واسکوڈی گاما… ایک صلیبی قزاق

یورپ کے صلیبی عیسائیوں کا محسن جس نے ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کرکے ہندوستان پر یورپی قوتوں کے قبضے کی بنیاد ڈالی

تالیف: عبدالہادی احمد۔تلخیص و تدوین: محمود عالم صدیقی
واسکوڈی گاما ایک پرتگالی بحری مہم جو تھا جسے اہلِ یورپ اور مغرب اپنا ہیرو گردانتے ہیں۔ اس نے پندرھویں صدی کے آخر میں یورپ سے جنوبی افریقہ کے گرد گھوم کر ہندوستان تک بحری راستہ دریافت کیا اور مہم جوئی اور تجارت کی ایک نئی دنیا کھولی۔ یہی راستہ آگے چل کر ہندوستان پر فرنگی قبضے کی بنیاد بنا۔ واسکوڈی گاما نے ہندوستان تک پہلے سفر کی مہم 1497ء سے 1499ء تک سر کی۔ وہ 20 مئی 1498ء کو کالی کٹ ہندوستان پہنچا تھا۔ اس سے چار سال قبل کولمبس امریکہ دریافت کرچکا تھا، جبکہ مغل بادشاہ بابر نے اس سے 28 برس بعد 1526ء میں دہلی کا تخت سنبھالا۔ واسکوڈی گاما 1469ء میں پرتگال میں پیدا ہوا اور 1524ء میں ہندوستان کے شہر کوچی میں مرگیا۔ واسکوڈی گاما اور دیگر بحری مہم جوئوں کی جدوجہد نئے بحری راستوں کی تلاش کے لیے تھی، کہ اُس وقت تک ہندوستان اور مشرقِ بعید کے ممالک سے یورپ کی تجارت کا انحصار قاہرہ اور اسکندریہ کے برّی راستوں پر تھا۔ یہ دونوں شہر ہندوستان، چین اور انڈونیشی جزیروں سے یورپ کے لیے آنے والے سامانِ تجارت کی اہم رہ گزر بندرگاہ بن گئے، تاہم ممالکِ سلاطین کے ماتحت شام و مصر کی سرزمین سے گزرنے والے سامانِ تجارت پر محصول دے کر مال چھڑانا پڑتا تھا، اور یہ محصول کبھی کبھار چیزوں کی اصل قیمت سے تین گنا زیادہ بڑھ جاتا تھا، لہٰذا پندرھویں صدی میں یورپ کا اصل ہدف براہِ راست ہندوستان اور مسالہ جات کے اصل علاقوں تک رسائی ہوگیا تھا، یہ اسی صورت میں ممکن تھا جب وہ افریقہ کے گرد چکر لگاکر عرب اور مسلمانوں کی سرزمین سے گزرے بغیر ہندوستان پہنچ سکتے۔ یورپ کی جغرافیائی مہمات کی تحریک کا آغاز مارکو پولو جیسے سیاحوں کی انفرادی مہم جوئیوں سے ہوگیا تھا، اس کے بعد حکومتوں کی جانب سے مسالہ جات اور سونے کی سرزمینوں تک رسائی کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں۔
یورپ کے لیے کالی مرچ صدیوں تک ایک نایاب شے تھی
صدیوں تک یورپ میں کالی مرچ کو نایاب اور بیش قیمت جنس کا مقام حاصل رہا، تاہم پانچ سو برس پہلے تک اسے بیچنے اور اس سے بے شمار دولت کمانے والے صرف عرب تاجر تھے، کیونکہ کالی مرچ کہاں پیدا ہوتی ہے اور اس کی منڈی کہاں ہے؟ یہ راز وہی جانتے تھے اور اپنے گاہکوں سے اس راز کو چھپائے ہوئے تھے۔ یہ معمّا بہت بعد میں حل ہوا کہ دراصل یہ درختوں پر چڑھی ایک بیل ہے جس پر کالی مرچ سبز دانوں کی صورت میں لگتی ہے۔ 1497ء میں پرتگال کے بادشاہ مانویل نے اپنے سب سے اعلیٰ سمندری جہازراں واسکوڈی گاما کو کالی مرچ کے منبع کو تلاش کرنے کی مہم پر روانہ کیا۔ واسکوڈی گاما ہندوستان پہنچنے سے پہلے یہاں ایسے جنگلی، وحشی اور ناسمجھ انسان دیکھنے کی امید لگائے بیٹھا تھا جو بیکار یورپی اشیاء کے بدلے اپنا کالا سونا بخوشی اُس کے حوالے کردیں گے۔ لیکن جب واسکوڈی گاما کیرالا کے شہر کوچی پہنچا تو مقامی لوگ اس کے اندازوں کے برعکس بہت دولت مند اور مہذب نکلے۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ عرب، چین اور کئی دوسرے ممالک سے آنے والے کالی مرچ کے تاجر صدیوں سے اس مرکز کے ذریعے تجارت کرتے آئے تھے۔ پندرھویں صدی میں کیرالا کے لیے کالی مرچ کو وہی اقتصادی مقام حاصل تھا جو آج کل خلیجی ریاستوں کے لیے تیل کا مقام ہے۔ یورپی جہازراں تاجر سے بڑھ کر بدذات ڈاکو اور دشمن ثابت ہوئے۔ وہ جو کچھ تجارت سے حاصل نہیں کرسکتے تھے، بزور طاقت چھین لیتے تھے۔ پرتگال نے کالی مرچ کی خاطر ہندوستان کے مسالے والے ساحلی علاقوں کو گھیر رکھا تھا۔ کالی مرچ کی تجارت پر ان کا مکمل قبضہ ہوگیا تھا۔ اب انہوں نے اپنی توجہ دوسرے مسالے دار چینی کی طرف کردی جو سولہویں صدی میں یورپی امیر لوگوں میں بے حد مقبول اور کالی مرچ سے بھی زیادہ نایاب مسالہ تھا۔ سری لنکا میں انہیں دارچینی کا منبع بھی مل گیا۔ اس طرح کالی مرچ اور دارچینی کی تلاش تاریخ کا رخ بدلنے کا باعث بنی۔ ان اشیائے تجارت کی خاطر قوموں کی آزادی چھینی گئی اور قتل و غارت میں بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔
اپنے مفاد کی خاطر دوسری قوموں کا استحصال گوروں کے خمیر میں شامل ہے
پانچ صدیوں پہلے امریکہ کے یورپی آباو اجداد یعنی یورپی اقوام اسی طرح ہندوستان اور مشرقِ بعید کی تجارت پر قبضے کے لیے مقامی لوگوں کے گلے کاٹنے میں مصروف تھے۔ اس نام نہاد تجارت سے انہیں ان خطوں کی آزادی سلب کرنے کی راہ ملی۔ انہوں نے یہی سلوک امریکہ کے قدیم باشندوں کے ساتھ کیا۔ اس طرح سفید فام اقوام کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر دوسری قوموں کا استحصال کرنا ان کے خمیر میں شامل ہے۔ ہندوستان پر قبضے سے بہت پہلے یورپی جہازرانوں نے جنوبی ہند کے ساحلی شہروں اور بندرگاہوں کے سفر کیے، جہاں کی سرزمین سے یورپ کو ہونے والی برآمدات نے ان کے منہ سے رال ٹپکانی شروع کردی تھی۔ مالابار کی بندرگاہ کالی کٹ اور کینرا کی بندرگاہ بھٹکل کو اس میں امتیاز حاصل ہے کہ مغرب کے بحری بیڑے پہلی بار یہیں لنگرانداز ہوتے رہے۔ واسکوڈی گاما کو دوسروں پر اس لحاظ سے برتری حاصل ہوئی کہ اس نے سب سے پہلے اس خطے تک تجارتی سفر کیے اور تلاشِ ہند کے اسفار کا بانی کہلایا۔ 1498ء میں واسکوڈی گاما نے تلاش ہند کے سفر میں کالی کٹ کو اپنا پہلا پڑائو بنایا۔ 1502ء میں بھٹکل کے ساتھ واسکوڈی گاما کے ظلم و تشدد کے زور پر کیے گئے معاہدے کو یورپ کی سامراجی تاریخ کا پہلا باقاعدہ معاہدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس نے اسی سفر سے واپسی پر بھٹکل کے سامنے بیس میل دوری پر واقع جزیرہ نطہرا پر علامتی طور پر پرتگالی شہنشاہ مانویل کی زرہ اور ٹوپی ایک صلیب پر لٹکاکر اعلان کیا کہ اب سمندروں پر ہمارا قبضہ ہوگیا ہے، ہماری راہ داری حاصل کیے بغیر اب کوئی ان میں جہازرانی نہیں کرسکتا۔
واسکوڈی گاما کی قزاقی اور مسلمانوں پر بھیانک ظلم و ستم
سمندروں پر قبضے کے بعد ان جہازرانوں نے جن کو قزاق کہنا زیادہ مناسب ہوگا، چاروں طرف لوٹ مار مچائی۔ انہوں نے تجارت پر بلاشرکت غیرے تسلط پانے کے لیے بحر ہند اور بحیرۂ عرب میں خوب قزاقی کی۔ انہوں نے پانی کے جہازوں کے ذریعے حج کے سفر پر پابندی عائد کردی۔ اپنے دوسرے سفر میں واسکوڈی گاما نے مسلمان حاجیوں کے ایک جہاز کو پکڑ لیا جو کالی کٹ سے مکہ جارہا تھا اور اس میں 50 خواتین بھی تھیں۔ یہ حجاج کرام متمول طبقے سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے واسکوڈی گاما کو سونا اور چاندی بطور تاوان ادا کرنے کی پیش کش بھی کی، لیکن اس نے صرف سترہ معصوم بچوں کو زندہ رہنے دیا۔ ان بچوں کو جبراً عیسائیت کا بپتسمہ دے دیا گیا اور جہاز کا سارا سامان لوٹ لیا گیا، اس کے بعد انتہائی سفاکی سے جہاز کو تمام مسافروں سمیت آگ لگادی گئی۔ حاجیوں کی چیخیں بلند ہوتی رہیں اور واسکوڈی گاما ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کے بعد یہ معمول ہوگیا کہ حج کا فریضہ ادا کرنے والے حاجیوں کے اکثر جہاز لوٹ لیے جاتے تھے اور عازمین حج و بیت اللہ کو سفر جان ہتھیلیوں پر رکھ کر کرنا پڑتا تھا، یہاں تک کہ برصغیر کے مسلمانوں نے سفرِ حج کی فرضیت کو ساقط سمجھنا شروع کردیا۔ علماء نے باقاعدہ فتوے دے دیے، حضرت سید احمد شہید کی تحریک کے طفیل ایک طویل عرصے کے بعد اٹھارہویں صدی عیسویں میں دوبارہ بحری راستے سے حج کا آغاز ہوا۔
جہالت میں ڈوبا ہوا یورپ
واسکوڈی گاما ہندوستان دریافت کرنے کے لیے نکلا تو سارا یورپ جہالت کے گہرے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ لندن، فرینکفرٹ اور پیرس جیسے شہر گندگی کے ڈھیر تھے۔ آج کے مہذب یورپی گھاس پھوس پر سوتے، بھینس کے سینگ میں شراب پیتے اور کئی کئی دن تک بغیر نہائے رہتے تھے۔ تعویذ گنڈے اور ٹونے ٹوٹکے سے بیماری کا علاج کرتے، گھر بے ترتیب لکڑی، روزن و روشن دان کے بغیر بناتے جن کی چھتیں ٹین کی ہوتی تھیں۔ دوسری طرف یہ وہ دور تھا کہ جب پس ماندہ افریقہ میں بھی مسلمان عظیم الشان تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کررہے تھے، نظام الملک طوسی کی قائم کردہ یونیورسٹی جامعہ مدرسہ نظامیہ میں سات ہزار طلبہ تھے اور قرطبہ کی لائبریریوں میں دو لاکھ کتابیں تھیں۔ اُن دنوں مسلمان حکام اور عام نوکر شاہی کے کارندے بھی کئی کئی اونٹوں پر اپنی ذاتی کتابیں لادے ہوئے جاتے تھے۔ ایک عام سا عالم بھی کئی کئی صندوقوں میں کتابیں بھرے پھرتا تھا۔ ان ایام میں عالمِ اسلام قافلہ علم و دانش کا میرِکارواں تھا، تاہم ان دنوں مشرق سوجانے کی اور مغرب بیداری کی تیاری کررہا تھا۔
گوا پر پرتگالیوں کا قبضہ اور ظلم و ستم کا دور
مارچ 1510ء میں صلیبی سامراج کا اوّلین خواب یورپی سامراج کے دوسرے وائسرائے البوقرق کے ہاتھوں ہندوستان کے مغربی ساحل پر واقع گوا پر پرتگالیوں کے قبضے سے پورا ہوا۔ مسلمان پرتگالی صلیبیوں کا خصوصی نشانہ تھے۔ اس سے پہلے 1471ء سے گوا پر عادل شاہی حکومت کا قبضہ چلا آرہا تھا، جسیالبوقرق نے درہم برہم کردیا۔ اس نے گوا کے مسلمانوں پر ظلم و درندگی سے ماضی کے وحشی صلیبیوں کے مظالم کی یاد تازہ کردی۔ تاریخ میں ایسے بہت واقعات درج ہیں مثلاً جو پرتگالی اسلام لاکر مسلمانوں سے مل گئے تھے، اس نے ان کا دایاں ہاتھ کاٹا اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں کاٹیں، ان کے داڑھی اور سر کے بال نچوائے اور جسم میں خالی جگہوں پر مٹی بھردی۔ البوقرق نے تہیہ کرلیا تھا کہ گوا کی سرزمین پر کسی مسلمان کو باقی نہیں چھوڑے گا۔ اس نے تمام مسلمان شہیدکردیے۔ اس کے حکم سے گوا کے مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کرکے زندہ جلادیا گیا۔ مسلمانوں کی قبریں اور مقبرے کھود کر ان کے پتھر قلعے کی تعمیر میں لگوا دیے۔ اس نے شاہ مانویل کو گوا کی فتح کے بعد جو خط لکھا تھا، وہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے، وہ لکھتا ہے:
’’اس کے بعد میں نے شہر کو آگ لگادی، ہر گردن پر میں نے تلوار رکھی اور کئی روز تک لوگوں کا خون بہتا رہا۔ جہاں بھی ہم نے مسلمانوں کو پایا اُن کی کوئی عزت و توقیر نہیں کی، ہم مسجدیں ان سے بھر کر اور دروازے بند کرکے ان کو آگ لگادیتے تھے، یہاں تک کہ ہم نے 6 ہزار مرنے والوں کے جسم دیکھے۔ میرے آقا! یہ بہت عظیم اور شان دار کارنامہ تھا جس کا آغاز بہت خوب تھا اور اختتام بھی بہتر ہوگا‘‘۔
محسن کُش اور بے وفا شخص
واسکوڈی گاما کیسا بے وفا شخص تھا، اِس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس نے مسلمانوں کی مدد سے زندگی کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی، مگر مسلمانوں پر وہ ستم ڈھائے جس پر درندے بھی شرمائیں۔ 1497ء میں جب واسکوڈی گاما ہندوستان پہنچنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے مشرقی افریقہ کے ساحل پر واقع ملندی پہنچا تو اسے وہاں ایک ایسا بحری ناخدا مل گیا جس نے اُس کی جنوبی ہند کے ساحل کالی کٹ تک پہنچنے میں مدد کی۔ تاریخ کہتی ہے کہ اگر اسے اس رہنما کی رہنمائی میسر نہ آتی تو وہ کبھی ساحلِ ہندوستان تک نہ پہنچ پاتا اور آج دنیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ یہ بحری ناخدا ایک عرب جغرافیہ دان ’’شہاب الدین احمد ابن ماجد‘‘ تھا جو پندرھویں صدی عیسوی کا ایک عالم فاضل عرب جہازراں تھا۔ اس نے علمِ بحریات پر ایک ایسی کتاب تصنیف کی تھی جس میں بحرہند، بحرقلزم، خلیج فارس، بحیرہ چین کے مغربی حصے اور مجمع الجزائر میں جہازرانی کی ہدایات درج ہیں۔ یہ وہی ابن ماجد ہے جس نے فلکیات، بحریات اور جہازرانی کے موضوعات پر اڑتیس کتابیں تصنیف کیں۔ فرانسیسی مستشرق فیراں لکھتا ہے کہ جہازرانی اور بحری علوم پر جدید انداز میں لکھنے والا پہلا مصف ابن ماجد ہے۔ اگر عرض بلد کی ناگزیر غلطیوں کو نظرانداز کیا جائے تو آج بھی بادبانی جہازرانی کے لیے اس کی کتب بے مثال ہیں۔ بحری قطب نما اُس کی ایجاد نہیں البتہ اُس نے اس آلے پر مقناطیس ضرور لگایا ہے جس سے آلہ پہلے سے مغربی اور مصری جہازرانوں کے استعمال میں آنے والے قطب نمائوں سے ہزار درجہ بہتر ہوگیا۔ واسکوڈی گاما کی رہنمائی کا واقعہ مختصر طور پر اس کے ملاحوں میں سے ایک نے اپنے روزنامچے میں درج کیا ہے، جبکہ اس واقعے کی مزید تفصیلات سولہویں صدی کے پرتگالی مورخین نے بیان کی ہیں۔ مورخ اس اسلامی بحری معلم کا لقب ’’معلم کنکا‘‘ بتاتے ہیں، یعنی ستاروں کی مدد سے جہازرانی کے فن کا استاد۔ اس روایت کی تائید ایک عربی کتاب ’’البرق الیمانی فی الفتح العثمانی‘‘ سے ہوتی ہے جس میں پرتگالیوں کے اس مسلمان رہنما کا نام احمد بن ماجد درج ہے۔ اس عربی کتاب کا مصنف قطب الدین النہروانی رقم طراز ہے کہ ابن ماجد کی مدد سے پرتگالیوں کا ممالکِ ہند میں داخلہ ممکن ہوا۔ اس سے پہلے ان کا ایک گروہ سبتہ کی تنگنائے میں جہازوں میں سوار ہوتا تھا اور بحرظلمات (بحراوقیانوس) میں داخل ہوکر کوہ قمر کے پیچھے سے گزر کر افریقہ کے مشرقی ساحل تک تو پہنچ جاتا تھا، لیکن جیسے ہی وہ تنگنائے میں سے ایک ایسے مقام سے گزرتا جس کے ایک جانب پہاڑ ہے تو ان کے جہاز نہ سنبھلتے اور پہاڑ سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتے تھے، کیونکہ یہاں سمندر میں ہر وقت تلاطم بپا رہتا تھا۔ اس لیے فرنگی کبھی بھی صحیح و سالم بحرہند میں داخل نہ ہوپاتے تھے، تاآنکہ ان کا ایک بحری بیڑہ ایک مسلمان کی مدد سے بحرہند تک پہنچ گیا۔ یہ لوگ اس سمندر کے متعلق معلومات کی تلاش میں تھے کہ انہیں اس مسلمان ماہر ملاح احمد بن ماجد کی رہنمائی حاصل ہوگئی۔ اس عرب معلم سے پرتگالی بیڑے کے امیر (واسکوڈی گاما) نے رہنمائی کرنے پر وعدہ کیا تھا کہ اسے اس کی خدمات کا بڑا معاوضہ دیا جائے گا۔ پرتگالی مورخین نے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ واسکوڈی گاما ملندی میں مقیم تھا۔ اسے وہاں گجرات (ہند) کے کچھ ہندو ملے جن کے ہمراہ ایک مسلمان (مُور) بھی تھا۔ اس مسلمان نے واسکوڈی گاما کو ہندوستان کے پورے ساحل کا نقشہ دکھایا جس میں دوائر نصف النہار اور خطوطِ متوازیہ بڑی تفصیل سے دکھائے گئے تھے۔ واسکوڈی گاما نے اسے دیکھ کر یوں محسوس کیا جیسے اسے ایک بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ وہ اس خوف سے کہ اس رہنما کو کہیں کھو نہ بیٹھے، اپریل 1497ء میں جس قدر جلد ممکن ہوسکا جہاز میں سوار ہوکر ارضِ ہند کی طرف روانہ ہوگیا۔
واسکوڈی گاما کے بحری قافلے کو افریقہ سے کالی کٹ تک پہنچنے میں صرف 23 دن لگے تھے، لیکن واپسی کے وقت مخالف ہوائوں کی وجہ سے اسے افریقہ میں مالندی پہنچتے پہنچتے نہ صرف ساڑھے چار ماہ لگ گئے، بلکہ اس دوران اس کے عملے کے آدھے لوگ بیماریوں سے مر گئے، جو باقی بچے ان میں سے بہت سے اسکروی کا شکار ہوگئے۔ مرنے والوں میں اس کا بھائی بھی شامل تھا۔ کالی کٹ میں وہ حکمران ساموتھری کے دربار میں گیا۔ راجا نے واسکوڈی گاما کی بہت آئو بھگت کی، لیکن اس کے ماتحت یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اس نے خلافِ توقع راجا کو تحفے میں کوئی خاص چیز نہیں دی اور نہ روایت کے مطابق سونے چاندی کی نذر پیش کی۔ اس لیے وہ ریاست سے جو مراعات حاصل کرنا چاہتا تھا، نہ لے پایا، اس لیے کہ راجا سے اس کے مذاکرات ناکام رہے۔ اس کے بعد واسکوڈی گاما نے درخواست کی کہ جو سامان وہ بیچ نہیں پایا ہے، اس کی رکھوالی کے لیے اسے اپنا کوئی ایک آدمی کالی کٹ چھوڑ جانے کی اجازت دی جائے، لیکن راجا نے اس کی درخواست مسترد کردی اور مطالبہ کیا کہ دوسرے تاجروں کی طرح وہ بھی کسٹم ڈیوٹی ادا کرے جو عام طور پر سونے کی شکل میں ہوتی تھی۔ جاتے وقت غصے میں بھرے ہوئے واسکوڈی گاما نے چند ہندوستانی سپاہی اور 16 ماہی گیر پکڑ لیے اور ان کو زبردستی ساتھ لے گیا۔ عملے کی شدید کمی کی وجہ سے واپسی کے وقت واسکوڈی گاما کو اپنے تین جہازوں میں سے ایک جہاز افریقہ میں ہی چھوڑنا پڑا تاکہ باقی عملہ دونوں جہازوں کو سنبھال سکے۔
واسکوڈی گاما کی لوٹ مار اور درندگی
ہندوستان کے پہلے سفر میں واسکوڈی گاما اس لحاظ سے ناکام رہا کہ اس نے کالی کٹ کے راجا سے ملاقات کی، مگر راجا نے اُس کے مطالبات تسلیم نہ کیے، تاہم یورپ کے اس ہیرو نے واپسی پر اس حال میں بھی ممباسہ (موجودہ کینیا) کے نزدیک کئی عرب تجارتی جہازوں کو لوٹا۔ اسی سفر میں کالی کٹ کے راجا نے جب اپنے سب سے بڑے پجاری کو بات چیت کرنے واسکوڈی گاما کے پاس بھیجا تو اس نے پجاری کے ہونٹ اور کان کاٹ دیے اور کان کی جگہ کتے کے کان سی کر اسے واپس بھجوادیا۔ 1502ء میں اپنے دوسرے سفر کے دوران واسکوڈی گاما نے جو آج بھی یورپی ہیرو کہلاتا ہے، کالی کٹ کے ساحل پر مقامی راجا کی فوج کے آٹھ سو سے زیادہ فوجیوں کو قیدی بنالیا، ان سب قیدیوں کے ساتھ اس درندہ صفت شخص نے یہ سلوک کیا کہ ان کے ہاتھ، ناک اور کان کاٹ کر ایک کشتی میں ڈال کر ایک رقعے کے ساتھ کالی کٹ کے راجا کو بھجوائے کہ وہ ان سے سالن پکالے۔