کیا حکومت اور حزب اخلاف کے درمیان محاز آرائی ختم ہوگی؟
دنیا بھر میں لوگ آنے والے نئے برس سے بہت سی توقعات وابستہ کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمومی طور پر لوگ مثبت اور منفی اشاریوں کی بنیاد پر نئے برس کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بہت سے تجزیہ نگار اپنے تجزیوں کی بنیاد پر مستقبل کا نیا منظرنامہ سامنے لاتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں2020ء کیسا ہوگا، اور کیا 2019ء کے مقابلے میں اس میں بہتری کے امکانات دیکھے جاسکتے ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو سب کے ذہنوں میں موجود ہیں اور لوگ ان کا کسی نہ کسی شکل میں جواب بھی چاہتے ہیں۔2019ء زیادہ تر سیاسی اور معاشی محاذ پر ہنگامہ آرائی، محاذ آرائی اور مختلف فریقین میں موجود بداعتمادی کے سائے میں گزرا ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل نے لوگوں میں امید کے مقابلے میں خدشات زیادہ پیدا کیے ہیں۔
2020ء کو مدنظر رکھ کر ہمیں سات بڑے چیلنجز کا سامنا ہے:
(1) معاشی حالات میں مثبت تبدیلیاں اور ان کے عام آدمی کی زندگی میں بہتر اثرات
(2) معاشی، سیاسی، قانونی، انتظامی اور ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل
(3) حکمرانی سے جڑے مسائل اور عام وکمزور آدمی کی مشکلات
(4) احتساب کا شفافیت پر مبنی عمل
(5) حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے یا محاذ آرائی
(6) حکمرانی کے نظام میں کامیابی اور لوگوں میں حکومت کی کارکردگی کے بارے میں اعتماد کی بحالی
(7) پاک بھارت اور پاک افغان تعلقات سمیت خطے کی مجموعی صورتِ حال
2019ء میں ان تمام معاملات یا نکات پر ہماری کارکردگی وہ نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی، اور لوگوں میں یہ احساس ہوتا کہ ریاست، حکومت اور ادارے درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت مخالف جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی، عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی 2020ء کو نئے انتخابات کا سال قرار دیتی ہیں۔ ان کے بقول حکومت کا چل چلائو ہے، اور اسی برس نئے شفاف عمل کی بنیاد پر نئے انتخابات ہوں گے۔ یہ تمام جماعتیں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو سلیکٹڈ یعنی اسٹیبلشمنٹ کی تیار کردہ حکومت کہتی ہیں اور اس حکومت کی ساکھ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حزبِ اختلاف اِس برس اِن ہائوس تبدیلی، مائنس ون فارمولے اور نئے انتخابات کو بنیاد بناکر حکومت مخالف مہم کو آگے بڑھا رہی ہے۔ ایسے میں 2020ء میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان پہلے سے موجود محاذ آرائی کیسے ختم ہوگی؟ یہ خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ جب حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کے وجود کو قبول کرنے سے انکار کردیں، اور بات ذاتی دشمنی، الزام تراشیوں اور لعن طعن تک آجائے تو اتفاقِ رائے کی سیاست مشکل ہوجاتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے بقول 2020ء معاشی ترقی اور خوشحالی کا سال ہوگا۔ اگرچہ ہمارے معاشی اعدادوشمار اور عالمی معاشی ماہرین کے اشاریوں میں بہتری کے آثار ضرور پیدا ہوئے ہیں، لیکن بڑا چیلنج عام آدمی کی معاشی صورت حال میں بہتری ہے، اور 2020ء میں بھی یقینا معاشی عمل آگے بڑھے گا، لیکن اس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر لوگوں میں موجود معاشی مایوسی کم نہیں ہوگی، اور نہ ہی ان کو کوئی بڑا معاشی ریلیف مل سکے گا۔ پیٹرول، ڈیزل، تیل، بجلی، گیس، ادویہ سمیت روزمرہ استعمال کی مختلف چیزوں کی بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک بڑا چیلنج رہے گا، اور تحریک انصاف نے اگر اس نئے برس میں لوگوں کو کوئی بڑا ریلیف نہ دیا تو اس سے حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہوگی اور لوگوں میں حکومت کی ناکامی کا تاثر بھی پیدا ہوگا۔
ایک مسئلہ حکمرانی کے نظام کی شفافیت کا ہے، اس پر حکومت کو سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی، اور امید ہے کہ اس برس چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی منعقد ہوں گے۔ لیکن اگر کمزور بنیادوں پر مقامی حکومت کے نظام کو چلا کر تمام اختیارات صوبائی سطح تک محدود کرنے ہیں تو اس سے 18ویں ترمیم کی روح بھی متاثر ہوگی اور ملک میں حکمرانی کا بحران بھی حل نہیں ہوسکے گا۔ اسی طرح ادارہ جاتی اصلاحات پر، جو تحریک انصاف کا اہم ایجنڈا ہے، واقعی بڑا کام کرنا ہوگا۔ پولیس، بیوروکریسی، تعلیم، صحت اور قانون کی سطح پر عملی اصلاحات درکار ہیں، اور ان پر حکومت کو غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔
2019ء میں ہم نے احتساب کے تناظر میں بہت شور سنا، لیکن اس کے عملی نتائج وہ نہیں مل سکے جو ملنے چاہیے تھے۔ 2020ء میں ایک طرف احتساب کی شفافیت سے جڑے سوال ہیں کہ کیا احتساب کے دائرۂ کار میں حکومت اور اس کے اتحادی بھی آئیں گے؟ اسی طرح احتساب کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے نیب سمیت دیگر اداروں میں جو بڑی تبدیلیاں لانی ہیں وہ ممکن ہوسکیں گی؟ حکومت کے اندر ایسے بہت سے لوگ ہیں جو وزیراعظم کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ احتساب کے عمل میں سخت رویہ اختیار نہ کریں۔ البتہ 2020ء میں بھی حکومت مخالف لوگ احتساب کے شکنجے میں رہیں گے اور ان کا اندر آنا جانا لگا رہے گا۔
سیاسی سطح پر حکومت کو 2020ء میں حزبِ اختلاف سے زیادہ خود اپنی حکمرانی کے نظام سے خطرہ رہے گا۔نوازشریف اور مریم نواز کا کردار اس برس محدود نظر آتا ہے۔ شہبازشریف فعال ہوں گے، مگر وہ حکومت کے لیے کوئی بڑی مشکل پیدا نہیں کرسکیں گے۔ آصف علی زرداری پیچھے رہیں گے اور بلاول بھٹو زیادہ فعال نظر آئیں گے۔ حزبِ اختلاف کی کوشش ہوگی کہ وہ اس برس حکومت کو زیادہ کھڑا نہ ہونے دے، وہ اپنی مختلف سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے میڈیا اور سیاسی محاذ پر اس تاثر کو مزید مضبوط کرے گی کہ حکومت ناکامی سے دوچار ہے۔
حکومت کو ایک بڑا چیلنج اِس برس بھی اُس کی ٹیم کی صورت میں درپیش رہے گا، کیونکہ حکومت کو 2019ء میں اپنے بعض حکومتی ساتھیوں کی وجہ سے میڈیا کے محاذ پر خاصی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ البتہ اس بات کا امکان ہے کہ اس نئے برس میں وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت اور، کابینہ سمیت مختلف عہدوں پر بڑی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح زیادہ بہتر نتائج نہ ملنے کی صورت میں بھی نزلہ بیوروکریسی پر گرے گا۔ وزیراعظم کو حکومتی سطح پر اپنی کارکردگی میں بہتری کے لیے خود بھی اپنی ٹیم کا احتساب کرکے درست جگہ پر درست فرد کو سامنے لانا ہوگا۔ کیونکہ بار بار بیوروکریسی میں کی جانے والی تبدیلیوں سے خود حکومت بھی مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کرسکے گی۔
خارجی یا علاقائی سطح پر ایک بڑا چیلنج امریکہ، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مفاہمت کا معاملہ ہے۔ اس برس امید ہے کہ ہمیں افغانستان کے تناظر میں کچھ اچھی خبریں سننے کو ملیں، اور ماضی کے مقابلے میں مستقبل میں امن کا عمل آگے بڑھے۔ اس صورت میں امریکہ سمیت دنیا بھر میں پاکستان کی اہمیت بڑھے گی۔ البتہ پاک بھارت تعلقات اورکشمیر کی صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں، بلکہ تنائو کی کیفیت آگے بڑھے گی۔ پاک امریکہ تعلقات اور چین کا سی پیک کا معاہدہ بھی آگے بڑھے گا۔
پاکستان کو خارجی سے زیادہ داخلی مسائل ہیں، جن پر توجہ دے کر ہم عالمی سطح پر بہتر حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں۔ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ہمیں نیشنل ایکشن پلان پر زیادہ توجہ دینی ہوگی، اور اس کو بنیاد بنا کر ہم ایک مؤثر ایجنڈا ترتیب دے سکتے ہیں۔
بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ اگر حکومت 2020ء میں اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور فوج اور حکومت کے درمیان بھی کوئی بڑے مسائل پیدا نہ ہوئے تو حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ جو لوگ وسط مدتی انتخابات کی بات کررہے ہیں یہ اسی صورت میں ممکن ہوں گے جب سیاسی محاذ پر حزبِ اختلاف کوئی بڑی عوامی تحریک چلاسکے، لیکن اس کے امکانات بہت محدود ہیں۔ اس نئے برس میں ہمیں مسلم لیگ (ن) کا کردار بھی خاصا محدود نظر آتا ہے، یہ جماعت کسی بڑی جدوجہد کے لیے تیار نہیں، اور نوازشریف یا مریم نواز کا بیانیہ بھی بہت پیچھے چلاگیا ہے، اور پیپلز پارٹی بھی پسِ پردہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے معاملات طے کررہی ہے۔ طاقت کے مراکز میں ہمیں 2019ء میں کچھ ٹکرائو نظر آیا، 2020ء میں بھی اس کی جھکیاں ملیں گی، مگر اس سے کوئی بڑی سیاسی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔ بہرحال 2019ء کے مقابلے میں 2020ء قدرے بہتر ہونے کے امکانات موجود ہیں، اور اس کا بڑا انحصار سیاسی قیادت اور طاقت کے مراکز پر ہے کہ وہ اپنے کارڈ کیسے کھیلتے ہیں۔