ابوسعدی
دنیا کا معروف ترین سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstein) جرمنی کے ایک قصبے الم (Ulm) میں 14 مارچ 1879ء کو پیدا ہوا اور پرنسٹن نیوجرسی میں 18 اپریل 1955ء کو اس دارفانی سے رخصت ہوا۔ وہ ایک کیمیکل انجینئر کا بیٹا تھا۔ اگرچہ یہودی گھرانے میں پیدا ہوا، مگر اس کی ابتدائی تعلیم میونخ میں کیتھولک گرامر اسکول میں ہوئی۔ ابھی یہ نوجوان ہی تھا کہ اس کا خاندان بویریا چلا گیا۔ نیوٹن وہ واحد سائنس دان ہے جس کے ساتھ کسی قدر آئن اسٹائن کا مقابلہ ہوسکتا ہے۔ اُس کے بچپن کی طرح، اِس کے بچپن میں بھی ذہانت کے کوئی واضح آثار نہیں تھے۔ 1894ء میں اس کے والد اٹلی کے ایک شہر میلان (Milan) میں چلے آئے، مگر آئن اسٹائن تعلیم کے حصول کی وجہ سے ان کے ساتھ نہ آسکا۔ یہاں وہ لاطینی اور یونانی میں کامیاب نہ ہوسکا، مگر ریاضی میں اس کی دلچسپی بہت واضح تھی۔ اسکول کی تعلیم میں وہ ناکام رہا، مگر اس کے چچا جیکب نے اسے ریاضی کے معمے فراہم کیے، جس سے اس کی تعلیم کے ساتھ دلچسپی برقرار رہی۔ سوئٹزرلینڈ کے کالج میں بھی اس کی ریاضی کے ساتھ دلچسپی باقی تھی۔ گریجویشن کے بعد اس نے مدرّسی تلاش کی، مگر ناکام رہا۔ 1901ء میں اسے سوئس (Swiss) شہریت مل گئی۔ ریاضی میں دلچسپی کے باعث اسے کسی لیبارٹری کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ وہ کاغذ اور پنسل کے استعمال سے کام چلاتا رہا۔ سوئٹزرلینڈ ہی میں 1902ء سے 1909ء تک پیٹنٹ دوائوں کی آزمائش گاہ میں کام کرتا رہا۔ 1905ء میں اس نے توانائی کے قدریوں کے مماثل نور کے قدریوں یا ضیائیوں کا مفروضہ وضع کیا اور اس کے کیمیائی اثر کی توجیہ پیش کی۔ 1905ء ہی میں اس نے جرمنی کی طبیعات کی سالانہ کتاب میں پانچ مقالات شائع کرائے۔ اسی سال اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی اور اس نے اپنا خصوصی نظریہ ’’اضافیت‘‘ پیش کیا اور یہ ثابت کیا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ یوں صدیوں پرانے خیالات میں ایک انقلاب پیدا ہوگیا۔ 1913ء میں اسے برلن یونیورسٹی میں پروفیسر مقرر کیا گیا، جہاں اس نے نظریہ اضافیت کی مزید تشریحات کیں۔ 1921ء میں اسے نظری طبیعات کی تحقیق کی بنا پر نوبیل انعام دیا گیا۔ 1933ء میں یہودی ہونے کے باعث ہٹلر نے اس کی جائداد ضبط کرلی اور اس نے امریکہ میں پناہ لی۔ 1933ء۔ 1945ء تک وہ پرنسٹن میں طبیعات کا پروفیسر مقرر ہوا۔ 1939ء میں اس نے صدر روز ویلٹ کو ایٹم بم بنانے کی تجویز پیش کی، جو 1945ء میں کامیاب ہوگئی۔ (پروفیسر عبدالجبار شاکر)
خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ
٭درویش پردہ پوشی کا نام ہے۔
٭دنیا والوں کی صحبت فقیر کے دل کو پریشان کردیتی ہے۔
٭دنیا کی حرص، غمِ فردا، حسد و بغض اور حُبِّ جاہ جس دل میں ہوں وہاں حکمت قرار نہیں پکڑتی۔
٭جو بلا دوست کی جانب سے نازل ہو اس کو صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے۔
٭جس کی آنکھ میں عشق کا سرمہ لگا ہو اُس کی نظر میں عرش سے تحت تک کوئی حجاب باقی نہیں رہتا۔
٭خدا کا خوف بے ادب بندوں کے لیے تازیانہ ہے تاکہ وہ اس کے سبب گناہوں سے بچے رہیں اور نیک راستے پر قائم رہیں۔
(”اقوالِ زریں کا انسائیکلو پیڈیا“۔نذیرانبالوی)
ایک لائق بیٹا اچھا
ایک بلی نے شیرنی پر طعنہ کیا کہ: ’’تُو کیا میری برابری کرے گی۔ میں ایک جھول میں دس بچے دیتی ہوں اور تُو صرف ایک‘‘۔
شیرنی نے جواب دیا: ’’ہاں، مگر میرا بچہ بڑا ہوکر شیر ہوتا ہے‘‘۔
حاصل: ایک لائق بیٹا اچھا اور دس نالائق کچھ نہیں۔