کوئٹہ سے قلعہ عبداللہ کے راستے جائیں تو تقریباً پانچ گھنٹے کی مسافت کے بعد ژوب کا علاقہ آتا ہے۔ یہ علاقہ 2500 سے 3500 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت37 سینٹی گریڈ، جبکہ سردیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ مزید بلندی پر یہ درجہ حرارت اور بھی کم ہوجاتا ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں چلغوزے کے دنیا کے سب سے بڑے باغات واقع ہیں۔ یہ باغات تقریباً1200مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں پیدا ہونے والا چلغوزہ دنیا بھر میں نہایت معیاری مانا اور پسند کیا جاتا ہے۔ مناسب پیکنگ وغیرہ کرکے اسے بیرون ملک برآمد کردیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں پیدا ہونے والے اس چلغوزے کی زیادہ تر مارکیٹ دبئی، انگلینڈ، فرانس، مسقط اور دیگر ممالک ہیں جہاں خریدار اس علاقے کے چلغوزے کو منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار رہتے ہیں۔
چلغوزے گردے، مثانے اور جگر کو طاقت دیتے ہیں۔ سردیوں میں اس کے کھانے سے جسم میں گرمی بھر جاتی ہے۔ چلغوزے کھانا کھانے کے بعد کھائیں۔ اگر کھانے سے پہلے انہیں کھایا جائے تو بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ چلغوزہ کھانے سے ’’میموری سیلز‘‘ میں اضافہ یعنی یادداشت میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔
سردیوں میں چلغوزہ بڑے شوق سے کھایا جانے والا خشک میوہ ہے جس میں اعلیٰ مقدار میں تکسیر کش اجزا (اینٹی آکسیڈنٹ) پائے جاتے ہیں جو فری ریڈیکلز کو نیوٹرلائز کرتے ہیں اور انسان کو نہ صرف دل کے امراض کے ساتھ کینسر جیسے موذی مرض سے تحفظ دیتے ہیں بلکہ ان کا کھانا بصارت اور جلد کی صحت کو بھی تقویت دیتا ہے۔ چلغوزے کھانے سے قوتِ مدافعت بڑھتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق تھکان اور دبائو کو دور کرنے کے لیے چلغوزہ یعنی پائن نٹ سے بہتر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ چلغوزے میں پلمیٹک سرڈیک اولک اور لینولیک فیٹی ایسڈ کے ساتھ وافر مقدار میں کیلشیم، فاسفورس اور آئرن بھی ہوتے ہیں۔
چلغوزہ مقوی اعصاب ہے۔ بھوک بڑھاتا ہے۔ لقوہ اور فالج میں اس کا مسلسل استعمال مفید ہے۔ پرانی کھانسی میں مغز چلغوزہ رگڑ کر شہد میں ملاکر چٹانا مفید ہوتا ہے۔ مغز کھیر اور مغز چلغوزہ ہم وزن استعمال کرنے سے بند پیشاب جاری ہوتا ہے۔ مغز چلغوزہ جریان، یرقان اور دردِ گردہ میں بے حد مفید ہے۔ اس کا کھانا جسمانی گوشت کو مضبوط کرتا ہے۔ رعشہ اور جوڑوں کے درد میں مغز چلغوزہ صبح و شام ہمراہ پانی یا قہوہ یا چائے کے ساتھ استعمال کر نے سے فائدہ ہوتا ہے۔ ریاح کو دور کرتا ہے۔ مادہ تولید پیدا کرتا ہے۔ مقوی باہ ہے۔ دل اور دماغ کو تقویت دیتا ہے۔ سردیوں میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ دمہ میں بھی مغز چلغوزہ کو شہد کے ہمراہ رگڑکر چٹانا مفید ہوتا ہے۔ لیکن مریض کو چاولوں سے پرہیز کروانا ضروری ہوتا ہے۔ گردے کو طاقت دیتا ہے۔ یہ جگر، مثانہ اور آلاتِ تناسل کے لیے بے حد مفید ہے۔ سدے کھولتا ہے۔ چلغوزہ دیر ہضم ہوتا ہے۔ اس لیے مقدار سے زیادہ کھانے میں احتیاط ضروری ہے۔ بلغمی مزاج والوں کے لیے سردیوں کا یہ ایک معتدل ٹانک ہے۔کھانا کھانے کے بعد اس کا استعمال مفید ہوتا ہے۔ مغز چلغوزہ دودھ کے ہمراہ کھانے سے جسم موٹا ہوتا ہے۔ گٹھیا کے مرض میں اس کا استعمال مفید ہے۔ خون کے فساد کو دور کرتا ہے۔ فالج اور رعشہ میں مغز چلغوزہ ایک تولہ اور شہد چھ ماشہ ملا کر کھلانا بے حد مفید ہے۔ چلغوزے کے چھلکوں پر روغن سا لگا ہوتا ہے جو چھیلتے وقت مغز کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ اور ایسے مغز کھانے سے معدے میں سوزش ہوجاتی ہے اور گلے کی خراش کا بھی احتمال ہوتا ہے۔
چلغوزہ Pinoleic Acid فراہم کرنے کا واحد قدرتی ذریعہ ہے جو بالخصوص خواتین کے ہارمونز کے افراز میں مدد دیتا ہے اور ان کی بھوک کم کرتا ہے۔ اس خشک میوے میںOleic Acidکی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ وہ نہ جمنے والی چکنائی ہے جو ضرر رساں ٹرائی گلیسرائیڈزکو ہمارے جسم سے ختم کرنے میں جگر کی مدد کرتی ہے اور اس سے ہمارا دل توانا رہتا ہے۔ ایک اونس چلغوزے کے مغز میں 3 ملی گرام آئرن ہوتا ہے، اور آئرن خون کے سرخ خلیات کا اہم ترین جزو ہوتا ہے جو جسم کے تمام خلیات کو آکسیجن اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ اس میں میگنیشیم کی بھی کافی مقدار ہوتی ہے جس سے پٹھے کھنچائو سے محفوظ رہتے ہیں۔ تھکاوٹ اور ذہنی پریشانی دور کرتا ہے۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ اگر آپ وزن میں کمی کے ساتھ خوبصورت اور اسمارٹ نظر آنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے خشک میوہ جات کو روز مرہ کی خوراک میںشامل کرلیں۔ ایک تحقیق کے مطابق خشک میوہ جات کے ذریعے نہ صرف خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ وزن کو قابو میں رکھنے کا آسان طریقہ ہے۔ بادام، کاجو، پستہ، اخروٹ اور چلغوزے معدنیات سے بھرپور ہوتے ہیں اور جسم کو درکار غذائیت پوری کرنے اور تازہ خون بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یوں وزن کنٹرول میں رہتا ہے۔ ایسے افراد جو اپنی روزمرہ کی خوراک میں خشک میوہ جات کا استعمال کرتے ہیں وہ دیگر افراد کے مقابلے میں موٹاپے کا کم شکار ہوتے ہیں۔
خشک میوے کا استعمال قوتِ مدافعت بڑھاکر خطرناک بیماریوں سے بچاتا ہے اور جلد موت کے خطر ے کو ٹالتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق خشک میوے کا استعمال کرنے والے افراد میں کینسر، شوگر، سانس کی بیماریوں اور اعصابی نظام کی تباہی کے باعث موت کا خطرہ کم پایا گیا۔ رپورٹ میںکہا گیا کہ جو افراد روزانہ کم از کم دس گرام خشک میوے کھاتے تھے ان میں دیگر لوگوں کی نسبت جلد موت کا امکان 23 فیصد کم رہا۔
……٭٭٭……
س: میری بیٹی امید سے ہے۔ اسے متلی بہت ہوتی ہے، پیٹ میں کچھ ٹھیرتا نہیں ہے، سب کچھ نکل جاتا ہے۔
(ماہم علی، راولپنڈی)
ج:آپ نے یہ نہیں لکھا کہ کون سا مہینہ ہے۔ بعض خواتین کے پہلے اور دوسرے حمل میں متلی بہت ہوتی ہے۔ ان کو ایسے کھانوں کی مہک سے بچنا چاہیے جن سے متلی ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ آرام کریں۔ سادہ بسکٹ ساتھ رکھیں اور وقفے وقفے سے کھایا کریں۔ خصوصاً صبح کے وقت بسکٹ کھا کر بستر سے باہر آئیں۔ خالی پیٹ رہنے سے متلی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ سیّال اشیاء اور جوس کا استعمال بھی کریں۔ وٹامن بی اور سی لینے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات آئرن کے کیپسول ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے تو عارضی طور پر اس کو ترک کردینا چاہیے۔ سادہ کھانا کھائیں۔ قہوے میں لیموں کا رس ڈال کر پئیں۔ ادرک کا شربت اور ادرک کی چائے بھی فائدہ مند ہوتی ہے۔ ایک تیر بہدف نسخہ حاضر ہے جس سے فوری فائدہ ہوگا:
ادرک، لیموں، دہی کا پانی آدھا آدھا لیٹر۔ کالی مرچ، لونگ 12گرام، کالا نمک 50گرام باریک پیس کر اس میں ملا دیں اور وقفے وقفے سے اس کو استعمال کرائیں۔ بھوک بھی لگے گی اور متلی بھی نہیںہوگی۔
س: میری عمر20سال ہے، میرے جگر میں بہت گرمی ہے۔ کوئی علاج تجویز کریں۔ (محمدارشاد عالم، کراچی)
ج: عزیزِ گرامی، جگر کی گرمی اور سردی میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ جگر تو خون فلٹر کرنے کا پلانٹ ہے اور جگر تو گرم ہی ہوتا ہے، خون کا منبع جو ٹھیرا۔ نہ جانے آپ اس کو کیوں ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں! آپ کو جو تکلیف ہے اس کے لیے آپ روزانہ لیموں کا رس ٹھنڈے پانی میں ڈال کر پی لیا کریں، جگر کی اصلاح ہوجائے گی۔
س: میرے بیٹے کی عمر18سال ہے، اس کو یرقان ہوگیا ہے۔ آنکھیں پیلی ہیں، پیشاب بھی پیلا کرتا ہے، بھوک نہیں لگتی۔ (صابرہ بیگم، حیدرآباد)
ج:آج کل یرقان میں بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ کھانے پینے میں احتیاط کریں، پانی ابال کر دیں، بازار کی مرغن اور تلی ہوئی اشیاء بالکل نہ دیں، سبزیوں کا استعمال کرائیں، مولی کے پتوں کا پانی نکال کر آگ پر پکائیں، سفید پانی اور تلچھٹ الگ ہوجائے تو صاف پانی بوتل میں محفوظ کرلیں اور دن میں کئی مرتبہ پلائیں۔ کچی لسی (چاچھ) پلائیں۔ برگ جھائو افسنتین، برنجا سیف، گل سرخ کو جوش دے کر سکنجبین لیمونی ملا کر صبح و شام پلائیں۔ انار اور گنے کا رس پلائیں۔ گنڈیریاں کھلائیں، پانی میں گلوکوز اور لیمو کا رس ڈال کر دیں۔
س:میری عمر 18سال ہے، میرے پورے جسم، خاص طور پر ہاتھ پائوں میں خارش رہتی ہے، دانوں میں پیپ بھی پڑجاتی ہے۔ (ناہید فاطمہ، لاہور)
ج: مناسب ہوگا کہ آپ اپنے کھانے کے مینو پر توجہ دیں۔ بہت زیادہ مرچ مسالے اور میٹھے کا استعمال کم کردیں۔ خون کا توازن بگڑ جائے تو زخم بھرنے میں دیر لگتی ہے۔ صبح و رات وٹامن سی کی گولیاں کھایا کریں۔ گلِ سرخ، گلِ منڈی، عناب، برگِ حنا تازہ پانی میں جوش دے کر رات کو سوتے وقت پی لیا کریں۔ دانوں پر مرہم کافور لگائیں۔
س: میری عمر 28سال ہے۔ قد پانچ فٹ تین انچ اور وزن صرف 46 کلو ہے۔ گھر والے کمزور اور لاغر سمجھتے ہیں۔ لیکن میں اپنے معمولات بحسن و خوبی انجام دیتا ہوں۔ اکثر نزلہ زکام ہوجاتا ہے۔ موٹا ہونے کا کوئی نسخہ بتائیں۔ (علی رحیم اللہ، گوجرانوالہ)
ج: آپ کیا سمجھتے ہیں موٹا انسان صحت مند ہوتا ہے؟ دبلا ہونا کوئی مرض نہیں ہے، اصل چیز یہ ہے کہ آدمی صحت مند ہو اور اسے کوئی مرض نہ ہو۔ موٹاپے میں تو ہزار بیماریاں ہیں اور آپ تو خود کہتے ہیں کہ آپ صحت مند ہیں۔ اگر پھر بھی وزن بڑھانا چاہتے ہیں تو صحت کے اصولوں کی پابندی کیجیے۔ بازار کے کھانوں سے اجتناب برتیں۔ صبح فجر کی نماز کے بعد سیب کھا کر چہل قدمی کریں۔ واپس آکر تازہ دودھ میں عرق عنبر ڈال کر پی لیا کریں۔ خوب صحت بن جائے گی۔
س: میری عمر 25 سال ہے۔ گزشتہ دنوں اجابت کے ساتھ سرخ رطوبت خارج ہوئی۔ شاید وہ خو ن تھا، لیکن اب ایسی کوئی شکایت نہیں ہے۔ کہیں یہ بات قابلِ تشویش تو نہیں؟ (اسد نواز خان، مانسہرہ)
ج: فضلہ میں خون آنا واضح طور پر دو باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ بواسیر کے مسے ہوں اور ان سے رِس کر خون آرہا ہو۔ دوسری وجہ آنتوں کی خرابی بھی ہوسکتی ہے۔ آپ کو کھانے میں سرخ مرچوں کا استعمال کم کردینا چاہیے۔ گائے کے گوشت اور تلی ہوئی اشیاء سے بھی پرہیز کریں۔ دوا کے طور پر اسپغول، بارتنگ، تخم کنوچہ اور تخم ریحاں پانی میں بھگو کر شربت بادیان ملا کر صبح و شام استعمال کریں۔
س: میرے دانت پیلے ہیں، صاف نہیں ہوتے، منہ سے بو بھی آتی ہے۔ (ارشد جمال، میرپور)
ج: دانت صاف کرنے کے لیے ہم نے بہت سے نسخے پہلے بھی لکھے ہیں۔ اگر دانت صاف نہیں ہوں گے تو ہماری صحت اچھی نہیں رہے گی۔ آپ کے منہ سے بو آنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا معدہ ٹھیک کام نہیں کررہا، یا آپ نے اس کو ضرورت سے زیادہ مصروف کیا ہوا ہے۔ وقت پر کھائیں اور صرف اتنا کھائیں جتنی ضرورت ہو۔ ہر نماز سے پہلے نیم کی مسواک کریں۔ نیم کی لکڑی کا کوئلہ، نمک لاہوری اور پھٹکری ہم وزن لے کر اس کا منجن بنا لیں اور اس سے دانت صاف کیا کریں۔ دانت موتی کی طرح چمکنے لگیں گے۔ کھانے کے بعد حب کبد نوشادری 2,2 عدد کھا لیا کریں۔
دہی کیا چیز ہے؟ یہ محض ایسا دودھ ہے جس میں بیکٹیریا دراصل دودھ کی شکر (لیکٹوز) کو ایک ہلکے تیزاب (لیپٹک ایسڈ) میں تبدیل کردیتا ہے۔ دہی میں جو ترشی پائی جاتی ہے وہ اسی تیزاب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دودھ کے مقابلے میں دہی ہضم کرنا آسان ہوتا ہے۔ وہ افراد جن کو دودھ استعمال کرنے سے پیٹ میں مروڑ، اینٹھن اور گیس ہوتی ہے وہ بھی دہی استعمال کرسکتے ہیں۔ جو افراد دودھ ہضم نہیں کرپاتے اُن میں ایک انزائم کی کمی ہوتی ہے، اس انزائم کا نام لیکٹیز ہے جو دودھ میں پائی جانے والی شکر کو ہضم کرتا ہے۔
جو لوگ روزانہ دو کپ دہی استعمال کر تے ہیں ان میں کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے۔ دہی خواہ کریم نکالے ہوئے دودھ سے تیار کیا جائے یا اس میں کریم موجود ہو، دونوں صورتوں میں دہی میں حراروں کی مقدار کم ہوتی ہے۔ البتہ ایسا دہی جس میں مٹھاس وغیرہ شامل کردی گئی ہو، اس میں کیلوریز زیادہ مقدار میں ہوتی ہیں۔ کم کیلوریز والی غذائیں جسم کو یکساں حالت میں برقرار، اور وزن کی زیادتی سے محفوٖظ رکھتی ہیں۔ آٹھ اونس سادہ دہی جس کی تیاری میں بغیر کریم نکالا ہوا دودھ استعمال کیا گیا ہو، اس میں 139کیلوریز ہوتی ہیں، جبکہ کریم نکالے ہوئے دودھ سے تیار کردہ آٹھ اونس دہی میں127کیلوریز ہوتی ہیں۔ ان دونوں اقسام کے دہی میں اس لحاظ سے زیادہ فرق نہیں ہے۔ مشرقی کھانوں میں دہی مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا رائتہ تیار کیا جاتا ہے۔ کہیں چٹنی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ دہی ہضم نہ ہونے کی صورت میں دہی میں کالی مرچ اور زیرے کا سفوف ڈال کر استعمال کرلیں۔گرمیوں کے موسم میں جب نظام ہضم کمزور ہوجاتا ہے، دہی کا استعمال معدے کی کمزوری دور کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وہ افراد جن کے ہاتھ پیر جلتے ہوں یا ہتھیلیوں اور پائوں کے تلووں سے پسینہ بہت آتا ہو، ان کو دن میں ایک مرتبہ دہی کا ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ دہی کے استعمال سے جگر کا فعل بھی درست رہتا ہے۔ یرقان کے بعد یرقان کی علامتوں کو دور کرنے کے لیے دہی کا استعمال نہایت مفید ہے۔ دہی پر ہم ایک مفصل اور مکمل کالم لکھ چکے ہیں۔