پروفیسر اطہر صدیقی
۔’’ایک دن میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں کیوں زندہ ہوں، صرف اپنی بقا کے لیے بھیک مانگتے ہوئے؟ میرا اس دنیا میںکوئی نہیں تھا جس کے بارے میں سوچ سکوں اور اگر میں مر جائوں گا تو کوئی بھی نہیں جو میرے نہ ہونے کو محسوس کرے گا۔ تو میرے یہ خیالات تھے دو برس پہلے جب میں دریا کے پل پر کھڑا تھا اور اس میں کود کر خودکشی کرنے ہی والا تھا، اور تب یہ چھوتا سا کتا (بوبی) آیا اور مجھ پر بھونکنے لگا بلکہ میرے کپڑے اپنے دانتوں میں پکڑ کرکھینچنے لگا، مجھے دریا میں کودنے سے روکنے کے لیے۔ تو میں نے اسے آخری بسکٹ دے دیا جو میری جیب میں تھا، وہ اتنا خوش ہوا کہ میرے آنسو نکل آئے اور میں نے دریا میں کودنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ اس وقت سے یہی میرا سب کچھ ہے اور میرے ساتھ ہے، بالکل میرے بچے کی طرح۔ بعض اوقات یہ ٹہلنے چلا جاتا ہے اور ہم دونوں کے لیے کچھ کھانے کے لیے لے کر واپس آجاتا ہے۔ (کبھی کیک کا ٹکڑا، ادھ کھایا سینڈوچ)۔ یہ ہمیشہ میرے برابر قریب ہی سونا چاہتا ہے‘‘۔
میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا اسے کوئی جگہ بے گھر لوگوں کی پناہ گاہ میں بھی نہیں ملی، اور اس نے جو کچھ بتایا اسے سن کر میرے آنسو نکل پڑے یا میں رو پڑا۔
’’آٹھ مہینے پہلے مجھے سونے کے لیے اور کچھ کھانے کے ایک گرم جگہ مل گئی تھی لیکن وہاں کتے رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے میں نے منع کردیا۔ یہ کتا ہی میرا سب کچھ ہے اور میں مر جانا پسند کروں گا، اس سے دست بردار ہونے کے بجائے۔ میں نے سوچا جب میرے پاس کچھ نہیں تھا تب اس نے مجھے محبت کرنا سکھایا تھا، اور زندہ رہنے کی وجہ دی تھی۔ میں اس کا شکریہ ادا ہی نہیں کرسکتا۔ جب لوگ مجھے پیسہ دیتے ہیں، میں ہمیشہ اس کے لیے کھانا خریدتا ہوں، میں انسانوں کے لیے کھانا جب ہی خریدتا ہوں جب میرے پاس اس کی ضرورت کی ہر چیز ہوتی ہے۔ اسے اپنے ساتھ رکھنے پر میں نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ میں بہت احمق ہوں، اور میںکہتا ہوں کہ ممکن ہے وہ صرف ایک جانور ہے لیکن اس نے مجھے کسی بھی انسان سی بڑھ کر محبت دی ہے اور میں اسے کبھی بھوکا نہیں رہنے دوں گا‘‘۔
یہ سن کر میں نے اسے کمبل اور کھانا دیا۔ اس نے میرا شکریہ اس طرح ادا کیا کہ پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا تھا۔ اس نے کہاکہ آپ کا شکریہ، بوبی اب اچھی طرح کھائے گا اور اسے کبھی ٹھنڈ نہیں برداشت کرنا پڑے گی۔ اور کچھ وجوہات، جو میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے اسے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اپنا پتا لکھا اور کتے کے کولر سے باندھ دیا اور کہا ’’اب تم کو مزید پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کبھی بھی تمہارے ساتھ کچھ خراب ہوجاتا ہے تو میں بوبی کا خیال کروں گا۔ وہ کبھی بھی اکیلا نہیں رہ جائے گا‘‘۔ تب وہ رونے لگا۔ اس دن میں نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ خوش انسان دیکھا، اور میری خواہش ہے کہ کاش آپ بھی اسے دیکھ سکتے۔ دنیا میں انسان کا سب سے بہترین دوست جو غیر مشروط محبت دیتا ہے صرف کتا ہی ہوتا ہے۔
۔’’مین آف دی ملینیم‘‘۔
کلیانا سندرم ایک 73 سالہ ضعیف انسان تامل ناڈو کے رہنے والے ہیں۔ وہ ایک سوشل ورکر ہیں جو پچھلے پچاس برس سے یتیموں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ پینتیس سال سے وہ ایک لائبریرین کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ انہوں نے جب تک نوکری کی، اپنی پوری تنخواہ ہر ماہ کے آخر میں نہایت باقاعدگی سے خیرات کردی۔ اپنے اخراجات کے لیے وہ مختلف قسم کے کام کرتے رہے۔
اپنے گزارے اور دو وقت کے کھانے کے لیے انہوں نے ویٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کردیا تاکہ ضرورت مندوں کی مدد کرسکیں، یہاں تک کہ جب وہ نوکری سے سبک دوش ہوئے تو انہوں نے اپنی پوری پنشن جو دس لاکھ روپے تھی، وہ بھی یتیم بچوں اور غریبوں کی تعلیمی ضروریات کے لیے عطیہ کردی۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی تمام آمدنی سوشل کاموں پر ہی خرچ کی!!۔
بین الاقوامی سیرت نگاری سینٹر، کیمبرج نے انہیں دنیا کے عظیم ترین انسانوں میں سے ایک گنا، اور اقوام متحدہ نے بیسویں صدی کے دنیا کے سب سے غیر معمولی عظیم انسانوں کی فہرست میں شمار کیا۔ ایک امریکن تنظیم نے اُن کو ایک بے پناہ قابلِ احترام شخص کی حیثیت سے ’’ملینیم کا انسان‘‘ کے خطاب سے نوازا اور تیس کروڑ روپے انعام کا مستحق پایا، لیکن اس انتہائی مخیر انسان نے وہ تمام رقم بھی سوشل کاموں کے لیے عطیہ کردی۔
کلیانا سندرم کا کہنا ہے کہ ایک انسان کو اپنی زندگی میں کسی بھی پسندیدہ کام میں کچھ غیر معمولی کام کرکے دکھانا چاہیے۔ ان کا لائبریری سائنس میں بہت اہم اور بے پایاں کام ہے۔ مدورائے کامراج یونیورسٹی میں انہوں نے جو ایک تھیسس پوسٹ گریجویٹ کورس کے لیے لکھا، اسے بہت ممتاز سمجھا گیا تھا۔ انہوں نے ایک بہت آسان اور سہل طریقہ لائبریری میں کتابوں کی تلاش اور اُن تک پہنچنے کا ایجاد کیا۔ حکومتِ ہند نے انہیں ’’ہندوستان کا بہترین لائبریرین‘‘ نامزد کیا اور وہ دنیا کے دس عظیم محافظِ کتب خانہ میں شمار کیے گئے۔
ان کی انسان دوستی اور دوسروں کی مدد کے جذبے سے متاثر ہوکر تامل ناڈو کے سب سے بڑے فلمی اداکار رجنی کانت نے انہیں اپنا منہ بولا باپ بنالیا۔ وہ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور اپنی پوری زندگی دوسروں کی خدمت کرنے کے لیے وقف کررکھی ہے۔ کلیانا سندرم نے بھارت کو اتنا کچھ دیا اور ہمارے اس یقین کو مستحکم کردیا کہ اس زمانے میں بھی ایسے بے لوث، فرشتہ صفت اور مخیر انسان ہوتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر مکیش مہتا نے لکھا ہے کہ میں شرمندہ ہوں کہ میں اس عظیم انسان کے وجود سے ناواقف رہا۔ ایک امریکن تنظیم نے ان کو اعزاز بخشا لیکن ہماری حکومت سچن ٹنڈولکر کو تو ’’بھارت رتن‘‘ کے انعام سے نوازتی ہے، جو اپنی انعام میں پائی مفت کی بے حد قیمتی ’’فراری کار‘‘ پر کسٹم ڈیوٹی تک ادا نہ کرنے کی تگ و دو بھی کرتے ہیں اور سینکڑوں کروڑ روپے ہر سال کماتے ہیں۔ لیکن ہم کلیانا سندرم جیسے شخص سے ناواقف رہے۔ وہ دنیا بھر میں پہلے شخص ہیں جو اپنی زندگی بھر کی آمدنی دوسروں کی مدد کے لیے عطیہ کردیتے ہیں۔ ہمارے تمام سیاست دانوں، فلمی اداکاروں، کرکٹرز، تجارت پیشہ رئوسا کو، جو لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں، فخر محسوس کرنے کے ساتھ شرمندہ بھی ہونا چاہیے کہ امریکن تنظیم تو ان کو عظیم شخص کا خطاب دیتی ہے اور ہم ہندوستانی شاید اس حقیقت سے بھی واقف نہیں کہ ایسا شخص ہمارے درمیان موجود ہے جو سب سے بڑے قومی انعام کا مستحق ہے۔ ’’ایسا ہندوستان ہی میں ہوسکتا ہے‘‘۔ ہمیں کم از کم اتنے عظیم، مخیر، انسان دوست اور بے لوث شخص کو بتانا چاہیے کہ ہم اس کے لیے کتنا فخر محسوس کرتے ہیں۔