پروفیسر غازی علم الدین
اُرد و زبان کے استعمال میں بعض اِبہام تواتر سے سرزد ہورہے ہیں جنھیں عام طور پر غلط نہیں سمجھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کچھ ابہام اہلِ زبان کی تحریروں اور تقریروں میں بھی راہ پا چکے ہیں۔ ’علاوہ‘ کے استعمال میں، ایک عام رائج ابہام، بعض سکہ بند اہلِ زبان سے بھی سرزد ہوتا رہتا ہے۔ ایک اردو ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے پروگرام میں، ایک معروف عالم اور مبلغ نے ایک نومسلم کو کلمہ طیبہ اور اس کا ترجمہ پڑھایا ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘‘(۱)۔یہاں ’سوا‘ کا محل تھا، ’علاوہ‘ کا استعمال درست نہیں کیا گیا۔ ’علاوہ‘ کو ذو معنی، مہمل اور مبہم بنا دیے جانے کی وجہ سے، اسے کلمہ طیبہ کے ترجمے میں استثنا کے طور پر لانا، اگر کوئی غلط نہ بھی سمجھے، نامناسب ضرور ہے۔ راقم کے نزدیک یہاں استثنا کے لیے ’سوا‘ ہی مکتفی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ایک معاصر ادبی اور تحقیقی مجلہ، راقم کے زیر مطالعہ تھا کہ ایک معروف ادیب کی تحریر پر نظر رک گئی۔ انھوں نے لکھا ’’زبانیں وہ اپنی زبان کے علاوہ بہت خوبی سے نہ جانتی تھیں، سوا انگریزی‘‘ (۲)۔فاضل ادیب دراصل کہنا چاہتے تھے ’وہ اپنی زبان اور انگریزی کے سوا، کوئی اور زبان خوبی سے نہیں جانتی تھیں‘۔(۳) یہاں یہ بحث مقصود نہیں ہے کہ فاضل ادیب کا جملہ محولہ بالا کمزور ہے یا نہیں، سوال جملے میں لفظ ’علاوہ‘کے محلِّ استعمال کا ہے ۔ فاضل ادیب کے پیش ِ نظر ’علاوہ‘ کے معنی اگر مع اور بشمول کے ہیں تو جملے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی زبان اور دیگر زبانیں بھی بہت خوبی سے نہیں جانتی تھیں سوا انگریزی کے۔ اگر یہاں ’علاوہ‘ کا معنی ’سوا‘ لیا گیا ہے تو جملہ لفظی و معنوی تکرار کی وجہ سے اِہمال و اِبہام کی زد میں آگیا ہے جس سے مفہوم یوں اخذ ہوتا ہے ’وہ اپنی زبان کے سوا دیگر زبانیں بہت خوبی سے نہیں جانتی تھیں سوا انگریزی کے‘۔
راقم نے کوئی چَھے سال قبل، اس موضوع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، لسان شناس اہلِ ادب کے سامنے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا تھا:
’’نشرواشاعت میں آج کل ’سوا‘ اور’علاوہ‘ کے استعمال میں رائج غلطی کا مسلسل اعادہ ہورہا ہے۔ بعض سکہ بند اہلِ زبان اور معروف ادیب اور صحافی بھی لکھنے اوربولنے میں اس غلطی کو دہرا رہے ہیں۔ سوا کی جگہ علاوہ اور علاوہ کی جگہ سوا کا استعمال بڑی لاپروائی اور بے احتیاطی سے ہورہاہے جس سے عبارت کے معانی بدل کر رہ جاتے ہیں۔ دونوں لفظوں کا اصل مفہوم ایک دوسرے کے الٹ ہے۔ سوا کلمۂ اِستثنا ہے جس کے معنی ’اسے چھوڑ کر‘ ، ’بغیر‘ اور ’بجز‘ کے ہیں۔ سوا کے استعمال میں کسی ذات، چیز یا بات کی نفی مقصود ہوتی ہے مثلاً:اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یعنی اللہ تو معبود ہے اُسے چھوڑ کر کوئی اور معبود نہیں ہے۔
علاوہ کے معنی ’اور بھی‘ ، ’مزید‘ اور ’بشمول‘ کے ہیں۔ ’مزید برآں‘ بھی علاوہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی میں اسے moreoverکہتے ہیں۔ اس جملے کو مثال کے طور پر دیکھیے:
’’پیامِ مشرق میں فلسفے کے علاوہ شعریت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے‘‘۔ یعنی پیامِ مشرق میں فلسفہ تو موجود ہے مزید برآں اس میں شعری حُسن اور کمالِ جاذبیت کی بھی فراوانی ہے۔
سوا کو علاوہ اور علاوہ کو سوا کی جگہ غلط استعمال کرنے کی چند مثالیں موضوع کو واضح کرنے کے لیے مفید ثابت ہوں گی:
’’اسلام کے علاوہ دیگر تمام ازم (نظام) کفرو شرک کی دعوت دیتے ہیں ۔‘‘
اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اسلام بھی اور دیگر تمام ازم بھی کفرو شرک کی دعوت دیتے ہیں (نعوذباللہ)۔صحیح عبارت یوں ہونا چاہیے تھی:
’’اسلام کے سوا دیگر تمام ازم کفروشرک کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک اور فقرہ لیجیے: ’’مرض الموت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے۔‘‘
اگر غور سے دیکھا جائے تو اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ مرض الموت کا بھی اور دیگر ہر مرض کا بھی علاج ہے۔ حال آں کہ جملے کا مدعا یہ تھا کہ مرض الموت کو چھوڑ کر باقی ہر مرض کا علاج ہے۔ لہٰذا جملہ یوں ہونا چاہیے تھا:’’مرض الموت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے‘‘۔
اگر کسی محفل میں کوئی یہ کہے کہ میرے علاوہ سب احمق ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خود بھی احمق ہے۔ یہاں بھی ’علاوہ‘ کی جگہ ’سوا‘ کا محل ہے۔‘‘ (۴)
بعد ازاں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں، راقم نے ’علاوہ‘ پر بحث کی تو ایک فاضل لسان شناس (۵) نے احتجاجی لہجے میں راقم کے نقطۂ نظر سے شدید اختلاف کیا اور فرمایا :
’’اردو، عربی کی غلام یا فارسی کی کنیز نہیںہے، ’علاوہ‘ کو ہم جیسے چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘(۶)
’علاوہ‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ع،ل، و ہے۔ واو حرفِ علت ہے جوالف اور ی میں بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس سے نکلنے والے الفاظ سے ارتفاع، بلندی اور اونچائی کے معنی نکلتے ہیں۔ عربی میں کہا جاتا ہے: عَلَا صَوتُ الَّرجُلِ (آدمی کی آواز بلند ہوئی)۔ اَلْحَقُّ یَعْلُو دَائِماً(حق ہمیشہ غالب رہتا ہے)۔ عَلَوْتُ قِمَّۃَ الجَبَلِ (میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھا)۔ اس مادے سے تشکیل پانے والے الفاظ میں سے علی، تعال، تعالیٰ، تعلّی، علُوّ، علیٰ، مُتعالی، عِلّیّیِن،عُلیا، اعلیٰ ، متعال وغیرہ اردو میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اگلے صفحوں میں آنے والی تفصیل کے مطابق ’علاوہ‘ کے لفظی اور لغوی معانی ہیں وہ چیز جو اپنے حق سے زیادہ مل جائے،… سرِ بار یعنی وہ چیز جو کسی چیز پر بڑھائیں،…اور کسی جانور کی پشت پر لدے ہوئے بوجھ کے اوپر ایک چھوٹا سا بوجھ، جیسے گدھے کے اوپر لدی ہوئی بوری، اور بوری پر رکھی ہوئی گٹھڑی، جو سب سے اوپر ہے۔ ’علاوہ‘ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، مثلاً ہم کہتے ہیں ’میرے پاس کرسی، میز، کتاب، قلم اورکاغذ کے علاوہ روشنائی ہے‘۔ یعنی کُل کے بڑے اور غالب حصے کو پہلے بیان کیا اور بعد میں باقی رہ جانے والے جز کو اضافے کے طور پر بیان کرکے نمایاں کردیا گیا۔
’سوا‘، ’اِلاّ‘ اور’ غیر‘ تینوں عربی زبان کے وہ الفاظ ہیں جو اردو میں بھی کلماتِ استثنا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مثلاً:
۱۔ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۲۔ میں تم سے قطعاً بات نہیں کروں گا اِلاّ یہ کہ تم معذرت کرلو۔
۳۔ میں نے آپ کے بغیر یہ کام کرلیا۔
ان الفاظ کے علاوہ لفظ ’علاوہ‘ بھی عربی زبان کا لفظ ہے لیکن یہ کلمۂ استثنا نہیں ہے، اس کے باوجود اُردو زبان میں اسے کلمۂ استثنا کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ تین مثالیں ملاحظہ کیجیے:
۱۔ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔
۲۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اﷲ کے علاوہ مشکل کشا اور حاجت روا ہستیاں ہیں۔
۳۔ احمد کے علاوہ عارف اور ماجد آئے۔
پہلے جملے میں ’علاوہ‘ کا مطلب ہے کہ اﷲ بھی نہیں، کوئی اور بھی معبود نہیں ہے۔ دوسرے میں ’علاوہ‘ کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ بھی مشکل کشا اور حاجت روا ہے اور مزید کچھ ہستیاں بھی مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ تیسرے جملے کا مطلب ہے کہ احمد، عارف اور ماجد تینوں آئے۔ ان مثالوں میں ’علاوہ‘ نے ایزاد، معیت اور اضافہ کا معنی دیا ہے ۔ پہلے جملے میں منفی صورت میں، باقی دو میں اثبات کی شکل میں اضافہ ہے۔ ان تینوں مثالوں میں استثنا کہیں بھی نہیں، اس کے باوجود اُردو زبان میں اسے کلمۂ استثنا کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ راقم کی دانست میں یہ ذومعنی اور مہمل عمل ہے۔ ایک ہی مفہوم کو آج کے انداز میں بیان کریں تو یوں کہیں گے:
۱۔سب طالب علم آگئے سوا حامد کے۔
۲۔سب طالب علم آگئے علاوہ حامد کے۔
جو حضرات ’علاوہ‘ کو کلمۂ استثنا کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں ہیں، وہ ذرا غور فرمائیں اور بتائیں کہ آیا یہاں دونوں جملوں کا مفہوم ایک ہی ہے یا دونوں جملے حامد کی متضاد حالت کو بتارہے ہیں؟ پہلا جملہ کہہ رہا ہے حامد نہیں آیا، جب کہ دوسرا جملہ کہہ رہا ہے حامد آیا ہے ساتھ طالب علموں کے۔
راقم نے ’علاوہ‘ کی حقیقت اور اصل جاننے کے لیے عربی، اُردو اور انگریزی کے لغوی مصادر کی طرف رجوع کیا اور دست یاب مصادر کو کھنگالا۔ ’علاوہ‘ اپنی اصل کے مطابق عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی کے لغوی مصادر میں کہیں بھی اس لفظ کو کلمۂ استثنا نہیں کہا گیا، ہر جگہ اسے کلمۂ ایزاد، معیت، توسیع اور شراکت ہی بتایا گیا ہے۔ یہ تسلیم کہ عربی کے ایسے الفاط کی ایک بڑی کھیپ اردو میں مستعمل ہے جو اپنے اصل معنی سے ہٹ کر ایک دوسرا اور الگ معنی دیتے ہیں تاہم ’علاوہ‘ کو اردو میں بیک وقت کلمۂ استثنا اور کلمۂ ایزاد(جو ایک دوسرے کی ضد ہیں) کے طور پر استعمال کرنے سے مفہوم ذو معنی، مبہم اور مہمل ہوجاتا ہے، مثلاً:طالب علم آئے علاوہ استاد کے۔
’علاوہ‘ کے مفہوم کو خلط ملط کردینے کی بنا پر غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ یہاں ’علاوہ‘کے بعد ’استاد‘ کو مستثنیٰ کیا گیا ہے یا ’علاوہ‘ سے اضافہ، ایزاد اور شراکت مطلوب ہے۔ راقم کے علم میں اردو کا ایسا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ اس مثال میں ’علاوہ‘ صرف استثنا کے لیے ہے یا صرف ’بشمول‘ کے معنوں میں ہے۔
لغوی مصادر، جو راقم کے پیشِ نظر رہے، کیا کہتے ہیں! آئیے ملاحظہ کیجیے
المنجدعلاوہ:مَا زَادَ عَلَیْہِ۔ یُقَالُ: اَعْطَیْتُکَ اَلْفَ دِینارٍ و دینارًا علاوۃً۔ اَیْ زَیَادَۃً علٰی مَا یُحِقُّ لَکَ۔(۷)
مصباح اللغات علاوہ: اِضافہ۔ زائد۔ ہر چیز میں سے زیادہ۔ مثلاً میں نے تجھے ایک ہزار روپیہ دیا اور اس کے علاوہ دس روپے دیے یعنی دس مزید دیے۔ (۸)
القاموس العصری علاوہ: زیادۃ increase. addition. extra. (۹)
المورد (انگریزی سے عربی) یَستَثْنِی ۔ یَعْتَرِضُ عَلٰی۔ مَاعَدَا except:
شذوز۔ اِستثنا(۱۰) exception:
exceptاورexception کے درج بالا معنوں میں ’علاوہ‘ کا ذکر نہیں ہے۔
شیٔ مضاف۔ بالاضافۃ اِلٰی ۔ اضافی(۱۱) addition / additional:
بالاضافۃ اِلٰی۔ علاوۃ علٰی۔(۱۲) beside/ besides:
additionاورbesidesکے معنوں میں سوا کا کوئی مفہوم اور ذکر نہیں ہے۔
قومی انگریزی اردو لغت شمار سے کسی چیز کو علیحدہ کر دینا۔ except:
مستثنیٰ کرنا۔ استثنا۔ بجز۔ اِلاّ۔ سوائے (۱۳)
یہاں exceptکے معنی میں ’علاوہ‘ مذکور نہیں ہے۔
اضافی ۔ زائد۔ مزید۔علاوہ۔ فالتو۔(۱۴) addition / additional:
علاوہ ازیں۔ مزید برآں :فالتو(۱۵) beside / besides:
additionاورbesideکی معنوں میں سوا کا مفہوم اور ذکر نہیں ہے۔
کتابستان ڈکشنری (اُردو ۔انگریزی) علاوہ:(۱۶) in addition to / besides:
یہاں علاوہ کے معنوں میں exceptمذکور نہیں ہے۔
فرہنگِ آصفیہ علاوہ:(تابع فعل) حرفِ استثنا۔ ماسوا۔ سوا۔ اس کے سوا۔ بجز۔
علاوہ:(تابع فعل)اور۔ اُوپر۔ فالتو۔ زیادہ۔ اور بھی۔ اس کے لغوی معنی اس تھوڑے سے بوجھ کے ہیں جو بڑے بوجھ کے اوپر رکھ لیتے ہیں۔ نیز ایک چیز جو دوسری چیز پر ہو۔ نیز وہ چیز جو کسی چیز پر بڑھائیں جسے فارسی میں سرِ بار کہتے ہیں۔
علاوہ ازیں:(تابع فعل) اس کے ماسوا۔ اس کے باوجود۔(۱۷)
نور اللغات علاوہ:ہر چیز جو دوسری چیز کے اوپر رکھ لی جائے۔ وہ چیز جو کسی چیز پر بڑھائیں۔
اس کے سوا۔ ماسوا۔ زیادہ۔ اور بھی۔ یہ لفظ شمول اور شراکت کے لیے بھی آتا ہے۔ (۱۸)
فرہنگِ تلفظ علاوہ: ایزاد اور استثنا کے لیے مستعمل۔ نیز کا مترادف یا سوائے مثلاً ’’ہمارے علاوہ اور بھی تھے‘‘ یعنی ہم تھے نیز اور بھی۔ ’’ہمارے علاوہ سب تھے‘‘ یعنی ہم نہ تھے باقی سب تھے۔(۱۹)
علمی اردو لغت علاوہ:ماسوا۔ مزید ۔ اور بھی۔
علاوہ ازیں: ماسوا۔ باوجود یکہ۔ مزید برایں۔ ماسوا اس کے۔(۲۰)
جامع اللغات علاوہ: زیادہ۔ ماسوا۔ مزید۔ اور بھی۔
علاوہ ازیں/ علاوہ برایں: اس کے سوا۔ مزید برآں۔ باوجود یکہ۔ ماسوا اس کے۔(۲۱)
فرہنگِ عامرہ علاوہ:سوا۔ بڑے بوجھ کے اوپر چھوٹا بوجھ۔(۲۲)
قاموسِ مترادفات علاوہ:مزید۔ بشمول ۔ اور۔ ماسوا۔ بجز۔(۲۳)
مندرجہ بالا لغتوں اور فرہنگوں میں دیے گئے ’علاوہ‘ کے معانی کو پرکھیں تو حقیقت کھلتی ہے کہ عربی اور انگریزی لغوی مصادر میں ’علاوہ‘ صرف کلمۂ ایزاد، اضافہ، شمول، شراکت اور توسیع ہے۔ ان لغوی مصادر میں ’علاوہ‘ کے ضمن میں دیئے گئے معانی میں کسی بھی کلمۂ استثنا کا ذکر نہیں ہے۔ اُردو کی سات مذکورہ فرہنگوں اور لغتوں میں ’علاوہ‘ کے معانی میں ایزاد اور استثنا، دونوں کو خلط ملط کرکے معنوی التباس پیدا کردیا گیا۔ اس چلن کا نام غلط العام پڑ گیا جسے مسلسل استعمال ہونے کی وجہ سے اب کوئی غلط العام بھی تصور نہیں کرتا۔ فرہنگِ آصفیہ اور علمی اردو لغت میں ’علاوہ‘ کی بابت، پہلے استثنا اور بعد میں ایزاد کے کلمات لکھے گئے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ’علاوہ‘ کے مفہوم میں اوّلیت استثنا کی ہے جب کہ ایزاد کی حیثیت ثانوی ہے۔ نوراللغات، جامع اللغات، علمی اردو لغت اور قاموسِ مترادفات میں ’علاوہ‘ کے مطالب میں ایزاد اور استثنا کے کلمات کو ملا کر، بغیر ترتیب کے لکھ دیا گیا ہے۔ فرہنگِ عامرہ میں ’علاوہ‘ کا معنی صرف ’سوا‘ مذکور ہے۔ فرہنگِ تلفظ میں ’علاوہ‘ کا معنی مندرج ہے، ’’نیز کا مترادف یا سوائے‘‘۔ ’یا‘ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مذکورہ لغتیں مرتب کرنے والے ’علاوہ‘ کے معنی کی اصلیت اور قطعیت پر یکسو نہیں ہیں۔ اِسی فرہنگ میں ’علاوہ‘ سے ایزاد کے مقابل استثنا کا معنی نکالنے کے لیے دو مثالیں دی گئیں :
۱۔ہمارے علاوہ اور بھی تھے۔ (یعنی ہم تھے نیز اور بھی)
۲۔ہمارے علاوہ سب تھے۔ (یعنی ہم نہ تھے باقی سب تھے)
حیرانی کی بات ہے کہ مثال میں بیان کیے گئے جملے دو نہیں، جزوی فرق کے ساتھ ایک ہی جملہ ہے اوریہ واضح نہیں کیا گیا کہ ’علاوہ‘ سے ایزاد اور استثنا، دونوں کا مفہوم کس قاعدے کے تحت کشید کیا گیا ہے۔
عربی کے کلماتِ استثنا ’سوا‘، ’ماسوا‘،’ الاّ‘ اور’ غیر‘ اردو میں مستعمل ہیں، ان کے علاوہ ’لیکن‘، ’مگر‘، ’چھوڑ کر‘، ’ بجز‘ وغیرہ بھی کلماتِ استثنا ہیں تو پھر ایک ایسا کلمہ (علاوہ) کیوں استعمال کیا جائے جو لغوی اعتبار سے کلمۂ استثنا ہے ہی نہیں، اور غلط العام میں بھی ذومعنی، مبہم اور مہمل ہے۔ اُردو عبارتوں میں ’علاوہ‘ کے استعمال پر مشتمل ایسے کئی مبہم جملے ملتے ہیں، جنھیں دیکھ کر پڑھنے والے فیصلہ نہیں کر پاتے کہ یہاں’ علاوہ‘ کی حیثیت کیا ہے؟ یہ ایک چشم کشا مثال ہی کافی ہے :لوگ آئے علاوہ احمد کے۔
اس جملے سے واضح نہیں ہوتا کہ یہاں ’علاوہ‘ کے بعد احمد کو مستثنیٰ کیا گیا ہے یا ایزاد اور شمول مطلوب ہے۔
…………………………
حواشی اور حوالے
۱۔ Peaceٹی وی چینل پر، ۴؍جون ۲۰۱۹ء کو، نشر ہونے والے ایک پروگرام میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک غیر مسلم کو کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کیا اور ساتھ اس کلمے کا ترجمہ بھی پڑھایا۔ ترجمے میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے ’’سوا‘‘ کی جگہ ’’علاوہ‘‘ ادا کیا۔
۲۔شمس الرحمٰن فاروقی، تبصراتی خط مشمولہ شمارہ اوّل بہ نگاہِ معاصرین، مشمولہ مباحث، مدیر ڈاکٹر تحسین فراقی، شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۲ء، (لاہور: اردو منزل ۳۲۵۔ ای جوہر ٹاؤن) ، ص ۵۶۵۔
۳۔یہ جملہ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل کے بارے میں لکھا جس سے ان کا مدعا ہے کہ وہ جرمن اور انگریزی تو خوب جانتی تھیں مگر اردو اور فارسی لکھنے اور بولنے میں ماہر نہیں تھیں۔
۴۔پروفیسر غازی علم الدین، لسانی مطالعے، (دہلی ۔ انڈیا: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۱۵ء) ، ص ۱۳۸…۱۳۹۔
۵۔تشنہ بریلوی، تبصراتی خط بنام مدیر، مشمولہ ماہ نامہ چہار سو، مدیر گلزار جاوید، شمارہ نومبر، دسمبر ۲۰۱۵ء(راولپنڈی: ویسٹریج III)، ص ۱۱۸… ۱۱۹۔
۶۔جناب تشنہ بریلوی صاحب کے احتجاج کی شدت اور میرے نقطۂ نظر سے ناگواری اُن کے مکتوب محولہ بالا سے محسوس کی جاسکتی ہے، ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے:
’’پروفیسر غازی علم الدین صاحب! جب علم ’روشن خیالی‘ کا دشمن ہوجائے تو پھر اردو کے لیے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ ایک شعر پیشِ خدمت ہے:
اردو ترا وجود تو خطرے میں پڑ گیا
گردن پہ ہیں سوار یہ پیرانِ تسمہ پا
تشنہ بریلوی(کراچی)
۷۔لوئس معلوف یسوعی، المنجد، (بیروت: دار المشرق، ۱۹۷۳ء)، ص ۵۲۸۔
۸۔عبدالحفیظ بلیاوی، مصباح اللغات]عربی اُردو[، (کراچی: مدینہ پبلشنگ کمپنی، ۱۹۸۲ء) ، ص ۵۷۴ ۔
۹۔الیاس انطون الیاس، القاموس العصری، (قاہرہ۔ مصر۔۱۔ شارع کنیسہ الروم الکاثولیک بالظاہر، ۱۹۷۶ء) ص ۴۵۶۔
۱۰۔مُنیر بعلبکی، المورد، ]انگلش عربی ڈکشنری[، (بیروت -لبنان : دارالعلم للملایین، ۲۰۰۵ء) ، ص ۳۲۴۔
۱۱۔……… ایضاً…………، ص ۲۷
۱۲۔……… ایضاً……………، ص ۱۰۰
۱۳۔ڈاکٹر جمیل جالبی، قومی انگریزی اردو لغت، (اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان پاکستان، ۲۰۰۲ء) ص۶۹۸۔
۱۴۔……… ایضاً…………، ص ۲۴
۱۵۔……… ایضاً…………،ص ۱۷۸
۱۶۔بشیر اے قریشی، کتابستان ڈکشنری ]اردوانگریزی[، (لاہور:۳۸-اردو بازار، سن ندارد) ص ۴۳۷۔
۱۷۔مولوی سیّد احمددہلوی، فرہنگِ آصفیہ جلد سوم، (لاہور:اردو سائنس بورڈ، ۲۰۰۳ء) ص ۲۸۰۔
۱۸۔مولوی نورالحسن نیرّ، نور اللّغات جلد سوم، (لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنر، ۱۹۸۹ء) ص ۵۶۱۔
۱۹۔شان الحق حقی، فرہنگِ تلفظ ، (اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۹۵ء) ص ۷۰۸۔
۲۰۔وارث سرہندی، علمی اردو لغت (لاہور: علمی کتاب گھراردو بازار، ۲۰۱۲ء) ص ۱۰۱۹۔
۲۱۔ خواجہ عبدالمجید، جامع اللغات جلد دوم، (لاہور: اردو سائنس بورڈ، ۲۰۰۳ء) ،ص، ۱۴۰۲۔
۲۲۔محمد عبداﷲ خویشگی، فرہنگِ عامرہ، (اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان پاکستان، ۱۹۸۹ء) ، ص ۴۲۷۔
۲۳۔وارث سرہندی، قاموس مترادفات( لاہور: اردو سائنس بورڈ، ۲۰۰۱ء)، ص ۸۱۰۔