پاکستان میں ایک اور سال اپنی پرانی روایتوں اور مسائل کے ساتھ گزر گیا۔ ہم بحیثیتِ مجموعی سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی بحران میں مبتلا ہیں۔ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے، اور تنزلی کا یہ سفر تیزی سے طے ہورہا ہے۔ لیکن ’’نئے پاکستان‘‘ کی حکومت میں بھی بدقسمتی سے کسی بھی شعبے میں درست اور مثبت سمت کی طر ف سفر شروع نہیں ہوسکا۔ 2019ئکے آغاز میں نئی حکومت صرف 6ماہ کی تھی، اُس وقت تک حکومتی ترجیحات کے سامنے نہ آنے کی کوئی توجیح قبول کی جاسکتی تھی، لیکن اب اس حکومت کو 16ماہ ہوچکے ہیں اور صورتِ حال ’’ہنوز دلی دور است ‘‘کے مصداق برقرار ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں آنے سے قبل ان تمام حالات کا علم نہیں تھا، وہ ہر ایشو اور مسئلے پر مستقل بولتے، دعوے کرتے اورنعرے بلند کرتے رہے ہیں۔ اب وہی نعرے وزیراعظم عمران خان کے سامنے سوالات کی صورت میں موجود ہیں، لیکن لگتا ایسا ہے کہ وہ 2020ء کے آغاز میں بھی دعوے ہی کررہے ہیں اور نعرے لگارہے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں کہا تھا کہ ’’ہم ایک کروڑ نوکریاں پیدا کریں گے اور 50 لاکھ گھر بنائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کو فروغ دیا جائے گا، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو بحال کیا جائے گا اور آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دیا جائے گا۔‘‘ نوکریوں، معیشت اور سیاحت کی حالت کی زبوں حالی ہمارے سامنے ہے۔ ’’نئے پاکستان‘‘ کے حکمرانوں نے پاکستان کی 70 فیصد آبادی کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے اور عوام کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ غریب و مفلس تو ایک طرف رہے، عام آدمی اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے روزگار کے مواقع ناپید ہیں، چھوٹی اور درمیانی صنعتیں تباہ ہیں، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے اور بڑے بڑے یوٹیلٹی بلز نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان سطور کو تحریر کرتے وقت کراچی کے عوام کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی خبر بھی آگئی ہے جس سے ہر گھر پر ایک نیا مالی بوجھ پڑے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت بہانے بہانے سے عام آدمی کو تکلیف دینا چاہتی ہے۔ اسی تحریک انصاف کے منشور میں ایک دعویٰ تھا کہ تعلیم کی اصلاح کے مجموعی ایجنڈے کے تحت ملک بھر کے اسکولوں، جامعات، ووکیشنل ٹریننگ سینٹروں کو بہتر بنایا جائے گا، صحت کے شعبے میں بھی انقلاب لایا جائے گا۔ یہ سارے دعوے ہمارے سامنے موجود ہیں۔آج بھی ملک بھر کے سرکاری اسپتال ماضی کی طرح ہی ہیں۔ صحت انصاف کارڈ کا اجراء ہوا ہے لیکن صحت سے متعلق علاج معالجہ جتنا بڑا ہمارے یہاں مسئلہ ہے یہ قدم اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی کی صورتِ حال یہ ہے کہ جہاں امریکہ اور چین سے ہمارے تعلقات کس قسم کے ہوں گے اس کا فیصلہ نہیں کرسکے ہیں، وہاں ہم نے اہم مسلم ممالک سے بھی اپنی نالائقی کی وجہ سے فاصلے پیدا کرلیے ہیں اور کوالالمپورکانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت نے بھی پاکستان کی پوزیشن کو مضحکہ خیز بنایا ہے اور امتِ مسلمہ سے متعلق مستقبل کے منصوبوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، آئین کی شقوں 370 اورA 35 کو منسوخ کرکے ہندوستان کے زیرانتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا بھارتی فیصلہ حالیہ تاریخ میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ وزیراعظم اپنی ٹیم کے ساتھ بھارتی عزائم کے مقابلے میں مزاحمت کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، اور آج ہندوستان میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے اس میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ سفارتی محاذ پر اس نے کیا کیا ہے؟ یہ بھی سوال موجود ہے۔ یہ تو ہماری سیاست، معیشت، خارجہ پالیسی اور طرزِ حکمرانی کی زبوں حالی کا مختصر جائزہ ہے، لیکن معاشی وسیاسی انحطاط کے ساتھ جس بڑے معاشرتی انحطاط اور زوال کی طرف ہم تیزی سے سفر کررہے ہیں وہ سماجی اور اخلاقی بحران ہے۔ ہماری نوجوان نسل بے سمت اور تباہی کے دہانے پر ہے، ہمارے اردگرد گلی، محلوں، پارکوں اور میدانوں میں جابجا برائی کے منظم اڈے قائم ہورہے ہیں اور ان کی سرپرستی پولیس کی صورت میں ریاست کرتی ہے۔ یہ ماضی کی حکومت بھی کرتی تھی اور نئے پاکستان کی حکومت بھی کررہی ہے جس کا دعویٰ تھا کہ پولیس میں اصلاحات لائی جائیںگی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں تقریباً 76 لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ ان میں سے 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ لوگ شراب، ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کرسٹل، آئس، صمد بانڈ اور سکون بخش ادویہ سبھی کچھ استعمال کرتے ہیں۔ یہی حال رہا تو چند برسوں میں پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد دنیا کے 50 ملکوں کی آبادی سے بھی تجاوز کرجائے گی۔ یہ مسئلہ معیشت اور سیاست کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ماہرین بتاتے ہیں کہ ’’نوجوانوں میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے، جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں، اور اس کا علاج نشے سے کرتے ہیں۔‘‘ جہاں ریاست کی بڑی ذمہ داری ہے، وہیں ہر فرد اور گھر کے بھی کچھ فرائض اور ترجیحات ہیں۔ اگر ہماری اعلیٰ اقدار ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاشرہ صرف زرپرستی کا معاشرہ ہے، اور یہ اُسی کی قدر کرتا ہے جس کے پاس دولت ہو۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ترجیح ہی پیسہ ہے، اور دنیا پیسے سے ملتی ہے یہی ہماری نسل نے سنا ہے۔ اگر پیسہ کمانا زندگی کا واحد مقصد رہ جائے تو معاشرے کا یہی حال ہوتا ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے علمائے کرام، دانشور، اساتذہ اور سیاسی رہنما کبھی بھی اس تناظر میں سوچتے ہی نہیں، یا سوچنا نہیںچاہتے کہ قوم کس قدر زوال کا شکار ہوچکی ہے، معاشرہ کس قسم کی بدحالی کی بھیانک تصویر پیش کررہا ہے۔ احساس مر چکا ہے، تہذیب و تمدن کی تمام روایات کہیں گم ہوگئی ہیں۔ آخر اس زوال کو کون روکے گا؟ 2020ء کا استقبال کرتے ہوئے یہ کلیدی سوال ہے۔
( اے اے سید)