ہماری پستی

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

یہ آج سے 85/86برس پہلے کی بات ہے جب نہ موبائل ایجاد ہوئے تھے اور نہ ہی اتنی اعلیٰ کوالٹی کے کیمرے ہوتے تھے۔
آپ شاید چشمِ تصور سے بھی وہ کیمرے نہ دیکھ سکیں جن کے اوپر خواتین کے برقعوں کی مانند کالے کپڑے یعنی حجاب پڑے ہوتے تھے۔ تصویر بنوانے والا سامنے کرسی پر بیٹھتا تو کیمرہ مین پیچھے سے پردہ اٹھا کر کچھ کرتا، پھر آواز آتی ’’ریڈی‘‘۔
پھر وہ کیمرے کے چہرے پر پڑا ہوا کالا حجاب ہٹاتا اور چشمِ زدن میں تصویر کھینچ کر حجاب دوبارہ ڈال دیتا۔ فلم کو دھونے میں دو تین دن لگتے اور دو تین دن بعد تصویر ملتی۔ موجودہ زندگی کی تیزی مبارک ہو کہ چند منٹوں میں جتنی چاہیں تصویریں مل جاتی ہیں۔
موجودہ تیز زندگی کا تحفہ موبائل بھی ہے، اور سچی بات یہ ہے کہ موبائل فون کی صورت میں آپ کی زندگی میں ایک ’’چور‘‘ گھس آیا ہے جو انسان کے بہت سے رازوں کا امین ہوتا ہے۔ اب آپ کی کسی بھی مقام پہ موجودگی اور کئی خفیہ حرکات کا کھوج لگانا آسان ہوگیا ہے۔
کوئی بھی واردات ہو، تفتیش کے لیے پولیس سب سے پہلے ملزم اور مظلوم سے موبائل فون مانگتی ہے۔ شکی بیویاں گھر آتے ہی خاوند کا موبائل چراتی اور اس کی تلاشی لیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مجھے آج یہ خیال کیوں آیا؟ کالم کا موضوع کچھ اور تھا لیکن بات دور نکل گئی۔
ہوا یوں کہ آج صبح ہی صبح ایک بزرگ اور فاضل دوست نے واٹس ایپ پر دو خوبرو لڑکیوں کی تصویریں بھیجیں جو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوچکی ہیں۔ تصویروں کے نیچے لکھا ہے ’’ریاستِ مدینہ کے ہر بڑے مومن کی عزت اِن لڑکیوں کے موبائلوں میں محفوظ ہے‘‘۔
دراصل یہاں محفوظ بروزن غیرمحفوظ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے اُن ’’بڑے‘‘ لوگوں پہ رحم آتا ہے جن کی عزتیں موبائلوں میں محفوظ ہوتی ہیں۔ وہ عزت ہی کیا جو موبائل کی مرہونِ منت ہو!
بات تاریخ کی ہورہی تھی اور ذکر تصویر کا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 1936ء میں قائداعظم کوئٹہ کے دورے پر گئے ہوئے تھے۔ جناب یحییٰ بختیار قائداعظم سے عقیدت رکھتے تھے اور مسلم لیگ کے اسٹوڈنٹس ونگ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ انہوں نے قائداعظم کی کچھ تصاویر لیں۔ وہ تصاویر معیاری نہیں تھیں۔ کچھ دھندلی، کچھ بکھری بکھری۔ یحییٰ بختیار نے وہ تصاویر ڈان اور السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا کو بھجوا دیں۔
ڈان نے وہ تصاویر شائع نہ کیں۔ اگلے دن یحییٰ بختیار اپنا کیمرہ مع فلیش اٹھاکر دوبارہ کوئٹہ میں قائداعظم کی قیام گاہ پر پہنچ گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ قائداعظم ’’الحدیث‘‘ نامی کتاب کے مطالعے میں محو تھے۔ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث پر مشتمل تھی۔ وہ زمانہ کانگریس اور انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد اور جہاد کا تھا لیکن اصل چیلنج مسلمان عوام کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد کرنا تھا، جس کے بغیر جنگِ آزادی نہ لڑی اور نہ جیتی جا سکتی تھی۔
مسلم لیگ کو عوام کے دلوں میں اتارنے کے لیے اس کی قیادت کو دلوں میں اتارنا ضروری تھا۔ قائداعظم کو غور سے ’’الحدیث‘‘ نامی کتاب پڑھتے ہوئے دیکھ کر یحییٰ بختیار کو فوراً خیال آیا کہ وہ اسی حالت میں قائداعظم کی تصویریں بنائے اور پریس کو بھیجے۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان عوام انگریزی لباس میں ملبوس، انگریزی بولنے والے لیڈر کو ’’الحدیث‘‘ کتاب پڑھتے ہوئے دیکھ کر قلبی راحت محسوس کریں گے اور اُن کے دلوں میں مسلم لیگی قیادت کے لیے محبت و عقیدت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ کانگریسی پروپیگنڈے اور مسلم لیگ مخالف سیاست دانوں کی مہم جوئی کو توڑنے میں مدد ملے گی۔ چنانچہ یحییٰ بختیار نے قائداعظم سے درخواست کی کہ وہ اسی طرح بیٹھے کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ذرا کتاب کو اوپر کردیں تاکہ اس کا نام نمایاں ہوجائے۔ قائداعظم کو اللہ پاک نے انتہا کی ذہانت عطا کی تھی۔ انہوں نے فوراً کتاب ایک طرف رکھ دی اور یحییٰ بختیار سے کہا ’’میں اس مقدس کتاب کو پبلسٹی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتا‘‘۔ اُن کے الفاظ یہ تھے:
“I do not want to use a sacred book as a tool of publicity.”
یہ جواب تھا ایک کھرے انسان کا، جو منافقت سے پاک اور سچائی کا پیکر تھا۔ اس وقت ان کے ذہن پر الحدیث چھائی ہوئی تھی۔ چند لمحوں بعد کہنے لگے ’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک طرف یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کا سامنا تھا تو دوسری طرف اپنے لوگ دشمن ہو گئے تھے۔ اسی طرح آج مجھے بھی ایک طرف یہودیوں کی مانند ہندوئوں اور عیسائی حکمرانوں کی مخالفت کا سامنا ہے اور دوسری طرف کچھ اپنے لوگوں کی مزاحمت بھی درپیش ہے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلیٰ ترین کردار اور امانت و دیانت اور اللہ پاک کی مدد سے قریش، عیسائیوں اور یہودیوں پر فتح حاصل کی، اسی طرح میں بھی اسوئہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے کانگریس اور برطانوی حکمرانوں کے اتحاد اور اپنے لوگوں کی سازشوں کے خلاف کامیابی حاصل کروں گا۔ کامیابی کی کنجی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے میں مضمر ہے‘‘۔
ایک طرف قائداعظم کا ریاستِ مدینہ کا وژن تھا جس میں اسوئہ حسنہ پر عمل کامیابی کی ضمانت تھی۔ دوسری طرف موجودہ ریاستِ مدینہ ہے جس میں سرکردہ مومنوں کی عزت ان دو لڑکیوں کے موبائلوں میں محفوظ ہے۔ اللہ اللہ وہ بلندی، یہ پستی۔ اللہ پاک ہم پر رحم اور کرم فرمائیں۔
(ڈاکثر صفدر محمود۔ جنگ،14جنوری 2020ء)

روئیداد خان،جنرل ایوب خان اور ہماری تلخ تاریخ

اب اگر آپ ماضیِ بعید کی راز کی ایک نہیں سیکڑوں باتیں معلوم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مذکورہ بالا تین کتابوں سے رُجوع کرنا پڑے گا۔ باقی مدیر سے دو فاضل مدیران کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی تحقیق اور تفتیش کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں (روئیداد خان تو ہرگز نہیں کہ وہ اب عمر کے 90 کے پیٹے میں ہیں) مگر کالم نگار اپنے کام کے بارے میں وثوق سے لکھ سکتا ہے کہ 1980ء کی خفیہ دستاویزات کی اشاعت کے بعد اب ہر سال ایک نئی جلد شائع ہوا کرے گی۔ 2020ء میں 1981ء اور اُس سے اگلے سال 1982ء کی دستاویزات۔ میری زندگی کے بعد یہ کام میرا بیٹا کرے گا اور اُس کے بعد میرا پوتا یا پوتی۔ مندرجہ بالا سطور میں پشاور کے قریب Badaber کے مقام پر امریکہ کو دیئے گئے فضائی اڈے کا ذکر کیا گیا ہے‘ جہاں سے امریکہ کے جاسوسی جہاز سوویت یونین پر اپنی پرواز شروع کرتے تھے۔ آخرکار سوویت یونین نے راکٹ کے ذریعے ایک امریکی طیارہ مار گرایا تو یہ راز فاش ہوا۔ آپ اس موضوع پر فقیر اعجازالدین کی مرتب کردہ کتاب کے صفحات نمبر23, 10 اور 43 پڑھ سکتے ہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ جنرل ایوب نے امریکی صدر جانسن کو بتایا کہ وہ اس ہوائی اڈے پر امریکہ کو دی جانے والی سہولت سے بے خبر ہیں جبکہ اُن کا اپنا فارن سیکرٹری راز کی بات اچھی طرح جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ Kumer نے صدر جانسن کو یہ رپورٹ پیش کی We are worried that Ayub is not fully master in his own House.
1971 ء میں اُس وقت کے صدر (اصل میں آمر مطلق) جنرل یحییٰ خان کا مشیر برائے معاشی اُمور ایم ایم احمد اس وقت تک امریکی حکومت کا چہیتا اور لاڈلا تھا کہ وہ امریکی صدر کو واشنگٹن جاکر خود مل سکتا تھا۔ خانہ پُری کے لیے وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر آغا ہلالی (وزیر خارجہ آغا شاہی کے بھائی)کو بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ ایسی ایک ملاقات (دس مئی 1971‘ کو 4 بجکر 45 منٹ سے لے کر 5 بجکر 20 منٹ بعد از دوپہر کی تفصیل صفحات 247-250 پر درج ہے) امریکی صدر نے پاکستانی حکومت کے اُن اقدامات کی حمایت کی جو اُس سال مارچ سے لے کر مئی تک مشرقی پاکستان کے عوام کو فوجی طاقت سے کچلنے اور مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کے مجوزہ چھے نکات کو تسلیم نہ کرنے اور قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے کے لیے اُٹھائے گئے تھے۔ دس مئی کا دن اس لیے بھی قابل ذکر ہے کہ اُس دن سابق آمر (جنرل ایوب خان) نے امریکہ میں اپنے دل کا آپریشن کرایا تھا۔ یہ خبر پاکستان میں کامیابی سے چھپائی گئی۔ روئیداد صاحب کی کتاب کے صفحہ نمبر924 پر شائع ہونے والے امریکی سفیر کے اپنی حکومت کو بھیجے گئے برقیہ پر آج کا کالم ختم کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب امریکہ میں بیگم بھٹو کے سرکاری دورے کے موقع پر امریکی صدر نکسن کی خوشنودی کی خاطر انہیں بہترین آموں کے آٹھ بڑے ڈبے بطور تحفہ بھیجنا چاہتے تھے۔ صرف ایک دن گزرا جب بھٹو صاحب کو یہ بری خبر ملی کہ امریکی قانون کے تحت امریکی صدر کو بھی پھلوں کی درآمد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ میٹھے آموں کے بغیر بیگم بھٹو کو اپنے سنگ دل میزبانوں کے دلوں کو موم کرنے میں کتنی مشکل پیش آئی ہوگی۔
(نسیم احمد باجوہ۔ جنگ،14جنوری،2020ء)