زیر نظر کتاب ’’ایک ہیں مسلم‘‘ محمد فیصل سلہریا کی اوّلین کاوش ہے۔
وہ دردِ دل رکھنے والے جواں سال اخبار نویس ہیں، اسلام سے محبت ہی نہیں رکھتے بلکہ اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے اور اسے پوری دنیا میں ایک غالب نظامِ حیات کی حیثیت سے کارفرما دیکھنے کی تمنا بھی ان کے دل میں تڑپتی ہے۔ ان کی رائے میں اتحادِ بین المسلمین ایٹم بم سے بھی بڑا ہتھیار ہے، اس لیے کہ ایٹم بم کا توڑ ایٹم بم کی صورت میں موجود ہے مگر ہمارے اتحاد کا مقابلہ کرنے والی کوئی چیز اِس دنیا میں موجود نہیں۔ ’’ایک ہیں مسلم‘‘ کے ابتدائیہ میں اس کا سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’لاہور پریس کلب میں 12 جون 2012ء کو اقرا کلب لاہور کا آغاز کرتے وقت دو بنیادی مقاصد کو مدنظر رکھا گیا۔ پہلا اتحادِ بین المسلمین کے عظیم اور بابرکت فریضے میں اپنا حصہ ڈالنا، اور دوسرا قرآن کو اپنا ذوق بنانا بالخصوص اہلِ صحافت کا، کیوں کہ اس میڈیائی دور میں اگر قرآن اہلِ صحافت کا ذوق بن جائے تو تکمیلِ پاکستان کی وہ منزل نہایت ہی قریب آجائے گی جس کا خواب اس کے بانیوں نے دیکھا تھا۔ پہلے مقصد کے حصول کے لیے اقرا کلب کی نشست میں قرآنی آیت کے کسی ایک اردو ترجمے کے بجائے تمام مکاتبِ فکر کے ہاں رائج مستند تراجم کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اسی طرح تفسیر بھی۔ دوسرے مقصد کو پانے کے لیے شرکاء کو اظہارِ خیال کی دعوت دی جاتی ہے۔ نشست کے آغاز میں زیر موضوع آیت کے پیش کردہ تراجم اور تفسیری اقتباسات کی روشنی میں شرکاء اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ گھر میں موجود تفسیر سے بھی حوالہ دیتے ہیں جو وہ پڑھ کے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ الحمدللہ بابرکت ثابت ہوا جس کا ایک ثمر یہ کاوش ہے۔ اس کاوش کا محرک ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ کی خواہش ہے۔ یہ ایک یاددہانی ہے کہ ہمارے بنیادی عقائد میں تو کوئی اختلاف نہیں، پھر یہ اشتراک ایک دوسرے کی جان، مال، عزت و آبرو کو محفوظ بنانے کی ضمانت کیوں نہیں؟‘‘
ابتدائیہ کی اس تحریر کا اختتام ان سطور پر کرتے ہیں:
’’ہماری سماجی عادات ہمیں لاشعوری طور پر ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، جس کا اظہار عقیدۂ ختم نبوتؐ کے تحفظ اور توہینِ رسالتؐ کے معاملے میں ہوتا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل فتنہِ قادیانیت کے جنم سے لے کر قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیے جانے تک کسی مسلک کے بجائے برصغیر کے مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد کا تذکرہ ہوتا ہے۔ یورپی ممالک نے آزادیِ اظہار کی منافقت کی آڑ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کیے تو دنیا بھر کے مسلمانوں میں مسلکی تمیز مٹ گئی۔ اس لاشعوری اتحاد کو شعوری سطح پر وجود میں لانا عصرِ حاضر کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان کے مدارس پر مختلف حیلے بہانوں سے جب قدغنیں لگانے کی کوشش ہوئی تو تمام مسالک کے مدارس اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے ایک ہوگئے۔ بقائے باہمی کے تحت وجود میں آنے والے اضطراری اتحاد کو اختیاری بناکر بقائے دوام حاصل کیا جا سکتا ہے اور ’’پیغام پاکستان‘‘ نے ہمیں یہ موقع فراہم کردیا ہے۔‘‘
کتاب کا انتساب مولف نے اپنے والد بزرگوار کے نام ان الفاظ سے کیا ہے:
’’والد گرامی کے نام، جن کی رزقِ حلال سے پرورش نے ہمیں ’’چلو تم اُدھر کو، جدھر کی ہوا ہو‘‘ سے بچا لیا۔‘‘
کتاب کے آغاز میں موضوع کے حوالے سے ابو انیس محمد برکت علی لدھیانویؒ مرحوم کی ایک مؤثر تحریر ’’اتحادِ بین المسلمین‘‘ بھی شاملِ اشاعت کی گئی ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ ’’ایک ہیں مسلم‘‘ میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت کے بارے میں یہ ثابت کرنے کی مخلصانہ کوشش کی گئی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر ان میں متفق ہیں اور تمام مسالک کی سوچ یکساں ہے۔ اس ضمن میں ’’توحید‘‘ کی وضاحت کے لیے قرآن حکیم کی سورہ اخلاص، ’’رسالت‘‘ کے لیے سورہ کوثر اور آخرت کے لیے سورہ زلزال سے مدد لی گئی ہے، اور ان سورتوں کے تمام مکاتبِ فکر کے ممتاز علماء کرام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ، علامہ محمد ثناء اللہ پانی پتیؒ، پیر کرم شاہ الازہریؒ، حافظ عماد الدین ابو الغداءؒ اور آیت اللہ و کارم شیرازیؒ کی تفاسیر کو یکجا کردیا گیا ہے، جن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح اور نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد اور اساسی نظریے پر تمام مکاتبِ فکر کے علماء یکسو، متحد اور متفق ہیں۔ یوں یہ تالیف اپنے مقصد کے لحاظ سے خاص اثرپذیری اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ضرورت ہے کہ اس سوچ و فکر کو وسعت دی جائے اور اس کی اشاعت پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کی جائے تاکہ امتِ مسلمہ خصوصاً پاکستانی قوم کو فرقہ واریت، لسانیت، علاقائیت اور قومیت وغیرہ کے نام پر پھیلائے گئے طرح طرح کے فتنوں، اختلافات اور انتشار و خلفشار سے بچا کر اتحاد و اتفاق کے حصار میں محفوظ و مامون کیا جا سکے۔ ’’ایک ہیں مسلم‘‘ مثبت سوچ کی حامل عمدہ کاوش ہے اور اس لائق ہے کہ اس کی بھرپور پذیرائی کرتے ہوئے اسے نوجوان نسل میں بڑے پیمانے میں پھیلایا جائے۔