اُنہی دنوں1970-71)) ایک اور حادثہ پیش آیا۔ دو کشمیری نوجوان ایک طیارے کو اغوا کرکے لاہور لے آئے۔ ان ’’غازیوں‘‘ کے اس کارنامے پر پورے ملک کی فضا تحسین و آفرین کی صدائوں سے معمور ہوگئی۔ کشمیریوں کی جانبازی اور پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے امتزاج نے تمام ہنگامے کو ایک رومانی داستان بنادیا۔ ہوا بازوں اور مسافروں کے انٹرویو چھپے۔ پشاور کے ایک بزرگ کے دل میں گئے وقتوں کی یادیں کچھ اس طرح ابھریں کہ جہاز کی ایئرہوسٹس جواں سال مس کوہلی کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بچپن میں وہ ان کی گود میں کھیل چکی ہیں۔ غرضیکہ پورا ماحول پنجابی فلموں کا سابن گیا۔ سراسر احمقانہ۔ دوسروں کو کیا کہیے ہم خود جوش کے عالم میں تھے۔ شام کو سید شبیر حسین دفتر آئے۔ میں نے ردعمل پوچھا۔ مشرقی کی خاکساریت کی یہ پیداوار اُس روز خلافِ معمول سرد اور لاتعلق دکھائی دی۔ کہنے لگے کہ کشمیری رہنمائوں بالخصوص سردار عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک ناٹک ہے۔ وہ ہندوستانی ایجنٹ ہیں اور پاکستان کے لیے ایک جال بچھایا گیا ہے۔ اخبار میں جو مواد آرہا تھا اُس کے روبرو اِس رائے کی کیا وقعت تھی! خصوصیت سے جب ہمارے چوٹی کے رہنما ڈھاکہ سے واپسی پر ان جانبازوں کے پاس پہنچے۔ ان کے ساتھ گفت و شنید کیا ہوئی اور کیا مشورے لیے دیے گئے، اس کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ جو نتیجہ ظاہر ہوا وہ یہ تھا کہ ’’گنگا‘‘ کو نذر آتش کردیا گیا۔
……٭٭٭……
لاہور میں گنگا کو آگ کیا لگی، ڈھاکہ میں بوڑھی گنگا شعلہ بداماں ہوگئی۔ اندرا گاندھی نے لاہور اور ڈھاکہ کے درمیان مواصلات کا سلسلہ منقطع کردیا۔ ہندوستان کی فضا ہمارے طیاروں کے لیے ’’علاقہ ممنوعہ‘‘ قرار پاگئی۔ ہمارے لیے اب کوئی اور چارئۂ کار نہیں رہا تھا کہ ہم مشرقی پاکستان پہنچنے کے لیے کچھ اس قبیل کا راستہ اختیار کریں جو پندرہویں صدی میں واسکوڈے گاما نے پرتگال سے ہندوستان پہنچنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ ہم راس کماری کے گرد گھوم کے وہاں پہنچنے لگے۔
وہاں چونکہ فوج سے تعاون متروک ہوچکا تھا بلکہ شہری آبادیاں بھی محصور ہونے لگی تھیں اس لیے یہاں سے سامانِ رسد کی ترسیل ضروری ہوگئی۔ فاصلہ تین گنا پھیل گیا۔ مقامی آبادی دشمن ہوگئی۔ اپنے ہی وطن میں مقیم بے وطن ہوگئے۔ روز بروز مشرقی پاکستان نہیں مغربی پاکستان نرغے میں دکھائی دینے لگا۔
سیاست کی بازی کچھ ایسی استخواں سوز ہے کہ لوگ ہمہ وقت اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہ ماہ ڈیڑھ ماہ کے لیے تو یہ مشق برداشت کرلیتے ہیں لیکن پھر چاہتے ہیں کہ یہ بلا حکمرانوں کے گلے میں ڈال کے خود نچنت زندگی گزاریں۔ سیاست دان جو الائو روشن کرچکے تھے اس نے شروع شروع میں اُن کے جسموں کو گرم اور چہروں کو روشن کیا۔ لیکن اب وہ آگ چمڑیوں کو جھلسانے لگی تھی۔ بیرونی طاقتیں اس آگ کو ہمہ وقت بھڑکائے دے رہی تھیں۔ عوام خود کوئی حل نہیں دے سکتے تھے۔ وہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کے منہ تک رہے تھے کہ شاید وہ اس بحران پر قابو پالیں۔ دوسری نسل ابھی پوری طرح جوان بھی نہ ہونے پائی تھی کہ اس کے سامنے بھی جوئے خون بہتی نظر آرہی تھی۔ فضا ان بدشگونیوں سے پُر تھی۔
جو کردار اس فضا پر چھاتے جارہے تھے وہ مجیب اور بھٹو تھے۔ دونوں کے راستے جدا جدا ہورہے تھے۔ دونوں اپنے اپنے گھونسلوں کی پنبہ کاری میں مشغول تھے۔ جنہوں نے ڈھاکہ میں بیٹھ کر بنگالیوں کو بتلایا کہ قراردادِ لاہور کا مقصد دو مملکتوں کا تصور نہیں تھا، اس لیے کہ یہ مطالبہ پورے بنگال اور پورے آسام کا تھا۔ اب نہ انگریز ہے اور نہ پورے صوبے ہمیں ملے۔ قرارداد کی یہ حالیہ تفسیر چنانچہ لغو ہے۔ انہوں نے چند روز بعد پنجاب کے اسی میدان میں کھڑے ہوکر جہاں سے یہ صدا بلند ہوئی تھی، یہ دھمکی دے دی کہ جو بھی ڈھاکہ جائے گا اس کی ہڈیاں توڑ دی جائیں گی۔ یہ ردعمل تھا یحییٰ کے اس اعلان کے خلاف کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہوگا۔ بھٹو چاہتے تھے کہ اجلاس سے قبل طے ہوجائے کہ دستور ان کی مرضی کے مطابق طے ہوگا۔ مجیب سب کچھ طے کیے بیٹھے تھے۔
یحییٰ خان کے رویّے میں تضاد سے زیادہ بے چارگی آتی جارہی تھی۔ جو ناچ وہ دوسروں کو نچانا چاہتے تھے اب خود ناچنے لگے۔ وہ مجیب کے پاس پہنچتے اور اس سے سودا طے کرتے تو بھٹو ناراض ہوجاتے۔ وہ بھٹو سے ملتے تو کچھ اور ہی بن کے باہر نکلتے۔ مجیب ایسا کم ظرف تھا جو چند کلیوں پر قناعت کرگیا۔ بھٹو ایسا وسیع ظرف کہ جس کے لیے تنگیِ داماں کا ایک ہی علاج تھا کہ دامن ہی نہ رہے۔ یحییٰ خان کی خانہ براندازیِ چمن نئے نئے گل کھلا رہی تھی۔ ایک آدھ پریس کانفرنس انہوں نے بڑی ہوش مندی سے کی جو ان کی بنیادی ذہانت کی دلیل تھی۔ ایک جگہ انہیں عزم کے اس عالم میں دیکھا کہ وہ واہ فیکٹری کے ایک جلسے کے بعد چائے والے شامیانے کے نیچے صوفے پر بیٹھے ہیں اور ہم اخبار نویس ان کے سامنے قطار میں کھڑے ہیں، اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ہندو نے ہمیں چھیڑا ہے۔ اب اُسے ایسا سبق دیا جائے گا کہ عمر بھر یاد رکھے گا‘‘۔
اور یہ بھی کہانی سنی کہ شہنشاہ آریہ مہر کی دعوت پر تخت ِ ایران کی 2700 سالگرہ منانے گئے تو شہر دارا کے باہر اپنے خیمے کے دروازے پر اُس شئے کی آخری کشید سے نجات حاصل کرتے ہوئے دیکھے گئے جو معدے میں بے محابا انڈیل رکھی تھی۔ اور پھر یہ بھی کہ مذاکرات کے دوران ایک عظیم طاقت کے فرمانروا کی شاہ رگ پر انگلیوں سے ٹہوکے دیتے جارہے تھے۔ چنانچہ یہ مذاکرات دنیائے سیاست کے مختصر ترین مذاکرات ثابت ہوئے۔ دس منٹ کے بعد جناب یحییٰ اپنے خیمے کو لوٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ وہ بے چارے بھی مجبور تھے۔ رویوں میں ایسی شترگربگی دخت ِ رزکا ایک جانا پہچانا غمزہ ہے۔
واہ کے اسی جلسے میں ڈاکٹر اے ایم مالک سے جو مشرقی پاکستان کے گورنر تھے، ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر مالک نے اس روز سیاست سے زیادہ مذہب پر بات کی۔ قریب قریب ہر بات کا جواب وہ یہ دیتے کہ ’’دعا کرو!‘‘ فوج اب پوری طرح الجھ چکی تھی اور یوں ملک کے دو بڑے سیاست دانوں کے لیے اقتدار کی فصل تیار ہوگئی۔
ایک صبح سید ضمیر جعفری کا ٹیلی فون آیا کہ دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھایئے۔ اگرچہ ہاشمیوں کے دسترخوان کی وسعت کا ایک زمانہ قائل چلا آرہا ہے اور اُس کی سمائی میں اب معجز بیان اعراب ہی نہیں، ہم جیسے عجمی بھی آچکے تھے۔ تاہم اس تقریب کی اہمیت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب میں نے دیکھا کہ وہاں صدیق سالک بیٹھے ہیں۔ سالک میجر بناکر مشرقی پاکستان بھیجے جارہے تھے اور یہ سہ رکنی الوداعی کھانا اُن کے اعزاز میں تھا، جس میں صاحب ِ خانہ کے علاوہ سالک بحیثیت مہمان اوّل کے تھے اور ہم بحیثیت مہمان دوئم کے۔ سالک کے مشرقی پاکستان جانے کے متعلق سنا تو اُن پر رشک بھی آیا اور رحم بھی۔ رحم یوں کہ گمان غالب تھا کہ جہاں اُس سرزمینِ بے آئین میں سینکڑوں اور جواں قامت و جواں سال گرفتارِ بلا ہیں وہاں وادی چناب کا ایک اور جوانِ رعنا گرفتارِ بلا ہونے والا تھا۔ اور رشک یوں کہ زندگی میں ایسے سانحوں سے گزرنے کے مواقع ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتے۔ یقین تھا کہ وہ جب بھی لوٹے اور جس حال میں بھی، کامران ہوکے یا نامراد، ایسی یادیں اپنے ساتھ لائیں گے جو تاریخ کا جزوِ لازوال ہوں گی۔
صحافی کا ذہن ایسے ہونے اور اَن ہونے واقعات کی جانب ضرور مائل ہوجاتا ہے۔ ایک مرتبہ الطاف صاحب ڈان کے دفتر پہنچے تو کہنے لگے: آج گھر سے آتے ہوئے گاندھی گارڈن کے قریب سے گزر رہا تھا تو خیال آیا کہ اگر ابھی ابھی میری نگاہوں کے سامنے شیر پنجرہ توڑ کر باہر نکل آئے اور خراماں خراماں وسط شہر کی جانب چل دے تو کیا افراتفری مچے گی اور ہمیں پہلے صفحے کے لیے کیا کیا عظیم الشان چشم دید اسٹوری ملے گی۔ پھر خود ہی کہنے لگے کہ اس خیال سے وحشت ہونے لگی اور میں توبہ کرکے آگے بڑھ گیا۔
ہمارا حال بھی کچھ یہی تھا۔ ہمیں بھی جب اس خیال سے وحشت ہونے لگی تو ہم نے بھی سالک سے معانقہ کیا اور انہیں آگے بڑھادیا۔
(”آہنگ باز گشت“۔محمد سعید)
بیاد مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔