جمہوریت، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں مفادات کی اسیر
ملک میں طاقت ور کون ہے؟ یہ سوال سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سے متعلق بل پارلیمنٹ میں لانے کے بعد ایک بار پھر اٹھا ہے۔ آئینِ پاکستان کی رو سے پارلیمنٹ سپریم ہے کیونکہ اسے قانون سازی کا اختیار آئین نے دیا ہے، لیکن یہ اختیار بے لگام نہیں ہے، پارلیمنٹ کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے منافی اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی، آئین کے آرٹیکل پچیس میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ لکھی اور بیان کی گئی ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کے حقوق مساوی ہیں، انہیں امتیاز کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اب اسی آئین کے تحت ملکی اداروں نے اپنے سروسز رولز بنائے ہوئے ہیں، تاہم آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت کی دہلیز پر جا پہنچا اور سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ مدت ملازمت میں توسیع کے لیے رولز خاموش ہیں، لہٰذا اس مسئلے کی مکمل وضاحت کے لیے وہ بطور انتظامیہ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر باقاعدہ قانون سازی کرے۔ عدالت کے حکم کے بعد حکومت کے پاس دو راستے تھے، پہلا یہ کہ وہ عدالت سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کرے، اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرے۔ حکومت نے فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواست بھی دائر کی ہے، لیکن یہ درخواست قبولیت کا درجہ اس لیے نہیں پا سکے گی کہ حکومت نے خود ہی حلفاً عدلیہ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ قانون سازی کرکے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے طے کرے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد عدلیہ نے چھے ماہ کا وقت دیا اور حکم سنایا کہ چھے ماہ تک قانون سازی نہ ہوئی تو آرمی چیف کی توسیع منسوخ تصور ہوگی۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہی طے ہوگا تو حکومت نے اپوزیشن سے رابطہ کرکے اس قانون سازی کے لیے تعاون طلب کیا۔ اقتدار میں آنے کے ڈیڑھ سال بعد یہ پہلا موقع تھا کہ حکومت کسی معاملے کے حل کے لیے اپوزیشن کی دہلیز پر جاکھڑی ہوئی۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے یہ موقع غنیمت جانا اور اپنے مطالبات کی ایک طویل فہرست سامنے رکھ کر دستِ تعاون بڑھانے کی ہامی بھری۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ان دونوں جماعتوں کو اپنے سیاسی عمل اور کردار سے ثابت کرنا تھا کہ وہ جس سیاسی بیانیے کو لے کر چل رہی ہیں اُس پر سمجھوتا نہیں کریں گی۔ لیکن ان کے عمل نے اب پوری طرح یہ باور کرادیا کہ انہیں خوب معلوم ہے کہ جابر کے سامنے کلمۂ حق کب اورکتنا کہنا ہے، اور کب جابر کو سہولت کاری کے لیے قانون سازی میں مدد کرنی ہے۔ لہٰذا ان دونوں نے سیاسی بیانیہ سیاست کے مُردہ خانے میں رکھ کر حکومت سے مذاکرات کیے اور اس بل کی حمایت کی۔ اب اس نکتے پر جس قدر بھی طویل بحث کرلی جائے، اتفاق اسی پر ہوگا کہ اس ملک میں جمہوریت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں طاقت ور نہیں، بلکہ مفادات کی اسیر ہیں، اور اسی وجہ سے طاقت کے سامنے سرنگوں ہوجانے کے لیے اپنا مقدر خود ہی لکھتی ہیں۔ اسی لیے تو ملک کی پارلیمنٹ میں جنرل ضیاء الحق کے فیصلوں کی توثیق کے لیے آٹھویں، اس کے بعد جنرل پرویزمشرف کے اقدامات کی توثیق کے لیے آئین میں سترہویں ترمیم منظور ہوئی اور ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے پارلیمنٹ نے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کیا۔ اب گزشتہ ہفتے تینوں سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے کا ایک بل قومی اسمبلی کے روبرو پیش کیا گیا جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔ یہ بل قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں منظور کیا جاچکا تھا، بل کے ذریعے پارلیمنٹ نے قانون تجویز کیا ہے کہ تینوں سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد کتنی ہونی چاہیے۔ اگرچہ فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا ہے، لہٰذا اس لحاظ سے یہ سمجھنا کسی حد تک جائز ہے کہ آئین کی رو سے قانون سازی کا حق صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے، اور پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے۔ لیکن اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے سیاسی بیانیے کو کہاں لے جائیں؟ ایک نے کہا تھا کہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، دوسرے نے کہا تھا کہ ووٹ کو عزت دو۔ اب دونوں جماعتیں اس کوشش میں تھیں کہ تیز دوڑ کر اور پہلے پہنچ کر اس قانون کا مقدس پتھر چوم لیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ فیصلہ نوازشریف نے خود کیا، اور پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کے لیے آصف علی زرداری کی آشیرباد سے بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں حکومت سے بات چیت کی۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی میں محض 46 اور سینیٹ میں محض 17 ارکان کی حمایت درکار ہے، لیکن جہاں حکومت کی کوشش تھی کہ معاملہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر طے کیا جائے، وہیں اپوزیشن کی بھی خواہش تھی کہ وہ اس بل کی حمایت کے بدلے طاقت کے سامنے اپنی اعتباری حیثیت بہتر بنالے۔ قانون سازی میں تعاون کرکے اپوزیشن نے اپنے سینے پر’’بیڈ اپوزیشن‘‘ کے بجائے اب’’گڈ اپوزیشن‘‘ کا تمغا سجا لیا ہے، اور یوں اپوزیشن اسے کامیابی بھی قرار دے رہی ہے اور اس بل پر بحث کو جمہوریت کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اس بات پر خوش ہے کہ اس نے قانون سازی کے عمل کو پارلیمنٹ کی راہ داریوں سے گزارا ہے، اور سارا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو نہیں لینے دیا۔ پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت تاجر ہے اور سودا کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ حکومت مطمئن ہے کہ اپوزیشن باہم دست وگریباں ہے اور اس کا کام نکل گیا ہے۔ حکومت چاہتی تو یہ عمل رولز بلڈوز کرکے بھی کرسکتی تھی، لیکن اسے اس طرح کام کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ چونکہ اس کے پاس وقت تھا لہٰذا اسے کہا اور سمجھایا گیا کہ ابھی چھے ماہ کا وقت ہے لہٰذا پارلیمانی سطح پر بدمزگی پیدا نہ کی جائے تاکہ قومی اتفاقِ رائے سے یہ کام ہوتا ہوا نظر آئے۔ اسی لیے سب کام طے شدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اب اس قانون نے وزیراعظم کو اختیار دے دیا کہ وہ آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دے سکتے ہیں۔ اس قانون سے ہر ابہام ختم کردیا گیا ہے۔ اس بل پر بنیادی سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کہیں اس قانون سے شہریوں کے وہ بنیادی حقوق تو متاثر نہیں ہوئے جن کی ضمانت آئین نے فراہم کررکھی ہے؟ مگر کسی سیاسی پارلیمانی جماعت نے یہ نکتہ پارلیمنٹ میں نہیں اٹھایا، بلکہ اس بل کو سیاست زدہ کرکے اس میں اپنے لیے مفاد سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی۔ اتحادی جماعتوں میں مسلم لیگ(ق) کابینہ میں ایک وزارت کے لیے متحرک رہی، جی ڈی اے سندھ میں سیاسی مفادات کے تحفظ کی ضمانت مانگتا رہا، اپوزیشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور چھپ چھپاکر قبولیت کی منزل پانے کے لیے بے تاب نظر آئی ہیں۔ جے یو آئی(ف) نے ایک بار پھر انہیں اے پی سی کی چھتری تلے جمع کرنے کی کوشش کی، لیکن دونوں جماعتیں اس کے ہاتھ نہیں آئیں۔ جماعت اسلامی نے اس معاملے پر اپنا اختلافی نوٹ لکھا اور دوسروں سے الگ رہی، اور ثابت کردیا کہ جمہوریت کا اصل محافظ جرأت مند سیاسی کردار ہی ہے۔ دیگر جماعتیں جہاں کھڑی تھیں وہاں سے ایک ہی آواز آرہی تھی کہ نظریۂ ضرورت اصلی نظریے سے کہیں زیادہ قوی ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں حکومت سازی کے لیے محض چار ووٹ کی اکثریت رکھتی ہیں، اس لیے انہیں حقِ حکمرانی ملا ہوا ہے۔ اپوزیشن بینچوں میں مسلم لیگ(ن) دوسری اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے سیاسی بیانیے کی وجہ سے یہ سمجھا گیا کہ شاید یہ دونوں جماعتیں اس بل کی مخالفت کریں گی اور حکومت کو ٹف ٹائم ملے گا، لیکن اپوزیشن جماعتوں کے صحن میں نہ نو من تیل جمع ہوا اور نہ ان کی رادھا ناچی، اور یوں نظریۂ ضرورت جیت گیا، کیونکہ یہ اصلی نظریے سے کہیں زیادہ قوی اور پُرکشش بھی ہے، جس کے سامنے زبانِ خلق نقارۂ خدا بھی نہیں رہتی۔
ابھی چند ماہ قبل مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے مل کر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی، اس کا حشر زمانے نے دیکھا۔ یہ دونوں جماعتیں اس قانون سازی میں تعاون نہ کرتیں تو اسمبلی میں انہیں اپنے ارکان ڈھونڈے سے بھی نہ ملتے۔ لیکن اس پوری مشق میں سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ بے روزگاری، مہنگائی، لاقانونیت، عدم تحفظ اور معصوم لوگوں کے پلاٹوں پر قبضہ مافیا کے خلاف ملک کی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیں کب متحد ہوں گی؟
تینوں سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے کا بل تو اپنی جگہ، نیب قانون میں ترمیم کی گرد کیوں بیٹھ گئی ہے؟ اس قانون کے ذریعے احتساب کے لیے حکمت کا سارا سیاسی بیانیہ تنکے کی مانند بہ گیا ہے، احتسابی نعروں کا کوہِ گراں روئی کے گالوں کی طرح اُڑ گیا ہے۔ احتساب قانون میں ترمیم کے ذریعے صرف بیوروکریسی اور کاروباری طبقے کو سہولت دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ آئین کے آرٹیکل25 کی بنیادی فکر کے ہی خلاف ہے، جب آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی، اور آئین سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر پارلیمنٹ ایسا کوئی قانون بنائے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو، تو وہ اس پر خود جائزہ لے سکتی ہے۔ لیکن یہاں تو سپریم کورٹ بھی خاموش ہے۔ یہاں اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے وقت سیاسی جماعتوں نے بھرپور سیاسی مفاد سمیٹا ہے تو سپریم کورٹ تو ایسا نہیں کرسکتی۔ وہ بنیادی انسانی حقوق کے ضمن میں نیب قانون کا جائزہ لے سکتی ہے۔ ملک کے ممتاز آئینی ماہرین کو اس معاملے میں اپنی آراء کا ضرور اظہار کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے آئین کی مقرر کردہ حدود کیا ہیں؟ اور کیا پارلیمنٹ نے بل کی منظوری کے وقت انہیں مدنظر رکھا؟ نیب قانون تو حکومت نے صدارتی آرڈیننس سے نافذ کردیا، اب اسے حتمی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوگا۔ تینوں سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے کا قانون حکومت صدارتی آرڈیننس سے جاری نہیں کرسکتی تھی کیونکہ اس کی مدت چھے ماہ کے لیے ہوتی یا کم از کم اسے پارلیمنٹ کی منظوری سے مزید چھے ماہ کے لیے توسیع دے دی جاتی، لیکن آج نہیں تو کل بالآخر اسے پارلیمنٹ کے روبرو لانا ہی پڑتا۔ حکومت نے چالاکی سے کام لیا اور تینوں سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے کا بل لانے سے قبل نیب قانون میں ترمیم کا آرڈیننس لاکر اپوزیشن کو رام کرلیا۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے نیب قانون سے جہاں خود فائدہ اٹھایا وہیں اپوزیشن کو بھی داغ دار کردیا ہے۔ اب نوازشریف، بلاول بھٹو زرداری یا مریم نوازشریف جہاں چاہیں سیاسی بیانیے کی پوٹلی اٹھائے اپنا مؤقف لے کر گھومتے رہیں، سیاسی منڈی میں انہیں کوئی خریدار نہیں ملے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کا حالیہ طرزعمل اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ دھوکے بازی میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور اصل میں انہیں اپنا ذاتی مفاد ہی عزیز ہے، عدالتوں میں ان کے حق میں فیصلے آجائیں تو ملک کی عدالتیں آزاد قرار پاتی ہیں، اور مخالف فیصلے آجائیں تو ان کی نظر میں یہی عدالتیں کینگروکورٹس بن جاتی ہیں۔ اس قانون کی منظوری کے بعد طویل جدوجہد، خطابات اور فرمودات سب بہ گئے ہیں، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا آگہی کا چراغ بھی بجھ گیا ہے اور مسلم لیگ(ن) کے سیاسی نعرے عمل سے یکسر دور ہوگئے ہیں۔ اقتدار سے حالیہ برطرفی کے بعد اس کی ساری سیاسی جدوجہد نے اب بوٹ پہن لیے ہیں اور اس کی سیاسی فکر مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق پارلیمنٹ ایکٹ کی بارودی سرنگ سے ٹکرا چکی ہے۔ اس سارے عمل کے باوجود بھی عوام کی نظروں میں انہیں پذیرائی ملتی رہے گی، کیونکہ ہم بحیثیت قوم تماش بین ہیں۔
اس قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے طویل مشاورتی اجلاس ہوئے، قائمہ کمیٹیوں میں بحث تو نہیں ہوئی البتہ خاموش رضامندی چھائی رہی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ایک اجلاس کی روداد یہ ہے کہ اس اجلاس میں سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر عبدالقیوم، سینیٹر مشاہد اللہ، اور مسلم لیگ (ن) کے دوسرے سینئر ارکانِ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بطور مبصر شریک ہوئے تھے۔ بہ حیثیت مبصر انہیں ووٹ دینے کا حق نہیں تھا لیکن کمیٹی کے چیئرمین نے سینیٹرز سے کہا کہ وہ بھی اپنی رائے کا اظہار کریں۔ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم، اے این پی اور دوسری جماعتوں کے سینیٹروں نے مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹروں نے بل کی حمایت نہیں کی، مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے قومی اسمبلی کے ارکان اور سینیٹروں کو اپنی قیادتوں کی طرف سے پیغام مل گیا تھا کہ وہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بل کی حمایت کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف نے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف کو پیغام دیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے پارلیمانی کارروائی کا راستہ اپنایا جائے۔ یہی فیصلہ پیپلزپارٹی نے کیا۔ قومی اسمبلی کے سندھ سے رکن آفتاب شعبان میرانی نے بتایا کہ یہ طے ہوگیا ہے کہ بل کو اتفاق رائے سے منظور کرایا جائے گا۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی غیر مشروط منظوری کے اعلان پر اپوزیشن کی جماعتوں نے اپنے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے بھی تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کی۔ مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی پارٹی میں بھی بل کی حمایت پر اختلاف ِرائے تھا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ محمد نوازشریف کی ہدایت پرکیا ہے۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل بحث کے بغیر منظور
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاک آرمی، نیوی اور فضائیہ کے ایکٹس میں ترامیم کا بل2020 ایوان میں بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا گیا۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے متفقہ طور پر بل کی غیر مشروط حمایت کی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا، اس کے بعد نعت اور قومی ترانہ ہوا، جس کے بعد دفاع کے لیے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین امجد نیازی نے کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی، اور وزیر دفاع نے پیپلزپارٹی سے اپنی ترامیم واپس لینے کی درخواست کی، جواب میں پیپلزپارٹی نے اپنی ترامیم واپس لینے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا جو تقریباً پندرہ منٹ میں ہی مکمل کرلیا گیا۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی اور پی ٹی ایم کے ارکان نے اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔ بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ یہ بل چونکہ سادہ اکثریت کے ساتھ منظور ہونا تھا اس لیے حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر ارکان کی حاضری بھی مکمل نہیں تھی۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی بل کی حمایت میں یکسو رہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی ہوا جس میں آرمی ترمیمی ایکٹ کی حمایت کے فیصلے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع آرمی ایکٹ میں ترمیم کو منظور کرچکی تھیں، جس کے بعد حکومت اسے دونوں ایوانوں سے منظور کرائے گی اور اس بل کے تحت مسلح افواج کے تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکے گی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے پاس کیا تھا، یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جہاں اسے منظور کرلیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ بل قانون بن جائے گا۔
یہ بل آرمی چیف، پاک فضائیہ اور پاک نیوی کے سربراہوں سمیت چیئرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت کی حد مقرر کرنے سے متعلق ہے۔ اگرچہ بل کے ذریعے ریٹائرمنٹ کی عمر64 سال کی گئی ہے، لیکن فورسز میں عمومی روایت یہ ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے لیے مقرر عمر کی مدت تک نہ بھی پہنچیں۔ آفیسرز 35 سال کی سروس مکمل ہوجانے پر ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ تاہم تینوں سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کا نکتہ اس لیے پیدا ہوا کہ سپریم کورٹ نے مدت ملازمت کیس کی سماعت کرتے ہوئے قواعد طے کرنے کا حکم سنایا تھا، جس کی روشنی میں پارلیمنٹ میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل2020، پاکستان ایئرفورس ایکٹ ترمیمی بل 2020 اور پاکستان بحریہ ایکٹ ترمیمی بل 2020 پیش کیے گئے، جس کی روشنی میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ساتھ آرٹیکل 243 میں بھی ترمیم تجویز کی گئی ہے اور آرمی ایکٹ 1952 میں ایک نیا باب شامل کیا گیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت کریں گے، وزیراعظم کی سفارش پر آرمی چیف کو زیادہ سے زیادہ 3 سال کی توسیع دی جاسکے گی، وزیراعظم اس سے کم مدت کی سفارش بھی کرسکتے ہیں، آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کو کسی عدالت میں کسی صورت چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، آرمی چیف پر جنرل کی مقرر کردہ ریٹائرمنٹ کی عمر کا اطلاق نہیں ہوگا، مدتِ تعیناتی کے دوران ریٹائرمنٹ کی عمر آنے پر بھی وہ آرمی چیف رہیں گے۔ آرمی ایکٹ کے ساتھ نیول ایکٹ اورایئرفورس ایکٹ میں بھی ترامیم کی گئی ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف آرمی، نیوی یا فضائیہ کے سربراہوں میں سے کسی کو بھی تعینات کیا جاسکتا ہے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی مدتِ تعیناتی تین سال ہوگی، قواعد و ضوابط وزیراعظم کی سفارش پرصدر طے کریں گے، سینئر جنرل کو بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنایا جاسکتا ہے۔ نئے ایکٹ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار بھی وزیراعظم کو دیا گیا ہے جن کی سفارش پر صدر مملکت تین سال تک توسیع دے سکتے ہیں۔ اب سروسز چیفس کی مدت کے لیے عمرکی حد 64 سال ہوگی۔ بل کے تحت آرمی ایکٹ 1952 کی شق 176اے میں ترمیم پیش کی گئی ہے۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن 8 اے کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت تین سال کے لیے جنرل رینک کے آفیسر کو چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کرسکیں گے۔ شق 8 بی کے تحت تعینات آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے، وزیراعظم پاکستان کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت مزید تین سال کے لیے چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر یا اُن کے عہدے کی میعاد میں توسیع کرسکیں گے۔ اب آرمی ایکٹ میں 3 قوانین میں ترمیم کی گئی ہے جس میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں میں سے ہوگا۔ سربراہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاکستان آرمی میں ایک بڑا عہدہ ہوتا ہے جس کا رینک آرمی چیف کے برابر یعنی جنرل کا ہوتا ہے۔ اس کا سربراہ تینوں مسلح افواج کے ساتھ رابطے کا کام کرتا ہے، معلومات کا تبادلہ کرتا ہے اور نئے احکامات بھی جاری کرتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج میں یہ عہدہ صرف پاکستان آرمی کے پاس ہوتا تھا، اور آرمی سے ہی سربراہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا تعین کیا جاتا تھا۔ اس وقت پاکستان میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا ہیں جو کہ 27 نومبر 2019ء کو سربراہ مقرر ہوئے تھے۔
سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن نیازی مرحوم کے صاحب زادے محمد امجد نیازی قومی اسمبلی کی بیس رکنی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ ہیں، اور کمیٹی میں تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم، متحدہ مجلس عمل(جے یو آئی) کی نمائندگی ہے۔ کمیٹی میں جے یو آئی نے اس بل کی حمایت نہیں کی۔ میر حاصل خان بزنجو اور پی ٹی ایم نے بھی مخالفت کی۔ جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا۔