فریحہ عامر
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی خوبصورت اور خوشبو اور منفرد ذائقے سے بھرپور کینو اور نارنجیاں جابجا دکھائی دینے لگتے ہیں۔ قدرت کے اس خاص تحفے میں صحت اور جسم کے لیے بہت قیمتی خزانے پوشیدہ ہیں۔ زرعی اجناس میں کینو پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی پھل ہے، اور ہمارا ملک کینو پیدا کرنے والا دنیا کا 12 واں بڑا ملک ہے۔ روس پاکستانی کینو کی ایک بڑی درآمدی منڈی ہے اور پاکستان روس کو سالانہ 5 ہزار کنٹینر یعنی 0.13 ملین ٹن کینو برآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ پچھلے برس پاکستان میں 4 لاکھ ٹن کینوؤں کی پیداوار ہوئی۔ محکمہ زراعت سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سرگودھا سے سالانہ ساڑھے تین ارب روپے سے زائد مالیت کا 210 ملین ٹن کینو ملائشیا، انڈونیشیا، ایران، افغانستان، روس برآمد کیا جاتا ہے۔ کینو کی مجموعی ملکی پیداوار کا 60 فیصد سرگودھا کے باغات سے حاصل ہوتا ہے، جس کی پروسیسنگ کے لیے وہاں 350 سے زائد فیکٹریاں موجود ہیں، اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق کینو میں وافر مقدار میں قدرتی طور پر وٹامن سی ملتا ہے، کینو میں اسٹرک ایسڈ، وٹامن سی،کیلشیم، میگنیشیم، فولاد، پوٹاشیم، فاسفورس، جست اور تانبا وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں، جو اس پھل کو فائدے مند بناتے اور انسانی صحت کو بے شمار فوائد فراہم کرتے ہیں۔ یہ سیب کی طرح بھرپور افادیت والا پھل ہے۔ آئیے مزید مندرج عنوانات کے تحت اس پھل میں پائی جانے والی افادیت کو دیکھتے ہیں۔ قدرت نے اس چند مہینے کے پھل میں ہمارے لیے کیا کیا رکھا ہوا ہے۔
فالج، امراضِ قلب، بلڈ پریشر سے بچائو
کینو میں موجود وٹامن سی جسم کی شریانوں کو سخت نہیں ہونے دیتا، اور یوں امراضِ قلب سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے رس میں پھل کے تمام اہم کیمیکلز اور فلے وینوئیڈز پائے جاتے ہیں، جس سے خون کے لوتھڑے بننے کی شرح کم ہوتی ہے، خون کی شریانیں بہتر ہونے سے خون کا بہائو ہموار رہتا ہے اور بلڈ پریشر کا مرض پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ میں کیے گئے ایک سروے سے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ماہ تک ایک گلاس اورنج جوس پینے سے بلڈ پریشر کو کئی یونٹ تک کم کرکے اسے کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ برٹش جرنل آف نیوٹریشن میں شائع رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر ہفتے میں 8 مرتبہ کینوکا رس پیا جائے تو فالج کا خطرہ 25 فیصد تک کم ہوجاتا ہے، جبکہ ایک دن چھوڑ کر ایک دن یہ رس پینے سے فالج کا خطرہ 20 فیصد تک ٹل جاتا ہے۔
بالوں کے لیے مفید، جھریوں کا خاتمہ
کینو میں وافر مقدار میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ ہوتا ہے جو جلد پر پڑنے والی جھریوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ اس میں پایا جانے والا ایک جزو اسپیرمیڈائن کے نام سے جانا جاتا ہے، عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جو منفی اثرات ہماری جلد پر رونما ہوتے ہیں یہ جزو ان اثرات کو سست کرنے کے لیے مدافعتی نظام تشکیل دیتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کینو میں وافر مقدار میں قدرتی طور پر وٹامن سی ملتا ہے جس سے نہ صرف انسان کا دفاعی نظام مضبوط ہوتا ہے بلکہ جسم میں پروٹین کولیگن کی مقدار بھی مستحکم رکھنے میں مدد ملتی ہے، جو جلد کے ساتھ بالوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ اس میں موجود وٹامن اے سے بالوں کی نمی برقرار رہنے میں مدد ملتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سرد موسم میں کینو کا سیرم پورے بالوں میں لگایا جائے تو بال نرم و ملائم اور چمک دار ہوجائیں گے۔
دانتوں کو سفید کرنے میں معاون
کینو کے چھلکوں کا پائوڈر دانتوں کے لیے بھی خاصا مفید ہے۔ اگر اس کا پیسٹ بناکر دانتوں پر رگڑا جائے تو اس سے دانت سفید ہوجاتے ہیں۔
کینسر سے حفاظت
نارنجیوں اور کینو کے استعمال سے کئی طرح کے کینسر کے خطرے سے بچا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کینو میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس خلیات اور ڈی این اے کو ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھتے ہیں جو کینسر کی وجہ بنتے ہیں۔ کئی مطالعوں سے کینو کو آنتوں کے سرطان میں بھی مفید پایا گیا ہے۔
جسمانی دفاعی نظام کو مضبوط بنائے
کینو میں موجود وٹامن (سی) مدافعتی نظام کو مضبوط بنا کر اس نظام کی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے۔ امراض سے لڑنے والا یہ شاندار ’’امنیاتی نظام‘‘ (امیون سسٹم) ہمارے لیے بہت اہم ہے، اور وٹامن سی اس نظام کو مزید طاقتور کردیتا ہے۔ وٹامن سی کو ’’ایسکاربک ایسڈ‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو بدن میں اینٹی آکسیڈنٹ کا کام کرتا ہے اور جسم کو نقصان پہنچانے والے فری ریڈیکلز کو بننے نہیں دیتا۔ یہ تیزاب کولاجن کا اہم جزو بھی ہے اور انسانی جسم میں نئی بافتوں کی پیداوار میں بھی مددگار ہوتا ہے۔
معدے کو مضبوط بنائے، تیزابیت کم کرے
کینو فائبر کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ فائبر معدے کی صحت کے لیے بہت ضروری جزو ہے جو کہ قبض، بدہضمی اور دیگر مسائل کی روک تھام کرتا ہے۔کینو کا رس بھوک بڑھاتا ہے اور معدے کی تیزابیت کوکم کرتا ہے۔ اس کا رس معدے کی تیزابیت کی وجہ سے آنے والی کھٹی ڈکاروں کوختم کردیتا ہے۔
کولیسٹرول کی سطح میں کمی کرے
ایک طبی تحقیق کے مطابق سرخ کینو کا ایک ماہ تک روزانہ استعمال کولیسٹرول کی سطح میں 15 فیصد تک کمی کرتا ہے۔ تاہم کینو کے ساتھ مخصوص ادویہ بشمول امراضِ قلب کی ادویہ کا استعمال خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اسے اپنی غذا کا حصہ بنانے سے پہلے معالج سے ضرور مشورہ کریں۔
آنکھوں کے لیے مفید
کیونکہ کینو میں پوٹاشیم، وٹامن اے اور سی ہوتا ہے، اور یہ آنکھوں کے لیے فائدے مند ہے۔ کہتے ہیں اگر نظر کی حفاظت کرنی ہے تو روزانہ ایک کینو کھانے کی عادت ڈال لیں۔
کینسر سے حفاظت
کینو میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس خلیات اور ڈی این اے کو ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھتے ہیں جو کینسر کی وجہ بنتے ہیں۔ کئی مطالعوں سے کینو کو آنتوں کے سرطان میں بھی مفید پایا گیا ہے۔
بدن سے زہریلے مادوں کا اخراج
اگر آپ روزانہ ایک گلاس کینوکا جوس پیتے ہیں تو یہ بدن میں صفائی کا کام کرتے ہوئے تمام زہریلے اور فاسد مواد کو ختم کرتا ہے۔ اس عمل کو ڈی ٹاکسی فکیشن کہا جاتا ہے۔
اسی طرح کینو کے چھلکوں کے بھی بے شمار فوائد ہیں۔ یہ نہ صرف جلد کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں بلکہ اگر ان کا پائوڈر بناکر رکھ لیا جائے تو اس سے سال بھر دیگر بہت سے فوائد بھی ہیں۔
کینو کے چھلکے کے فوائد
کینو کے چھلکوں کا پائوڈر چکنی جلد کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔ اگر آپ کے چہرے پر داغ دھبے ہیں، یا پھر آپ کی جلد چکنی ہے تو چھلکوں کے پائوڈر کو انڈے کی سفیدی اور لیموں کے قطرے کے ساتھ ملاکر لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے چھلکے چہرے پر سے کیل ختم کرنے میں بھی انتہائی مفید ہیں۔ اگر چہرے پر کینو کی چھال سے بنا ماسک لگائیں اور پندرہ منٹ بعد اس کو نیم گرم پانی سے دھو لیں، تو اس سے کیل ختم ہوجاتے ہیں۔
کینو کے چھلکوں کا پائوڈر اگر دودھ میں برابر مقدار میں ملاکر اس کا پیسٹ لگایا جائے تو اس پیسٹ کا ماسک چہرے کے لیے فائدہ مند ہے۔
آئیے پاکستان میں اس نعمت کو اپنی صحت کے لیے استعمال کریں۔ کینو کی نعمت دنیا میں بہت کم ممالک کو ملی ہے، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ تازہ اورنج جوس کا کوئی متبادل نہیں۔ ڈبے، ٹین اور پائوڈر والے جوس کی پروسیسنگ کے دوران اس کے مفید اور قیمتی اجزا ختم ہوجاتے ہیں، اس لیے ان سے گریز کرنا چاہیے ۔کینو کی بڑی مانگ ہے اور اس کی برآمد میں بھی کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ماہرین کا خیال ہے کہ کینو کی نئی اقسام پر کام کرنا ناگزیر ہے، جس سے کینو کا برآمدی سیزن چار سے بڑھا کر آٹھ مہینے تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ نئی اقسام پر کام نہ کیا گیا تو آنے والے برسوں میں کینو کی طلب مزید کم ہوگی۔