صوبے کا سیاسی ماحول خراب کرنے کی کوشش
بلوچستان کے اندر عامۃ الناس کی اصطلاح میں سرکاری پارٹی یعنی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حکومت ہے۔ وہ سارے پُرزے اس جماعت میں شامل ہیں جو پس پردہ اشارے پر صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے منحرف ہوگئے۔ بلوچستان میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے اشتراک سے بنی اس حکومت کے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری تھے۔ ان پُرزوں نے بغاوت کرکے ان سے حکومت لے لی۔ چناں چہ اب ان میں سے چند اپنی جماعت کے وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کے خلاف بھی منفی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گویا حزبِ اختلاف کے بجائے جام کے لیے مشکلات اپنی صفوں سے ہی پیدا کی جارہی ہیں۔ اس اندرونی رسّا کشی اور ضربِ کاری سے حکومت کی توجہ یقیناً فرائض سے ہٹ کر اس تخریب کاری پر مرکوز رہتی ہوگی، جس سے لامحالہ صوبے اور عوام کے مفاد پر زد پڑ رہی ہے ۔ بلوچستان عوامی پارٹی فی الواقع ایک نظریاتی عوامی جماعت ہوتی تو اندرون کی ان وارداتوں کا تدارک پارٹی آئین و روایات سے کردیا جاتا۔ جام کمال فیصلوں اور اقدامات میں پوری طرح مختار ہوتے تو شاید وہ تخریب کا باب کب کا بند کرچکے ہوتے۔کابینہ اور پارٹی فورم کے بجائے معاملات کہیں اور زیربحث نہ لائے جاتے۔ گویا اس جماعت کو ہانکنے والے کئی ہیں۔ اس بنا پر جام کمال خان کی مجبوریاں بھی سمجھ سے باہر نہیں ہیں۔ دھونس اور دبائو کے یہ حربے اوّل روز سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس نزاع کی بنیاد حقیقی اور اصولی کے بجائے گروہی اور شخصی مفاد پر ہے۔ انہدام و سبوتاژ کی سیاست اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی کی جانب سے ہورہی ہے۔ انہیں شاید سرفراز ڈومکی کی بھی حمایت حاصل ہے، جو بوجوہ جام کمال سے اختلاف کی بنا پر اگست 2019ء میں وزارت سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے نصیب اللہ مری بھی یقیناً ان کے حامی ہوں گے، جن سے پہلے وزارتِ صحت کا قلمدان لیا گیا، اور اس کے ایک ہفتے بعد 18دسمبر 2019ء کو کابینہ سے بھی برطرف کردیا گیا۔ دراصل عبدالقدوس بزنجو کو وزارتِ اعلیٰ کا چسکا لگ چکا ہے۔ اس لذت کے اسیر سردار اسلم بھوتانی اور جان جمالی بھی ہیں۔ قدوس بزنجو قاف لیگ میں تھے، وہ نواب زہری کے خلاف کھیل میں آگے آگے تھے۔ تحریک عدم اعتماد کا منصوبہ تیار کرلیا گیا۔ نواب زہری نے دبائو کے تحت 9 جنوری 2018ء کو اپنا منصب چھوڑ دیا، جس کے بعد یہ شخص چھے ماہ کے لیے بلوچستان کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ جام کمال خان اور بھوتانی خاندان ضلع لسبیلہ میں سیاسی حریف ہیں۔ ’’باپ‘‘بنانے والے طاقتور ہیں کہ جنہوں نے ان حریفوں کو ایک چھتری کے نیچے اکٹھا کررکھا ہے۔ چناں چہ وقتاً فوقتاً ذرائع ابلاغ پر حکومتی جماعت میں اختلاف کا شور اٹھایا جاتا ہے۔ اخبارات میں مختلف النوع ملاقاتوں و دعوتوں کی تصاویر چھپوائی جاتی ہیں۔ دانستہ صوبے کا سیاسی ماحول ابتر پیش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو علیل ہوئے اور 22 دسمبر کو کوئٹہ سول اسپتال کے وی آئی پی روم میں داخل ہوئے۔ یعنی اس لمحے کو بھی انہوں نے یہ کہہ کر جام کے خلاف استعمال کیا کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت بہت بری ہے۔ حالاں کہ سرکاری اسپتالوں کی یہ حالت آج سے نہیں ہے، اور نہ ایسا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو اس کی خبر نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کراچی یا کسی دوسرے بڑے شہر میں بھی علاج کرا سکتے تھے، یہاں داخل ہونے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اسپتال کے مسائل اُجاگر ہوں۔ بہتر ہوتا کہ عبدالقدوس بزنجو اپنے آبائی ضلع آواران جو کہ ان کا حلقۂ انتخاب بھی ہے، کے ضلعی سرکاری اسپتال سے علاج کراتے اور وہاں کی حالت، ضروریات و مسائل طشت ازبام کرتے۔ ان کے والد عبدالمجید بزنجو بھی یہیں سے منتخب و اہم حکومتی عہدوں پر رہے ہیں اور 2002ء سے (ماسوائے 2008ء کے) عبدالقدوس بزنجوکامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے، صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہے، اور اس وقت بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ پیش ازیں بھی اہم عہدوں پر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی جیسے آفت آگئی ہو، سرکاری اسپتالوں کی مشینری، آلات اور عمارتوں کی مرمت کی مد میں 2کروڑ 8 لاکھ روپے کے اضافی فنڈز کا اجراء اور ساتھ ایم ایس اور سیکریٹری صحت کو نوٹس جیسے نمائشی اقدامات کی ٹھان لی۔ حالاں کہ سرکاری مشینری اسی ڈگر پر چلتی رہتی ہے۔ اس سرکاری مشینری کو دراصل شفافیت کے ساتھ، بغیر نقص و رکاوٹ کے چلنا چاہیے۔ چناں چہ 26دسمبر کو عبدالقدوس بزنجو نے ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں قلابازی کھاتے ہوئے جام کمال کی تعریف کے ساتھ ان پر وار کی کوشش بھی کی۔ کہتے ہیں کہ جام کمال برے شخص نہیں، لیکن وہ اچھے وزیراعلیٰ ثابت نہ ہوسکے، لوگ بلوچستان عوامی پارٹی کو عوام کی نمائندہ جماعت نہیں سمجھ رہے ہیں، پارٹی کو صرف ایک شخص کی وجہ سے خراب نہیں ہونے دیں گے۔ پھر کہتے ہیں کہ جام کمال کے پاس وژن ہے لیکن وہ کاموں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہے، نہ چیزوں کو بہتر کرسکے ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم نے اللہ کو جواب دینا ہے۔ اگلے روز’’باپ‘‘کے صوبائی وزراء ظہور بلیدی (وزیر خزانہ)، سردار عبدالرحمان کھیتران (وزیر خوراک)، سلیم کھوسہ (وزیر ریونیو) اور ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے نیوز کانفرنس میں اس کا ایک پھسپھسا سا جواب دیا۔ البتہ ان ورزاء نے اتنا ضرور کہا کہ اسپیکر، اسمبلی کے 147 سیشنز میں سے صرف 17 میں ہی شریک ہوئے، لہٰذا انہیں صوبائی اسمبلی کی کارکردگی بہتر بنانی چاہیے۔ اصل میں ان افراد نے بلوچستان کو تماشا بنا رکھا ہے۔ وہ صوبے اور اس کی ایک کروڑ بائیس لاکھ کی آبادی کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ صوبے کے عوام حرص، مفادات اور کھینچا تانی کی سیاست کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کے عوام کی نمائندہ جماعت ہرگز نہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ صوبے کے معزز ایوان کی توہین و تضحیک اور یہاں کی روایات و اقدار کا تماشا مزید نہ بنایا جائے۔ اس گندی سیاست کو رو کنے کی ذمے داری حکومت کی اتحادی جماعتوں اور حزبِ اختلاف پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اور سچ یہ بھی ہے کہ جام کمال کردار، صلاحیتوں، انتظامی، علمی بلکہ ہر لحاظ سے ان خلل ڈالنے والوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔