پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کو ’’بحرانوں کی سرزمین‘‘ بنا دیا ہے۔ پاکستان میں سیاسی بحرن ہے۔ سماجی بحران ہے۔ معاشی بحران ہے۔ تعلیمی بحران ہے۔ اخلاقی بحران ہے۔ آئینی بحران ہے۔ طبی بحران ہے۔ صحت و صفائی کا بحران ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید اور ملک کو سب سے زیادہ وسائل مہیا کرنے والا شہر ہے۔ لیکن اس شہر میں ٹرانسپورٹ کا بحران ہے۔ پانی کا بحران ہے۔ شاہراہوں کی ٹوٹ پھوٹ کا بحران ہے۔ نکاسی آب کے نظام کا بحران ہے۔ حد یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ کراچی میں کچرا اٹھانے اور گٹر کھولنے کی صلاحیت تک کا مظاہرہ نہیں کر پارہا۔ لیکن اسلامی جمہوریت پاکستان میں سب سے بڑابحران نظریاتی بحران ہے۔ اس بحران کی اہمیت یہ ہے کہ پاکستان کے سارے بحران ’’نظریاتی بحران‘‘ کا شاخسانہ ہیں۔
پاکستان کے نظریاتی بحران کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس سال قائداعظم کے یوم پیدائش پر فرمایا کہ قائداعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنایا اور آج دو قومی نظریہ پہلے بڑھ کر ایک حقیقت بن چکا ہے۔ جنرل باجوہ نے فرمایا کہ ہم قائداعظم کے وژن ایمان، اتحاد اور تنظیم سے رہنمائی لیتے رہیں گے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے ٹوئیٹر پر قائداظم کی تصویر کے ساتھ ان کا یہ قول پیش کیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں اور ان میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ 25 دسمبر کی مناسبت سے وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے فرمایا نوجوان قائداعظم کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کو اسلامی اور فلاحی ریاست بنانا ہو گا۔ (روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ دنیا 26 دسمبر 2019ء)۔
پاکستان میں آرمی چیف سب سے طاقت ور شخصیت ہیں۔ ان کے بعد وزیراعظم کی باری آتی ہے۔ اس تناظر مین دیکھا جائے تو اہل پاکستان کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ آرمی چیف اور وزیراعظم دونوں ’’دوقومی نظریے‘‘ یعنی اسلام کی اہمیت کے قائل ہیں اور وہ پاکستان کے بنیادی نظریے کی بنیاد پر ملک و قوم کی تعمیر چاہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جنرل باجودہ اور عمران خان نے جو کچھ فرمایا ہے وہ ہم جیسے ’’معمولی‘‘ اور ’’بے اختیار‘‘ لوگوں کا کام ہے۔ جنرل باجوہ اور عمران خان کے پاس تو پاکستان کو ’’اسلامی‘‘ اور ’’فلاحی‘‘ بنانے کے مکمل اختیارات ہیں چنانچہ انہیں ’’قول‘‘ سے نہیں ’’عمل‘‘ سے پاکستان کو ’’اسلامی‘‘ اور ’’فلاحی‘‘ بنا کر دکھانا چاہیے۔ لیکن چونکہ دونوں شخصیات ایسا کرتی نظر نہیں آرہی اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ان کے خیالات ’’قابل قدر‘‘ ہونے کے باوجود پاکستان کے نظریاتی بحران کا ’’حصہ‘‘ ہیں۔ نظریاتی بحران کا ’’حل‘‘ نہیں۔
روس اور چین میں سوشلزم کی بنیاد پر انقلاب برپا ہوا اور روس میں 70 سال تک یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ روس کی کوئی چیز سوشلزم کے خلا ف ہو گی۔ سوشلزم روس کی سیاست کی بنیاد تھا۔ روس کی معیشت کی بنیاد تھا۔ روس کے تعلیمی نظام کی بنیاد تھا۔ روس کی صحافت کی بنیاد تھا۔ یہاں تک کہ روس کے ادب اور سائنس کی بنیاد تھا۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ روس اپنی سائنس کو صرف سائنس نہیں کہتے تھے بلکہ ’’سوویت سائنس‘‘ کہتے تھے۔ ٹروٹسکی لینن کی سطح کا انقلابی ’’رہنما‘‘ اور ’’دانش ور‘‘ تھا مگر مارکسزم کی ’’تعبیر‘‘ پر اس کا لینن سے اختلاف ہو گیا۔ چنانچہ ریاست نے ٹراٹسکی کو ’’نظریاتی غدار قرار دے دیا۔ اس صورت حال میں ٹراٹسکی کو روس سے فرار ہونا پڑا مگر روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی نے ٹراٹسکی کو دیارِ غیر میں قتل کر دیا۔ یہی صورت حال چین میں ہوئی۔ چین میں سوشلزم کی بنیاد پر انقلاب آیا تو چین کی سیاست، معیشت، نظام تعلیم، صحافت اور ادب بھی سوشلسٹ‘‘ ہو گئی۔ جدید چین کے بانی ڈینگ ز پائو پنگ نے مائو کی بعض تعبیرات سے اختلاف کیا تو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور انہیں ’’نظریاتی غدار‘‘ باور کرایا گیا۔ چین آج معیشت کی سطح پر ’’سرمایہ دارانہ‘‘ ہو چکا ہے مگر آج بھی چین میں مارکسزم یا سوشلزم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے۔
جدید مغربی تہذیب لبرل ازم پر کھڑی ہوئی ہے۔ آزادی، جمہوریت اور مساوات اس کے ’’عقائد‘‘ ہیں۔ چنانچہ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کسی مغربی ملک میں کوئی ایسا حکمران برسراقتدار آئے گا جو آزادی اور جمہوریت کے خلاف بات کرے گا یا آزادی اور جمہوریت کو سبوتاژ کرے گا۔ آپ ان ممالک میں آزادی اور جمہوریت کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ایسا کرنا ’’کفر‘‘ کے مترادف ہو گا۔ لیکن اس حوالے سے پاکستان کی کہانی کچھ اور ہے۔
پاکستان کی کہانی یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کے بنیادی نظریے سے غداری کی۔ اس کے خلاف سازشیں کیں اور اسے سبوتاژ کرنے میںکوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جنرل ایوب ’’سیکولر‘‘ تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔
اس اعتبار سے حکمرانوں میں وہ پاکستان کے پہلے ’’نظریاتی غدار تھے۔ پاکستان جنرل ایوب کو جہیز میں نہیں ملا تھا کہ وہ اسے اپنی ذاتی، انفرادی، شخصی یا اداراتی خواہش کے تحت سیکولر بنا دیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا چنانچہ جنرل ایوب نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی کوشش کر کے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھودا۔ جنرل پرویز مشرف کو بھی پاکستان جہیز میں نہیں ملا تھا مگر انہوں نے بھی ’’نظریاتی غداری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو لبرل بنانے کی شیطانی حرکت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ تھا۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب نہ ’’اسلامی‘‘ تھے۔ نہ ’’سوشلسٹ‘‘ تھے نہ ’’جمہوری‘‘ تھے۔ مگر یہاں سوال یہ اٹھایا جانا چاہیے کہ جب اسلام بھٹو صاحب کا ’’دین‘‘ تھا تو ان کی معیشت کی بنیاد ’’سوشلزم‘‘ کیوں تھی؟ کیا معیشت بھٹو صاحب کے نزدیک اسلام اتنا معمولی تھا کہ وہ معیشت کے لیے بروئے کار نہیں آسکتا تھا۔ میاں نواز شریف اگر بھٹو صاحب کے نزدیک اسلام اتنا معمولی تھا کہ وہ معیشت کے لیے بروئے کار نہیں آسکتا تھا۔ میاں نواز شریف اگر بھٹو کی طرح خود کو Define کرتے تو کہتے سرمایہ ہمار امذہب ہے لوٹ مار ہماری معیشت ہے اور جاگ پنجابی جاگ ہماری سیاست ہے۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ شریف خاندان کو کبھی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کر کرتے ہوئے نہیں پایا گیا بلکہ نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور میاں نواز شریف کے قریبی دوست خواجہ آصف نے ایک مغربی ملک میں ایک فورم پر خطاب کرتے ہوئے صاف کہا کہ نواز لیگ تحریک انصاف سے زیادہ ’’سیکولر‘‘ ہے۔ الطاف حسین یہاں تک کے فاروق ستار بھی کئی بار فرما چکے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک سیکولر جماعت ہے۔ عمران خان بلاشبہ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر ابھی تک ان کی ریاست مدینہ سے وابستگی زبانی جمع خرچ سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا کوئی ایک حکمران نہیں پاکستان کے تمام حکمران نظریاتی غدار ہیں۔
بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کو ایک اسلامی آئین دیا۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ انہوں نے شراب پر پابندی لگائی۔ انہوں نے جمعہ کی تعطیل کا اعلان کیا۔ مگر یہ اقدامات بھٹو صاحب کی ’’نظریاتی ضرورت‘‘ نہیں تھے یہ ان کی ’’سیاسی ضرورت‘‘ تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے آج تک پاکستان کے ’’ اسلامی آئین‘‘ سے اسلام کو باہر نہیں آنے دیا۔ انہون نے آئین کو اسلام کا ’’قید خانہ‘‘ یا اسلام کا ’’میوزیم‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ بجائے خود پاکستان کے نظریے سے غداری ہے۔
پاکستان پر فکر اقبال کا سایہ ہے۔ چنانچہ اصولاً پاکستان کو اقبال کے مثالیوں یا اقبال کے Ideals کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔ اقبال کا ایک Ideals ’’مرد مومن‘‘ ہے چنانچہ پاکستان میں مردمومن کی “Mass Production” کا اہتمام ہونا چاہیے تھا۔ اقبال نے کہا تھا
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
مگر ہمارے سماج بالخصوص ہمارے تعلیمی اداروں میں جو ’’انسان سازی‘‘ ہو رہی ہے اس کے نتیجے میں مومن ’’قرآن‘‘ کیا کسی آٹھویں درجے کے شاعر کا ’’دیوان‘‘ بھی نظر نہیں آتا۔ اقبال نے کہا تھا
قہاری و غفاری و قدسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
مگر ہمارے حکمرانوں نے پاکستانی قوم کو جو ماحول فراہم کیا ہے اس میں اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی یہ پیروڈی برآمد ہو رہی ہے۔
عیاری و مکاری و خونخواری و مشکوک
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اقبال کا ایک اور Ideal شاہین ہے۔ شاہین کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ بلند پرواز ہے مگر ہمارے حکمران ہمیں رینگنے والے کیڑے بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اقبال نے فرمایا تھا
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے پوری قوم کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے در کا مستقل بھکاری بنا کر کھڑاکر دیا ہے۔
اقبال نے جواب شکوہ میں خدا کی زبان میں کہلوایا تھا
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
مگر پاکستان میں اس شعر کے مصرعۂ اولیٰ کے مندرجہ ذیل ’’وژن‘‘ زیر استعمال ہیں۔
مذکورہ شعر کے پہلے مصرعے کا ایک ورژن یہ ہے۔
کی جو جنرل سے وفا تو نے توہم تیرے ہیں
اس مصرعے کا دوسرا ورژن یہ ہے:
کی جو بھٹو سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
اس مصرعے کا تیسرا ورژن یہ ہے:
کی شریفوں سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
اس مصرعے کا چوتھا ورژن ی ہے
کی جو عمران سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ صورت حال صرف اقبال کی توہین کے مترادف نہیں۔ یہ صورت حال اسلام کی بھی توہین ہے۔ اس لیے کہ اسلام ہمیں صرف خدا اور اس کے رسولؐ کی وفاداری سکھاتا ہے۔ مگر ہمارے حکمران طبقے نے ’’پست وفاداریوں‘‘ کو قوم کا ’’علم‘‘ بھی بنا دیا ہے اور قوم کا مزاج بھی یہاں تک کے قوم کا ’’ذوق‘‘ بھی۔
پاکستان کے حکمران اور بعض کالم نویس اس بات پر بھنگڑا ڈال رہے ہیں کہ نریندر مودی بھارت میں جو کچھ کر رہ اہے اس سے دو قومی نظریے کا صحیح ہونا ثابت ہو گیا ہے۔ بلاشبہ دو قومی نظریہ ایک حقیقت ہے اور یہی حقیقت ہے اور یہی حقیقت پاکستان کی تخلیق کا باعث ہے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کے بعد پاکستان کو دو قومی نظریے کے مطابق بنانے کے لیے کیا کیا؟ رزق کھانے، لباس پہنے اور نظریہ بسر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر کسی روز کو کھایا، لباس کو پہنا اور نظریے کو بسر نہ کیا جارہا ہو تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ بھی ہے۔
بلاشبہ پاکستان دو قومی نظریے کا حامل ہے۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ہماری سیاسی اور قومی زندگی کو ’’چھے قومی نظریے‘‘ کا مظہر بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ماشاء اللہ ہماری ایک قوم ’’پنجابی‘‘ ہے۔ ایک قوم ’’مہاجر‘‘ ہے۔ ایک قوم ’’سندھی‘‘ ہے۔ ایک قوم ’’پشتون‘‘ ہے۔ ایک قوم ’’بلوچی‘‘ ہے۔ ایک قوم ’’فوجی‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں ’’پاکستانی قوم‘‘ کہاں ہے؟ تجزیہ کیا جائے تو یہ صورت حال دو قومی نظریے کی روح سے غداری کے مترادف ہے۔ اس لیے کہ دو قومی نظریے نے برصغیر کی پوری امت اسلامیہ کو ’’ایک قوم‘‘ بنا دیا تھا۔ مگر ہمارے حکمران طبقے نے ’’ایک قوم‘‘ کو ’’چھ اقوام‘‘ میں ڈھال کر قوم کی ’’وحدت‘‘ کو فنا کر دیا ہے۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کو دیکھا جائے یہاں ’’چار قومی نظریے‘‘ کا راج ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے دائرے میں ایک قوم ’’مدرسے‘‘ سے فارغ التحصیل ہوتی ہے۔ دوسری قوم ’’اردو میڈیم اسکولوں‘‘ سے فروغ پاتی ہے۔ تیسری قوم ’’مقامی انگلش میڈیم اسکولوں‘‘ کی پروردہ ہے۔ چوتھی قوم ’’کیمرج سسٹم‘‘ کی پیداوار ہے۔ یہ صورت حال بھی پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کی نظریاتی غداری کا شاخسانہ ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کے ہمارے حکمرانوں اور بے شمار دانش وروں کوہندوئوں اور ہندوستان کے حوالے سے تو ’’دو قومی نظریہ‘‘ یاد آتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں اور دانش وروں کو مغرب کے حوالے سے کبھی ’’دو قومی نظریے‘‘ کے احساس میں مبتلا نہیں دیکھا گیا۔ حالانکہ اگر مسلمان ہندوئوں سے ’’الگ قوم‘‘ ہیں تو وہ عیسائیوں خاص طور پر مغرب کے سیکولر اور لبرل لوگوں کے حوالے سے بھی ’’الگ قوم‘‘ ہیں۔ مگر ہمارے حکمران اور دانش ور مغرب کے حوالے سے اپنے جداگانہ مذہبی، تہذیبی اور تاریخی تشخص پر اصرار کرتے نظر نہیں آتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کا ’’دو قومی نظریہ‘‘ جعلی ہے۔
یہ ایک المناک بات ہے کہ صرف پاکستان کا حکمران طبقہ ہی پاکستان کا ’’نظریاتی غدار‘‘ نہیں ہے۔ پاکستان کی صحافت بھی ’’نظریاتی غداری‘‘ کی علامت ہے۔ ایک بار پرویز ہود بھائے نے روزنامہ ڈان میں لکھا کہ پی آئی اے کے طیارے پرواز کے لیے تیار ہوتے ہیں ان طیاروں میں ’’دعائے سفر‘‘ پڑھی جاتی ہے۔ پرویز ہود بھائے نے لکھا کہ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے اس لیے کہ طیارے ’’دعا‘‘ سے نہیں مشین کی مدد سے اڑتے ہیں۔ حسن نثار نے جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ پردے کا حکم امہات المومنین کے لیے تھا عام مسلم خواتین کے لیے نہیں۔ جاوید چوہدری نے ایکسپریس میں لکھا کہ سعودی عرب اور ایران جیسے مذہبی ممالک میں جو تغیرات آرہے ہیں ان کی وجہ سے لگتا ہے کہ اسلام مکے مدینے اور قم تک محدود ہو جائے گا یعنی اسلام کا کوئی مستقبل نہیں۔ خورشید ندیم روزنامہ دنیا میں جو کالم لکھتے ہیں ان میں سے کافی کالم اسلام کو مشرف بہ مغرب یا مشرف بہ سیکولر ازم کرنے کی آرزو سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف کھلی بغاوت ہو رہی ہے۔
ان تمام حقائق سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان گہرے نظریاتی بحران کا شکار ہے اور نظریاتی بحران نے ہمری قوت فکر و عمل کو شل کیا ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان نظریاتی بحران میں کیوں مبتلا ہے؟
کسی چیز یا نظریے پر یقین کے تین درجے ہیں
1۔ علم الیقین۔
2۔ عین الیقین۔
3۔ حق الیقین۔
علم الیقین یہ ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ سامنے گھڑا رکھا ہے اس میں پانی ہے۔ عین الیقین ہے آپ گھڑے میں جھانک کر دیکھ لیں گے اس میں واقعتاً پانی ہے۔ حق الیقین یہ ہے کہ آپ گھڑے سے پانی نکال کر پی لیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے کے لیے اسلام عین الیقین اور حق الیقین کیا علم الیقین بھی نہیں ہے۔ جنرل ایوب، جنرل یحیٰی اور جنرل پرویز مشرف کا انٹرویو کیا جاتا تو اسلام کے بارے میں ان کا علم پانچویں جماعت کے طالبعلم سے زیادہ نہ نکلتا۔ میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان اسلام کے حوالے سے ’’خطِ غربت‘‘ سے نیچے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلام ہمارے حکمرانوں کی ’’ضرورت‘‘ تو ہے ’’محبت‘‘ نہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ نوآبادیاتی فکر کے تسلسل کی علامت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے حکمران طبقے کا ذہنی سانچہ نو آبادیاتی فکر سے تشکیل پایا ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے حکمران اپنی انگت کی بنیاد پر ’’مقامی‘‘ اور اپنی ذہنیت کی بنیاد پر ’’مغربی‘‘ ہیں۔ چنانچہ وہ اسلام کو ’’قابل عمل‘‘ ہی نہیں سمجھتے۔ وہ اسلام کا نام بھی ل یتے ہیں تو اس لیے کہ عوام کی اکثریت جذباتی سطح پر سہی اسلام سے وابستہ ہے۔ جس دن حکمرانوں کو معلوم ہو گا کہ عوام کی بڑی تعداد اب مذہبی نہیں رہی تو وہ کھل کر اسلام کے خلاف بات بھی کریں گے اور عمل بھی کریں گے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ نظریے سے سچی وابستگی انسان کی فکر و عمل اہلیت کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیتی ہے مگر چونکہ ہمارے حکمران طبقے کا اسلام بھی جعلی ہے۔ سوشلزم بھی جعلی ہے اور سیکولر ازم بھی جعلی ہے اس لیے ہمارے حکمرانوں کی عظیم اکثریت اوسط درجے کی صلاحیت کی حامل رہی ہے، اور ہے۔ چنانچہ نہ ہمارے سیاست اچھے حال میںہے۔ نہ ہماری معیشت۔ نہ ہمارا عدالتی نظام کام کر رہا ہے۔ نہ تعلیمی نظام کوئی بڑا نتیجہ پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان کا نظریہ ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہوتا تو ہم ’’بالشتے‘‘ پیدا کرنے کے بجائے دیوقامت لوگ پیدا کر رہے ہوتے۔ لوگ آئے دن اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے ہزاروں افرادکو ’’لاپتا‘‘ کیا ہوا ہے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے مگر اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور ریاستی اداروں نے ہمارے نظریے، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اقبال کی فکر اور قائداعظم کے ورثے کو بھی ’’لاپتا‘‘ کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ قائداعظم سے ایک بار کسی نے پوچھا تھا کہ پاکستان کا آئین کیسا ہو گا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ ہمیں آئین بنانے کی ضرورت نہیں ہے قرآن ہی ہمارا آئین ہو گا مگر قرآن نہ ہماری انفرادی زندگی پر اثر انداز ہے نہ قومی زندگی پر۔ اس کا اثر نہ سیاسی زندگی پر ہے نہ معاشی اور عدالتی زندگی پر۔ اقبال نے کہا تھا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کے 22 کروڑ مسلمانوں کو مدتوں سے راکھ کا ڈھیر بنانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ اس کی ’’تزویراتی منصوبہ بندی‘‘ یا Strategic Planning ہے۔