افغانستان کی شکست و ریخت کے نتیجے میں امریکہ یک محوری دنیا کی واحد قوت کے طور پر من مانی کررہا ہے، ’’نائن الیون‘‘ کے ڈرامے کے بعد2001ء میں اس نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کے مطالبے کی عدم تعمیل کو جواز بناکر افغانستان پر لشکرکشی کی، پھر کیمیائی ہتھیاروں کا قطعی جھوٹا الزام عائد کرکے 2003ء میں عراق کو اپنی ننگی جارحیت کا نشانہ بنایا، اور عراق کے صدر صدام حسین کو تختۂ دار پر لٹکاکر پورے عراق کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔
2011ء میں لیبیا کے کرنل قذافی کو نشانِ عبرت بنایا اور مملکتِ لیبیا کو بھی تباہی و بربادی سے دوچار کیا۔ اب یمن اور شام اس کے نشانے پر ہیں اور گزشتہ آٹھ دس برس سے وہاں زندگی عذاب بن چکی ہے۔ افغانستان کے خلاف جارحیت میں صفِ اوّل کا اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی سرپرستی کے ذریعے یہاں بھی ہر طرح سے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، ایف اے ٹی ایف جیسی پابندیوں کا ہدف بنایا گیا، اور پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرات سے دوچار کردیا گیا۔
ترکی میں عوام کی منتخب رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف 2016ء کی فوجی بغاوت کے پسِ پردہ بھی امریکی سازش ہی کارفرما تھی۔ ایران کو حیلوں بہانوں سے بین الاقوامی سطح پر اَن گنت معاشی، تجارتی، معاشرتی اور فوجی پابندیوں میں جکڑنے کے باوجود جب مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے، خصوصاً مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی عزائم کے مقابل ایران کی مزاحمت کا خاتمہ نہ کیا جا سکا تو اب براہِ راست اس کے خلاف جارحانہ کارروائی کرتے ہوئے 3 جنوری کو میزائیل حملے کے ذریعے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے قدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو عین اُس وقت نشانہ بنایا جب وہ عراقی حکومت کی دعوت پر بغداد کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ امریکہ اس حملے میں اہم ترین ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی جانیں لینے میں کامیاب رہا، جس پر ایران میں بجا طور پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایران کے روحانی رہنما خامنہ ای نے امریکی حملے کو وحشیانہ جرم قرار دیتے ہوئے جنرل سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے، جب کہ صدر حسن روحانی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کے قتل نے امریکہ کے خلاف کھڑا ہونے کے عظیم ایرانی قوم کے عزم کو دوگنا کردیا ہے۔ امریکہ کے اس وحشیانہ جرم کا انتقام لیا جائے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی کے قتل پر ردعمل کو قابو کرنا ہمارے بس سے باہر ہے، امریکہ نے یہ کارروائی کرکے تین سنگین غلطیاں کی ہیں، اس نے عراق کی خودمختاری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی، اور پورے خطے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ واضح طور پر دہشت گردی کی کارروائی ہے، ایران عالمی سطح پر امریکہ کو جنرل سلیمانی کے قتل کا ذمہ دار قرار دلانے کے لیے قانونی اقدامات کرے گا۔
عراق اور ایران میں ہونے والے جنرل سلیمانی کے جنازوں میں بلامبالغہ لاکھوں لوگوں نے شرکت کی ہے جن میں عراقی وزیراعظم بھی شامل تھے، جب کہ ایرانی روحانی رہنما خامنہ ای نے خود نمازِ جنازہ کی امامت کرائی ہے۔ ایران انتقام اور ’مرگ بر امریکہ‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ ایرانی حکومت نے 2015ء کے جوہری معاہدے سے علیحدگی اور اس کی کسی شرط کو مزید تسلیم نہ کرنے کا دوٹوک اعلان کردیا ہے، جب کہ امریکہ سے سلامتی کا معاہدہ ختم کرکے عراقی پارلیمنٹ نے امریکی افواج کے انخلاء کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ یوں امریکہ کی اس جارحانہ کارروائی کے نتیجے میں مشرقی وسطیٰ اور مغربی ایشیا جنگ کے دہانے پر آگیا ہے اور تیسری عالمی جنگ کے خطرات نہایت شدت سے محسوس کیے جارہے ہیں، چنانچہ بین الاقوامی سطح پر رابطوں میں بھی بہت زیادہ تیزی آگئی ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ لی نے اپنے ایرانی ہم منصب کو فون کیا اور کہا کہ امریکہ کا خطرناک فوجی آپریشن بین الاقوامی تعلقات کی کھلی خلاف ورزی ہے جس سے خطے میں کشیدگی اور انتشار میں اضافہ ہوا ہے، امریکہ طاقت کے بے جا استعمال سے باز رہے اور معاملات کا حل مذاکرات سے نکالے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے ترک صدر اردوان کو فون پر مل کر امریکہ کی مخالفت کرنے کی تجویز دی، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو امریکہ سرکشی میں مزید اقدامات کرسکتا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے روسی وزیر خارجہ سے بھی فون پر فوجی مہم جوئی کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے عراق کی خودمختاری، اقوام متحدہ کے چارٹر کے احترام اور علاقائی امن کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن جاسم ثانی نے تہران پہنچ کر ایرانی صدر سے خطے کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ دوسری جانب سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے عراق کے صدر ڈاکٹر برہم صالح کو فون کرکے کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات پر زور دیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان میں اپنے ہم منصب کے بجائے مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کرنا مناسب سمجھا ہے۔ مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے مطابق جنرل قمر باجوہ نے اس رابطے میں خطے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جنرل آصف غفور نے وزیراعظم اور آرمی چیف کے بیانات کے حوالے سے یہ وضاحت بھی کی کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ اس پس منظر میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فوری طور پر برادر مسلمان ممالک ایران، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ سے رابطے کیے ہیں اور نئی صورتِ حال سے پیدا شدہ خطرات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ پاکستان یقیناً ان حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، مگر ماضی کے تلخ تجربات اور معروضی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی اقدام سے قبل خوب سوچ سمجھ کر پالیسی وضع کی جائے۔ ضرورت ہے کہ اس اہم مرحلے پر اقوام متحدہ کو امریکہ کے آلۂ کار سے بڑھ کر عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے اہم ادارے کے طور پر مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے متحرک کیا جائے، اسی طرح پاکستان اس معاملے میں فریق بننے کے بجائے امتِ مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں اسلامی ممالک میں اپنے تعلقات اور واحد مسلمان جوہری مملکت کی حیثیت سے اپنے اثر رسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے کشیدگی کو کم کرائے، اور مسلمان ملکوں کو ہر صورت یہ باور کرایا جائے کہ امریکہ کی ایک کے بعد دوسرے مسلمان ملک کے خلاف یہ جارحانہ کارروائیاں دراصل صلیبی جنگوں ہی کا تسلسل ہیں۔ افغانستان پر حملے کے وقت تو امریکی صدر نے برملا اس کا اظہار بھی کردیا تھا۔ کاش مسلمان حکمران اس حقیقت کا ادراک کرسکیں…!!!۔
(حامد ریاض ڈوگر)