے۔ گیارہویں سے تیرہویں صدی تک حتمی فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی۔ تیرہویں صدی کے اندلسی مسلمان عیسائی مخالفین پر باقاعدہ توپوں کا استعمال کررہے تھے۔ مسلمانوں کے ہتھیار جب عیسائی فاتحین کے ہاتھ لگے، انھوں نے انھیں اپنے اسلحہ خانے میں شامل کیا۔ عثمانی ترکوں نے منگولوں اور عربوں سے راکٹ اور توپیں دونوں حاصل کیے، اور انھیں قسطنطنیہ کی جنگ میں اپنا ہتھیار بنایا۔
سولہویں اور سترہویں صدی میں جب وہ آسٹریا اور ہنگری فتح کرنے نکلے تو توپوں اور راکٹوں کا وافر ذخیرہ ساتھ تھا۔ زوالِ قسطنطنیہ اور استنبول کی پیدائش کے ساتھ ساتھ، عباسیوں کا وہ خواب عثمانی ترکوں کے ہاتھوں شرمندۂ تعبیر ہوا، جو وہ سارے عہد میں دیکھتے رہے تھے۔ سن 1453ء تک، جنگِ قسطنطنیہ کے آغاز میں بازنطینی مدد کے لیے پوپ نکولس پنجم کو پکارتے رہے، مگر کسی یورپی بادشاہ میں ترکوں کی جنگی صلاحیتوں کے مقابلے کا یارا نہ تھا۔ چھے صدیوں کی مسلسل تگ و دو کے بعد، قسطنطنیہ کی فتح عربوں یا سلجوقیوں کے ہاتھوں ممکن نہ ہوئی بلکہ آلِ عثمان ترکوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔
یہ واضح رہنا چاہیے کہ اندلس کے شکست خوردہ مسلمان یورپ کو نئی جنگی صلاحیتوں سے بہرہ مند کررہے تھے۔ یہ جدید ہتھیار فرانس، جرمنی، اٹلی، اور انگلینڈ میں عام ہوئے، اور 1860ء میں یورپی استعماریت کا دور شروع ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ صدیوں تک مسلم ہتھیاروں کی گونج یورپیوں کی یادداشتوں میں رہی۔ برٹش انڈیا میں میسور کی جنگ کے آخری معرکے میں ، کہ جب سارا ہندوستان برطانوی راج کے آگے سرنگوں ہوتا جارہا تھا، مسلم حکمران ٹیپو سلطان سینہ سپر تھے، اس کی ایک وجہ جدید راکٹوں کا استعمال تھا۔ ہر بٹالین کے پاس دوسو راکٹ باری کرنے والے موجود تھے، جنھیں بھرپور اسلحہ مہیا کیا گیا تھا۔ یہ آتش گیر راکٹ ہزار گز تک مار کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے، ان پر بارود ی وارہیڈ لگے ہوئے تھے۔ اُس وقت تک بھی یورپ کی راکٹ ٹیکنالوجی اس پائے کی نہ تھی۔ دورانِ جنگ ہزاروں میزائل برطانوی فوج پر گررہے تھے۔ اُن کی پیش قدمی انتہائی سست ہوچکی تھی۔ آخرکار جب قلعہ سر ہوا، برطانوی فوج نے سیکڑوں لانچرز اور راکٹ قبضے میں لیے۔ ان میں سے بہت سے راکٹ برطانیہ بھجوائے گئے، تاکہ ان کی تکنیک اور تیاری پر تحقیق کی جاسکے۔ برطانوی ماہر اسلحہ ساز William Congreve نے ان میسوری راکٹوں کی طرز پر جدید برطانوی راکٹوں کی تیاری کی سفارشات حکومتِ وقت کو پیش کیں، اور پھر صرف چودہ سال بعد، جب کہ ابھی نوزائیدہ امریکہ بھی برطانوی استعمار کی دست برد سے محفوظ نہ تھا،کونگریو راکٹ نے بڑی شہرت حاصل کی۔ بالٹی مورکے قلعہ مک ہینری کا محاذ جب ہوا، تو Chesapeake Bay کی جانب سے بحری جہازوں نے نافرمان امریکیوں پر کونگریو راکٹ برسائے۔ ایک امریکی قیدی رات بھر یہ تباہی دیکھتا رہا، اور جب صبح اُس نے امریکی پرچم کے چیتھڑے قلعہ پر لہراتے دیکھے تو معروف قومی ترانہ “Star Spangled Banner” لکھا۔ اکثرامریکی Francis Scott Key اور اُن کے قومی ترانے سے واقف ہیں مگر تاریخ میں گُم یہ حقیقت نہیں جانتے کہ جن راکٹوں کی راکھ سے یہ ترانے اٹھے، وہ دور کہیں چین میں پیدا ہوئے، مغرب تک منگولوں کے ہاتھ پہنچے، اور پھر مسلمانوں کے ہاتھوں جدید ترین مؤثر صورت میں ڈھلے۔
یہ تاریخ کی تلخ حقیقت ہے کہ دودھاری تلوار کا کام کرتی ہے۔ سال 1630ء میں ایک ترک محقق، جو مینار غلطاں پر چڑھا آبنائے باسفورس کا مشاہدہ کررہا تھا، نام اس کا احمد شیلابی تھا۔ اس کا خاندان تحقیق اور علم لسانیات کے حوالے سے معروف تھا۔ وہ کئی سال سے ابن فرناس کی پرواز اور لیونارڈو ڈاونچی کے مشینی اڑن کھٹولے پرتحقیق کررہا تھا۔ اُس نے دو مصنوعی پر اور دُم بنائی۔ وہ ابن فرناس کے خوف کی کیفیت بخوبی محسوس کرتا تھا، اس لیے اُس نے باسفورس کے پانیوں پر پرواز بھرنے کا فیصلہ کیا کہ اگر گرا تو پانی میں بچ پاؤں گا۔ وہ تھا بھی نوجوان، چنانچہ کود پڑا، اور ہوا اُسے یورپ سے ایشیا والے رخ پر اڑا لے گئی، اُس نے فضا سے اپنے دوستوں کو نیچے کشتیوں پر سوار دیکھا، بحر احمر اور بحر اسود کی جانب لوٹتے جہازوں پرنظرڈالی، توپ قاپی محل پر نگاہ کی، دو میل تک اڑان بھرنے کے بعد وہ زمین پر اترنے لگا، اور باآسانی ایشیائی استنبول کی زمین پر قدم ٹکادیے۔ بڑی حوصلہ افزائی ہوئی، اسے سلطان مراد ششم کے دربار لے جایا گیا، اور بہ معنی ہزار علوم اعزاز ’’ہزارفین‘‘ سے نوازا گیا۔ احمد شیلابی کو انعام میں سونے کی ایک ہزار اشرفیاں دی گئیں۔ مگر یہ ترکوں کی آخری پرواز نہ تھی۔ احمد کے رشتے دار لغاری حسن شیلابی نے جیٹ کی قوت والی مشین تیار کی، اور شاہی خاندان کی ایک تقریب کے موقع پر بحر مرمرہ پراڑان بھری، اور باسفورس کے پانی میں اترا، سلطان نے انعام میں اُسے فوجی عہدہ عطا کیا۔