قرآن،دنیائے انسانیت پر اللہ کی سب سے بڑی رحمت

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ۔
’’جس شخص میں یہ چار خلصتیں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے، اور جس میں ان میں سے کوئی ایک پائی جائے وہ منافقت کی ایک علامت پر ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب وہ گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرتا ہے، جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا، اور جب وہ جھگڑتا ہے تو حق کو چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)۔

سید طاہر رسول قادری
۔”لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے، یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے، اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی و رحمت ہے۔ اے نبیؐ کہو یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے، جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔ اے نبیؐ ان سے کہو تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرا لیا۔ ان سے پوچھو اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کررہے ہو؟ جو لوگ اللہ پر جھوٹا افترا باندھتے ہیں اُن کا کیا گمان ہے کہ قیامت کے روز اُن سے کیا معاملہ ہوگا؟ اللہ تو لوگوں پر مہربانی کی نظر رکھتا ہے، مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو شکر نہیں کرتے۔
اے نبیؐ تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو، اور لوگو تم بھی جو کچھ کرتے ہو اس سب کے دوران ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی، نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں جمع نہ ہو۔ سنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنھوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔“ (یونس:57 تا 64)۔
تشریحات: ان آیات پر ذرا غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا نورِ رحمت سامنے ہے اور اس سے محبت و شفقت کے ایسے حسین سوتے پھوٹ رہے ہیں کہ جو جتنا چاہے ان کو سمیٹ لے۔ دنیا کی ساری مامتائیں، دنیا کی ساری محبتیں ان جملوں پر قربان… ان مختصر سے جملوں میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو کس طرح زندگی کے سارے نشیب و فراز سمجھا دیے ہیں۔ اس کی کیسی رحیمی و کریمی ہے کہ اس نے بے خبر اور اپنی جانوں کے دشمن انسانوں کے لیے نصیحت و موعظت کا سامان فراہم کردیا، دلوں کی بیماری دور کرنے کے لیے علاج کا انتظام کردیا، اور ضلالت و گمراہی سے نجات دلانے کے لیے سامانِ ہدایت قرآن نازل فرمایا۔
قرآن محض ایک مقدس کتاب اور متبرک صحیفہ آسمانی ہی نہیں ہے بلکہ سامانِ نصیحت ہے تمام انسانوں کے لیے، اگر وہ واقعی نصیحت حاصل کرنا چاہیں۔ ہر کج رو مزاج، بھٹکے ہوئے دل، بیمار ذہن، سسکتی ہوئی انسانیت اور فساد انگیز زندگی سے اکتائے ہوئے انسانوں کے لیے قرآن نسخہ شفا ہے اگر وہ اپنا علاج چاہیں… اور اس شخص کے لیے جس نے دعوتِ حق کو قبول کرلیا ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لے آیا ہے تو یہ صحیفہ صرف الماری کی زینت اور صرف لڑکیوں کو جہیز میں دینے کا سامان اور قسم کھانے کے لیے حلف برداری میں کام آنے کی حد تک کتابِ محترم نہیں ہے، بلکہ ہدایت طلبی کا سامانِ رحمت اور سامانِ خیر و برکت ہے… اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنا نبی نہ بھیجتا، محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے اور ان پر یہ آخری کتاب نازل نہ ہوتی تو کوئی بتائے کہ وہ اللہ کا کیا بگاڑ لیتے! اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحمت سے اور بنی نوع انسان سے جو اس کی دلچسپی ہے، اس سے اس کو جو محبت ہے، اس کو زمین پر اپنا خلیفہ بناکر اس نے اپنے جس تعلق کو ظاہر فرمایا ہے یہ اس کا اظہار ہے جو اس نے یہ رہبر و رہنما کتاب نازل فرمائی۔ انسان اس کتاب کی حقیقت کو جس وقت بھی سمجھے گا اور جب کبھی سمجھنے کی کوشش کرے گا، خوش ہوجائے گا، اور دولتِ بے بہا سمجھ کر اپنے دامن میں سمیٹ لے گا اور دل میں اتار لے گا۔ کیونکہ یہ کتاب آئین بھی ہے اور ہدایت بھی۔۔ دعوت بھی ہے اور نصیحت و تنبیہ کا ذریعہ بھی۔ یہ کتابِ مقدس اندھیرے سے اجالے میں لانے والی اور سلامتی اور بھلائی کا طریقہ بتانے والی بھی۔ یہ کتاب دنیا میں سب انسانوں کے لیے خدا کا آخری پیغام ہے اور دنیا کی ہر دولت سے زیادہ قیمتی اور سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس لیے اس کو پاکر انسانوں کو خوش ہوجانا چاہیے اور آج کی سسکتی، کراہتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کو یہی الکتاب بچا سکتی اور دین و دنیا کی بھلائی کی راہ پر لگا سکتی ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ پر کس قدر افسوس ناک اور دردناک ہے کہ مسلمان جو اس دولت کے مالک اور اس خزینہ لازوال کے وارث تھے، وہی اس کے قدر ناشناس بن گئے ہیں اور انھوں نے ہی اپنی زندگی کو خانوں میں بانٹ لیا ہے، زندگی کی راہیں متعین کرلی ہیں، اپنے بنائے ہوئے طریقے پر اچھے اور برے کام کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اپنے طور پر وہ جس چیز کو چاہتے ہیں حلال، اور جس کو چاہتے ہیں حرام کرلیتے ہیں۔ وہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کے معاملے کو دینی معاملہ سمجھ کر دسترخوان کی حد تک اس کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اس حلت و حرمت کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ اس کو باغیانہ جرم قرار دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی چیزوں میں بے جا اور من مانے تصرف کا کسی کو حق نہیں دیا ہے۔ انگور اس نے کھانے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کی شراب بنانے اور اس کو پی کر خرمستی کرنے کے لیے نہیں کیا ہے۔ سور کو نجس قرار دے کر اس کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے۔ سود کو انسانیت کے لیے مضر اور جوئے کو تباہ کن قرار دے کر اس سے اجتناب برتنے کا حکم دیا ہے۔ رشوت حرام ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہونے کے باوجود حرام کو حلال قرار دے لے تو یہ بغاوت ہے، جس کی سزا سخت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام اور قرآن دنیائے انسانیت پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہیں۔ اس رحمت اور سامان کو پاکر انسانوں کو خوش ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ تمام سامانِ زیست جس کو پاکر وہ خوش ہوتے ہیں، ان کی حقیقت اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس اسلام کو جس نے بھی قبول کیا اور اس قرآن کو جس نے مانا اور پیروی کی، اس کے بتاتے ہوئے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا، اور نعمتوں پر شکر گزاری کی، اللہ کو حاضر و ناظر جانا اور اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس رکھا، دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں اس کے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے۔
۔(52 دروس ِقرآن، انقلابی کتاب حصہ دوئم)۔