فطری خدائی پیغام ،اللہ کی طرف بلانا

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ کو چھوڑ دے جبکہ وہ ناحق پر ہے، جنت کے کنارے میں اس کے لیے محل بنایا جاتا ہے۔ اور جو جھگڑا چھوڑ دے جب کہ وہ حق پر ہے، اس کے لیے جنت کے وسط میں مکان بنایا جاتا ہے۔ جس نے اپنا خلق اچھا بنالیا جنت کی بلند جگہ میں اس کے لیے مکان بنایا جاتا ہے۔ (ترمذی)۔

سید طاہررسول قادری
يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْوَرَبَّكَ فَكَـبِّـرْ
ترجمہ: اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ (المدثر:1تا 3)۔
تشریحات: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک روز میں راستے سے گزر رہا تھا، یکایک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی۔ سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں یہ دیکھ کر سخت دہشت زدہ ہوگیا اور گھر پہنچ کر میں نے کہا مجھے اڑھائو، مجھے اڑھائو۔ چنانچہ گھر والوں نے مجھے لحاف (یا کمبل) اوڑھادیا۔ اُس وقت اللہ نے یہ وحی نازل کی کہ اے میرے پیارے بندے، تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہاں گئے۔ تم پر تو ایک بارِ عظیم کا بوجھ ڈالا گیا ہے، جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پورے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ سو اٹھو اور ضلالت و گمراہی میں مبتلا انسانیت کو خبردار کرو۔ اٹھو اور تمہارے گرد و پیش خدا کے جو بندے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان کو چونکا دو۔ انہیں اس انجام سے ڈرائو جس سے یقیناً وہ دوچار ہوں گے اگر اسی حالت میں مبتلا رہے۔ انہیں آگاہ کردو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان سے کسی عمل کی کوئی بازپرس نہ ہو۔
تاریخ گواہ ہے، سیرتِ مبارکہ کا ہر لفظ شاہد ہے، دیکھنے والی آنکھوں نے تسلسل کے ساتھ جو شہادتیں دی ہیں اور تواتر کے ساتھ جو باتیں اشاعت پذیر ہوئی ہیں وہ سب تصدیق کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی لمحے اور اسی دن جو اٹھے ہیں تو کبھی اور کسی لمحے بھی فارغ ہوکر نہیں بیٹھے۔ ایک منٹ کے لیے بھی کبھی بے عزم و بے حوصلہ نہ ہوئے، اور پیغمبرانہ امور کی انجام دہی میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ابتدائے بعثت سے لے کر آخری لمحہ وصال تک وحیِ الٰہی نے تزکیے کا جو پروگرام دے دیا اس پر عمل پیرا رہے، اور اسی پروگرام کے تحت پورے عالمِ انسانیت میں پھیلاتے رہے۔ اصول الاقرب فالا قرب رہا۔
جب اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آیا وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ الشعرا(آیت 114) ”اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈرائو“۔ تو آپؐ نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور ایک ایک کو پکار کر صاف صاف کہہ دیا ’’اے بنی عبدالمطلب، اے عباس، اے صفیہ رسول اللہؐ کی پھوپھی، اے فاطمہؓ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرلو۔ میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو چاہو مانگ سکتے ہو۔ پھر آپؐ نے صبح سویرے کوہِ صفا کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہوکر پکارا ”یا صبا حاہ“ ہائے صبح کا خطرہ۔ پھر آپؐ نے قریش کے ایک ایک قبیلے اور خاندان کا نام لے لے کر آواز دی۔
پھر جب سورۃ الانعام کی آیت 93 اور آیت 19 اتری جس میں کہا گیا کہ مکہ اور اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو۔
وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا۔ تم بستیوں کے اس مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو۔وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَاور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے سب کو متنبہ کردوں۔كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۔ یعنی سارے موجودہ و آئندہ انسانوں کے لیے بشیر و نذیر ہوں۔ (سبا، آیت28)۔
یہی وہ فطری خدائی پروگرام تھا جس کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تبلیغ ِدین فرماتے رہے۔
جہاں تک لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ کے فریضے کا تعلق تھا وہ حضورؐ نے سو فیصد پورا فرمایا، بلکہ طائف کے سفر نے من حولھا میں ابتدائی قدم رکھ دیا اور مہاجرین کے ذریعے تبلیغ ِدین کا کام حبشہ میں بھی ہورہا تھا، اور اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قم فانذر کے مطابق اقامت ِدین کے لیے اٹھے تو زندگی بھر اٹھے رہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بیٹھے اور اسی دوران وہ سارے مراحل پیش آگئے جو سیرت النبیؐ کا حصہ ہیں۔ اسی عرصے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جفائیں بھی ہوئیں، قتل کی سازش بھی، ایذا رسانی کے حربے بھی استعمال کیے گئے۔ صحابہ کرام حضرت بلال ؓ، حضرت یاسرؓ، حضرت صہیب رومیؓ، حضرت ابو فکیہہؓ، حضرت زنبیرہؓ، حضرت نہدیہؓ، حضرت ام عیسؓ، حضرت یاسرؓ کی بیوی سمیہؓ سخت اذیتیں سہتے رہے۔ حضرت عثمانؓ کو سزائیں دی جاتی رہیں اور مصعب بن عمیرؓ بھی اسلام قبول کرنے کے جرم میں گھر سے نکالے گئے۔
ہجرت کے واقعات بھی پیش آئے، جنگیں بھی ہوئیں، فتوحات بھی حاصل ہوئیں اور بالآخر دنیا میں اسلامی ریاست قائم ہوکر رہی۔
(”دروسِ قرآن“ حصہ دوئم)