پروفیسر خورشید احمد
۔6 دسمبر 2012ء کو عزیزی سید طلحہ حسن کے ولیمے میں شرکت کے لیے کراچی گیا اور اس مبارک تقریب سے فارغ ہوکر قصرناز میں قدم ہی اُٹھا تھا کہ یہ دل خراش ایس ایم ایس ہوا کہ برادرم محترم و مکرم پروفیسر عبدالغفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
کراچی کے سفر کے مقاصد میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کی عیادت سرفہرست تھی۔ تقریب میں ان کے صاحب زادے عزیزی طارق سے 27 دسمبر کو ان کے گھر آنے کا پروگرام طے کیا تھا لیکن کیا خبر تھی کہ 27 کو عیادت نہیں، تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا ہوگا اور اسی شام ان کے جنازے میں شرکت کرکے، ان کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنا ہوگا۔ لیکن یہ تو صرف محاورہ ہے، ہمیشہ یہاں کون رہا ہے… جلد یا بدیر، ہر ایک کو اس سفر پر روانہ ہونا ہے، بس دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آنے والی زندگی میں اپنے فضل و کرم سے اپنے ان بندوں کی رفاقت نصیب فرمائے جو اس کے جوارِ رحمت میں ہوں۔
پروفیسر عبدالغفور احمد تحریکِ اسلامی کا قیمتی سرمایہ اور ملک و ملّت کا زریں اثاثہ تھے۔ تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ اور خدمت اور سیاست، ہر میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 11جون 1927ء کو یوپی کے مشہور علمی اور دینی گہوارے بریلی میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونی ورسٹی سے 1948ء میں ایم کام کی سند حاصل کی اور اسی سال اسلامیہ کالج لکھنؤ میں بطور لیکچرار اپنے تدریسی کردار کا آغاز کیا۔ اگلے ہی سال ہجرت کرکے کراچی آئے اور ایک پرائیویٹ تجارتی ادارے میں اکاؤنٹس کے شعبے میں ذمہ داری سنبھالی۔ پھر اُردو کالج میں تجارت اور حسابیات (Accounting) کے لیکچرار کی اضافی ذمہ داری سنبھالی، اور یہ سلسلہ 1961ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹس اورجناح انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ 1972ء تک جاری رہا جس کے بعد قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ہمہ وقتی بنیاد پر پارلیمنٹ اور جماعت اسلامی کی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے۔
مولانا مودودیؒ کے افکار اور جماعت اسلامی کی دعوت سے طالب علمی کے دور ہی میں روشناس ہوئے۔ غالباً 1944ء میں ان کے کالج کے ایک قریب ترین دوست جناب انوریار خاں نے مولانا محترم کی کتاب ’’خطبات‘‘ ان کو دی، جس نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ مولانا کا بیش تر لٹریچر پڑھ ڈالا لیکن جماعت سے ان کا باقاعدہ تعلق کراچی میں 1950ء میں قائم ہوا۔ جلد ہی کراچی کی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1958ء میں جماعت اسلامی نے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں شرکت کی۔ 100 میں سے 23نشستوں پر جماعت نے انتخاب لڑا اور الحمدللہ 23 کی 23 نشستیں جیت لیں۔ غفورصاحب کارپوریشن میں جماعت کے گروپ لیڈر مقرر ہوئے، اور اس طرح ملک کے سب سے اہم شہر کے سیاسی اُفق پر ایک روشن ستارے کے طور پر نمودار ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوئے، پھر کراچی کے امیر بنے (1972ء تا1977ء) اور 1979ء سے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور اس کی سیاسی کمیٹی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جنرل ایوب کے دور میں 1964ء میں امیر جماعت اور مرکزی شوریٰ کے تمام ارکان کے ساتھ ساڑھے نومہینے جیل میں رہے۔1970ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1977ء کے انتخابات میں بھی ساری دھاندلی کے علی الرغم جماعت کے نو منتخب ارکان میں شامل تھے، اور 1972ء سے قومی اسمبلی میں دستور سازی، جمہوریت کے تحفظ، ختم نبوت اور نظامِ مصطفی کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) اور پاکستان قومی اتحاد (پی این اے)( 1977ء تا1979ء) کے سیکرٹری جنرل رہے۔ 1978ء تا1979ء وفاقی وزیرپیداوار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 2002ء سے 2005ء تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ پروفیسر صاحب نے پاکستان کے سیاسی حالات پر آٹھ کتابیں مرتب کیں جو پاکستان کی تاریخ کا ایک مستند ماخذ ہیں۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب سے میرا پہلا تعلق تو شاگرد اور استاد کے رشتے سے ہے۔ گو میں نے بلاواسطہ ان سے پڑھا نہیں لیکن جب میں گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس میں بی کام کی تعلیم حاصل کررہا تھا تو وہ اُردو کالج اور کچھ دوسرے پروفیشنل اداروں میں پڑھا رہے تھے، اور میرے استاد متین انصاری صاحب کے قریبی دوست تھے جس واسطے سے مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ بی کام میں وہ میرے ممتحن بھی رہے اور اس طرح بلاواسطہ استاد بھی ہوگئے۔ نیز جماعت میں میرے سینئر تھے، اور میں نے تحریکی زندگی اور ملکی سیاست دونوں کے سلسلے میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ 1964ء میں ساڑھے نو مہینے ہمیں جیل میں ایک ہی کمرے میں باقی ساتھیوں کے ساتھ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی جس کا مفصل ذکر ’’تذکرۂ زنداں‘‘ میں آیا ہے۔ میرے لیے وہ بڑا قیمتی تجربہ اور پروفیسر عبدالغفور صاحب کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا ایک نادر موقع تھا۔ میں نے ان کو ایک نفیس، باذوق، خداترس، محبت کرنے والا، بے غرض اور راست باز انسان پایا جو اپنے چھوٹوں سے بھی کچھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔ میں نے ان ساٹھ برسوں میں ان سے شفقت، محبت اور عزت کا جو حصہ پایا وہ زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مقام کو بلند تر کرے کہ ان سے ہم نے یہ سیکھا کہ انسانوں سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔ دوست تو دوست ان کا تو عالم یہ تھا کہ ان کے مخالف بھی ان کو اپنا سمجھتے تھے اور انھوں نے بھی اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات اور باہم محبت و احترام کے رشتوں میں در آنے کا موقع نہیں دیا۔ نفرت اور دشمنی کا تو دُور دُور تک کوئی وجود ہی نہ تھا ۔
سازِ دل توڑ کے بھی، چھیڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا
غفور صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی، نفاست، انکسار، محبت اور شفقت تھا۔ تصنع کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی کے کسی پہلو میں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ سلیقے اور نرمی سے بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ اختلاف میں شائستگی اور دوسرے کے مؤقف کا احترام ان کا طریقہ تھا۔ انھوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد سے بالا ہوکر اپنے اجتماعی تعلقات کو استوار کیا، اور ہر شخص کے ساتھ عزت اور مروت کا رویہ اختیار کیا، جس نے ہر دل میں خود ان کے لیے عزت و احترام کا چشمہ رواں کردیا۔
ملک کی سیاسی زندگی میں ان کا کردار بڑا نمایاں ہے۔ جمہوریت کے فروغ اور اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انھوں نے بڑی حکمت، بے باکی اور بے غرضی سے انجام دیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جو کچھ بھی تھا اس کو سنبھالنے اور ایک نئی زندگی دینے کے لیے جو جدوجہد 1972ء کے بعد قومی اسمبلی میں اور اس کے باہر ہوئی، اس میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج کا جو اثر تحریکِ اسلامی اور اس کے بہی خواہوں پر پڑا تھا، اس کا جس سمجھ داری اور جرأت سے انھوں نے مقابلہ کیا وہ ہماری تحریکی اور ملکی زندگی کا ایک تابناک باب ہے۔ 1973ء کے دستور کے بنانے میں اُن کا اور اُس وقت کی حزبِ اختلاف کے ارکان کا بڑا تاریخی کردار ہے۔ 1972ء ہی میں ایک پہلے سے بنائے ہوئے مسودۂ دستور کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر ایک قسم کی سول آمریت کا خطرہ ایک حقیقت بنتا نظر آرہا تھا، لیکن ایک چھوٹی سی اپوزیشن نے جس میں پروفیسر عبدالغفور احمد، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا مفتی محمود ، خان عبدالولی خان ، جناب شیرباز مزاری، مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہم شامل تھے، بڑی حکمت کے ساتھ اس مجوزہ دستور کو صرف ایک عبوری دستور کے طور پر تسلیم کرکے وقت کے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک دستوری کمیٹی بنائیں بلکہ نئے دستور کی تدوین کا کام کریں۔ اس میں جناب ذوالفقار علی بھٹو، جناب محمود علی قصوری اور جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کا بھی اہم کردار رہا اور یہ معجزہ رونما ہوا کہ 1973ء میں ایک متفقہ دستور بن سکا جس نے اب تک پاکستان کے سیاسی نظام کو ساری دراندازیوں اور سیاسی اور عسکری طالع آزمائیوں کی زوردستیوں کے باوجود جمہوریت کی پٹڑی پر قائم رکھا ہے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کا اس پورے عمل میں ایک مرکزی کردار تھا۔
اسی طرح سیاسی اختلافات کے باوجود، سیاسی قوتوں کو منظم کرنے اور متعین مقاصد کے لیے اتحاد قائم کرنے، اور ان کی بنیاد پر تحریک چلانے کے باب میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کاکردار منفرد تھا۔ دستور سازی اور پھر سیاسی تحریکات میں ان کے کردار کو دیکھ کر جناب الطاف گوہر اور جناب خالد اسحق جیسے افراد نے میرے اور دوسرے دسیوں افراد کے سامنے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت پروفیسر عبدالغفور صاحب جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تویہ ملک دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے، بلکہ الطاف گوہر نے تو ڈان کے اپنے ایک مضمون میں ان کو پاکستان کے لیے مطلوب وزیراعظم تک کی حیثیت سے پیش کیا۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی اور شدید اختلافات کے درمیان مشترکہ باتوں پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی صلاحیت کے دوست اور دشمن سب قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہرحلقے میں ان کی عزت تھی۔ جماعت کے اندرونی معاملات میں بھی پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سیاسی اُمور میں زیادہ نمایاں تھا۔ میں 1957ء میں مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوا۔ اس وقت تک مرکزی شوریٰ کی قراردادیں خود مولانا مودودی ہی مرتب فرماتے تھے۔ اس کے بعد محترم نعیم صدیقی، محترم صدیق الحسن گیلانی، محترم اسعد گیلانی اور مجھے اس عمل میں شریک کیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار بڑھتا گیا اور گزشتہ 30برسوں میں سیاسی قراردادوں پر ان کی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ سیاسی قرارداد شوریٰ کی سب سے اہم قرارداد ہوتی ہے اور اس کو شوریٰ کی پوری بحث سامنے رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے۔ ارکانِ شوریٰ کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے لیکن جس کمیٹی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے اس نے پروفیسر عبدالغفور احمد کی سربراہی میں کام کیا ہے۔ محترم چودھری رحمت الٰہی اور مجھے اس کمیٹی میں کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔ایک مدت تک اولین مسودہ پروفیسر عبدالغفور صاحب ہی تیار کیا کرتے تھے، پھر باقی کمیٹی کے ارکان اپنا حصہ شامل کرتے تھے، اس کے بعد امیرجماعت قرارداد کو دیکھتے تھے اور آخر میں شوریٰ میں ارکان کے مشوروں سے کمی یا اضافہ کیا جاتا تھا۔ گو یہ ایک اجتماعی عمل تھا لیکن اس میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کا کردار بہت ہی اہم تھا اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب جماعت اسلامی کے ان چند لوگوں میں سے تھے جن کو مولانا مودودیؒ سے براہِ راست استفادے کا موقع ملا، اور پھر جن کو محترم میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کی خدمات 62سال کی طویل مدت پر پھیلی ہوئی ہیں جن کا احاطہ ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا گوشہ بنادے، انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے مقام کو بلند تر فرمائے، اور جو خلا ان کے رخصت ہوجانے سے پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے۔ انسان سب فانی ہیں لیکن یہ دین، اسلامی تحریک، اور خیراور فلاح کی جدوجہد وہ سلسلہ ہے جسے قیامت تک جاری رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دعوت اور اس پیغام کو مضبوط اور مؤثر بنائے تاکہ ظلمتیں چھٹیں اور نورِ حق غالب ہوکر رہے۔ آمین!