پوری دنیا میں اسمارٹ فون کے فاسٹ چارجر کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیاں عام ہیں کہ ان سے بیٹریاں کمزور ہوکر اپنی مدت سے پہلے ناکارہ ہوجاتی ہیں۔
درحقیقت ایسا نہیں ہے، کیونکہ ہواوے، گوگل، ون پلس، ایپل اور سام سنگ وغیرہ بھی فاسٹ چارجر پیش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ خود دیگر ماہرین بھی کہتے ہیں کہ تیزرفتار چارجر سے بیٹری کی لائف متاثر نہیں ہوتی۔
روایتی چارجر 5 سے 10 واٹ آؤٹ پٹ دیتے ہیں۔ تیز رفتار چارجر اس سے آٹھ گنا رفتار پر چارج بھرتے ہیں۔ مثلاً آئی فون الیون اور پرومیکس کے فاسٹ چارجر 18 واٹ کی شرح پر کام کرتے ہیں۔ اسی طرح گیلکسی نوٹ 10 اور نوٹ 10 پلیس کے فاسٹ چارجر 25 واٹ کی رفتار سے بجلی بھرتے ہیں۔
اس طرح فاسٹ چارجر بیٹریوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتے، لیکن یاد رہے کہ سام سنگ گیلکسی نوٹ سیون میں بیٹریاں پھٹنے کے جو واقعات ہوئے ہیں اس کی وجہ بیٹری کی خراب ڈیزائننگ تھی، نہ کہ بیٹری مینجمنٹ سافٹ ویئر میں کوئی خرابی۔
ہم میں سے اکثر فون کو 100 فیصد سے اوپر چارج نہیں کرتے جو اچھی بات ہے، لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ بیٹری فل ہونے کے بعد بھی چارج ہونے سے فون کی بیٹریاں متاثر ہوتی ہیں۔ اوور چارجنگ اور بیٹری کو نقصان پہنچنے کا معاملہ پرانے فون میں ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جدید اسمارٹ فون میں بیٹری پاور اور مینجمنٹ سسٹم پر بہت زور دیا جاتا ہے اور 100 فیصد چارج کے فوراً بعد ہی بیٹری تک چارج نہیں پہنچ پاتا اور وہیں رک جاتا ہے۔ اس کے لیے اسمارٹ فون میں خاص طرح کے سافٹ ویئر فون کی بیٹری میں اندھا دھند چارج بھرنے کے عمل کو روکتے ہیں۔
تمام ماہرین کا مشورہ ہے کہ فون کی بیٹری کو صفر تک نہ پہنچنے دیں اور جب وہ 20 سے 30 فیصد تک رہ جائے تو اسے چارج پر لگادیں۔ اس طرح بیٹری پر دباؤ نہیں پڑے گا۔ تپش اور بلند درجہ حرارت بیٹری کے اصل دشمن ہیں۔ اس لیے فون کو دھوپ میں نہ رکھیں، نہ ہی دوپہر کو گاڑی کے ڈیش بورڈ پر چھوڑیں، کیونکہ اس سے بیٹری تیزی کے ساتھ متاثر ہوسکتی ہے۔ 30 درجے سینٹی گریڈ یا اس سے زائد درجہ حرارت بیٹری کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بیٹری کا خرچ کم کرنے کی اہم تدابیر کے لیے بعض ٹوٹکے آزمائے جاسکتے ہیں۔ اسکرین کی روشنی مدھم کرنے، وائی فائی بند کرنے اور بلیو ٹوتھ کا غیر ضروری استعمال بیٹری کو دیر تک قابلِ عمل رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں بیک گراؤنڈ میں چلنے والی ایپس اور چلنے والے ڈیٹا کو بند کرکے بھی بیٹری کی بچت کی جاسکتی ہے۔
دفتر کے اندر پودے رکھنے سے دماغی صحت بہتر
یونیورسٹی آف ہیوگو کے سائنس دانوں کا اصرار ہے کہ دفتر کے اندر پودے رکھنے سے دماغی صحت بہتر رہتی ہے اور ذہنی دباؤ بھی کم ہوتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک سروے کیا ہے اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ سبزے سے دور رہنے کے باوجود دفتر میں کچھ پودے رکھنے سے نفسیاتی اور دماغی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس کے لیے سائنس دانوں نے 63 افراد کو شامل کیا اور مطالعے سے پہلے اور بعد میں ان کی نفسیاتی اور فعلیاتی کیفیات کا جائزہ بھی لیا۔ اس دوران چھے مختلف پودوں میں سے لوگوں کی پسند کا ایک پودا ان کی میز پر رکھا گیا۔ ان پودوں میں بونسائی، ایئر پلانٹس، سان پیڈرو کیکٹس، کوکیڈیما اور ایشویریا قسم کے پودے موجود تھے۔
سب نے اپنی اپنی پسند کے پودے حاصل کیے اور انہیں کمپیوٹر مانیٹر کے ساتھ لگایا۔ اس طرح ایک ہفتے تک شرکا کو پودے کے ساتھ اور ایک ہفتے پودے کے بغیر دیکھا گیا۔ بعد ازاں شرکا سے کہا گیا کہ وہ شعوری طور پر پودے کو دیکھیں اور اس کا خیال بھی رکھیں۔ رضا کاروں نے تھکاوٹ اور کوفت کی صورت میں پودے کو کم سے کم 3 منٹ تک دیکھا۔
ماہرین نے مختلف مروجہ ٹیسٹ سے معلوم کیا کہ پودے رکھنے اور دیکھنے سے شرکا کی بے چینی اور دباؤ کم ہوا۔ اس کے علاوہ نفسیاتی دباؤ میں بھی کمی دیکھی گئی، اور جب نبض کی رفتار نوٹ کی گئی تو اس میں بھی بہتری تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پودے رکھنے اور انہیں دیکھنے سے تمام افراد کو فائدہ ہوا خواہ وہ جوان تھے یا بوڑھے، یا پھر کسی بھی عمر کے درجے میں موجود تھے۔ اسی طرح پودوں کے انتخاب سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور تمام ہی پودے مفید ثابت ہوئے۔ اگرچہ اس مطالعے میں شرکا کی تعداد محدود تھی لیکن سب پر پودے کے جادوئی اثرات ضرور سامنے آئے۔