رسائل و مسائل (یک جلدی)۔

حضرت مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسی نابغۂ روزگار ہستی صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ قومیں خوش قسمت ہوتی ہیں جن کی رہنمائی اور تعلیم و تربیت کے لیے ایسی عالم و فاضل شخصیات عطا ہوتی ہیں جو اپنے اثرات دور و نزدیک ڈال کر صراطِ مستقیم کو واضح کردیتی ہیں۔ مولانا کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ دور میں قرآن و سنت کی روشنی میں حالات کا تجزیہ اور طاری ادبار سے نجات کے راستے اور لائحہ عمل مرتب کرنے میں ان سے زیادہ کسی نے کام نہیں کیا۔ ان کے تحریری آثار اتنے زیادہ اور اتنے پُراثر ہیں کہ ان سے جاہلیت کی چھائی تاریکیاں دور ہوجاتی ہیں اور مومن کو عین الیقین کی منزل حاصل ہوجاتی ہے۔ ان کی انقلاب آفرین کتب میں انوکھے معیار کی معرکہ آرا کتاب ’’رسائل و مسائل‘‘ ہے جس میں لوگوں کے دل و دماغ میں اٹھنے والے سوالات کے تشفی جوابات دیے گئے ہیں۔ پہلے یہ کتاب پانچ حصوں میں طبع ہوتی رہی ہے، اب اس کو تدوینِ نو کے بعد ایک جلد میں نئی ترتیب سے شائع کیا گیا ہے اور خوب صورت سفید کاغذ پر حسین و جمیل طبع کرایا گیا ہے۔ علیحدہ پانچ حصوں میں بھی شائع ہورہی ہے۔
رسائل و مسائل کا یہ جدید ایڈیشن تحقیق و تخریج اور تدوینِ نو کے بعد منصۂ شہود پر آیا ہے، ’’عرضِ ناشر‘‘ برادرم عبدالحفیظ مرحوم کا لکھا ہوا ہے، لکھتے ہیں:
’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تصانیف اُن کی علمی استعداد کے ساتھ ساتھ اُن کی دقتِ نظر، عام فہم اندازِ تحریر اور محکم دلائل کے علاوہ بے شمار خوبیوں کا مرقع ہیں۔ اسلامک پبلی کیشنز کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے یہ بات پیش نظر تھی کہ مولانا مرحوم کی تصانیف جس طرح علمی لحاظ سے بلند پایہ ہیں، ان کی طباعت و اشاعت بھی اس کے ہم پایہ اور معیاری ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں ہے کہ معیار کی بلندی ابلاغ کو مؤثر بنادیتی ہے۔
الحمدللہ! پہلے دن سے اس معیار کو پیش نظر رکھ کر کام کا آغاز کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب عزم کیا تو اللہ تعالیٰ نے راستے آسان کردیے۔ خطبات، اسلامی ریاست، سنت کی آئینی حیثیت، تنقیحات، تجدید و احیائے دین اور دیگر کتب کو نئے انداز میں شائع کیا تو قارئین نے اسے بہت پسند کیا۔
اس دوران میں محترم سید منور حسن صاحب کے نوٹ کے ساتھ ڈاکٹر نصیر خان صاحب (نوشہرہ) کا خط موصول ہوا۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتب کی تدوینِ نو کی ضرورت و اہمیت، اس حوالے سے خطوطِ کار اور عملی تجاویز پیش کی تھیں اور اس کام میں تعاون کے لیے اپنی خدمات بھی پیش کیں۔ میرے ذہن میں ’’رسائل و مسائل‘‘ کے پانچوں حصوں کو یک جا شائع کرنے کا جو ایک موہوم سا خاکہ تھا وہ عملی شکل اختیار کرتا ہوا نظر آیا، اور اس بلند پایہ تصنیف کو شایانِ شان انداز میں شائع کرنے کی کنجی ہاتھ آگئی۔ جو نقشہ میرے ذہن میں تھا اس کو ڈاکٹر نصیر خان نے اپنے خط میں الفاظ کا جامہ پہنایا ہوا تھا اور جس کی عملی صورت ’’رسائل و مسائل‘‘ کا زیر نظر ایڈیشن ہے۔
’’رسائل و مسائل‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا بلند پایہ علمی کام اور ان کی دینی بصیرت کا شاہکار ہے۔ عملی زندگی میں پیش آنے والے معاملات پر اسلامی احکام کو منطبق کرنے اور جاننے کے لیے یہ راہِ نما کتاب ہے۔ اس میں قرآن کریم، احادیثِ مبارکہ، تمدن، معیشت، معاشرت، سیاست اور زندگی کے دیگر پہلوئوں سے متعلق کیے گئے سوالات کے مختصر اور دوٹوک جوابات دیے گئے ہیں۔ میرے ذہن میں تھاکہ ایسی علمی کتاب کو ظاہری اور معنوی ہر لحاظ سے بلند معیار پر شائع ہونا چاہیے‘‘۔
یہ عظیم الشان کام ڈاکٹر نصیر خان صاحب (نوشہرہ) (naseerkhandr@gmail.com) نے بڑی ذمہ داری اور محنت سے انجام دیا۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’امام سید ابوالاعلی مودودیؒ (1903ء۔ 1979ء) کا شمار تاریخِ اسلام کی اُن چند نامور ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اقامتِ دین کے لیے بیک وقت علمی و تحقیقی، دعوتی و اصلاحی، تنظیمی اور سیاسی محاذوں پر جامع انداز میں جدوجہد فرمائی۔ آپ نے اپنے وقت کے تمام اہم فتنوں سوشل ازم، کمیون ازم،کیپٹل ازم، سیکولرازم، غلوکی حد تک سائنٹ ازم (Scientims)، قادیانیت، انکارِ حدیث، محدود اور جامد قسم کی مذہبیت اور فرقہ واریت کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پوری طاقت کے ساتھ جواب دیا۔ آپ نے بھرپور قوتِ استدلال کے ساتھ اسلام کو ایک زندہ، جامع اور متحرک نظامِ زندگی کے طور پر پیش کیا۔ آپ کے علمی کام سے پوری دنیا میں استفادہ کیا جارہا ہے اور تقریباً تمام اہم زبانوں میں اس کا ترجمہ موجود ہے۔
سید مودودیؒ کی شاہ کار تصانیف سے استفادے کا دائر بڑھانا وقت کی ایک اہم ضرورت، اور علمی حلقوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ کی کتب کی جدید کاری کی مفید تجاویز دی جاتی رہی ہیں۔ ’’رسائل و مسائل‘‘ کے اس ایڈیشن میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے پوری احتیاط اور دیانت داری کے ساتھ اسی خدمت کو انجام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلامک پبلی کیشنز کے مستعد منیجنگ ڈائریکٹر محترم عبدالحفیظ احمد صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس اہم کام میں سبقت کی سعادت حاصل کی اور تدوینِ نو کے تمام مراحل میں بھرپور حوصلہ افزائی، سرپرستی اور تعاون سے نوازا۔
نوتدوین شدہ ’’رسائل و مسائل‘‘ میں درج ذیل خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
(1) بیس نئے ابواب بنادیے گئے ہیں اور ’’رسائل و مسائل‘‘ کے پانچوں حصوں سے متعلقہ مواد وہاں منتقل کردیا گیا ہے۔
(2) ایک ہی استفسار میں مختلف موضوعات سے متعلق موجود متعدد سوالات کو الگ الگ کرکے متعلقہ ابواب اور فصول کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ ایسے مقامات پر سوالات کے کراس ریفرنسز بھی درج کردیے گئے ہیں۔
(3) جہاں جہاں ناگزیر ایڈیٹنگ ہوئی ہے، تحقیقی اُسلوب پر اُس کی نشان دہی کی گئی ہے۔
(4) تمام سوالات کو مناسب عنوانات دیے گئے ہیں اور حوالے میں سہولت کے لیے نمبر شمار درج کردیا گیا ہے۔ ہر سوال کے آخر میں بطور حوالہ مختصراً ترجمان القرآن کا مہینہ اور سال بدستور قائم رکھا گیا ہے۔
(5) آیات، احادیث، فقہی عبارات اور تاریخی اقتباسات کی امہات الکتب سے تصحیح کرادی گئی ہے اور ان کے مکمل حوالہ جات درج کردیے گئے ہیں۔
(6) اردو خواں طبقے کی سہولت کے لیے عربی عبارات اور بعض اہم اردو الفاظ پر اعراب بھی لگادیے گئے ہیں۔
(7) بعض عبارات کا اردو ترجمہ موجود نہیں تھا، وہ تحریر کردیا گیا ہے۔ ان تراجم کو متن سے ممتاز رکھنے کے لیے حاشیہ میں اور بڑی بریکٹس میں رکھا گیا ہے۔
(8) موضوع اور نوعیت کی مناسبت سے بعض سوالات ’’تفہیمات‘‘ سے اِدھر منتقل کردیے گئے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے۔
(9) املا کی درستی کے لیے اردو کی مستند لغت ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی ’’صحتِ املا کے اصول‘‘ سے مدد لی گئی ہے۔
(10)متن کی درستی کو یقینی بنانے کے لیے گاہِ بگاہ ترجمان القرآن کی پرانی فائل کی طرف رجوع کیا گیا اور اصل عبارات سے مقابلہ کیا گیا ہے۔ اس دوران بعض ایسے سوالات بھی نظر سے گزرے جو ’’رسائل و مسائل‘‘ میں شامل نہیں تھے۔ وہ بھی نئے ایڈیشن میں شامل کردیے گئے۔ اگر ترجمان القرآن کی فائل کا اس نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو مزید سوالات ملنے کا امکان ہے۔ وقت کی کمی کے باعث اس مرتبہ یہ کام نہیں کیا جاسکا۔
(11) کتاب میں موجود مخففات (Abbriviations)، بعض اصطلاحات اور اسما کی تشریح حاشیے میں کردی گئی ہے۔
(12) قارئین کی سہولت کے لیے کتاب میں موجود مشکل الفاظ کے معانی کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ درج کردیے گئے ہیں۔
(13) تخریج کے لیے سید مودودیؒ کی (زیر مطالعہ) ذاتی کتب میسر نہ آسکیں، اس لیے دستیاب دیگر مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے، جن کی فہرست کتاب کے آخر میں ’’مصادر و مراجع‘‘ کے نام سے فراہم کی گئی ہے۔
(14) تفہیم میں آسانی کی خاطر طویل پیراگرافوں کو چھوٹے چھوٹے پیراگرافوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
(15) مواد تک رسائی کے لیے مستقل اور مفصل اشاریہ (Index) بنانے کے بجائے فہرستِ مضامین ہی کو تفصیلی اور جامع بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کتاب کی ضخامت میں مزید اضافہ نہ ہو۔
(16) ابلاغ کی بہتری اور قارئین کی سہولت کو سب سے مقدم رکھا گیا ہے۔ کیونکہ اس پوری مشق کا واحد مقصد اس وقیع کتاب سے استفادہ آسان اور عام کرنا ہے۔
جو احباب تحقیق و تدوین کے فن سے آشنا ہیں، وہ اس کا بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طبع زاد کتاب لکھنے کی بہ نسبت کسی مصنف کی کتاب کی ایڈیٹنگ کتنا مشکل کام ہے۔ قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمی، بیشی، وضاحتی نوٹس کے کڑے ضوابط ہیں جن کی پوری دیانت داری کے ساتھ پابندی کرنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پوری احتیاط کے ساتھ ابلاغ کا اہتمام کرنا پڑتا ہے تاکہ قاری کو بغیر کسی الجھن اور رنگ آمیزی کے مصنف کا مدعا پوری طرح پہنچ جائے۔ سید مودودیؒ کی تصانیف کی جدید کاری اور تسہیل کی جو تمنا تھی، وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ’’رسائل و مسائل‘‘ کی حد تک تو تقریباً پوری ہوگئی، جو پہلے سے کسی قدر بہتر حالت میں آپ کے ہاتھوں میں موجود ہے۔ سید مودودیؒ کے مشن سے محبت رکھنے والے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی تصانیف کو اپنے شعور کا حصہ بنائے، کیونکہ فکری تربیت کے بغیر انسان سازی اور اصلاحِ معاشرہ کا پائیدار کام کبھی نہیں ہوسکتا۔ ان شا اللہ دعوت کی توسیع کے ساتھ ساتھ علمی ترقی کا یہ سفر بھی جاری رہے گا۔ جدید کاری کا یہ مفید سلسلہ سید مودودیؒ کی دیگر تصانیف تک بھی بڑھایا جائے گا۔ پھر ان سب کو سید مودودیؒ کی تصانیف کے مجوزہ سافٹ ویئر کا حصہ بنایا جائے گا‘‘۔
مولانا خلیل حامدیؒ (23 جون 1929ء۔ 25 نومبر1994ء) نے یہ بے نظیر مقدمہ رسائل و مسائل حصہ پنجم کے لیے تحریر کیا تھا، یہ مقدمہ اس قابل ہے کہ تحریک ِ اسلامی سے وابستہ ہر فرد بغور اس کا مطالعہ کرے۔ اس کو بھی یک جلدی رسائل و مسائل کا حصہ بنایا گیا ہے:
’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 1932ء سے لے کر 1979ء تک جو فکری جنگ لڑی ہے وہ بیسویں صدی کی انسانی تاریخ کا ایک نہایت اہم باب ہے۔
’’رسائل و مسائل‘‘ کے مطالعے سے ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ مولانا مودودیؒ نے تہذیبِ روشن کہلانے والی جاہلیتِ جدیدہ کے علاوہ جاہلیتِ قدیمہ کے کانٹے بھی راہِ حق سے چنے ہیں جو تفرقہ پردازانہ فتنوں کے ساتھ عجمی رسمیات کی آمیزش پاکر دینی سرگرمیوں اور تقریبوں اور مسائل میں داخل ہوگئی ہے۔ اس نازک ترین کاوش میں مولانا کا مسلک یہ رہا ہے کہ خود انہوں نے اپنے آپ کو فرقہ وارانہ مؤقف سے دور رکھا ہے اور مسائل کے دلائل کے جواب میں اگر کسی مخالف نے عاجز آکر ان کی ذات پر کیچڑ اچھالا ہے تو اپنی ذات کے دفاع کے لیے اس پر منفی نزاع چھیڑنے سے اجتناب کرکے مولانا نے مثبت، تعمیری اور اصولی حقائق کو ابھارنے پر توجہ دی ہے۔ مناظرہ و مجادلہ کے راستے سے انہوں نے پورا پورا اجتناب برتا ہے۔ جمود و جاہلیتِ قدیمہ کے پاس داروں کے ذاتی حملوں کے معاملے میں پوری بے نیازی سے راہِ حق پر بڑھتے چلے جانا ایک بڑی قربانی ہے جو کم ہی لوگ دے سکتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال سیدؒ نے اپنی میراث میں چھوڑی ہے۔
’’رسائل و مسائل کا مطالعہ کرنے والوں کے سامنے حکمتِ دعوت کا یہ اہم پہلو بھی رہنا چاہیے۔
مولانا مودودیؒ نے جس کثرت سے سوالات کے مدلل جوابات لکھے ہیں اور ان کے پس منظر کا تجزیہ کیا ہے، ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک انتہائی مصروف آدمی کے لیے وقت اور قوت کے دامنِ تنگ میں کتنی وسعتیں پیدا ہوگئیں۔ آج یہ جوابات ادبی نقطہ نظر سے بھی اردو کا ایک گراں قدر حصہ ہیں۔ ان کا ایک خاص اسلوب ہے اور ان میں بعض خاص طرز کی اصطلاحات اور استعارے ہیں۔ کہیں اجمال کا جمال ہے اور کہیں تفصیل کا کمال! کبھی وہ سائل کی مختصر سی بات کے اندر چھپے ہوئے کسی بڑے مغالطے کو گرفت میں لیتے ہیں، اور کبھی طویل عبارتوں میں سے اصل قابلِ توجہ چند جملوں کا جوہر سامنے رکھ لیتے ہیں۔
ہمیں بڑی مسرت ہے کہ آج ہم اس سرمایۂ علم و عرفاں کو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں۔‘‘
کتاب بیس ابواب پر منقسم ہے۔ باب اوّل ایمانیات، باب دوم عبادات (ارکانِ اسلام)، باب سوم قرآنیات، باب چہارم اصولِ حدیث و تاویلِ حدیث، باب پنجم اسلامی قانون، باب ششم سماجیات، باب ہفتم سیاسیات، باب ہشتم معاشیات، باب نہم تعلیمات، باب دہم اسلام اور سائنس، گیارھواں باب جدید فقہی مسائل، بارھواں باب تصوف تزکیۂ نفس اور اخلاق، تیرھواں باب انبیائے کرام علیہم السلام، چودھواں باب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، پندرھواں باب اختلافِ امت اور راہِ اعتدال، سولھواں باب اسلام اور دیگر مذاہب، سترھواں باب اقامتِ دین، اٹھارواں باب تحریکِ اسلامی، حکمتِ عملی، انسیواں باب مخالفتیں تحریکی اور شخصی، بیسواں باب متفرقات۔
کتاب کے آخر میں کتاب میں آئے مشکل الفاظ کے معنی لکھے گئے ہیں۔ کتاب کے شروع میں تفصیلی فہرستِ مضامین باب وار دی گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ استفادۂ کتاب کو سہل بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نصیر خان شکریے اور توصیف و تحسین کے مستحق ہیں، ان شاء اللہ کتاب ان کے لیے بھی صدقۂ جاریہ ثابت ہوگی۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت بڑے سائز پر طبع کی گئی ہی۔ مجلّد ہے اور ڈائی دار جلد سے آراستہ ہے۔