حکیم طارق محمود چغتائی
انجیر کے درخت کا نباتاتی نام فیکس کارسیا (Ficus Carica) ہے۔ یہ نباتیات کے خاندان توتیہ (Moraceac) سے تعلق رکھتا ہے۔ شہتوت، گولر وغیرہ بھی اسی کے رکن ہیں۔ انجیر ایک عمدہ میوہ ہے اسی لیے طویل بیماری کے بعد صحت یابی کے دوران اسے کھانا بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ یہ طبیعت کو نرم اور بدن فربہ کرتا ہے۔ خشک پھل میں پچاس فیصد سے زائد شکر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تھوڑی مقدار میں میلک، اسیٹک اور سائٹرک تیزاب بھی ملتے ہیں۔
انجیر یوں تو ملک شام اور فلسطین کا پودا ہے لیکن تقریباً ڈھائی سے تین ہزار سال قبل اسے اٹلی کے مختلف علاقوں میں پہنچا دیا گیا جہاں یہ بہت جلد پھیل گیا۔ اٹلی، یونان اور جنوبی یورپ کے ممالک میں انجیر کے درخت اور باغات اتنے عام ہوگئے کہ اس کا تذکرہ وہاں کی تہذیب اور ادب میں کیا جانے لگا۔ مشہور مفکر افلاطون کو انجیر اتنے پسند تھے کہ اس کا نام فائلوسوکوس (Philosokos)پڑ گیا جس کے معنی انجیر کے عاشق کے ہیں۔ فائلو کے معنی پسندیدگی کے ہیں اور سوکوس یونانی زبان میں انجیر کو کہتے ہیں۔ یہی حرف لفظِ فلاسفر کی بنیاد بنا۔
انجیر پھلوں میں سب سے نازک پھل ہے۔ پکنے کے بعد پیڑ سے خودبخود گرجاتا ہے اور اسے اگلے دن تک محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ فریج میں رکھنے کے باوجود یہ تھوڑی دیر بعد پھٹ کر ٹپکنے لگتا ہے۔ اس کے استعمال کی بہترین صورت اسے خشک کرنا ہے۔ انجیر کو خشک کرنے کے دوران اسے جراثیم سے پاک کرنے کے لیے گندھک کی دھونی دیتے ہیں۔ آخر میں نمک کے پانی میں ڈبوتے ہیں تاکہ نرم اور ملائم رہے، کیونکہ نمک بھی محفوظ کرنے والی ادویہ میں شامل ہے۔
انجیر کے درخت کی چھال، پتّے اور دودھ ادویہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ عام لوگ اس کی علاجی اہمیت سے اتنے آگاہ نہیں جتنا کہ وہ اسے بطور پھل اور وہ بھی موسم سرما میں، جانتے ہیں۔ اطبائے قدیم کے ہاں انجیر کا استعمال عہدِ رسالت حضرت محمدؐ کے بعد سے شروع ہوتا ہے، البتہ یونان میں بقراط نے اس کا سرسری سا ذکر کیا ہے اور تورات میں فصل کے طور پر مذکور ہے۔
اس کی دو اہم قسمیں دستیاب ہیں۔ ایک وہ جسے لوگ باقاعدہ کاشت کرتے ہیں اور جو بستانی کہلاتی ہے، دوسری خودروجنگلی کہلاتی ہے۔ جنگلی حجم میں چھوٹی اور ذائقہ میں اتنی لذیذ نہیں ہوتی، جبکہ بستانی میں کاشت کاروں نے مختلف تجربات سے لذیذ قسمیں پیدا کرلی ہیں۔
انجیر کا ذکر قرآن مجید میں صرف ایک ہی جگہ مگر بھرپور ہے: ’’انجیر کی قسم اور زیتون کی۔ اور طور سینین کی۔ اور اس امن والے شہر کی کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے۔ (سورۃ التین)
حضرت براء بن عازبؓ روایت فرماتے ہیں کہ سفر کے دوران کی نمازوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں سورۃ التین ضرور تلاوت فرماتے تھے۔
حضرت ابوالدردہؓ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے انجیر سے بھرا ہوا تھال آیا۔ آپؐ نے ہمیں فرمایا’’کھائو!‘‘ ہم نے اس میں سے کھایا۔ پھر ارشاد فرمایا ’’اگر کوئی کہے کہ کوئی پھل جنت سے زمین پر آسکتا ہے تو میںکہوںگا کہ وہ یہی ہے، کیونکہ بلاشبہ یہ جنت کا میوہ ہے، اس میں سے کھائو کہ یہ بواسیر کو ختم کردیتا ہے اور گنٹھیا (جوڑوں کے درد) میں مفید ہے۔‘‘
انجیر کی بہترین قسم سفید ہے۔ یہ گردے اور مثانے سے پتھری ریزہ ریزہ کرکے نکال سکتا ہے، بہترین غذا ہے اور زہروں کے اثرات سے بچاتا ہے۔ حلق کی سوزش، سینے کے بوجھ، پھیپھڑوں کی سوجن میں مفید ہے۔ جگر اور تلی کو صاف کرتا اور بلغم کو پتلا کرکے نکالتا ہے۔ اس کا گودا بخار کے دوران مریض کے منہ کو خشک ہونے نہیں دیتا۔ جالینوس نے کہا ہے کہ انجیر کے ساتھ جوز اور بادام شامل کرلیے جائیں تو یہ خطرناک زہروں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ نمکین بلغم کو پتلا کرکے نکالتا ہے۔ اس لحاظ سے چھاتی کی پرانی سوزشوں میں مفید ہے۔ جگر اور مرارہ میں اٹکے ہوئے پرانے سدوں کو نکالتا ہے۔ گردوں اور مثانے کی سوزش کے لیے مفید ہے۔ انجیر کو نہار منہ کھانا عجیب و غریب فوائد کا حامل ہے۔ کیونکہ یہ آنتوں کے بند کھولتا اور پیٹ سے گیس نکالتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر بادام بھی کھائے جائیں تو پیٹ کی اکثر بیماریاں دور بھاگتی ہیں۔ فوائد کے لحاظ سے انجیر شہتوت سفید کے قریب ہے بلکہ اس سے افضل ہے، کیونکہ شہتوت معدے کو خراب کرتا ہے۔ امام محمد بن احمد ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ انجیر میں تمام دوسرے پھلوں کی نسبت بہتر غذائیت موجود ہے۔ یہ پیاس بجھاتا، آنتوں کو نرم کرتا اور بلغم نکالتا ہے۔ پرانی بلغمی کھانسی میں مفید ہے، پیشاب آور ہے، آنتوں سے قولنج اور سدوں کو دور کرتا ہے۔ اس سے آنتوں کی غلاظت نکل جاتی ہے اور ان کا فعل اعتدال پر آجاتا ہے۔ ساتھ جوز اور بادام ہوں تو اور بہتر ہے۔
مختلف طبی شعبوں کی تحقیقات کے مطابق انجیر ملین ہے، مدرالبول ہے، اس لیے پرانے قبض، کھانسی اور رنگ نکھارنے کے لیے مفید ہے۔ پرانے قبض کے لیے روزانہ پانچ دانے کھانے چاہئیں، جبکہ موٹاپا کم کرنے کے لیے تین دانے کافی ہیں۔ اطباء نے چیچک کے علاج میں بھی انجیر کا ذکر کیا ہے۔ چیچک یا دوسری متعدی بیماریوں میں انجیر چونکہ جسم کی قوتِ مدافعت بڑھاتا اور سوزشوں کے ورم کم کرتا ہے، اس لیے سوزش خواہ کوئی بھی ہو انجیر کے استعمال کا جواز موجود ہے۔
نسخے کے مطابق انجیر اور کلونجی نہار منہ کھانے سے اس دن زہروں کا اثر نہیں ہوتا۔ جوکا آٹا اور انجیر ملا کر دینے سے متعدد دماغی امراض میں فائدہ ہوتا ہے۔ میتھی کے بیچ، انجیر اور پانی کو پکا کر خوب گاڑھا کرلیں، اس میں شہد ملانے سے کھانسی کی شدت کم ہوجاتی ہے، یہ دمے اور بلغمی پیاس میں بھی مفید ہے۔
انجیر کھانے سے حیض کے خون میں اضافہ ہوتا ہے اور دودھ زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ وید کہتے ہیں کہ انجیر کھانے سے چہرے پر نکھار آتا ہے، حواسِ خمسہ کو قوت ملتی ہے۔ اس کے گودے کو شکر اور سرکے کے ساتھ پیس کر بچوںکو چٹانے سے نرخرے کا ورم اتر جاتا ہے اور کمر کا درد جاتا رہتا ہے۔ انجیر کے درخت کے دودھ میں روئی بھگو کر دانت کے سوراخ میں رکھیں تو درد مٹ جاتا ہے۔ انجیر کے جوشاندے سے کلی کرنے سے مسوڑھوں اور گلے کی سوزش کم ہوجاتی ہے۔ اس کے دودھ میں جوکا آٹا گوندھ کر برص پر لگانے سے اس کا بڑھنا رک جاتا ہے۔ چہرے کے داغوں پر بھی اس کا لگانا مفید ہے۔ اس کے درخت کی چھال کی راکھ کو سرکے میں حل کرکے ماتھے پر لگانے سے سر درد جاتا رہتا ہے۔ سوکھے انجیر کو پانی میں پیس کر اس کو پٹھوں کی اکڑن والی جگہ پر لیپ کریں تو پٹھوں کی اکڑن جاتی رہتی ہے۔اسی طرح کا لیپ جوڑوں کے درد میں بھی مفید ہے۔
گردوں، مثانے اور پتے میں پتھری پیدا ہونے کے اسباب کا لمبا قصہ ہے بلکہ ماہرین ابھی تک اس امر پر متفق نہیں کہ ان کا اصل سبب کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ پتے کی پتھری یا اس میں سوزش عام طور پر ایسی خواتین کو ہوتی ہے جن کی عمر چالیس سال سے زائد، موٹی، بدہضمی میں ہمیشہ مبتلا اور بچوں والی ہوتی ہیں۔ جس خاتون میں یہ پانچوں چیزیں ہوں اور وہ پیٹ درد اور بدہضمی کی شکایت لے کر آئے تو ڈاکٹر اسے عام طور پر التہابِ مرارہ (Cholecystitis) تشخیص کرتے ہیں۔
پتے کی سوزش ختم کرنے اور اس سے صفرا کے اخراج کو بڑھانے کے لیے متعدد ادویہ موجود ہیں مگر ایسا کوئی واقعہ علم میں نہیں کہ کسی مریض کو مستقل فائدہ ہوا ہو۔ پتے کی سوزش کا صرف ایک علاج ہے اور وہ یہ کہ اسے آپریشن کے ذریعے نکال دیا جائے، اس کے بعد بدہضمی ایک دوسری صورت میں عمر بھر کی رفیق بنتی ہے۔ گردوں میں پتھری یا جوڑوں کے درد کا اصل باعث جسم میںکیمیائی نمکوں (Oxalates & Urates) کی زیادتی ہے۔
پتے کی خرابیوں اور گردے کی پتھری کے علاج میں یوریٹ نکالنے کے متعدد ذریعے اختیار کیے جاتے ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ عملِ انہضام کو ایسا درست کیا جائے کہ آکسلیٹ اور یوریٹ پیدا ہی نہ ہوں اور یہ مقصد کسی جدید دوائی سے پورا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے جب انجیر کی قسم کھائی تو پھر اس کے اثرات کے لیے شاندار ہونا ضروری ہوجاتا ہے۔ انجیر وہ منفرد دوائی ہے جو ہاضمے کو ٹھیک کرکے صحیح نتیجہ دیتی ہے۔
ایک خاتون کو پتے کی پرانی سوزش تھی۔ ایکسرے پر متعدد پتھریاں پائی گئیں۔ ڈاکٹر نے اسے آپریشن کا مشورہ دیا گیا۔ وہ درد سے مرنے کو تو تیار تھی مگر آپریشن کروانے پر آمادہ نہ تھی۔ اس مجبوری کے لیے کچھ کرنا ضروری ٹھہرا۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلونجی کو ہر مرض کی شفا قرار دیا ہے اس لیے کاسنی اور کلونجی کا مرکب صبح نہار منہ چھ دانے خشک انجیر کے ساتھ کھانے کو کہا گیا۔ دو ماہ کے اندر خاتون کی نہ صرف یہ کہ پتھریاں نکل گئیں بلکہ سوزش بھی جاتی رہی۔ علامات ختم ہونے کے ایک ماہ بعد کے ایکسرے سے پِتّہ مکمل طور پر صحت مند پایا گیا۔
یہ اتفاق نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ انجیر بلاشبہ خوراک کو مکمل ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ درد جہاں پر بھی ہو، اسے دور کرتا ہے، جھلیوں کی جلن کو رفع اور پیٹ کو چھوٹا کرتا ہے۔ بھارتی طبی ماہرین بھی متفق ہیں کہ انجیر پتھری کو ختم کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر ندکارنی تجویز کرتے ہیں کہ تازہ انجیروں کو رات شبنم میں رکھ کر کسی مٹھاس اور باداموں کے ساتھ اگر صبح نہار منہ کھایا جائے تو یہ منہ کے زخموں، زبان کی جلن اور جسم کی حدت کو پندرہ دن میں ٹھیک کردیتا ہے۔ یہی نسخہ ہمارے محدثین کرام پچھلے چودہ سو سال سے بیان کرتے آئے ہیں۔
انجیر اور بواسیر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انجیر کے فوائد میں دو اہم ارشادات فرمائے ہیں:’’ایک تو یہ بواسیر کو ختم کردیتا ہے اور دوسرا جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔‘‘
اسماعیل جرجانی اور ابن البیطار طبیب ہیں جنہوں نے خون کی نالیوں پر انجیر کے اثرات کی وضاحت کی ہے۔ بواسیر کے تین اہم اسباب ہیں: پرانی قبض، تبخیر معدہ اور کرسی نشینی۔ ان چیزوں سے مقعد کے آس پاس کی اندرونی اور بیرونی وریدوں میں خون کا ٹھہرائو ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ رگیں پھول کر مسوں کی صورت میں باہر نکل آتی ہیں یا اندر کی طرف رہتی ہیں۔ بعض لوگوں کو بواسیر بیک وقت اندرونی اور بیرونی ہوتی ہے۔ فضلے کی نالی پر جب دبائو پڑتا ہے تو اس کے ساتھ خون کی نالیوں میں بھی دبائو بڑھتا ہے۔ چونکہ یہ پہلے پھولی ہوتی ہیں اس لیے پھٹ جاتی ہیں اور خون بہنے لگتا ہے۔یہ عمل عام طور پر بیت الخلاء میں اجابت کے دوران ہوتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلام نے حوائجِ ضروریات سے فراغت کے بعد ہمیں پانی سے طہارت کی ہدایت کی ہے، اس کے نتیجے میں خون جلد بند ہوجاتا ہے اور عام طور پر زخم پر نہ تو سوزش ہوتی ہے اور نہ ہی پھوڑا بنتا ہے کیونکہ زخم دن میں کئی بار دھل جاتا ہے۔ یہ اسلامی عمل کرنا تندرست زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے۔ تاہم ان تمام مسائل کا ایک آسان، مستقل حل انجیر ہے۔ انجیر پیٹ میں تبخیر ہونے ہی نہیں دیتا، قبض کو توڑ دیتا ہے، خون کی نالیوں سے سدے نکالتا اور ان کی دیواروں کو صحت مند بناتا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر طویل عرصہ تحقیقات کی ہیں۔ نتائج کے مطابق ایک لمبا عرصہ انجیر کھانے کے بعد بواسیر کے مسے خشک ہوگئے۔ عام طور پر یہ عرصہ چاہ ماہ سے دس ماہ تک محیط ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو تکلیف زیادہ تھی، انہیںصبح نہار منہ شہد کے شربت کے ساتھ پانچ سے چھ دانے خشک انجیر کھانے کو دیے گئے۔ جنہیں تکلیف کم تھی اور بدہضمی زیادہ، ان کو ہر کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے انجیر کھلایا گیا اور جن کو صرف پیٹ میں بوجھ ہوتا تھا، ان کو کھانے کے بعد انجیر کھانا تھا۔ الحمدللہ! نتائج شفا بخش نکلے۔
انجیر پرانے قبض کا بہترین علاج ہے۔ اس کے گودے میں پایا جانے والا دودھ ملین ہے اور اس میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے دانے پیٹ کے حموضات میں پھول کر آنتوں میں حرکات پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ پرانے قبض کے مریض اگر کچھ دن باقاعدہ انجیر کھائیں اور بیت الخلا جانے کا وقت مقرر کریں تو یہ تکلیف ہمیشہ کے لیے رخصت ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں کی آنتوں میں ہمیشہ سڑاند رہتی ہے ان کے لیے انجیر سے بہتر کوئی دوائی موجود نہیں۔ اس کی فعالیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اسے پیس یا گھوٹ کر کچے گوشت پر لیپ کردیا جائے تو گوشت دو گھنٹوں میں اتنا گل جاتا ہے کہ اسے اُنگلیوں سے توڑا جاسکتا ہے۔
انجیر خون کی نالیوں میں جمی ہوئی غلاظتوں کو نکال سکتا ہے، اسی افادیت کی وجہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بواسیر میں پھولی ہوئی وریدوں کی اصلاح کے لیے اس کے استعمال کا حکم فرمایا۔ اکثر اوقات بلڈپریشر میں زیادتی خون کی نالیوں میں موٹائی آجانے سے ہوتی ہے۔ انجیر اس مشکل کا بہترین حل ہے کیونکہ یہ جسم سے چربی گلا کر نکال سکتا ہے۔ بڑھاپے میں جب خون کی نالیاں تنگ ہوجاتی ہیں اور اعضاء میں بھی فالج کی سی کیفیت ہوتی ہے تو ایسے میں انجیر اکسیر کا درجہ رکھتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ مریض کثیر مقدار پانچ چھ مہینے مسلسل استعمال کرے۔
گردوں کے خراب ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔ اس مرض کی اندرونی صورت یہ ہوتی ہے کہ خون کی نالیوں میں تنگی کی وجہ سے گردوں کی کارگزاری متاثر ہوتی ہے۔ یہی کیفیت پیشاب میں کمی اور بلڈ پریشر میں زیادتی کا باعث بن جاتی ہے۔ ان حالات میں اگر زندگی کو اتنی مہلت مل سکے کہ کچھ مدت انجیر کھائی جائے تو اللہ کے فضل سے وہ بیماری جس میں اگر گردے تبدیل نہ ہوں تو موت یقینی ہے، شفایابی پر منتج ہوتی ہے۔
خشک انجیر توے پر جلا کر دانتوں پر اس راکھ کا منجن کیا جائے تو دانتوں سے رنگ اور میل اترجاتا ہے۔ مسوڑھوں کی سوزش کے لیے جتنے بھی منجن بنائے جاتے ہیں اگر ان میں انجیر کی راکھ شامل کرلی جائے تو فائدہ زیادہ جلد اور بہتر ہوتا ہے۔ انجیر کے تازہ پھل سے نچوڑ کر دودھ نکال کر اگر مسوں پر لگایا جائے تو وہ گر جاتے ہیں۔ اس کے پتّوں کو کوٹ کر پھوڑوںکو پکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔(بحوالہ طبِ نبویؐ اور جدید سائنس)۔