۔’’پراسراریت‘‘ کی ترکیب اردو میں داخل کردی گئی ہے لیکن مہمل ہے، یہ اور بات کہ مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ اس کی جگہ ’’سرّیت‘‘ہونا چاہیے، لیکن شاید یہ پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بھی مشکل ہوگیا ہے، چنانچہ ’’پراسراریت‘‘ سے کام چلایا جارہا ہے۔ اگر یہ ترکیب صحیح ہے تو دوسرے الفاظ میں بھی استعمال ہونی چاہیے۔ مثلاً ’’پرمغزیت، پرپیچیت، پرآبیت، پرشکمیت‘‘ وغیرہ۔ پُر فارسی کا لفظ اور خالی کا مقابل ہے۔ مطلب ہے: بہت، لبریز، کامل وغیرہ۔ مثلاً پرآشوب، پُرآرزو۔ ’پُر‘ ہندی میں بھی ہے لیکن اس کا مطلب ہے چمڑے کا بڑا ڈول جس سے آبپاشی کرتے ہیں، کنویں سے پانی نکالتے ہیں۔ ’اسرار‘ (بالفتح) سِر کی جمع ہے یعنی بھید، راز۔ اِسرار بالکسر کا مطلب عربی میں ’پنہاں کرنا‘ ہے۔ اِسرار کا ایک مطلب آسیب، جن یا پری کا سایہ بھی ہے۔ شوق قدوائی کا شعر ہے
کوئی کہتا تھا ہے کوئی آزار
کوئی بولا نظر کا ہے اسرار
اَسرار جمع ہے اوراس کا واحد سِرّ (بالکسر) ہے، یعنی بھید، راز۔ اشکؔ کا شعر ہے
گر پڑا میں جا کے کوئے یار پر
سِر کسے سمجھائوں اس افتاد کا
کوئے یار نہ ہوا، مسہری، پلنگ یا مٹی کا تودہ ہوگیا جس پر شاعر صاحب جاگرے۔ کیا یہاں ’’کوئے یار‘‘ نہیں ہونا چاہیے تھا؟ خیر، یہ شاعری کی رمزیت یا سرّیت ہے، ہمیں کیا! لیکن شعر قابلِ رشک نہیں۔ اگر کوئے یار کی چھت پر جا گرتے تو بھی بات بن جاتی۔ عربی میں سِر پر تشدید ہے لیکن اردو والا بغیر تشدید کے مستعمل ہے۔ البتہ ذوقؔ نے اپنے شعر میں تشدید کے ساتھ باندھا ہے۔ کہتے ہیں
معلوم نہیں اس کے دہن ہے کہ نہیں ہے
اے ذوق ہم اس سّر خفی کو نہیں پاتے
معلوم نہیں ہوسکا کہ استاد شیخ ابراہیم ذوق ’دہن‘ کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے یا نہیں۔ ذوق تو دہن تلاش کرتے رہ گئے، ایک اور شاعر اس سے بھی آگے بڑھ گئے۔ کہتے ہیں ’’سنا ہے کہ ان کے کمر ہی نہیں ہے‘‘۔ اس قسم کی افواہیں شاید ہر دور میں اڑتی رہی ہیں کہ جس چیز کا وجود ہی نہ ہو اسے حاضر سمجھا جائے، اور جو ہے اسے معدوم قرار دیا جائے۔ یہ کام شاعری ہی میں نہیں نثر میں بھی ہورہا ہے۔ ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک پاکستانی افغانستان گئے تو اُن کا تعارف وزیر بحری امور سے کرایا گیا۔ انہوں نے حیران ہوکر کہا ’’لیکن افغانستان میں سمندر کہاں ہے؟‘‘ جواب ملا: ’’آپ کے ہاں بھی تو وزارتِ انصاف ہے‘‘۔
گزشتہ شمارے میں ’’قائداعظم کی یوم ولادت‘‘ پر توجہ دلائی تھی۔ ایسا ہی ایک لطیفہ پیر 30 دسمبر کے جسارت میں ہوا ہے۔ ایک بابے جو عرصے سے کالم لکھ رہے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، انہوں نے بھی اپنے کالم میں یہی غلطی دہرائی ہے۔ لکھتے ہیں ’’یہ حسنِ عقیدت اختتام کو پہنچی‘‘۔ اب چونکہ ’عقیدت‘ بھی ولادت کی طرح مونث ہے چنانچہ ’حسن‘ بھی مونث ہوگیا۔ اختتام کو پہنچنے کا تعلق عقیدت سے نہیں حسن سے ہے جو مذکرہے۔ ہم نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا تھا کہ اس قسم کی تراکیب کو الٹ کر دیکھ لیا جائے، بات واضح ہوجائے گی، مثلاً حسنِ عقیدت کی ترکیب الٹ کر دیکھیں تو ’’عقیدت کا حسن‘‘ ہاتھ میں آئے گا اور ترکیب درست ہوجائے گی۔ ایک اور مثال دیکھیں ’’رفعتِ خیال‘‘۔ حسنِ عقیدت کو مونث بنانے والے ممکن ہے اسے مذکر لکھ دیں، کیونکہ خیال مذکر ہے۔ اس کو الٹ کر دیکھیں یعنی ’’خیال کی رفعت‘‘ تو واضح ہوجائے گا کہ یہاں خیال کا تعلق رفعت سے ہے، اور رفعت مونث ہے۔ یہ بالکل معمولی معمولی باتیں ہیں جن پر لکھنے والوں کو ضرور توجہ دینی چاہیے۔
’’ذمہ واری‘‘ بری طرح پیچھے پڑ گئی ہے۔ اس وقت بھی (پیر 30 دسمبر) ایک رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف ’’بڑی ذمہ واری‘‘ سے ایک ٹی وی چینل پر خطاب فرما رہے ہیں۔ ’ذمہ داری‘ کو ’’ذمہ واری‘‘ کہنے سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا، لیکن نئی نسل کی زبان مزید خراب ہورہی ہے۔ ہمارے نونہال اسی طرح بولنے لگے ہیں جس طرح یہ برقی دانشور بولتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے ٹی وی چینل پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے اپنی اردو درست کرلی ہے اور اب میں ذمے واری نہیں، ذمے داری کہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ پندرہ بیس سال بعد کچھ اور لوگ بھی اپنی تصحیح کرلیں۔ ممکن ہے عدالت کو معزَز (تیسرے حرف پر زبر) کہنے والی بھی اسے معزِز کہنے لگیں۔
’سوا‘ اور ’علاوہ‘ کے بارے میں ہم بھی کئی بار لکھ چکے ہیں لیکن ماہرِ لسانیات پروفیسر غاری علم الدین نے استادانہ انداز میں اس کی وضاحت اور صراحت کی ہے۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے ’’علاوہ کی ذومعنویت اور ابہام و اہمال‘‘۔ پورا مضمون اس قابل ہے کہ اسے شائع کردیا جائے لیکن ہم تو عنوان میں ہی گم ہوگئے۔ ذومعنویت اور ابہام تو سمجھ میں آگیا، لیکن یہ اِہمال کیا ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔ ویسے تو اس قافیے میں ایک لفظ ’ایہام‘ بھی ہے۔ کسی صاحب کے سامنے اپنی قابلیت جھاڑی تو بولے: یہ ایہام نہیں ابہام ہوتا ہے۔ اِبہام کا مطلب ہے کھول کر بیان نہ کرنا، مبہم بات کرنا۔ عربی کا لفظ ہے اور اس کا ایک مطلب انگوٹھا بھی ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں کو ابہام دکھا دیا۔ شاعری میں ابہام ایک صنعت کا نام ہے۔ ایک شعر ہے
کھلے گا نہ مضمون وصف دہن کا
جو نکلے گی بات اس میں ابہام ہو گا
(ایک بار پھر دہن سامنے آگیا)۔ ایہام بھی عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے وہم میں ڈالنا۔ اصطلاحِ شاعری میں اس صفت کو کہتے ہیں کہ شاعر شعر میں ایک ایسا لفظ لائے جس کے دو معانی ہوں، ایک معنی مراد ہوں اور دوسرے معنی مراد نہ ہوں لیکن مقدم اور موخر الفاظ سے اس کو مناسبت ہو، مثلاً یہ مصرع ’’ایسا گنہ کیا ہے کہ کچھ جس کی حد نہیں‘‘۔ اس میں حد کا لفظ ذومعنی ہے۔ یعنی انتہا اور گناہ کی سزا (حد جاری کرنا)۔ لیکن یہ اِہمال کیا ہے؟ لغت میں ایک لفظ ہُمال (بضم اول) ہے جو فارسی کا ہے۔ اسے بفتح اول بھی کہا جاتا ہے۔ مطلب ہے مثل، مانند، شبیہ و نظیر۔ ممکن ہے اسی سے اہمال ہو۔ فارسی میں ایک لفظ ہَم (بالفتح) ہے۔ اس کا مطلب ہے نیز، بھی، بلکہ، ماسوا، اس کے علاوہ، کسی کام میں شرکت ظاہر کرنے کے لیے، آپس میں، باہم دگر، ہم آغوش، ہم کنار، ہم دوش، ہم آواز، ہم کنار، ہم آہنگ وغیرہ۔ اردو میں ہم ’میں‘ کے بجائے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ’’ہم آگئے تو جوشش گفتار دیکھنا‘‘ یا
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یوپی، دہلی سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اپنے بارے میں مَیں کا صیغہ استعمال کرنے کے بجائے ’ہم‘ کہتے ہیں۔
تو ایسا لگتا ہے کہ اہمال کا مطلب مثل، مانند و نظیر کے ہے۔ پروفیسر غازی علم الدین لکھتے ہیں کہ ’’اردو زبان کے استعمال میں بعض ابہام تواتر سے سرزد ہورہے ہیں جنہیں عام طور پر غلط نہیں سمجھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ابہام اہلِ زبان کی تقریروں اور تحریروں میں بھی راہ پا چکے ہیں۔ ’علاوہ‘ کے استعمال میں، ایک عام رائج ابہام بعض سکہ بند اہلِ زبان سے بھی سرزد ہوتا رہتا ہے۔ ایک اردو ٹی وی چینل پر ایک معروف عالم اور مبلغ نے ایک نومسلم کو کلمۂ طیبہ اور اس کا ترجمہ پڑھایا ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، حضرت محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ یہاں ’علاوہ‘ کے بجائے ’سوا‘ کا محل تھا۔ علاوہ کو ذومعنی، مہمل اور مبہم بنا دیے جانے کی وجہ سے اسے کلمہ طیبہ کے ترجمے میں استثنا کے طور پر لانا نامناسب ہے‘‘۔
غازی علم الدین نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ اپنے ایک مضمون میں راقم نے ’علاوہ‘ پربحث کی تو ایک فاضل لسان شناس نے احتجاجی لہجے میں شدید احتجاج کیا اور فرمایا: اردو، عربی کی غلام یا فارسی کی کنیز نہیں ہے، علاوہ کو ہم جیسے چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ صاحب اہلِ زبان یا اُن علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اردو نے جنم لیا، ان میں بریلی کا علاقہ بھی ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو ہرگز بھی اہلِ زبان نہیں کہا جا سکتا جو کسی غیر اہلِ زبان کی اصلاح قبول کرنے کے بجائے غلط بات پر اڑا رہے۔